آپکی تحاریر واقعی کمال کی ہوتی ہیں اور ان آخری جملوں نے تو مزید پریشان کر دیا۔ یہ جو مثبت مباحث کی بات ہے تو اسکے لئے پہلے آزاد ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ میرے خیال میں ہمارا دیسی معاشرہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں آزاد اور خودمختار خیال کی کوئی قدر و منزلت باقی نہیں رہی۔ کسی دانا کا قول ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔ہماری اخلاقی اقدار، روایات معاشرتی اکائیاں تنزلی کی طرف جا نہیں رہیں بلکہ دوڑ رہی ہیں۔ ہم کھائی میں اتر نہیں رہے گر رہے ہیں۔ اور اگر یہی رویے یہی تربیت آنے والی نسلوں کا بیج ٹھہری تو آنے والے سالوں میں اس سرزمین سے صرف بانجھ، خود سر اور ضدی قوم اگے گی۔ جو علم و عمل اور مثبت مباحث کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی۔ اور اس کے انجام کے بارے میں کسی کو بھی شکوک و شبہات نہ ہوں گے۔
اللہ والو! کہنا تھا نہ کہ صفحہ بند کرنے کو دل ہی نہیں کر رہا۔۔۔۔رانا اپنے کولیگز سے: یار نیرنگ نے آج کیا غضب کی تحریر پوسٹ کی ہے۔ قسم سے پچاس بار پڑھ گیا ہوں ہر بار وہی مزہ ہے۔۔
ایک کولیگ تھوڑا سا کھنکارا۔
رانا (کولیگ کو کچھ گھورتے ہوئے): یار چالیس بار تو ضرور ہی پڑھی ہوگی میں نے یہ تحریر۔
کولیگ پھر ہلکا سا کھانسا۔۔
رانا (کولیگ کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھتے ہوئے): تحریر ایسی زبردست تھی کچھ مبالغہ تو ہو ہی جاتا ہے لیکن 35 بار تو ضرور ہی پڑھتا ہوں میں اس طرح کی تحریر۔۔
کولیگ پھر زور سے کھانسا۔۔۔
رانا (کچھ جزبز ہوتے ہوئے): ہاں یاد آیا ابھی پکا کیلکولیٹ کرلیتے ہیں میں ڈیڑھ منٹ میں ایک بار پڑھ لیتا ہوں کوئی پچاس منٹ تو ہوچلے ہیں اسے پوسٹ ہوئے۔ تو ضرور میں نے کوئی 20 بار اسے پڑھ لیا ہے۔
کولیگ پھر ہلکا سا کھانسا۔۔
رانا (ماتھے پر تیوری چڑھاتے ہوئے): یار اب کچھ نہیں ہوسکتا اب تو کیلکولیٹ ہوچکا ہے۔۔۔۔
کولیگ: لیکن یار وہاں تو اس دھاگے کے کل "مناظر" ہی 5 آرہے ہیں!!!!
رانا کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا: وہ۔۔۔ یار ۔۔۔میں ذرا پانی پی کر آتا ہوں۔۔۔۔
مرشدچھا گئے او مرشد
کیا خوب غور کیا ہے آپ نے۔
اور اندازِ بیاں۔۔۔۔ کیا کہنے ۔
ویسے موضوع اور اس پر آپ کے مشاہدات قابلِ صد تحسین ہیں۔
بہت بہت شکریہ
میں نے بھی قریب ایسی ہی بات کی ہے۔۔۔ لیکن یہ پڑھ کر نہیں کی۔۔۔رانا صاحب کو جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا۔ کہہ دیتے بھئی کہ ایک ہی بار صفحہ کھول کر اتنی بار پڑھ لیا
پانی پی لیا تو واپس آجائیں۔۔۔ہاہاہا۔ نیرنگ بھائی کی تحریر کے سحر میں کھو جائیں تو پھر ایسا ہی ہوتا ہے
ابھی پانی پی کر واپس جاتا ہوں۔۔۔۔۔
دوسری کون سی۔۔۔یہاں دو ریٹنگز بنتی ہیں مگر دو کی اجازت نہیں
ایک کاندھا چاہیے۔ چاہے کسی کا ہو۔ یہ بات محض عمومی رویوں کی نہیں ہے۔ دوران ملازمت بھی ایسا ہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ پیشہ ورانہ رویوں کا شدید فقدان نظر آتا ہے۔ جب بات کریڈٹ لینے کی آتی ہے تو جناب افسر صاب سب سے آگے ہوتے ہیں۔ اور اگر غلطی ہوجائے تو بیچارہ نیا رنگروٹ یا پھر کوئی چھوٹا مزدور قربانی کا بکرا بن کر سب کی مار سہہ رہا ہوتا ہے۔ مذہب کی چھتری تو سب سے بہتر ہے صائمہ صاحبہ۔ لیکن بدقسمتی سے جسے یہ لوگ مذہب کی چھتری سمجھتے ہیں۔ وہ مذہب نہیں۔ چند بگڑے عقائد کی مضحکہ خیز تصریحات ہیں جن سے مذہب تو سات پردوں میں چھپ جاتا ہے۔ اور اسے سے جڑی خود ساختہ تاویلات لوگوں کی بیزاریت کا سبب بنتی ہیں۔شکر ہے کسی نے تو ہمارا اخلاقی تجزیہ کیا ہمیں بحیثیت قوم پہلے تو خود میں کوئی برائی ہی نہیں نظر آتی اور اگر کہیں دل پر پتھر رکھ کر ہمیں اسے مان ہی لیں تو خود سے جڑی ہر برائی کو یہودیوں کی سازش قرار دیتے ہیں اخلاقیات کی کوئی قدر نہیں بلکہ ہم تو اخلاق کو برائی سمجھتے ہیں آپ کسی کے سامنے سانپ کی لمبائی بتا دیں وہ اپنا اخلاقی فریضہ سمجھ کر لمبائی بڑھا چڑھا کر دوسرے شخص کو بتاے گا اور ہم کبھی غلط بھی نہیں ہوتے اگر خدانخواستہ کسی نے ہمیں کسی دلیل یا منطق سے غلط ثابت کر دیا تو ہم اڑ جائیں گے پر غلط نہیں ہونے دیں گے خود کو اور بات حد سے بڑھ گئی جہاں ہم بالکل ہی تنہا رہ جائیں تو مذہب کی چھتری نکال کر لے آئیں گے
صفائی ،بدنظمی ، کم علمی حتیٰ کہ قطار نہ بنانے میں بھی کوئی سازش ہے ذہنی وسعت کا دیوالیہ نکل چکا ہے اور باقی کی کمی جاہلیت اور ادھورے علما نے پوری کر رکھی ہے
تحریر لکھنے والے کی سوچ کے مطابق یا پھر جو رویے مذکور ہیں۔ ان کے مطابق۔۔۔اسی طرح کی سوچ کے بارے میں ایک محاورہ بھی مشہور ہے کہ "پیر نہیں اڑتا مرید اڑا دیتے ہیں"
یعنی تعویز کی پرچی میں ہیر پھیر کا ارادہ ہے۔۔۔یعنی آج سے آپ کا مشیر پکا؟ شروع شروع میں تنخواہ بھی نہیں مانگوں گا کہ ایک اور سید بادشاہ سے مجاوری کی اسسٹنٹ شپ سے اپنے اخراجات نکالتا رہوں گا
شاہ جی ایک تو میں آپ کے تبصرے ہی سمجھتا رہ جاتا ہوں۔۔۔۔واہہہہہہہہہہہہہ۔۔۔
کلاسیک ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ
کیا خوب " ناپا " ہے من حیث القوم ہم پاکستانیوں کی پستی کو ۔۔۔۔
" خودنمائی " کی دلدل میں اس قدر دھنس چکے ہیں ہم کہ الامان الحفیظ ۔۔
حال کی مجلس ہو یاکہ قال کی محفل ۔۔۔ ہم ہی سچے باقی سب جھوٹے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت دعائیں اس قدر خوبصورت اصلاح کی جانب پکارتی تحریر پر ۔۔۔۔۔۔۔
اسے پنجابی میں کہتے ہیں۔۔۔ کھنبھ دا کاں بنانا۔۔۔۔زبان کی لذت کے لئے بات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرنا تو بہت سے لوگوں کا محبوب مشغلہ لیکن ہمارے سیاستدان تو اس فن میں بالخصوص مہارت رکھتے ہیں
اوئے ظالم۔۔۔ پروپیگنڈے سے باز آجاؤ۔۔۔واہ جناب واہ، اسی لیے سینکڑوں بار فون کر کر کے آپ کو بلاتا رہا ہوں
بہت شکریہبہت خوب صورت تحریر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شکرگزار ہوں سر۔۔۔مذاق مذاق میں ایک کڑوا سچ
اچھا لکھا ہے
آداب عرض ہے زبیر بھائی۔۔۔ دیکھیں۔۔۔۔ ہم کبھی کبھی اچھا بھی لکھ لیتے ہیں۔بہت عمدہ نین دراصل فی زمانہ کچھ بُرائیاں اب بُرائی کے زُمرے میں نہیں آتی بس ذراسامذاق ، ذرا سی تفریحی اورخوش گپی کا نام دیا جاتاہے
آپ نے بہت اچھے انداز میں اس معاملے پر لکھا ہے - ہمیں اس پر غورکرنے اور اپنے طرزِعمل کو بہتر بنانے کی اشد ضرروت ہے -
سب سے پہلے تو تعریف اور اظہار خیال کے لئے شکرگزار ہوں۔آپکی تحاریر واقعی کمال کی ہوتی ہیں اور ان آخری جملوں نے تو مزید پریشان کر دیا۔ یہ جو مثبت مباحث کی بات ہے تو اسکے لئے پہلے آزاد ماحول کا ہونا ضروری ہے۔ میرے خیال میں ہمارا دیسی معاشرہ اس نہج پر پہنچ گیا ہے جہاں آزاد اور خودمختار خیال کی کوئی قدر و منزلت باقی نہیں رہی۔ کسی دانا کا قول ہے کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا بلکہ یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے۔
یہ بات درست ہے۔بدقسمتی سے یہ ہمارا قومی فریضہ بن گیا ہے کہ کسی بھی حقیقت پسند انہ بات کو جو کہ عموماً تلخ ہوتی ہے کو برداشت ہی نہیں کیا جاتا۔ اور بجائے اس بات کا معقول جواب دینے کے الٹا بات کرنے والے کے سابقہ یا حالیہ کردار میں سے کیڑے نکالنا شروع ہو جاتے ہیں۔
سیاسی معاملہ ہے۔ بہت سے عناصر اس میں کارِ فرما تھے۔ چونکہ آپ ملک سے باہر ہیں۔ اور میرے دفتر کے باہر یہ سب ہوتا رہا ہے۔ اس لئے میری اور آپ کی سوچ میں ایک واضح تفاوت کا پایا جانا اک لازم سا امر ہے۔ دیکھیں پرامن جلوس کے لئے آپ کا پیٹ بھرا ہونا بہت ضروری ہے۔ قوم دو وقت کی روٹی پوری کرے کہ دھرنے میں بیٹھی رہے۔ آپ شہروں شہروں ہونے والوں جلوسوں سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ جوں رینگی یا نہیں۔عمران اور قادری کا حال سب کے سامنے ہے۔ تاریخ انسانی کے طویل ترین پر امن دھرنوں، جلسوں کے باوجود قوم کے کان پر جوں تک نہیں رینگی۔ الٹا ان دونوں پر معیشت تباہ کرنے اور "جمہوریت "کوپٹڑی سے اتارنے کا الزام لگایا جا رہا ہے کہ جیسے ان دھرنوں سے پہلے معیشت دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی تھی یا مغربی جمہوری اقدار اس ملک میں پنپ رہے تھے۔
جو روایات، اقدار اور مزاج صدیوں میں جنم لیتے ہیں۔ ان سے کوئی بھی نہ لڑ پایا ہے نہ لڑ پائے گا۔ آپ کا مطالعہ میرے سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔ میں تو خیر خطوں کی اقوام اور ان کی بودوباش سے نابلد ہوں۔ تاہم یہ مزاج برصغیر کا ہے۔ اور رہے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس مزاج کو ہی استعمال کر کے تبدیلی لائے جائے بجائے اس کے کہ مزاج بدلنے پر زور دیا جائے۔شير شاہ سوری نے کوئی پانچ سو سال قبل اس خطے میں بسنے والوں کے بارہ میں فرمایا تھا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو اقتدار میں ہر آنے والے کو سر آنکھوں پر بٹھا لیتے ہیں اور اقتدار سے جانے والے کو ذلیل و رسوا کرتے ہیں۔
یعنی یہ اخلاقی مسئلہ کچھ دہائیوں پرانا نہیں، کئی سو سال پرانا ہے۔ اور پھر ہم نے خود اپنی ان گناہگار آنکھوں سے دیکھا کہ کس طرح کئی بار کے آزمودہ لوٹ کھسوٹ کرنے والے سیاست دانوں کو تیسری بار ہم سب نے ملکر نہ صرف ملکی اقتدار و ایوانوں تک پہنچایا بلکہ انکے خلاف اٹھنے والی ہر جمہوری آواز کی بھی بھرپور انداز میں بے بنیاد الزامات لگا کر مذمت کی۔
اسلاف نے اسلامی تعلیمات تک محدود نہیں کیا۔ پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہیں؟ میرا خیال ہے کہ آپ پاکستان کی معاشرت کے بارے میں کافی ادھوری معلومات رکھتے ہیں۔کچھ دن قبل میراایک یہودی سے مسلم دنیا میں وافر مقدار میں موجود جہالت اور اخلاقی گراوٹ پر خوب بحث و مباحثہ ہوا۔ اسکے مطابق مغرب مسلم دنیا پر صرف اسلئے سبقت لے گیا کہ یہاں علم کا فروغ تھا۔ اسپر میں نے کہا کہ علم تو مسلم دنیا میں بھی عام ہے یعنی یہاں بھی تو اسکولوں، مدرسوں، یونی ورسٹیوں کی بھرمار ہے اور بہت سے مسلم ممالک میں شرح خواندگی مغرب جیسی ہے۔ جس پر وہ مسکرایا اور کہا کہ جا کر چیک کرو کہ اسلامی یا مسلم فلسفی آج کہاں ہیں جو کہ اسلامی عہدِ زریں کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔
اس موضوع پر کافی ریسرچ کے بعد میں اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلم دنیا کا زوال اسی دن شروع ہوا جب ہمارے اسلاف نے "علم" کو اسلامی تعلیمات تک محدود کر دیا اور دیگر علاقوں سے آنے والے علوم و منطق کے دروازے اپنی اولادوں کیلئے بند کر دئے۔ نتیجہ؟ دنیا بھر کے مٹھی بھر مغربی، یہودی عالم اسلام پر چھاگئے۔
یہ ایک بہت طویل موضوع ہے۔ اور اس کا کوئی براہ راست تعلق چونکہ میری تحریر سے نہیں ہے۔ لہذا میں اس کو بنا جواب دیے چھوڑ رہا ہوں۔ایک زمانہ تھا کہ نامور مسلمان فلسفی ایک دوسرے کے ساتھ علمی مناظرے کرتے تھے۔ قدیم یونانی فلسفیوں کے علوم انہیں رٹے ہوئے تھے۔ وہ ان فلسفیوں کے دلائل رد کرتے اور اپنے منطقی دلائل اسمیں شامل کرتے۔ نتیجتاً انکے علوم میں اضافہ ہونے لگا اور پھر وہ وقت بھی آیا جب مذہبی انتہا پسندی یا تنگ نظری کی بنیاد پر ان آزاد مسلم فلسفیوں کی آواز کو دبایا گیا۔ انکو کافرین کا ایجنٹ کہا گیا اور یوں انکی وفات کیساتھ ہی یہ علوم مغرب میں منتقل ہو گئے اور وہاں انہی علوم کی بدولت صدیوں پر محیط ارتقائی عمل کے بعد ایک مردہ تہذیب کی احیاء ثانیہ کا آغاز ہوگیا۔ جبکہ مسلم دنیا اندھیروں میں ڈوبی رہی۔
اگر یہ جملہ درست نہیں ہے۔ تو کیا ہم ایسی نسل پروان چڑھا رہے ہیں جو مذکور موضوع پر دسترس رکھتی ہے؟آج اس حقیقت سے کوئی مغربی انکاری نہیں کہ انکے ہاں یونانی فلسفیوں کا کھویا ہوا علم مسلمان فلسفیوں اور مفکرین نے پہنچایا جبکہ ہم آج بھی اس حقیقت کو تسلیم نہیں کرتے کہ حقیقی علم صرف اسلامی نہیں ہوتا۔ ایسے میں آپکی اس تحریر کا بنیادی نکتہ کہ ہم اپنے رویوں سے ایسی پود کو پروان چڑھا رہے ہیں جو علم و عمل اور مثبت مباحث کے نام سے بھی واقف نہ ہوگی درست نہیں ہے کہ امت مسلمہ کا تو صدیوں سے یہ یہی وطیرہ رہا ہے۔ وگرنہ مسلم اسلاف میں مزید الکندی ،فارابی،ابن سینا،ابن رشد ، ابن خلدون جیسے اعلیٰ پایہ کے آزاد خیال مفکرین، حکیم، فلسفی پیدا نہ ہو جاتے!
http://en.wikipedia.org/wiki/Early_Islamic_philosophy#Schools
سرخوباں خیال۔۔۔نیرنگ خیال۔۔۔
"مَر" پر "شَد" کون لگاتا ہے سر۔۔۔۔پیر
پ کی زیر کے ساتھ۔۔۔ یعنی مرشد۔۔۔