طالوت
محفلین
اس تفصیلی جواب کے لئے شکریہ فواد ۔ میری نظر سے شاید پہلے نہیں گزرا ۔ مگر سوال یہ ہے کہ آیا امریکہ یا اس کے اتحادیوں کو کس قانون کے تحت یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ عراقی عوام کو انصاف دلانے کے لئے ان پر حملہ آور ہوں اور ان کے قتل عام میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شریک ہوں ۔ یہی کاروائی امریکہ برما میں کب کر رہا ہے ؟ مصر جہاں بلاگ لکھنا بھی جرم ہے اور حسنی مبارک کی بدمعاشیاں عروج پر ہیں اس پر کب شروع کی جا رہی ہے ؟ فلسطین میں اسرائیل کے مظالم پر کب امریکہ اسرائیل پر حملہ کر رہا ہے ؟ مشرف کے آمرانہ دور میں جو رویہ پاکستان کی عوام کے ساتھ رکھا گیا اس پر کونسا ڈرون مشرف پر حملہ آور ہوا ؟ ابھی حال ہی میں روس نے ایک پڑوسی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور چیچنیا کا بیڑا غرق کر رکھا ہے انھیں انصاف کیوں نہیں دیا جا رہا ؟ سعودی عرب اور ایران بھی امریکی ازادی پالیسی کے تحت مجرم ہیں ان پر یہ انصاف کیوں لاگو نہیں کیا جاتا ؟ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکی حکومت کا موقف ميں پہلے بھی اس فورم پر پيش کر چکا ہوں۔ آپ کی خواہش پر ايک مرتبہ پھر پوسٹ کر رہا ہوں۔
اس حوالے سے يہ بھی اضافہ کرنا چاہوں گا کہ اگر سال 2003 ميں امريکی حملے سے پہلے عراق کی صورت حال اور اس پر عالمی رائے عامہ کا جائزہ ليں تو يہ واضح ہے کہ عالمی برداری اور بالخصوص امريکہ پر صدام حسين کی جانب سے عراقی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم پر خاموشی اور مناسب کاروائ نہ کرنے پر مسلسل شديد تنقيد کی جاتی رہی ہے۔ کئ غير جانب دار تنظيموں کی جانب سے ايسی بے شمار رپورٹس ريکارڈ پر موجود ہيں جن ميں عراقی عوام پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستانيں رقم ہیں۔
جب ڈبليو – ايم – ڈی کا معاملہ دنيا کے سامنے آيا تو صدام حسين نے اس ضمن ميں تعاون اور عالمی برداری کی جانب سے اٹھائے جانے والے سوالات کا جواب دينے سے صاف انکار کر ديا۔ يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ 911 کے واقعات کے بعد کسی بڑی دہشت گردی کی کاروائ کوئ غير حقيقی يا ناقابل يقين بات نہيں تھی۔
يہ درست ہے کہ امريکہ کی جانب سے عراق ميں کاروائ کی بڑی وجہ ڈبليو – ايم – ڈی ايشو کے حوالے سے امريکہ کے تحفظات تھے۔ يہ بھی درست ہے کہ ڈبليو – ايم – ڈی کے حوالے سے انٹيلی جينس غلط ثابت ہوئ۔ ليکن انٹيلی جينس رپورٹس کی ناکامی کسی بھی صورت ميں صدام حسين کو "معصوم" ثابت نہيں کرتيں۔ صدام حسين ايک ظالم حکمران تھا جس کی حکومت عراق کے ہمسايہ ممالک سميت خود عراق کے اندر بے شمار انسانوں کی موت کا سبب بنی۔ صدام حکومت کے خاتمے کے نتيجے ميں عراق بالخصوص اور يہ خطہ بالعموم ايک بہتر مستقبل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ اس حقيقت کا ادراک عراق ميں تشدد کے واقعات ميں بتدريج کمی اور جمہوری نظام کی مضبوطی کے نتيجے ميں بڑھتا جا رہا ہے۔
ڈبليو – ايم – ڈی ايشو – امريکی حکومت کا موقف
امريکہ کی خارجہ پاليسی کے حوالے سے کيے جانے والے سارے فيصلے مکمل اور غلطيوں سے پاک نہيں ہيں اور نہ ہی امريکی حکومت نے يہ دعوی کيا ہے کہ امريکہ کی خارجہ پاليسی 100 فيصد درست ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ عراق ميں مہلک ہتھياروں کے ذخيرے کی موجودگی کے حوالے سے ماہرين کے تجزيات غلط ثابت ہوئے۔ اور اس حوالے سے امريکی حکومت نے حقيقت کو چھپانے کی کوئ کوشش نہيں کی۔ بلکل اسی طرح اور بھی کئ مثاليں دی جا سکتی ہيں جب امريکی حکومت نے پبلک فورمز پر اپنی پاليسيوں کا ازسرنو جائزہ لينے ميں کبھی قباحت کا مظاہرہ نہيں کيا۔
اس ايشو کے حوالے سے بل کلنٹن انتظاميہ اور سابقہ امريکی حکومت کے علاوہ ديگر ممالک کو جو مسلسل رپورٹس ملی تھيں اس ميں اس بات کے واضح اشارے تھے کہ صدام حسين مہلک ہتھياروں کی تياری کے پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ اس حوالے سے صدام حسين کا ماضی کا ريکارڈ بھی امريکی حکام کے خدشات ميں اضافہ کر رہا تھا۔ نجف، ہلہ،ہلاجہ اور سليمانيہ ميں صدام کے ہاتھوں کيميائ ہتھیاروں کے ذريعے ہزاروں عراقيوں کا قتل اور 1991 ميں کويت پر عراقی قبضے سے يہ بات ثابت تھی کہ اگر صدام حسين کی دسترس ميں مہلک ہتھياروں کا ذخيرہ آگيا تواس کے ظلم کی داستان مزيد طويل ہو جائے گی۔ خود صدام حسين کی جانب سے مہلک ہتھياروں کو استعمال کرنے کی دھمکی ريکارڈ پر موجود ہے۔ 11 ستمبر 2001 کے حادثے کے بعد امريکہ اور ديگر ممالک کے خدشات ميں مزيد اضافہ ہو گيا۔
1995 ميں جب صدام حسين کے داماد حسين کمل نے عراق سے بھاگ کرجارڈن ميں پناہ لی تو انھوں نے بھی صدام حسين کے نيوکلير اور کيميائ ہتھياروں کے حصول کے ليے منصوبوں سے حکام کو آگاہ کيا۔ 2003 ميں امريکی حملے سے قبل اقوام متحدہ کی سيکيورٹی کونسل عراق کو مہلک ہتھياروں کی تياری سے روکنے کے ليے اپنی کوششوں کا آغاز کر چکی تھی۔
يہی وجہ ہے کہ جب اقوام متحدہ کئ تحقيقی ٹيموں کو عراق ميں داخلے سے روک ديا گيا تو نہ صرف امريکہ بلکہ کئ انٹرنيشنل ٹيموں کی يہ مشترکہ رپورٹ تھی کہ صدام حکومت کا وجود علاقے کے امن کے ليے خطرہ ہے۔ ميں آپ کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی ايک رپورٹ اور ايک ویب سائيٹ کا لنک دے رہا ہوں جس ميں صدام کے ظلم کی داستان تفصيل سے پڑھ سکتے ہيں۔
http://www.usaid.gov/iraq/pdf/iraq_mass_graves.pdf
http://massgraves.9neesan.com/
يہ رپورٹ پڑھنے کے بعد يہ فيصلہ ميں آپ پر چھوڑتا ہوں کہ عراق کے مستقبل کے ليے کيا صورتحال زيادہ بہتر ہے صدام حسين کا وہ دوراقتدار جس ميں وہ اپنے کسی عمل کے ليے کسی کے سامنے جوابدہ نہيں تھے اور سينکڑوں کی تعداد ميں عراقيوں کو قید خانوں ميں ڈال کر ان پر تشدد کرنا معمول کی بات تھی يا 12 ملين عراقی ووٹرز کی منتخب کردہ موجودہ حکومت جو عراقی عوام کے سامنے اپنے ہر عمل کے ليے جوابدہ ہے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ حکومت سازی کے حوالے سے ابھی بھی بہت سے مسائل ہيں ليکن مستقبل کے ليے اميد افزا بنياديں رکھ دی گئ ہيں۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
کیا صرف صدام حسین ہی دنیا میں ظالم ترین فرد ہے ؟ کہ اسے پھانسی پر لٹکا دیا جائے ؟ اور ان امریکیوں کو محض چند سال کی قید ہو جو پہلے ریپ کرتے ہیں اور پھر خاندان کا خاندان بھون ڈالتے ہیں ؟
فواد میاں بلاشبہ امریکہ ایک عظیم ملک ہے اور امیریکیوں کی انسانیت کے لئے خدمات عظیم تر ہیں مگر روٹی کے ٹکڑے کے لئے کوئی اپنا یا اپنے کسی کا خون بہتا نہیں دیکھ سکتا ۔ عبداللہ کا مراسلہ فکر میں مبتلا کر دینے کے لئے کافی ہے مگر نہیں ! چوروں ، ڈاکوؤں ، غنڈوں کی نسل سے اس کے علاوہ اور امید بھی کیا کی جا سکتی ہے ۔ پہلے مقامی امریکیوں کا قتل عام کیا ، پھر افریقیوں پر انسانیت سوز ظلم کئے اب عربوں اور ایشائی لوگوں کے خون سے ہاتھ رنگنے والے امریکی بھی امریکہ میں بھی سکون سے نہ رہ سکیں گے ۔
وسلام