نیرنگ خیال
لائبریرین
بچپن سے پنجابی کا ایک لطیفہ سنتا آرہا ہوں۔ اس سے پہلے بات شروع کروں۔ ضروری ہے کہ احباب بھی اس لطیفے سے آشنا ہوجائیں۔
ایک آدمی تھا۔ اس کو بہت لمبی لمبی گپیں ہانکنے کا شوق تھا۔ وہ جب بھی کوئی قصہ سناتا تو ایسا کہ ذی شعور تو ایک طرف ناداں بھی اس پر یقین نہ کرے۔ ایک دن اس کے ایک خیرخواہ نے سمجھایا کہ یار تم ہاتھ ہلکا رکھا کرو۔ اتنی بڑی گپیں مارتے ہو۔ لوگ ہنستے ہیں۔ تمہارا مذاق بناتے ہیں۔ اس آدمی نے کہا۔ بات تمہاری ٹھیک ہے۔ اگلی بار جب میں کوئی کہانی یا قصہ شروع کروں۔ اور تمہیں لگے کہ یہ بات گپ ہے۔ تو ذرا سا کھانس لینا۔ وہ متفق ہوگیا۔
اب کسی دن یونہی دوستوں کی مجلس میں بیٹھے ایک واقعہ سنانا شروع کیا کہ میں ایک بار جنگل میں جا رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت بڑا سانپ ہے۔ مجھے لگا کہ سانپ کوئی 140 فٹ لمبا ہے۔ اس پر اس کے خیر خواہ نے ذرا سا کھانسا۔ وہ آدمی بڑا جزبز ہوا۔ مگر اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کہ میرے ذہن میں آیا اتنا بڑا سانپ تو ہوتا ہی نہیں ہے۔ قریب جا کر دیکھنا چاہیے۔ سو میں قریب پہنچ کر غور کیا تو اندازہ لگایا کہ کوئی 110 فٹ کے لگ بھگ ہوگا۔ اس پر دوست دوبارہ کھانسا۔
آدمی نے خشمگیں نگاہوں سے اس کو دیکھا اور قصہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 110 فٹ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس کو مار کر ہی اصل لمبائی کا پتا چل سکتا ہے۔ سو میں نے جب سانپ مارا اور مرے کا بغور جائزہ لیا تو خیال آیا کہ 90فٹ تو کہیں نہیں گئے۔ اس پر دوست دوبارہ زور سے کھانسا۔
آدمی نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا کہ بھئی دوستو! بات پرکھنے کو ضروری تھا کہ میں اس کی لمبائی ناپتا۔ مرا سانپ سامنے تھا۔ سو میں نے اپنے اندازے کی سچائی پرکھنے کو جب اس کو ناپا تو وہ 70 فٹ نکلا۔ اس پر خیرخواہ دوست زور سے کھانسا۔ تو وہ قصہ گو پلٹ کر کہنے لگا۔
"ہن کوئی فیدہ نئیں۔۔۔ ہن تے ناپیا گیا اے" (اب کوئی فائدہ نہیں۔ اب تو ناپا گیا ہے۔)
اس سمٹے فاصلوں کے دور میں میری سماعتیں جس صدا سے زیادہ آشنا ہیں۔ وہ یہی بازگشت ہے۔ "ہن تے ناپیا گیا اے۔ہن تے ناپیا گیا اے"۔
عہد حاضر کی ایجادات سے انسان جتنا زیادہ فیض یاب ہوا ہے اس کا نقصان بھی اتنا ہی اٹھایا گیا ہے۔ پرانے زمانے میں ایسے کردار خال خال ہوا کرتے تھے۔ لیکن سوشل میڈیا اور ترقی کے اس دور میں ہر صدا "ہن تے نپیا گیا اے" کی بازگشت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ادھورے علم، ادھورے سچ، ادھورے مشاہدے اور ادھورے بیانیوں نے ہم سے برداشت صبر اور تحمل چھین لیا ہے۔ ہم سب چوہدری ہیں۔ ہمارا حرف حرفِ آخر ہے۔ ہم جو بات کرتے ہیں۔ وہ اٹل ہے۔ اس کے آگے اب بہتری کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اب وہ لوح پر محفوظ ہوگئی ہے۔ اگر کوئی اس لوح میں ردوبدل کی کوشش کرتا ہے تو وہ احمق ہے۔ بیوقوف ہے۔ نکتہ چین ہے۔ جاہل ہے۔ ایک آنکھ کا انسان ہے۔ جس کو نظر ہی نہیں آتا۔ وہ بہرا ہے کیوں کہ وہ اس "ہن تے ناپیا گیا اے" کی صدا پر کان نہیں دھر رہا۔ اور جب اس کے اعصاب شل ہوجائیں گے۔ وہ پکار پکار کر تھک جائے گا۔ تو پھر پہلے سے آنے والی بازگشتوں میں ایک اور بازگشت کا اضافہ ہوجائے گا۔ یوں وہ بھی مکمل ہوجائے گا۔
ہمارا دوسرا مسئلہ ہر بار "ہن تے ناپیا گیا اے" کی صدا لگانے کے ساتھ اس میں کچھ اضافہ کرنے کا ہے۔ اس پر مجھے ایک اور لطیفہ یاد آگیا کہ "بات بڑھتی کیسے ہے"
محلے میں ایک صاحب کے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس پر تعزیت کے لیے احباب کا مجمع لگا ہے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعدکسی نے پوچھا۔
جی کیا ہوا؟ کیسے فوت ہوئے؟
بتانے والا۔ بس جی کیا بتائیں۔ اچھے بھلے دکان پر بیٹھے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یار طبیعت بگڑ رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو "پندرہ روپے " دیے اور کہا کہ بھاگ کر جوس لاؤ۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے چل بسے۔
کچھ اور لوگ آتے ہیں۔ فاتحہ کے بعد ایک پوچھتا ہے۔
جی کیا ہوا تھا؟ کیسے ایکا ایکی چل بسے؟
بتانے والا۔ بس جی کیا بتائیں۔ اچھے بھلے دکان پر بیٹھے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یار طبیعت بگڑ رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو" تیس روپے" دیے اور کہا کہ بھاگ کر جوس لاؤ۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے چل بسے۔
پھر کچھ لوگوں کی آمد اور وہی واقعہ۔ وہی روپے میں اضافہ۔ باقی ساری بات وہی۔ جب دوپہر کے قریب کچھ لوگ تعزیت کے لیے آئے۔ فاتحہ کے بعد ان میں سے پھر ایک بولا۔
اپنی تو سمجھ سے باہر ہے۔ ابھی کل صبح تو میری ملاقات ہوئی تھی۔ کہہ رہے تھے۔ حاجی اب ملاقات نہ ہوگی۔ میں سمجھا مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے بندوں کو تو پتا ہی ہوتا ہے۔ معاملہ کیا ہوا؟
بتانے والا۔ بس جی کیا بتاؤں! دکان پر بیٹھے تھے۔ طبیعت پر گرانی تھی مگر اتنی بھی نہیں۔ یکا یک کہنے لگے کہ یار طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو "تین سو روپے" دیے اور کہا بھاگ کر سامنے سے تازہ اناروں کو گلاس نکلوا کر لا۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے ہی بس۔۔۔۔ تمام لوگوں پر سوگ طاری۔
اس لطیفے سے مجھے ایک سچا واقعہ بھی یاد آگیا۔ ذرا وہ بھی سنتے جائیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور ایک دفتر میں ملازم تھا۔ میرا دفتر ایف آئی اے کی بلڈنگ کے بہت پاس تو نہ تھا۔ لیکن بہرحال اس کے قریب ضرور تھا۔ ایک دن صبح کو جب میں دفتر پہنچا تو تھوڑی دیر بعد بہت زور دار دھماکے کی آواز آئی اور ہماری پوری عمارت لرز کر رہ گئی۔ کچھ شیشے بھی ٹوٹے تھے یا نہیں۔ یہ مجھے یاد نہیں۔ خیر اس دھماکے نے ایف آئی اے کی بلڈنگ زمین بوس کر دی۔ اور گردونواح کی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ جانی نقصان تو خیر ہوا ہی ہوا۔ لیکن اس کے دو دن بعد میں معمول کے مطابق بس سٹاپ سے روٹ کی ویگن میں سوار ہوا۔ مجھے مزنگ تک جانا تھا۔ اور مزنگ سے میں دوسری بس پکڑ کر دفتر جایا کرتا تھا۔ کہ ویگن کے مسافروں کے درمیان اسی دھماکے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ میرے سے اگلی سیٹ پر جو صاحب تھے۔ وہ بڑے جوش و جذبے سے بتانے لگے کہ جناب کیا بتاؤں۔ کیسا وحشت ناک دھماکہ تھا۔ الاماں والحفیظ۔ بقیہ تفصیلات طوالت کے ڈر سے مختصر کر کے سیدھا مدعا کی بات پر آتا ہوں۔ وہ یہ کہ "پوری پانچ منزلہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔" ابھی ایک سٹاپ ہی ویگن چلی ہوگی کہ کسی مسافر نے لقمہ دیا۔ کہ یہ دھماکہ کس وقت ہوا؟ وہی صاحب پھر نئے سرے سے شروع ہوئے۔ اور جملے کا اختتام کیا کہ "پوری چھے منزلہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔" آگے ایک سٹاپ سے سواری اتری اور دوسری بیٹھی۔ تو اس نے بھی پہلے سے جاری موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک معلوم نہیں ہوا مجھے کہ دھماکہ کہاں ہوا تھا؟ کسی کو معلوم ہے؟ تو وہی صاحب نئے جذبے سے شروع ہوئے اور اختتام تک تباہ عمارت سات منزلہ ہو چکی تھی۔ جب اچھرہ سٹاپ پر عمارت آٹھ منزلہ ہوئی تو راقم الحروف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اور عرض کی کہ جناب! قینچی سٹاپ سے اچھرہ تک عمارت آٹھ منزلہ ہو چکی ہے۔ کچھ تو رحم کریں۔ تو اس پر وہ صاحب تنک کر بولے۔ میں نے کون سا وہ عمارت دیکھی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی پانچ کہتا ہے کوئی آٹھ۔ اب آدمی کس کی سنے کس کی نہ سنے۔ ان کے تیور دیکھ کر میری ہمت نہ ہوئی کہ کہوں جناب پہلے سٹاپ سے یہاں تک ایک ہی منہ ہے۔ لیکن باتیں بہت زیادہ کر رہا ہے۔
بات سچی ہو یا نہ۔ ہم لوگ اس میں زیب داستاں کے لیے، یا کسی اندر کے قصہ گو کی تسکین کے لیے ہر بار کچھ بڑھا دیتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیوں ہم اپنی طرف سے بات بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر اس کو ناپ بھی دیتے ہیں، گویا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کوئی خیال اگر ذہن میں آگیا ہے تو یہ سوچنا کہ میں ہی دنیا کو وہ واحد آدمی ہوں جو یہ سوچ سکتا ہے۔ اور کسی کی ذہنی اسطاعت نہ تھی۔ یہ کج بحثی و کج روی ہمارے اندر یوں سرایت کر گئی ہے کہ ہم اس کو عیب سمجھنے سے ہی قاصر ہوگئے ہیں۔ ہمارے لئے یہ فن ہے۔ گفتار کا ایک بہت اہم خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عملیت پسندی روایت پسندی، مروت، رواداری گزشتہ چند دہائیوں سے آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ اور جو حالات میں دیکھتا ہوں اس کے مطابق یہ زیادہ دیر زندہ رہتے نظر نہیں آتیں۔ چند ایک بنیادی چیزیں جن پر اسلاف کو فخر ہوتا تھا پہلے سے ہی عالم سکرات میں ہیں۔ اور جو چند ایک پر نزع کا عالم طاری ہے۔ معاشرے میں رائج اقدار ان کی مشکل بھی جلد ہی آسان کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری اخلاقی اقدار، روایات معاشرتی اکائیاں تنزلی کی طرف جا نہیں رہیں بلکہ دوڑ رہی ہیں۔ ہم کھائی میں اتر نہیں رہے گر رہے ہیں۔ اور اگر یہی رویے یہی تربیت آنے والی نسلوں کا بیج ٹھہری تو آنے والے سالوں میں اس سرزمین سے صرف بانجھ، خود سر اور ضدی قوم اگے گی۔ جو علم و عمل اور مثبت مباحث کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی۔ اور اس کے انجام کے بارے میں کسی کو بھی شکوک و شبہات نہ ہوں گے۔
ایک آدمی تھا۔ اس کو بہت لمبی لمبی گپیں ہانکنے کا شوق تھا۔ وہ جب بھی کوئی قصہ سناتا تو ایسا کہ ذی شعور تو ایک طرف ناداں بھی اس پر یقین نہ کرے۔ ایک دن اس کے ایک خیرخواہ نے سمجھایا کہ یار تم ہاتھ ہلکا رکھا کرو۔ اتنی بڑی گپیں مارتے ہو۔ لوگ ہنستے ہیں۔ تمہارا مذاق بناتے ہیں۔ اس آدمی نے کہا۔ بات تمہاری ٹھیک ہے۔ اگلی بار جب میں کوئی کہانی یا قصہ شروع کروں۔ اور تمہیں لگے کہ یہ بات گپ ہے۔ تو ذرا سا کھانس لینا۔ وہ متفق ہوگیا۔
اب کسی دن یونہی دوستوں کی مجلس میں بیٹھے ایک واقعہ سنانا شروع کیا کہ میں ایک بار جنگل میں جا رہا تھا۔ کیا دیکھتا ہوں کہ ایک بہت بڑا سانپ ہے۔ مجھے لگا کہ سانپ کوئی 140 فٹ لمبا ہے۔ اس پر اس کے خیر خواہ نے ذرا سا کھانسا۔ وہ آدمی بڑا جزبز ہوا۔ مگر اس نے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ کہ میرے ذہن میں آیا اتنا بڑا سانپ تو ہوتا ہی نہیں ہے۔ قریب جا کر دیکھنا چاہیے۔ سو میں قریب پہنچ کر غور کیا تو اندازہ لگایا کہ کوئی 110 فٹ کے لگ بھگ ہوگا۔ اس پر دوست دوبارہ کھانسا۔
آدمی نے خشمگیں نگاہوں سے اس کو دیکھا اور قصہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 110 فٹ بہت زیادہ ہوتا ہے۔ میں نے سوچا کہ اس کو مار کر ہی اصل لمبائی کا پتا چل سکتا ہے۔ سو میں نے جب سانپ مارا اور مرے کا بغور جائزہ لیا تو خیال آیا کہ 90فٹ تو کہیں نہیں گئے۔ اس پر دوست دوبارہ زور سے کھانسا۔
آدمی نے بے چینی سے پہلو بدلتے ہوئے کہا کہ بھئی دوستو! بات پرکھنے کو ضروری تھا کہ میں اس کی لمبائی ناپتا۔ مرا سانپ سامنے تھا۔ سو میں نے اپنے اندازے کی سچائی پرکھنے کو جب اس کو ناپا تو وہ 70 فٹ نکلا۔ اس پر خیرخواہ دوست زور سے کھانسا۔ تو وہ قصہ گو پلٹ کر کہنے لگا۔
"ہن کوئی فیدہ نئیں۔۔۔ ہن تے ناپیا گیا اے" (اب کوئی فائدہ نہیں۔ اب تو ناپا گیا ہے۔)
اس سمٹے فاصلوں کے دور میں میری سماعتیں جس صدا سے زیادہ آشنا ہیں۔ وہ یہی بازگشت ہے۔ "ہن تے ناپیا گیا اے۔ہن تے ناپیا گیا اے"۔
عہد حاضر کی ایجادات سے انسان جتنا زیادہ فیض یاب ہوا ہے اس کا نقصان بھی اتنا ہی اٹھایا گیا ہے۔ پرانے زمانے میں ایسے کردار خال خال ہوا کرتے تھے۔ لیکن سوشل میڈیا اور ترقی کے اس دور میں ہر صدا "ہن تے نپیا گیا اے" کی بازگشت بڑھتی چلی جا رہی ہے۔ ادھورے علم، ادھورے سچ، ادھورے مشاہدے اور ادھورے بیانیوں نے ہم سے برداشت صبر اور تحمل چھین لیا ہے۔ ہم سب چوہدری ہیں۔ ہمارا حرف حرفِ آخر ہے۔ ہم جو بات کرتے ہیں۔ وہ اٹل ہے۔ اس کے آگے اب بہتری کی کوئی گنجائش نہیں رہی۔ اب وہ لوح پر محفوظ ہوگئی ہے۔ اگر کوئی اس لوح میں ردوبدل کی کوشش کرتا ہے تو وہ احمق ہے۔ بیوقوف ہے۔ نکتہ چین ہے۔ جاہل ہے۔ ایک آنکھ کا انسان ہے۔ جس کو نظر ہی نہیں آتا۔ وہ بہرا ہے کیوں کہ وہ اس "ہن تے ناپیا گیا اے" کی صدا پر کان نہیں دھر رہا۔ اور جب اس کے اعصاب شل ہوجائیں گے۔ وہ پکار پکار کر تھک جائے گا۔ تو پھر پہلے سے آنے والی بازگشتوں میں ایک اور بازگشت کا اضافہ ہوجائے گا۔ یوں وہ بھی مکمل ہوجائے گا۔
ہمارا دوسرا مسئلہ ہر بار "ہن تے ناپیا گیا اے" کی صدا لگانے کے ساتھ اس میں کچھ اضافہ کرنے کا ہے۔ اس پر مجھے ایک اور لطیفہ یاد آگیا کہ "بات بڑھتی کیسے ہے"
محلے میں ایک صاحب کے والد کا انتقال ہوگیا ہے۔ اس پر تعزیت کے لیے احباب کا مجمع لگا ہے۔ فاتحہ پڑھنے کے بعدکسی نے پوچھا۔
جی کیا ہوا؟ کیسے فوت ہوئے؟
بتانے والا۔ بس جی کیا بتائیں۔ اچھے بھلے دکان پر بیٹھے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یار طبیعت بگڑ رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو "پندرہ روپے " دیے اور کہا کہ بھاگ کر جوس لاؤ۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے چل بسے۔
کچھ اور لوگ آتے ہیں۔ فاتحہ کے بعد ایک پوچھتا ہے۔
جی کیا ہوا تھا؟ کیسے ایکا ایکی چل بسے؟
بتانے والا۔ بس جی کیا بتائیں۔ اچھے بھلے دکان پر بیٹھے تھے۔ مجھے کہنے لگے کہ یار طبیعت بگڑ رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو" تیس روپے" دیے اور کہا کہ بھاگ کر جوس لاؤ۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے چل بسے۔
پھر کچھ لوگوں کی آمد اور وہی واقعہ۔ وہی روپے میں اضافہ۔ باقی ساری بات وہی۔ جب دوپہر کے قریب کچھ لوگ تعزیت کے لیے آئے۔ فاتحہ کے بعد ان میں سے پھر ایک بولا۔
اپنی تو سمجھ سے باہر ہے۔ ابھی کل صبح تو میری ملاقات ہوئی تھی۔ کہہ رہے تھے۔ حاجی اب ملاقات نہ ہوگی۔ میں سمجھا مذاق کر رہے ہیں۔ لیکن اللہ کے بندوں کو تو پتا ہی ہوتا ہے۔ معاملہ کیا ہوا؟
بتانے والا۔ بس جی کیا بتاؤں! دکان پر بیٹھے تھے۔ طبیعت پر گرانی تھی مگر اتنی بھی نہیں۔ یکا یک کہنے لگے کہ یار طبیعت زیادہ خراب ہو رہی ہے۔ میں نے فوراً ملازم کو "تین سو روپے" دیے اور کہا بھاگ کر سامنے سے تازہ اناروں کو گلاس نکلوا کر لا۔ لیکن اس کے واپس آنے سے پہلے ہی بس۔۔۔۔ تمام لوگوں پر سوگ طاری۔
اس لطیفے سے مجھے ایک سچا واقعہ بھی یاد آگیا۔ ذرا وہ بھی سنتے جائیں۔
یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں لاہور ایک دفتر میں ملازم تھا۔ میرا دفتر ایف آئی اے کی بلڈنگ کے بہت پاس تو نہ تھا۔ لیکن بہرحال اس کے قریب ضرور تھا۔ ایک دن صبح کو جب میں دفتر پہنچا تو تھوڑی دیر بعد بہت زور دار دھماکے کی آواز آئی اور ہماری پوری عمارت لرز کر رہ گئی۔ کچھ شیشے بھی ٹوٹے تھے یا نہیں۔ یہ مجھے یاد نہیں۔ خیر اس دھماکے نے ایف آئی اے کی بلڈنگ زمین بوس کر دی۔ اور گردونواح کی عمارتوں کو بھی شدید نقصان پہنچا۔ جانی نقصان تو خیر ہوا ہی ہوا۔ لیکن اس کے دو دن بعد میں معمول کے مطابق بس سٹاپ سے روٹ کی ویگن میں سوار ہوا۔ مجھے مزنگ تک جانا تھا۔ اور مزنگ سے میں دوسری بس پکڑ کر دفتر جایا کرتا تھا۔ کہ ویگن کے مسافروں کے درمیان اسی دھماکے بارے میں باتیں ہونے لگیں۔ میرے سے اگلی سیٹ پر جو صاحب تھے۔ وہ بڑے جوش و جذبے سے بتانے لگے کہ جناب کیا بتاؤں۔ کیسا وحشت ناک دھماکہ تھا۔ الاماں والحفیظ۔ بقیہ تفصیلات طوالت کے ڈر سے مختصر کر کے سیدھا مدعا کی بات پر آتا ہوں۔ وہ یہ کہ "پوری پانچ منزلہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔" ابھی ایک سٹاپ ہی ویگن چلی ہوگی کہ کسی مسافر نے لقمہ دیا۔ کہ یہ دھماکہ کس وقت ہوا؟ وہی صاحب پھر نئے سرے سے شروع ہوئے۔ اور جملے کا اختتام کیا کہ "پوری چھے منزلہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن گئی۔" آگے ایک سٹاپ سے سواری اتری اور دوسری بیٹھی۔ تو اس نے بھی پہلے سے جاری موضوع کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ابھی تک معلوم نہیں ہوا مجھے کہ دھماکہ کہاں ہوا تھا؟ کسی کو معلوم ہے؟ تو وہی صاحب نئے جذبے سے شروع ہوئے اور اختتام تک تباہ عمارت سات منزلہ ہو چکی تھی۔ جب اچھرہ سٹاپ پر عمارت آٹھ منزلہ ہوئی تو راقم الحروف کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ اور عرض کی کہ جناب! قینچی سٹاپ سے اچھرہ تک عمارت آٹھ منزلہ ہو چکی ہے۔ کچھ تو رحم کریں۔ تو اس پر وہ صاحب تنک کر بولے۔ میں نے کون سا وہ عمارت دیکھی ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں۔ کوئی پانچ کہتا ہے کوئی آٹھ۔ اب آدمی کس کی سنے کس کی نہ سنے۔ ان کے تیور دیکھ کر میری ہمت نہ ہوئی کہ کہوں جناب پہلے سٹاپ سے یہاں تک ایک ہی منہ ہے۔ لیکن باتیں بہت زیادہ کر رہا ہے۔
بات سچی ہو یا نہ۔ ہم لوگ اس میں زیب داستاں کے لیے، یا کسی اندر کے قصہ گو کی تسکین کے لیے ہر بار کچھ بڑھا دیتے ہیں۔ آخر کیوں؟ کیوں ہم اپنی طرف سے بات بڑھاتے چلے جاتے ہیں۔ اور پھر اس کو ناپ بھی دیتے ہیں، گویا ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔ کوئی خیال اگر ذہن میں آگیا ہے تو یہ سوچنا کہ میں ہی دنیا کو وہ واحد آدمی ہوں جو یہ سوچ سکتا ہے۔ اور کسی کی ذہنی اسطاعت نہ تھی۔ یہ کج بحثی و کج روی ہمارے اندر یوں سرایت کر گئی ہے کہ ہم اس کو عیب سمجھنے سے ہی قاصر ہوگئے ہیں۔ ہمارے لئے یہ فن ہے۔ گفتار کا ایک بہت اہم خاصہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری عملیت پسندی روایت پسندی، مروت، رواداری گزشتہ چند دہائیوں سے آخری سانسیں لے رہی ہیں۔ اور جو حالات میں دیکھتا ہوں اس کے مطابق یہ زیادہ دیر زندہ رہتے نظر نہیں آتیں۔ چند ایک بنیادی چیزیں جن پر اسلاف کو فخر ہوتا تھا پہلے سے ہی عالم سکرات میں ہیں۔ اور جو چند ایک پر نزع کا عالم طاری ہے۔ معاشرے میں رائج اقدار ان کی مشکل بھی جلد ہی آسان کرتے نظر آتے ہیں۔ ہماری اخلاقی اقدار، روایات معاشرتی اکائیاں تنزلی کی طرف جا نہیں رہیں بلکہ دوڑ رہی ہیں۔ ہم کھائی میں اتر نہیں رہے گر رہے ہیں۔ اور اگر یہی رویے یہی تربیت آنے والی نسلوں کا بیج ٹھہری تو آنے والے سالوں میں اس سرزمین سے صرف بانجھ، خود سر اور ضدی قوم اگے گی۔ جو علم و عمل اور مثبت مباحث کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی۔ اور اس کے انجام کے بارے میں کسی کو بھی شکوک و شبہات نہ ہوں گے۔
آخری تدوین: