نایاب، یادگار غالب پر کام کا آغاز تو میں نے ہی کئی سال قبل کیا تھا۔ اس کے چند برقیائے گئے صفحات یہاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ مجھے جہاں تک یاد پڑتا ہے، شگفتہ نے بھی اس پر کام کیا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں وہ خود بہتر بتا سکیں گی۔
نایاب صاحب اس کتاب پر کام شروع کر دیں۔ ماشااللہ آپ ہی تو اس لائبریری کے روحِ رواں ہیں۔
نایاب بھائی بلاشبہ لائبریری کے لیے ایک سرمایہ ہیں ۔
تصحیح :
درست املاء روح و رواں ہے ۔ "روحِ رواں" غلط رائج شدہ املاء ہے ۔
نایاب بھائی بلاشبہ لائبریری کے لیے ایک سرمایہ ہیں ۔
تصحیح :
درست املاء روح و رواں ہے ۔ "روحِ رواں" غلط رائج شدہ املاء ہے ۔
دیوانگالب میرے پاس بھی ھے بہت خوبصورت کاپی فیروز سننز کی
سیدہ اس کا کوئی حوالہ بھی دیں۔ ویسے املا کی املا بھی آپ نے غلط لکھی ہے۔ املا کے آخر میں ہمزہ نہیں ہوتا۔
اردو زبان کی بنیادوں میں عربی اور فارسی کا چونکہ زیادہ اور گہرا حصہ رہا ہے اس لحاظ سے اردو میں کئی الفاظ ایسے استعمال ہوتے رہے ہیں پہلے کہ جن کے آخر میں ھمزہ ساکن موجود ہو اور یہ ھمزہ املاء میں بھی موجود رہتی تھی ۔ گذرتے وقت کے ساتھ اس کا استعمال ترک ہوتا گیا اور اب ھمزہ اس شکل میں کہیں اور کبھی کبھار ہی نظر آئے گی ورنہ نہیں ۔ املاء کے علاوہ ، انشاء ، زھراء ، اسماء اور بہت سے دوسرے الفاظ اسی قبیل کے ہیں ۔
فرخ بھائی ، یہ مفہوم تو اپنی ساخت و معانی سے ہی اظہر من الشمس ہے ۔ انٹرنیٹ پر تو آپ کو فی الحال میری ہی ایک تحریر کا حوالہ ملے گا جو میں نے کافی پہلے یہاں اردو محفل پر پوسٹ کی تھی ، یہاں کسی زمرہ میں موجود ہے۔ نیٹ پر اگر مزید کسی نے اس بارے میں نشاندہی کی ہوئی ہو تو مجھے معلوم نہیں ابھی تک ۔ میرے لیے پہلا حوالہ ہماری ماسٹرز میں فائنل ایئر میں کلاس ڈسکشن جس میں ہمیں استاد نے اس بارے میں آگاہ کیا ۔
گرائمر کے پس منظر میں اس کے ہجے اور معانی پر غور کریں :
روحِ رواں : اس کا مطلب ہوا "رواں کی روح"
روح و رواں : اس کا مطلب ہوا "روح اور رواں"
اب اس مرکب کو جملے کی مثال میں دیکھیں :
آپ لائبریری کے روحِ رواں ہیں
اس جملے کا مطلب : آپ لائبریری کے رواں کی روح ہیں ۔
(یہ معنی مھمل ہے)
لیکن اگر روح و رواں استعمال ہو جملہ میں تو معانی صاف اور قطعی و واضح ہیں ۔
خوشی صاحبہ یہ تو واقعی کوئی ایسی چیز ہے جو صرف آپ کے پاس ہی ہوگی۔