نیرنگ خیال
لائبریرین
شکریہ عمر بھائیزبردست تحریر ۔۔ نیرنگ ۔
شکریہ عمر بھائیزبردست تحریر ۔۔ نیرنگ ۔
مر پر شد لگانے والے سے ش پر پیش بھی متوقع ہے۔۔۔"مَر" پر "شَد" کون لگاتا ہے سر۔۔۔۔
جی۔۔۔ زبر و زیر کی کہانی ہمیشہ پیش تو آتی ہے۔۔۔مر پر شد لگانے والے سے ش پر پیش بھی متوقع ہے۔۔۔
آپ کے مضمون کا انتظار رہے گا سر۔۔۔ آپ جیسے کہنہ مشق اساتذہ کی تحاریر پڑھ پڑھ کر تو ہم سیکھ رہے ہیں۔ جلدی کیجیے۔اف فوہ! ہم تو اسے پنجابی کا مضمون سمجھ کر پڑھنے میں آلکسی سے کام لے رہے تھے۔
بہت مزے دار مضمون ہے۔ خوش رہیے۔ ہمارا بھی جی یہی چاہتا ہےکہ روز روز کڑھنے کی بجائے ایک مرتبہ جی کڑا کرکے اپنے ہم قوموں کے خلاف ایک دھماکے دار مضمون لکھ ماریں۔ اب آپ نے اتنا شاندار مضمون لکھ کر ہمیں ہمت دلائی ہے تو دیکھتے ہیں۔۔۔
اسلامی تعلیم ضروری نہیں وہی ہو جومدرسوں اسکولوں میں دی جائے۔ پاکستان میں چونکہ اکثر بچوں کی گھریلو پرورش اسلامی تعلیم کے زیر سایہ ہوتی ہے یوں یہ کہنا درست نہیں کہ ملک میں اکثریت اسلامی تعلیمات یا اقدار سے نابلد ہے۔ جو اچھے اقدار ہم بچوں کو سکھاتے ہیں وہی وہ بڑے ہو کر اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اور دین نسلوں تک اسی طرح پھیلتا آیا ہے۔ ہمارے معاشروں میں یہ تربیت کا کام عموماً مائیں کرتی ہیں۔پاکستان میں کتنے لوگ ہیں جو اسلامی تعلیمات سے بہرہ مند ہیں؟
اگر یہ جملہ درست نہیں ہے۔ تو کیا ہم ایسے نسل پروان چڑھا رہے ہیں جو مذکور موضوع پر دسترس رکھتی ہے؟
چونکہ پاکستان بھی امت مسلمہ کا حصہ ہے یوں وہاں بھی وہی اخلاقی مسائل ہیں جیسا کہ بہت سے دیگر مسلم معاشروں میں عام ہیں۔ جیسے یہاں مغرب کے مقامی لوگوں کیلئے 'غیرت کے نام پر قتل' اور جبرً شادیاں ایک بالکل انجان سی چیز تھی۔ جب یہاں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی دوسری پیڑی جوان ہوگئی تو پھر یہاں بھی جوان لڑکیوں کیساتھ وہی کچھ ہونے لگا جو ہمارے آبائی معاشروں میں صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ جس پر میڈیا میں کافی شور شرابا ہوا اور حکومت نے اس اخلاقی گراوٹ کو ختم کرنے کیلئے اسکولوں میں آگہی مہم چلائی اور مسلمان نوجوانوں کو انکے حق حقوق بتائے اور ساتھ میں ایک ہیلپ لائن بھی کھول دی کہ اگر انکے ماں باپ جبراً شادی کیلئے مجبور کریں تو وہ فوراً متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں اور اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ یوں وقت وقت گزرنے کیساتھ اس مہم کے نتیجہ میں جبراً شادیوں کےکیسز میں خاصی کمی واقعہ ہوئی البتہ 'غیرت کے نام پر قتل' کے کیس ابھی بھی اکا دکا میڈیا میں نظر آتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں میں سمجھتا کہ شاید یہ معاشرتی بدعت صرف پاکستان یا بھارت تک محدود ہے لیکن یہاں آنے کے بعد پتا چلا کہ یہی کام عراق، شام، فلسطین، ترکی وغیرہ کے مسلم معاشروں میں بھی خاصا مقبول ہے۔ایک انتہائی اہم بات کہ میری تحریر کا موضوع میرا معاشرہ ہے۔ جس سے مراد محض پاکستانی معاشرہ ہے۔ جبکہ آپ کے تمام تر جوابات مسلم ثقافت اور رہن سہن کے مطابق ہیں۔ مسلم ثقافت اور ارتقاء میرا موضوع اس وقت نہیں ہے۔ اور نہ ہی مسلم زوال کا سبب پاکستانی قوم ہے۔
ملک کی اکثریت مددگار اور مروت کی مالک ہے۔ مہمان نوازی ابھی تک قائم ہے۔ لوگ بزرگوں کے منہ ہی سہی خاموش ہوجاتے ہیں۔ ابھی تک بدلحاظی کا وہ عالم نہیں ہے جو کہ مغربی ممالک کا خاصہ ہے۔ ماں باپ کی بجائے کتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور دین الحمداللہ یہاں بہت بہتر حالت میں ہے۔ میرے ان دوستوں کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ جن کے اپنے معاشرے کی اخلاقی حالت ناگفتہ ہو۔اسلامی تعلیم ضروری نہیں وہی ہو جومدرسوں اسکولوں میں دی جائے۔ پاکستان میں چونکہ اکثر بچوں کی گھریلو پرورش اسلامی تعلیم کے زیر سایہ ہوتی ہے یوں یہ کہنا درست نہیں کہ ملک میں اکثریت اسلامی تعلیمات یا اقدار سے نابلد ہے۔ جو اچھے اقدار ہم بچوں کو سکھاتے ہیں وہی وہ بڑے ہو کر اپنے بچوں میں منتقل کرتے ہیں۔ اور دین نسلوں تک اسی طرح پھیلتا آیا ہے۔ ہمارے معاشروں میں یہ تربیت کا کام عموماً مائیں کرتی ہیں۔
اگر سب لوگ عریاں ہوں تو کپڑے نہیں پہننے چاہیے۔۔۔ میں بھی اس بات کا قائل ہوں۔ آپ اپنے معاشرے میں سدھار میں کردار ادا کیجیے۔ وہاں کے لوگ جو بدکرداری اور بدفعلی کرتے ہیں۔ ان کے کام یہاں بیٹھوں کے سر منڈھنے چھوڑیے۔ اگر آپ وہاں کل کسی جرم میں پکڑے جائیں گے تو بھی لوگ پاکستان کو ہی گالیاں دیں گے۔ جو کہ سراسر ظلم ہوگا۔چونکہ پاکستان بھی امت مسلمہ کا حصہ ہے یوں وہاں بھی وہی اخلاقی مسائل ہیں جیسا کہ بہت سے دیگر مسلم معاشروں میں عام ہیں۔ جیسے یہاں مغرب کے مقامی لوگوں کیلئے 'غیرت کے نام پر قتل' اور جبرً شادیاں ایک بالکل انجان سی چیز تھی۔ جب یہاں ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی دوسری پیڑی جوان ہوگئی تو پھر یہاں بھی جوان لڑکیوں کیساتھ وہی کچھ ہونے لگا جو ہمارے آبائی معاشروں میں صدیوں سے ہوتا چلا آیا ہے۔ جس پر میڈیا میں کافی شور شرابا ہوا اور حکومت نے اس اخلاقی گراوٹ کو ختم کرنے کیلئے اسکولوں میں آگہی مہم چلائی اور مسلمان نوجوانوں کو انکے حق حقوق بتائے اور ساتھ میں ایک ہیلپ لائن بھی کھول دی کہ اگر انکے ماں باپ جبراً شادی کیلئے مجبور کریں تو وہ فوراً متعلقہ اداروں سے رابطہ کریں اور اس مصیبت سے چھٹکارا حاصل کرلیں۔ یوں وقت وقت گزرنے کیساتھ اس مہم کے نتیجہ میں جبراً شادیوں کےکیسز میں خاصی کمی واقعہ ہوئی البتہ 'غیرت کے نام پر قتل' کے کیس ابھی بھی اکا دکا میڈیا میں نظر آتے رہتے ہیں۔ شروع شروع میں میں سمجھتا کہ شاید یہ معاشرتی بدعت صرف پاکستان یا بھارت تک محدود ہے لیکن یہاں آنے کے بعد پتا چلا کہ یہی کام عراق، شام، فلسطین، ترکی وغیرہ کے مسلم معاشروں میں بھی خاصا مقبول ہے۔
جی بالکل۔ ناروے والے لوگ تو دودھ کے دھلے تھے۔ اور دنیا سے سیدھے جنت میں جاتے تھے۔ پھر پاکستان سے آپ جیسے کچھ پاکستانی وہاں پہنچ گئے۔ اور ان کےلئے جہنم کا سامان کرنے لگے۔ حد ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی معاشرے میں گناہ کرتا ہے تو وہ اسی معاشرے کا سزاوار ہوتا ہے نہ کہ اس سے ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ بھی ان کے طعنے سنیں۔ عجب زنانہ طرز فکر ہے۔اور صرف ایک یہی معاشرتی برائی نہیں ہے جو یہاں باقاعدہ ہمارے دیسی علاقوں سے درآمد ہوئی ہے۔ یہاں کے مقامی لوگ مسلمانوں کی آمد سے قبل ٹیکس چوری اور کرپشن کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ اور اس قسم کےجرائم کی روک تھام کیلئے بنائے گئے ادارے دن بھر مکھیاں مارتے رہتے تھے۔ لیکن پھر 2008 میں انہیں حکومت کی طرف سے 300 ٹیکسی ڈرائیوروں کیخلاف جن میں سے پیشتر کا تعلق پاکستان سے تھا تفتیش کا حکم دیا گیا۔ کچھ ہی مہینوں میں یہ سب گرفتار ہو کر قانون کی گرفت میں آ گئے اور 99 فیصد نے ایک گھنٹے کے اندر اندر ٹیکس چوری، کرپشن اور دیگر غیر قانونی انداز میں پیسے اینٹھنے کا اعتراف کر لیا۔ ایک اندازے کے مطابق ان ٹیکسی ڈرائیورز نے حکومت وقت کو 50 کروڑ نارویجن کرونرز کا نقصان پہنچایا!
ہم مسلمانوں نہیں آپ مسلمانوں کی طرز معاشرت میں فطور چھپا ہے۔ آپ ہیں وہاں۔۔۔ جن کو نقصان ہیں۔ ہم اپنے ملک میں آزاد بیٹھے ہیں۔ ہم کو طعنے نہیں ملتے۔ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی کرپشن کا الزام ناروے میں بیٹھے لوگوں پر نہیں لگاتے۔ اور جو لوگ یہاں سے چھوڑ کر گئے ہیں۔ یقینا ان کو اپنے طرز فکر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ نے ایک چیز کو چھوڑ دیا۔ اور آپ کو پتا ہے آپ نے واپس نہیں آنا۔ تو پھر ہر بار آپ کو مسلم مسلم کی رٹ لگا کر طرز معاشرت کو گالیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر آپ کو اس طرز معاشرت سے اتنی ہی گھن آتی ہے۔ تو کوئی متبادل راہ عمل اختیار کیجیے۔آپ صرف اپنی قبر میں جوابدہ ہیں۔ دوسروں کی نہیں۔ذرا سوچیئے اس ایک معاشی بدکاری کے اسکینڈل نے یہاں کی محض 30،000 آبادی پر مشتمل پاکستانی کمیونیٹی کی ساخت کو مقامی عوام میں کتنا نقصان پہنچایا ہوگا؟ نتیجتاً ٹیکسی کا کام بدنام ہو گیا اور حکومت نے متبادل کمپنیوں کو یہاں جگہ بنانے کی اجازت دے دی جسکے بعد مقابلہ بڑھنے کی وجہ سے بہت سے سابقہ امیر ڈرائیورز اپنی روزی روٹی سے محروم ہو گئے۔ اور جنہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا تھا وہ بھی آٹے کیساتھ دھن کی طرح پس گئے۔
یہ سب یہاں لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم مسلمانوں کی طرز معاشرت ہی میں اصل فطور چھپا ہے۔ کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپکے ارد گرد کا معاشرہ کس قدر حسین و جمیل ہے۔ یہاں کے مقامی ناقدین کہتے ہیں کہ مسلمان مہاجرین اپنی بوسیدہ معاشرت کو مجبوراً چھوڑ کر یہاں مغرب میں کام کاج اور فلاح کی نیت سے آئے اور بجائے یہاں کے اسلامی اقدار جیسے کرپشن اور رشوت سے پاک معاشرہ اپنانے کے اپنی کرپٹ آبائی معاشرت کے کرتوت یہاں بھی نافذ کرنے شروع کر دیجئے جسکی تباہ کاریوں کی وجہ سے وہ اپنے علاقوں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہوئے تھے!!! یہی وہ تلخ حقیقت ہے جس کے بارہ میں لکھتے ہوئے ہاتھ کانپتے ہیں اور یہ یہاں کا Open Secret بھی ہے۔
عجب زنانہ طرز فکر ہے۔
آپ سے ایسی توقع تو نہیں تھی، لیکن خیرہم مسلمانوں نہیں آپ مسلمانوں کی طرز معاشرت میں فطور چھپا ہے۔ آپ ہیں وہاں۔۔۔ جن کو نقصان ہیں۔ ہم اپنے ملک میں آزاد بیٹھے ہیں۔ ہم کو طعنے نہیں ملتے۔ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی کرپشن کا الزام ناروے و فن لینڈ میں بیٹھے لوگوں پر نہیں لگاتے۔ اور جو لوگ یہاں سے چھوڑ کر گئے ہیں۔ یقینا ان کو اپنے طرز فکر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ نے ایک چیز کو چھوڑ دیا۔ اور آپ کو پتا ہے آپ نے واپس نہیں آنا۔ تو پھر ہر بار آپ کو مسلم مسلم کی رٹ لگا کر طرز معاشرت کو گالیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر آپ کو اس طرز معاشرت سے اتنی ہی گھن آتی ہے تو کسی کلیسا میں جا کر مقدس پانی سے نہائیے۔ اور ان تمام طعنوں سے جان چھڑا لیجیے جو آپ کو مسلم ہونے کے نام پر دیے جاتے ہیں۔
مجبوری سی مجبوری ہے خیال بھائی کہ " الجھا ہوا سا کوئی مجھ میں ہے "شاہ جی ایک تو میں آپ کے تبصرے ہی سمجھتا رہ جاتا ہوں۔۔۔۔
آپ کی محبت ہے شاہ جی۔۔۔ دعا دیتے رہا کریں۔
دن رات اسلام کو گالیاں سن سن کر پک گیا ہوں۔۔۔ اگر اتنے ہی اکتائے ہیں لوگ تو اپنا اور دوسروں کو بھلا کیوں نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام وہ ہے جو میری ذات کے اعمال ہے تو اس کی سوچ اور سمجھ بوجھ کو سلام ہے۔ آپ کو برا لگا۔ ہم مدون کر دیتے ہیں مراسلہ۔۔۔۔ ہم نے اپنی طرف سے نیکی کی تھی۔آپ سے ایسی توقع تو نہیں تھی، لیکن خیر
نوٹ: تدوین کی گئی۔
ہم مسلمانوں کی طرز معاشرت ہی میں اصل فتور چھپا ہے۔
فن لینڈ کا نام استعمال کرنے پر بھی ہم نے اپنی وضاحت پیش کر دی ہے۔ اس کا آپ سے تعلق نہین ہے۔نہیں، رہنے دیجئے، کہ کبھی کبھی ایسی باتیں بھی سن لینی چاہیئں
اگر معاشرے کی جائز تنقید اس پر کیچڑ اچھالنا ہے تو اوپر مثبت بحث و مباحثہ اور برداشت والا دعویٰ تو دھرا کا دھرا ہی رہ گیا۔ میری اسلام سے کوئی دشمنی یا اختلاف نہیں ہے البتہ مسلم اکثریت ممالک سے یقیناً ہے جو نام تو اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن اسلامی طرز معاشرت ان میں دور دور تک نہیں پائے جاتے۔ مجھے اعتراض یہ ہے کہ جب اسلامی اقدار کو معاشرے میں اپنا نہیں سکتے تو اسلام کا نام لیکر اسے بدنام کیوں کرتے ہیں کہ ہم تو بڑی شریعت پر چل رہے ہیں۔سب سے پہلی بات کہ میری بات کا محور محض میرا معاشرہ ہے۔ پاکستانی معاشرہ۔ جہاں میں رہتا ہوں۔ ناروے میں کیا ہوتا ہے۔ دیگر مسلم ممالک کی معاشرت کیا ہے۔ نہ میں ان کے عروج کا ذمہ دار ہوں۔ اور نہ مجھے دوسری جگہ پر بیٹھ کر دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا شوق ہے۔ جبکہ آپ کی تان بار بار اسلام پر ہی آکر ٹوٹ رہی ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے اس سوچ پر کہ کسی بھی کام کی عالم اسلام پر کس طرح ٹھاپ لگائی جا سکتی ہے۔
یہ سب باتیں حقائق سے عاری ہیں اور دیسی ممالک میں مغربی تعصب کی وجہ سے پھیلی ہوئی ہیں۔ کتے تو قائد اعظم کے پاس بھی گھر وں میں پالے گئے تھے۔ اسکا بہترین طرز معاشرت سے کوئی تعلق نہیں۔ملک کی اکثریت مددگار اور مروت کی مالک ہے۔ مہمان نوازی ابھی تک قائم ہے۔ لوگ بزرگوں کے منہ ہی سہی خاموش ہوجاتے ہیں۔ ابھی تک بدلحاظی کا وہ عالم نہیں ہے جو کہ مغربی ممالک کا خاصہ ہے۔ ماں باپ کی بجائے کتوں کو اہمیت نہیں دی جاتی۔ اور دین الحمداللہ یہاں بہت بہتر حالت میں ہے۔ میرے ان دوستوں کو اس بارے میں پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں ہے۔ جن کے اپنے معاشرے کی اخلاقی حالت ناگفتہ ہو۔
پھر وہی تعصب سے بھرپور فضول بات۔ یہاں کا موسم اکثر سرد رہتا ہے۔ ستمبر سے مئی تک خاصی ٹھنڈ ہوتی ہے۔ اس دوران کہیں بھی آپکو کم کپڑے زیب تن کئے ہوئے لوگ نہیں ملیں گے۔ جون سے اگست تک گرم موسم کی شدت سے بچنے کیلئے لوگ کھلے ڈلے ہو کر پھرتے ہیں۔ اور اگر وہ کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچا رہے یا ایزا نہیں دے رہے تو ہمیں کیا تکلیف ہے انکے لباس سے؟ جب انہیں ہمارے شلوارقمیص سے کوئی مسئلہ نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں مجبور کرنے والے کہ گرمیوں میں بھی سردیوں والا پورا لباس پہنو!اگر سب لوگ عریاں ہوں تو کپڑے نہیں پہننے چاہیے۔۔۔ میں بھی اس بات کا قائل ہوں۔ آپ اپنے معاشرے میں سدھار میں کردار ادا کیجیے۔ وہاں کے لوگ جو بدکرداری اور بدفعلی کرتے ہیں۔ ان کے کام یہاں بیٹھوں کے سر منڈھنے چھوڑیے۔ اگر آپ وہاں کل کسی جرم میں پکڑے جائیں گے تو بھی لوگ پاکستان کو ہی گالیاں دیں گے۔ جو کہ سراسر ظلم ہوگا۔
طرز فکر زنانہ یا مردانہ نہیں ہوتا جناب جیسے کوئی مشین مسلمان یا ہندو نہیں ہوتی! یہ لوگ مسلمانوں کی آمد سے قبل دودھ کے دھلے تو نہیں تھے لیکن کرپشن، ٹیکس چوری، رشوت خوری اورحکومتی مراعات (social benefits) کے غلط استعمال سے ضرور عاری تھے ۔ انہیں یہ سب کرنا تارکین وطن نے ہی اپنے اعمال صالحہ سے سکھایا کیونکہ ان مقامیوں کے نزیک ایسی بدتہذیبی یعنی قومی خزانے کو ٹھگنے والا غدار وطن ہوتا ہے اور اسی لئے اس قسم ک جرائم کی سزا سب سے سخت دی جاتی ہے جب آپ دانستہ طور پر ملکی املاک یااثاثوں کو نقصان پہنچائیں۔ جبکہ ہمارے دیسی معاشروں میں لوگ کرپشن، رشوت کے ذریعہ ارب پتی بن جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ طعنہ نہیں کڑوا سچ ہے۔جی بالکل۔ ناروے والے لوگ تو دودھ کے دھلے تھے۔ اور دنیا سے سیدھے جنت میں جاتے تھے۔ پھر پاکستان سے آپ جیسے کچھ پاکستانی وہاں پہنچ گئے۔ اور ان کےلئے جہنم کا سامان کرنے لگے۔ حد ہے۔ اگر کوئی آدمی کسی معاشرے میں گناہ کرتا ہے تو وہ اسی معاشرے کا سزاوار ہوتا ہے نہ کہ اس سے ہزاروں میل دور بیٹھے لوگ بھی ان کے طعنے سنیں۔ عجب زنانہ طرز فکر ہے۔
جناب ہمیں یہاں کوئی مسلمان ہونے کے نام پر طعنہ نہیں دیتا۔ یہ ناروے ہے، بھارت یا اسرائیل نہیں جہاں مسلمانوں کیساتھ متعصبانہ اسلوک کیا جائے۔ یہاں پاکستانی مسلمان اس معاشرے کا مکمل حصہ ہیں اور ہر شعبہ زندگی میں انکی چھاپ ہے خواہ وہ میڈیا ہو، فلم و موسیقی ہو، کھیل ہو، سیاست ہو، تعلیم ہو، تجارت ہو الغرض ہر میدان میں یہاں پاکستانی اونچی پوسٹس پر پائے جاتے ہیں۔ خود میں ناروے کی سب سے بڑی سول انجینئرنگ فرم کے آئی ٹی ٹیک ڈیپارٹمنٹ کا انچارج ہوں۔ میرے مقابلہ میں کئی مقامی نارویجن تھے لیکن چونکہ میرا تجربہ زیادہ تھا اسلئے میرٹ پر میرا انتخاب کیا گیا۔ہم مسلمانوں نہیں آپ مسلمانوں کی طرز معاشرت میں فطور چھپا ہے۔ آپ ہیں وہاں۔۔۔ جن کو نقصان ہیں۔ ہم اپنے ملک میں آزاد بیٹھے ہیں۔ ہم کو طعنے نہیں ملتے۔ ہم اپنے معاشرے میں ہونے والی کرپشن کا الزام ناروے و فن لینڈ میں بیٹھے لوگوں پر نہیں لگاتے۔ اور جو لوگ یہاں سے چھوڑ کر گئے ہیں۔ یقینا ان کو اپنے طرز فکر پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جب آپ نے ایک چیز کو چھوڑ دیا۔ اور آپ کو پتا ہے آپ نے واپس نہیں آنا۔ تو پھر ہر بار آپ کو مسلم مسلم کی رٹ لگا کر طرز معاشرت کو گالیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اگر آپ کو اس طرز معاشرت سے اتنی ہی گھن آتی ہے تو کسی کلیسا میں جا کر مقدس پانی سے نہائیے۔ اور ان تمام طعنوں سے جان چھڑا لیجیے جو آپ کو مسلم ہونے کے نام پر دیے جاتے ہیں۔
آپ نے میرے مباحثے کو اسلامی مباحثہ بنانے کی ہر کوشش کر ڈالی ہے۔۔۔ آپ کو پاکستانی معاشرے کا جتنا علم ہے وہ آپ کے مراسلے سے بہہ رہا ہے۔ اور آپ کو دوسروں کے اسلام کی اتنی فکر کیوں ہے۔ آپ اپنی فکر کیوں نہیں کرتے۔اگر معاشرے کی جائز تنقید اس پر کیچڑ اچھالنا ہے تو اوپر مثبت بحث و مباحثہ اور برداشت والا دعویٰ تو دھرا کا دھرا ہی رہ گیا۔ میری اسلام سے کوئی دشمنی یا اختلاف نہیں ہے البتہ مسلم اکثریت ممالک سے یقیناً ہے جو نام تو اسلام کا نام لیتے ہیں لیکن اسلامی طرز معاشرت ان میں دور دور تک نہیں پائے جاتے۔ مجھے اعتراض یہ ہے کہ جب اسلامی اقدار کو معاشرے میں اپنا نہیں سکتے تو اسلام کا نام لیکر اسے بدنام کیوں کرتے ہیں کہ ہم تو بڑی شریعت پر چل رہے ہیں۔
میری بات تعصب سے بھرپور ہی سہی۔ لیکن جواب اس قدر گھٹیا بیکار ہے کہ جواب دینے کو بھی دل نہیں کیا۔ کپڑے پہنے سے مراد کسی معاشرے کا رنگ قبول کرنا ہے کہ جس میں ہو۔۔۔ لیکن آپ کی سطحی سوچ میں کچھ آتا ہو تو بندہ بات کرے۔۔۔ پہلے آپ اردو کے محاورات سیکھ لیں۔ پھر آگے بحث کیجیے گا۔پھر وہی تعصب سے بھرپور فضول بات۔ یہاں کا موسم اکثر سرد رہتا ہے۔ ستمبر سے مئی تک خاصی ٹھنڈ ہوتی ہے۔ اس دوران کہیں بھی آپکو کم کپڑے زیب تن کئے ہوئے لوگ نہیں ملیں گے۔ جون سے اگست تک گرم موسم کی شدت سے بچنے کیلئے لوگ کھلے ڈلے ہو کر پھرتے ہیں۔ اور اگر وہ کسی کو جانی نقصان نہیں پہنچا رہے یا ایزا نہیں دے رہے تو ہمیں کیا تکلیف ہے انکے لباس سے؟ جب انہیں ہمارے شلوارقمیص سے کوئی مسئلہ نہیں تو ہم کون ہوتے ہیں انہیں مجبور کرنے والے کہ گرمیوں میں بھی سردیوں والا پورا لباس پہنو!
ناپیا نئیں۔۔۔ "ہن تے نپیا گیا اے۔۔۔۔ "میرا خیال ہے کہ یہاں اتنا کہہ دینا کافی ہے
ہن تے ناپیا گیا اے۔۔۔
اور بات یہیں روک دیں
وہ نسل اس ملک میں آباد ہے۔ اور وہی اس ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی۔ آپ کی اور بہت سی مشکلات بھی حل ہوجائیں گی اگر آپ اپنے معاشرے پر توجہ دیں۔ اور جس معاشرے کو آپ نے ٹھکرا دیا۔ اس میں بسنے والوں کو کوسنا چھوڑ دیں۔میں بہت پریشان تھا کہ عمران خان جس علامہ اقبال اور قائد اعظم کے انصاف پسند، فلاحی ریاست کی بات کرتا ہے اسکا نظریہ نو جوانوں کی سمجھ میں تو آجاتا ہے البتہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ اسکی کبھی مذہب کے نام پر، کبھی اسکے ماضی کے نام پر اور کبھی مغرب کے نام پرمخالفت کیوں کرتے ہیں۔ میں آپکا تہہ دل سے مشکور ہوں کہ آپنے میری یہ دیرینہ مشکل حل کردی ۔
اوہو بھائی جان۔ آپ ہمارے بڑے ہیں۔ ایک تو مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ کیا اسلامی طرز معاشرت پر تنقید ایک Taboo ہے؟ یہی تو وہ بات ہے جو میں نے اوپر عالم اسلام میں آزاد خیال مسلم حکیموں، فلسفیوں، مفکروں کی غیر موجودگی کے بارہ میں کی تھی کہ تاریخ اسلام کے پہلے تین سو سال تک تو یہ موجود رہے اور پھر اسلامی انتہاء پسندی اور تنگ نظری نے انہیں اپنی لپیٹ میں لیکر انکا مکمل صفایا کردیا۔دن رات اسلام کو گالیاں سن سن کر پک گیا ہوں۔۔۔ اگر اتنے ہی اکتائے ہیں لوگ تو اپنا اور دوسروں کو بھلا کیوں نہیں کرتے۔ اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اسلام وہ ہے جو میری ذات کے اعمال ہے تو اس کی سوچ اور سمجھ بوجھ کو سلام ہے۔ آپ کو برا لگا۔ ہم مدون کر دیتے ہیں مراسلہ۔۔۔۔ ہم نے اپنی طرف سے نیکی کی تھی۔
یہی سروے پاکستان میں کرا کر دیکھیں۔ بلکہ ایسا کریں کہ خالی گوگل ٹرینڈز میں جاکر سب سے زیادہ فحاشی اور عریانی سرچ کرنے والی اقوام کے اعداد و شمار دیکھ لیں۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے گا۔فن لینڈ کا نام ہم نے اس لئے لکھا تھا کہ کچھ عرصہ قبل ہماری آنکھوں کے سامنے سے ایک سروے گزرا تھا۔ جس میں دس ہزار لڑکیوں سے ایک سوال پوچھا گیا۔ اور ان میں سے 87فیصد نے اس کا مثبت جواب دیا۔ خیر۔۔۔۔
نہیں، رہنے دیجئے، کہ کبھی کبھی ایسی باتیں بھی سن لینی چاہیئں
اختلاف رائے آپ کا حق ہے۔ اسے کون چھین رہا ہے بھلا۔ البتہ یہ ضرور بتائیں کہ آپ کا اسپر کیا اختلاف ہے۔محترم بھائی آپ تو بلا تفریق " گیہوں کے ساتھ گھن " کو بھی پیس گئے ۔ کچھ تو چھان پھٹک کرنی تھی ۔
آپ کے اس جملے سے مکمل اختلاف کرتا ہوں ۔
قیصرانی صاحب کا تعلق غالباً پاکستان سے ہے۔ فن لینڈ میں تو بس سیر سپاٹے کرتے ہیں۔فن لینڈ کا نام استعمال کرنے پر بھی ہم نے اپنی وضاحت پیش کر دی ہے۔ اس کا آپ سے تعلق نہین ہے۔