یادگار لمحات

شمشاد

لائبریرین
یہ اس دھاگے کو مقفل کس نے کیوں کر دیا تھا بھائی؟ پہلے اطلاع تو دینی تھی کہ مقفل کر رہا ہوں، خیر چابی میرے پاس بھی تھی میں نے کھول دیا ہے۔
 

زیک

مسافر
شمشاد نے کہا:
یہ اس دھاگے کو مقفل کس نے کیوں کر دیا تھا بھائی؟ پہلے اطلاع تو دینی تھی کہ مقفل کر رہا ہوں، خیر چابی میرے پاس بھی تھی میں نے کھول دیا ہے۔

شمشاد: پچھلے چند صفحے پڑھ لیں تو مقفل کرنے کی وجہ سمجھ آ جائے گی۔
 

شمشاد

لائبریرین
بہت دیر کی بات ہے، اس وقت ابھی پنڈی سے لاہور تک موٹر وے نہیں بنا تھا، تو ظاہر ہے ساری ٹریفک جی ٹی روڈ پر چلتی تھی۔

کاروباری لوگ رات کے سفر کو ترجیح دیتے ہیں کہ رات کی رات میں سفر کر لیں اور دن کے شروع میں ہی اپنا کام کر کے واپس آ سکیں۔

رات کو 12 بجے ایک ویگن لاہور کے لیے روانہ ہوئی، ابھی روات کے قریب پہنچے تھے کہ پولیس نے ناکہ لگایا ہوا تھا جہاں رکنا پڑا۔ پولیس نے ہر مسافر کا بیگ یا جو بھی سامان تھا کھلوا کر دیکھا۔ ایک صاحب کے بریف کیس میں دو لاکھ روپے تھے۔ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ اچانک ایک سودا ہوا ہے، اس کی ادائیگی کرنے جا رہا ہوں۔ خیر پولیس نے جانے دیا۔

کوئی بیس کلو میٹر دور جا کر ڈرائیور نے گاڑی روکی اور ان صاحب کو (جس کے پاس پیسے تھے) کہا کہ آپ اتر جائیں اور کسی دوسری گاڑی سے یا تو واپس چلے جائیں یا اپنی منزل کو روانہ ہوں۔ استفسار پر ڈرائیور نے کہا کہ اب اس ویگن پر ضرور ڈاکہ پڑے گا۔ اگر آپ کو یقین نہیں تو میں کل اپنے اڈے سے شام 4 بجے نکلوں گا، اس سے پہلے آ کر پتہ کر لیجیئے گا۔ یہ میرا نام ہے اور میں فلاں جگہ ملوں گا۔

خیر وہ صاحب اُتر گئے اور ویگن لاہور کے لیے روانہ ہو گئی۔ وہ صاحب بھی بعد میں تقریباً ایک گھنٹہ ٹھہر کے پیچھے سے آنے والی بس میں سوار ہوئے اور دن چڑھے خیریت سے لاہور پہنچے۔ اپنا کام نپٹایا اور تجسس انہیں کشاں کشاں مذکورہ اڈے اور مقام پر لے گیا۔ ان صاحب کو ڈھونڈا۔ انہوں نے بتایا کہ گوجرانوالہ کے قریب ویگن پر ڈاکہ پڑا تھا اور وہ صرف ایک ہی مسافر کو ڈھونڈ رہے تھے جو کہ آپ تھے۔ باقی کسی مسافر کو انہوں نے کچھ نہیں کہا۔

اصل میں یہ سب میرے ایک دوست کے ساتھ ہوا تھا اور اس نے مجھے یہ سب بتایا تھا۔
 

شمشاد

لائبریرین
اخبار میں پڑھا تھا؟ لیکن یہ بات تو اس نے اخبار والوں کو تو بتائی ہی نہیں، آپ نے کیسے پڑھ لیا؟
 

قیصرانی

لائبریرین
اخبار میں آئی تھی یہ۔ پھر اس کا ریفرنس مختلف کالمز میں‌بھی چلتا رہا ہے۔ نوائے وقت، جنگ وغیرہ میں یہ ابھی بھی بعض اوقات استعمال ہو جاتا ہے۔
بےبی ہاتھی
 

ماوراء

محفلین
~~
کافی سال پہلے کی بات ہے۔ کہ میں نے کہیں چوزے دیکھے مجھے اتنے پسند آئے کہ میں نے گھر میں شور مچا دیا کہ میں نے بھی گھر میں چوزے رکھنے ہیں۔ امّی نے مجھے لاکھ سمجھایا کہ چوزے گھر میں کیسے رکھوں گی۔اور ویسے بھی ان کو سنبھالنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔ پر میں نے ایک ہی رٹ لگائی ہوئی کہ مجھے اسی طرح کے چوزے لا کر دیں۔ خیر، امّی کے نہ ماننے پر میں نے کہا کہ میں خود ہی لے آؤں گی۔ آپ بے شک نہ لا کر دیں۔
میں نے امّی سے ساری تفصیل پوچھی کہ انڈے میں سے چوزہ کیسے نکلتا ہے۔ امّی کے بتانے پر کہہ مرغی انڈے سیتی ہے۔ جب انڈوں کو ہیٹ ملتی ہے۔ تو پھر اندر چوزہ بنتا ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
میں نے ہیٹ کا سن کر کہا کہ یہ کون سا مشکل کام ہے۔ میں نے اپنی سسٹر کو ساتھ ملایا۔ اور ایک انڈا لے کر اس کو ایک کپڑے میں اچھی طرح سے ڈھک کر کہیں رکھ دیا تاکہ اس کو گرمی ملتی رہے۔ جب کبھی امّی کھانا بنانے لگتی تو میں اس انڈے کو فوراً نکال کر لے آتی کہ چولھے کے نزدیک رکھتی ہوں۔ بہن ساتھ ہی ہوتی ہم صلاح مشورے سے کہتے کہ ہاں اب بس اتنی ہیٹ بہت ہے۔ دوبارہ اس کو ہم کپڑے میں لپیٹتے اور الماری میں کپڑوں کے نیچے رکھ آتے۔ 21 دن تک کام جاری رکھنا تھا۔ ہم بار بار ان دنوں میں انڈے کو ہلا کر دیکھتے کہ اندر چوزہ بنا ہے یا نہیں۔ یا کوئی آواز آ رہی ہے۔ میری بہن 10،12 دن کے بعد بور ہو گئی۔ کہنے لگی کہ نہیں اس میں سے چوزہ نہیں نکلے گا۔ میں نے اسے بہت سمجھایا کہ اکیس دن انتظار کرو۔ ضرور نکلے گا۔ خیر۔۔۔وہ نہ مانی۔ پھر اس کی میں نے اکیلے ہی کیئر کرنا شروع کی۔ آخر اکیسواں دن آ گیا۔ میں سکول سے آتے ساتھ ہی اس انڈے کو نکلا۔ بہن کو بلایا کہ میں انڈے کا چھلکا اتارنے لگی ہوں۔ دیکھتے ہیں کہ چوزہ نکلتا ہے کہ نہیں۔ میں نے بڑے آرام آرام سے اس کا چھلکا اتارنا شروع کیا۔ مجھے سامنے ہی اندر کچھ کالا سا نظر آیا۔ میں نے منہ سا بنا کر بہن کو بولا کہ اس میں تو کالا چوزہ ہے۔ کہتی ہے اچھا، سارا چھلکا تو اتارو۔ ہم نے چوزے کے پانی اور کھانے کا بندوبست پہلے سے ہی کر کے رکھا ہوا تھا۔ جب میں نے چھلکا اتارا۔ تو کیا دیکھا کہ ۔۔ انڈا اندر سے جل بھن کر کالا ہو چکا تھا۔ چولہے کے نزدیک رکھنے سے کچھ زیادہ ہی ہیٹ مل گئی تھی۔ اس طرح ہمارا مشن ناکام ہو گیا۔

ہم نے امّی کو کچھ نہ بتایا کہ امّی ڈانٹیں گی کہ میں نے سمجھایا تھا کہ اس میں سے کچھ نہیں نکلے گا۔ اور حیرت کی بات یہ ہے۔ کہ امّی بھی اکیس دن تک ہمارے یہ کرتوت دیکھتی رہیں اور ایک بار بھی منع نہیں کیا۔


مجھے کل یہ واقعہ اچانک ہی یاد آیا۔ اور مجھے اتنی ہنسی آئی۔ اور ابھی یہاں یادگار لمحات لکھا دیکھا تو سوچا یہاں بھی لکھ دوں۔ :p
~~
 

شمشاد

لائبریرین
دیکھیں بھئی آپ اس کو مذاق میں مت ٹالیں، ماورا نے اپنی معصومیت آپ سے شیئر کی ہے۔

اس طرح تو کوئی بھی اپنے یادگار لمحات شیئر نہیں کرے گا۔
پہلے ہی یہ دھاگہ ایک دفعہ مقفل ہو چکا ہے اور میں نے زبردستی اسے کھولا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایسی ہی معصومیت کا واقعہ میں آپکو سناؤں۔

ہم ابھی چھوٹے تھے، اور گرمیوں کی چھٹیوں میں ننہال جایا کرتے تھے۔ ان چھٹیوں میں گاؤں میں ایسا لگتا تھا کہ میلہ لگا ہوا ہے۔ ہوتا یہ تھا کہ سب ہی عزیزوں کی آل اولاد دو ماہ کی چھٹیاں گزارنے گاؤں آیا کرتی تھی۔ ہمارے نانا ہمیں اپنے ساتھ حویلی لے جاتے جہاں بھینسیں رکھی ہوتی تھیں۔ دودھ دوہتے وقت وہ دودھ کی دھاریں ہمارے منھ میں مارا کرتے تھے۔

ایک دفعہ میرے ایک ماموں نے کچھ بچوں کی موجودگی میں (جو کہ ہم سب آپس میں کزن ہی تھے) آم کا پودا لگایا۔ ہم سب بہت غور سے دیکھ رہے تھے۔ ماموں نے بتایا کہ کچھ دنوں میں یہ پودا بنے تھا۔ پھر پتے نکلیں گے، پھر یہ درخت بنے گا، پھر اس میں آم لگیں گے، وغیرہ وغیرہ۔

دوسرے یا تیسرے دن کی بات ہے، ہماری ایک کزن ہینڈ پمپ پر اپنا منھ ہاتھ دھونے کے بعد اپنی ننھی منھی سے گھڑی وہیں بھول گئی۔ اس کے بعد میں اور میرا ماموں زاد بھائی منھ ہاتھ دھونے آئے تو وہ گھڑی ہم نے اٹھا لی۔ اور حویلی چلے گئے۔ ہم دونوں نے ملکر اس کو اسی طرح، جیسے ماموں نے پودا لگایا تھا، زمین میں گاڑ دیا، کہ کچھ دنوں کے بعد اس میں چھوٹی چھوٹی گھڑیاں لگیں گی، پھر بڑی گھڑیاں اور اس کے بعد اس میں کلاک لگیں گے۔ گھڑی کے پودے کو پانی وانی دے کر ہم واپس آ گئے۔

واپس گھر آئے۔ تو گھڑی کی ڈھنڈیا پڑی تھی، دو منٹ بعد ہی ماموں زاد نے راز اگل دیا۔ پھر نہ پوچھیں کہ کیا کیا نہ ہوا، بس مار نہیں پڑی لیکن گھر میں نانی سے لیکر نواسیوں تک نے وہ وہ لیکچر پلائے کہ ابھی تک یاد ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
بہت عمدہ شمشاد بھائی۔ گھڑیاں اور کلاک :)
میں نے ایک بار بچپن میں اپنی کزن کو تنگ کیا تھا۔ ہوا یہ کہ میں کوئی 3 سال کا تھا اور میری چھوٹی ماموں زاد اڑھائی سال کی تھی۔ نانا نے سب کو کچھ ڈرائی فروٹ دیا تھا کھانے کو۔ تو میرے حصے کی ایک خوبانی کیڑے والی نکلی۔ تو میں نے چمٹے سے پکڑ کر نالی میں پھینکا چاہی تو میری مذکورہ بالا کزن نے مجھ سے کہا کہ یہ میں کھانا چاہتی ہوں۔ میں نے بتائے بغیر اسے دے دی جو اس نے کھا لی۔ بعد میں جب اسے پتہ چلا تو بہت روئی۔ اس کی امی نے اسے ڈانٹا کہ تم نے دیکھا بھی کہ منصور نے چمٹے سے پکڑی ہوئی ہے اور نالی میں‌پھینکنے جا رہا تھا۔ تو یہ تو تمھارا قصور ہے۔ ابھی تک کزن یاد کرکے ہنستی ہے اور مجھے افسوس ہوتا ہے۔
بےبی ہاتھی
 

زیک

مسافر
بچپن کے تجربات کی بات چلی ہے تو ایک زمانے میں ہمیں electromagnetism کا پتا چلا۔ بس پھر کیا تھا ایک دوست اور میں excited تھے۔ ہم نے سوچا کہ بجائے اس کے لوہے کے گرد تار لپیٹی جائے کیوں نہ لوہے میں سے ہی بجلی گزار دی جائے۔ آخر یہ زیادہ efficient ہو گا۔ سو سکول میں یہ بات کرنے کے بات ہم گھر آئے۔ ہم ایک ہی بلڈنگ میں رہتے تھے۔ شام کو میں نے دو کیل ڈھونڈے۔ ایک تار سے انہیں جوڑا اور electric socket میں ڈال کر سوئچ آن کر دیا۔ بس پھر کیا تھا فوراً بجلی چلی گئی۔ ابو نیچے فیوز دیکھنے گئے تو وہاں میرے دوست کے والد بھی پہنچے ہوئے تھے۔ اصل میں ہم دونوں نے ایک ہی وقت پر یہ تجربہ کیا۔

والد صاحب کو پتہ نہ چلا کہ ہم نے کیا کارستانی کی ہے۔ مگر بعد میں ہمیں علم ہو گیا کہ اس طرح مقناطیس نہیں بنتے۔
 

شمشاد

لائبریرین
آپ ایسی باتیں، جیسے ماورا نے بیان کیا، میں نے لکھا، قیصرانی اور زکریا نے بتایا، یہ سب معصومیت کے زمرے میں آتی ہیں یا بیوقوفی کے کھاتے میں ڈالیں گے؟
 

قیصرانی

لائبریرین
وہی کام جو بچپن میں‌معصومیت کہلاتے ہیں، بڑے ہو کر اگر وہی کام کیے جائیں تو یہ بے وقوفی کہلاتی ہے :D
بےبی ہاتھی
 

قیصرانی

لائبریرین
ماموں‌کی فیملی ہمارے گھر آئی ہوئی تھی، اور ماموں کا بیٹا ایک دن میرے چھوٹے بھائی سے پوچھتا ہے کہ بھائی، جینیٹک انجنیئرنگ سے کیا مراد ہے۔ معلوم تو بھائی کو بھی نہیں تھا، مگر اس نے مثال دے کر سمجھانے کی کوشش کی کہ جیسے ہم جامن کا پودا لگاتے ہیں، وہ بڑا ہوکر فالسے کا درخت بن جائے اور اس پر پھر لسوڑے لگیں، تویہ ہوتی ہے جینیٹک انجنیئرنگ۔ اب وہ بے چارہ بات نہ سمجھ سکا اور دوڑا دوڑا ماموں اور ممانی کے پاس گیا اور کہنے لگا کہ پتہ ہے پھوپھو(میری امی اس کی پھوپھو ہوتی ہیں) کے گھر ایک عجیب سا درخت ہے جو انہوں‌ نے جامن کا پودا لگایا تھا، وہ بڑا ہو کر فالسے کا درخت بنا اور اب اس پر لسوڑے لگتے ہیں۔ ماموں اور ممانی اس وقت مہمانوں کے ساتھ بیٹھے تھے، مت پوچھیں بعد میں‌ بے چارے کی کیا خبر گیری ہوئی۔
بےبی ہاتھی
 
Top