امريکہ سميت دنيا کا کوئ بھی ملک جنگ کی خواہش نہيں رکھتا۔ اس انتہائ نقطے پر پہنچنے سے پہلے تمام ممکنہ متبادل سياسی اور سفارتی امکانات اور آپشنز کو استعمال کيا جاتا ہے۔ ان تمام کوششوں ميں ناکامی کے بعد ہی اجتماعی سطح پر جنگ کا فيصلہ کيا جاتا ہے۔ يہ بھی ايک حقیقت ہے کہ حالات چاہے جيسے بھی ہوں، جنگ کی ايک بھاری سياسی قيمت بھی ہوتی ہے جو برسراقتدار حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے۔ معاشی مشکلات اور بے گناہ افراد کی ہلاکت بھی جنگ کی ايسی حقيقتيں ہيں جن سے انکار نہيں کيا جا سکتا۔
يہ تمام عوامل اس بحث اور حکمت عملی کا حصہ ہوتے ہیں جن پر جنگ کے حتمی فيصلے سے قبل سب کو اعتماد ميں لیا جاتا ہے۔ ليکن اس سارے عمل کے باوجود ملک اور قوم کے دفاع کو درپيش واضح خطرات کو نظرانداز نہيں کيا جا سکتا۔ جب کچھ تجزيہ نگار 911 کے بعد امريکہ کی دہشت گردی کے خلاف جنگ کو غير منطقی اور انتہائ جذباتی ردعمل قرار ديتے ہيں تو وہ ان حقائق اور خطرات کو نظرانداز کر ديتے ہيں جن کا سامنا امريکی حکومت کو اس حادثے کے فوری بعد کرنا تھا۔ اس وقت حقائق کچھ يوں تھے۔
القائدہ کی جانب سے امريکہ کے خلاف باقاعدہ جنگ کے اعلان کے بعد قريب 10 سال کے عرصے ميں دنيا بھر ميں امريکی املاک پر حملے کرنے کے بعد يہ تنظيم اتنی فعال اور منظم ہو چکی تھی کہ امريکہ کے اہم شہروں سميت اس کے عسکری مرکز پينٹاگان پر براہراست حملہ کيا گيا۔
اس واقعے کے بعد امريکہ سميت دنيا کے کئ ممالک ميں القائدہ کی جانب سے مزيد ايسی ہی کاروائياں کرنے کی يقين دہانی بھی ريکارڈ پر موجود ہے۔
حکومت پاکستان کے ذريعے امريکہ نے طالبان کے ساتھ 2 ماہ تک مذاکرات کيے جن کا مقصد اسامہ بن لادن کی گرفتاری اور افغانستان ميں اس تنظيم کو تحفظ فراہم نہ کرانے کی يقين دہانی حاصل کرنا تھا۔ ليکن طالبان نے ان مطالبات کو ماننے سے صاف انکار کر ديا۔
ان حالات ميں امريکہ کے سامنے کيا متبادل راستہ باقی رہ گيا تھا؟
آپ يقينی طور پر امريکی حکومت سے يہ توقع نہيں رکھ سکتے کہ وہ ملکی سلامتی کے اہم ترين فوجی فيصلے رائے عامہ کے رجحانات اور مقبوليت کے گراف کی بنياد پر کرے۔
جب آپ 911 کے بعد امريکہ کی پاليسی کے بارے ميں رائے کا اظہار کرتے ہیں تو يہ حقیقت بھی سامنے رکھنی چاہيے کہ اگر اس واقعے کے بعد بھی القائدہ کے خلاف کاروائ نہ کی جاتی تو اس کے کيا نتائج نکلتے۔ اگر القائدہ کی دو تہائ سے زائد ہلاک اور گرفتار ہونے والی قيادت آج بھی سرگرم عمل ہوتی تو اس تنظيم کی کاروائيوں ميں مزيد اضافہ ہوتا اور القائدہ کا يہ پيغام دہشت گردی کی صفوں ميں شامل ہونے والے نوجوانوں کے ليے مزيد حوصلہ افزائ اور تقويت کا سبب بنتا کہ دنيا کی سب سے بڑی فوجی طاقت رکھنے والے ملک اور اس کی حکومت کو بھی دہشت گردی کے ذريعے سياسی دباؤ ميں لا کر اپنے مطالبات اور مطلوبہ مقاصد حاصل کيے جا سکتے ہیں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov