فرخ منظور
لائبریرین
غزل
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
اِک ایک فرطِ دور میں یونہی مجھے بھی دو
جامِ شراب پُر نہ کرو، میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو، میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانندِ جامِ مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو، میں نشے میں ہوں
معذور ہوں، جو پاؤں مرا بے طرح پڑے
تم سرِ گراں تو مجھ سے نہ ہو، میں نشے میں ہوں
بھاگی نمازِ جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو، میں نشے میں ہوں
نازک مزاج آپ قیامت ہیں میر جی
جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو، میں نشے میں ہوں
از میر تقی میر دیوانِ دوم
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
اِک ایک فرطِ دور میں یونہی مجھے بھی دو
جامِ شراب پُر نہ کرو، میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو، میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانندِ جامِ مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو، میں نشے میں ہوں
معذور ہوں، جو پاؤں مرا بے طرح پڑے
تم سرِ گراں تو مجھ سے نہ ہو، میں نشے میں ہوں
بھاگی نمازِ جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو، میں نشے میں ہوں
نازک مزاج آپ قیامت ہیں میر جی
جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو، میں نشے میں ہوں
از میر تقی میر دیوانِ دوم