امجد علی راجا
محفلین
ہے کون کون اہلِ وفا دیکھتے رہو
دیتا ہے کون کون دغا دیکھتے رہو
پوچھا جو زندگی سے کہ کتنے ستم ہیں اور
بس مسکرا کر اس نے کہا، دیکھتے رہو
رکھا کسی نے بام پہ ٹوٹا ہوا چراغ
اور ہے غضب کی تیز ہوا، دیکھتے رہو
اٹکی ہوئی ہے جان مرے لب پہ چارہ گر
شاید وہ آہی جائے ذرا دیکھتے رہو
انجام ہے تباہی تکبر ہو یا غرور
ہر شخص بن گیا ہے خدا، دیکھتے رہو
عریاں ہوا ہے حسن نمائش کے شوق میں
نایاب ہو گئی ہے حیا، دیکھتے رہو
کرتے ہو حق کی بات ستمگر کے روبرو
راجا تمہیں ملے گی سزا دیکھتے رہو