یادیں ہیں ، حسرتیں ہیں ، تمنائے خام ہے

9/10/2014
یادیں ہیں ، حسرتیں ہیں ، تمنائے خام ہے
باتیں ہیں ، ذلتیں ہیں ، تماشائے عام ہے

حاجت روا! ہماری دعائیں قبول کر
پیاسے ہیں ، تشنگی ہے ، تقاضائے جام ہے

کیوں شکر ہم کریں نہ خدائے بصیر کا
آنکھیں ہیں ، روشنی ہے ، سراپائے تام ہے

ہیں مجتمع حَسِین ، حَسِیں تر ، حَسِیں ترین
بجلی ہے ، چاندنی ہے ، دلارائے بام ہے

کامل نصابِ حسن ہے دے دو زکوٰۃِ جاں
یوسف ہے ، انگلیاں ہیں ، زلیخائے رام ہے

پھر بھی بھٹک رہی ہے یہ امت نہ جانے کیوں
دانائے راستہ ہے ، توانائے گام ہے

یک دم اسامہ ہوگیا مشہور سرسری
یک سو ہے ، یک زبان ہے ، یکتائے نام ہے
 

الف عین

لائبریرین
واہ، یہ اچھی غزل کہی ہے۔ لگتا ہے خوب آمد ہو رہی ہے آج کل۔
زلیخا رام کی تھیں۔ اس کا مجھے علم نہیں تھا!!
 
واہ، یہ اچھی غزل کہی ہے۔ لگتا ہے خوب آمد ہو رہی ہے آج کل۔
زلیخا رام کی تھیں۔ اس کا مجھے علم نہیں تھا!!
جی استاد محترم! آج کل ذاتی حالات کچھ ایسے ہیں کہ شعری آمدنی حیرت انگیز طور پر بڑھ گئی ہے۔ :)
"زلیخائے رام" مرکب اضافی ہونے کی صورت میں تو میرے علم بھی اضافہ ہوتا ، مگر یہ مرکب توصیفی ہے۔ :)
 
حسن یوسف نے رام کر لیا تھا ۔
ویسے یہاں جان کے بجائے عشق کی زکواۃ واجب تھی ۔:)
بہت شکریہ عاطف بھائی! "عشق" والی رائے خوب دی ہے ، جزاک اللہ خیرا ، میں عشق ہی کردیتا ہوں جو کہ پہلے بھی سوچا تھا ، مگر پتا نہیں کیوں جان کو ترجیح دے دی ، اب وہ کیفیت بھی نہیں رہی کہ سمجھ سکوں۔ :)
 
Top