نیرنگ خیال
لائبریرین
کبھی یوں بھی ہوا کہ آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں، اور آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک زمانہ آپ کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔ یا پھر ایسا کہ آپ کوئی کام نہیں کرنا چاہتے اور معلوم پڑتا ہے کہ یہ تو اتنا آسان ہے۔ ہر آدمی آپ کی مدد کرنے پر تیار ہے اور آپ بس ہاتھ لگائیں گے تو یہ کام ہوجائے گا۔ ہم ان دونوں صورتوں سے پریشان ہیں۔ ابھی چند دن قبل کے واقعات کو ہی لیجیے۔ یوں ہی بےسبب ایک جگہ پر ویٹ مشین نظر آئی۔ اور جانے کس انجانے جذبے کے تحت ہم اس پر کھڑے ہوگئے۔ امید یہ تھی کہ ویٹ مشین سے آواز آئے گی۔ ارے بھئی! کوئی اوپر کھڑا بھی ہوگا کہ نہیں۔ اتنا ہلکا پھلکا آدمی کون ہو سکتا ہے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ ویٹ مشین کی سوئی یوں اپنے اختتام کی طرف بھاگی ہے کہ تین سیکنڈ میں سو کلومیٹر پر جانے والی گاڑیاں بھی کیا بھاگتی ہوں گی۔ وزن پر نظر ڈالی۔ یقین نہیں آیا۔ لگتا ہے ویٹ مشین خراب ہے۔ دل کے اندر سے کوئی آواز ابھری۔ ایک اور جگہ جا کر دوبارہ وزن کیا۔ لیکن بجز مایوسی کچھ اور ہاتھ نہ آیا۔ ایسا نہیں کہ ہم کو اپنے بڑھتے وزن کا اندازہ نہ تھا۔ تنگ ہوتے کپڑے اور تھوڑا سا چلنے پر پھولتا سانس ہمیں مدت سے یہ حقیقت باور کروا رہے تھے، مگر ہمارے کان پر کوئی جوں نہیں رینگ رہی تھی۔ اور رینگتی بھی کیسے۔ اماں کی باریک کنگھی کا خیال ہی تمام جوؤں کو ہمارے سر اور کان میں رینگنے سے باز رکھنے کو کافی تھا۔ اماں باریک کنگھی سر میں یوں پھیرتی ہیں جیسے کوئی کھیتوں میں ہل چلا رہا ہو۔ خدا گواہ ہے کہ اس کے بعد کئی کئی دن تک نہاتے ہوئے ہمیں پانی سر کی بجائے سر کے اندر بنی کیاریوں میں بہتا محسوس ہوتا تھا۔
خیر یہ بات کہاں کی کہاں نکل گئی تو ہم بات کر رہے تھے وزن کی۔ ویٹ مشین کی سوئی کی برق رفتاری نے ہمارے دنوں کا چین اور راتوں کی نیند چھین لی تھی۔ آنکھیں بند کرتے تو آنکھوں کے سامنے وہی برق رفتار سوئی آجاتی۔ الغرض بڑھتا وزن ہمارے اعصاب پر سوار ہوگیا تھا۔لیکن ہمارے اردگرد موجود تمام لوگ اس بات سے بےخبر تھے کہ ہم پر کیا گزر رہی ہے۔ ہم نے دل ہی دل میں فیصلہ کر لیا تھا کہ اب وزن کم ہو کر رہے گا، اور ہم دوبارہ اس ویٹ مشین پر جا کر کھڑے ہوں گے۔ اور سوئی کو ہلتا نہ پا کر اس کی بےبسی پر ہنسیں گے۔ لیکن جانے کیسے ہمارے اردگرد کے لوگوں کو ہماری ڈائٹنگ کی خبر ہوگئی۔
صبح ناشتے میں قہوہ پینے کا ارادہ کیے تھے، دیکھا کہ چائے چلی آرہی ہے۔ ہم نے سوچا کہ اب آئی چیز سے انکار تو کفرانِ نعمت ہے، سو اس نعمت سے استفادہ کیا۔ ابھی سوچ و بچار کا شکار تھے کہ صدر امور خانہ کی آواز آئی۔ آپ نے چائے پینی ہے تو میں دوبارہ بنا دوں۔ اللہ! کہاں چائے مانگ مانگ کر ہمارا گلا چھل جاتا تھا۔ ایک مسکینی ہماری شکل سے عیاں ہوتی تھی، لیکن چائے نہیں آتی تھی۔ ہم اسی سوچ و بچار میں گم تھے کہ چائے کی بجائے قہوہ کی آواز لگا ہی دیں کہ چائے ہمارے سامنے دھر دی گئی۔ ایسی پھرتی؟ ایسی چابکدستی؟ یہ کب سے؟ شاید آج سے ہی، جب سے ہم یہ ارادہ کیے ہیں کہ چائے کی جگہ قہوہ استعمال کریں گے۔
لیکن یہ تو ہماری ڈائٹنگ کاآغاز تھا، ہم بستر پر محو استراحت اس سوچ بچار میں مصروف تھے کہ آج ناشتہ برائے نام کیا جائے۔ بلکہ بہتر ہے کہ ایک گلاس گریپ فروٹ کا جوس پی کر ہی کر بس کر دی جائے۔ کیا دیکھتے ہیں کہ دو عدد دیسی گھی میں بنے ہوئے پراٹھے ، بمعہ کباب اور مکھنی ہانڈی کے سامنے لائے جا رہے ہیں۔ہم نے حیرت سے صدر امور خانہ داری کی طرف دیکھا اور عرض کی یہ ہو کیا رہا ہے۔ یہ آپ کے لیے بنایا ہے۔ مگر کیوں؟ ہم نے حیرت سے استفسار کیا۔ کچھ دے دو تو کیوں دے دیا؟ اور نہ دو تو کیوں نہیں ملتا۔ عجیب آدمی ساتھ پھنس گئی ہوں۔ بڑبڑاہٹ سن کر ہم نے خاموش رہنے میں ہی عافیت جانی۔ ہمارے دل و دماغ میں جنگ جاری تھی۔ ڈائٹنگ کرنی ہے تو اس سب سے انکار کرنا پڑے گا۔ شکم کہہ رہا تھا کہ اب آہی گئے ہیں تو کھانے میں کیا ہرج ہے۔ دل کو دل آزاری اور کفران نعمت جیسی باتیں یاد آرہی تھیں۔ آخر فتح شکم ودل کی ہوئی۔ دماغ کو ہم نے اس طرح بہلایا کہ بس اب کھا لیا، بقیہ دن کچھ نہیں کھائیں گے، تو یوں ساری زیادتی کا مداوا ہوگا۔
بقیہ دن دوپہر ڈھلنے تک ہم سختی سے اپنی ڈائٹنگ پر کاربند تھے کہ ایک ساتھی ہاتھ میں ایک ڈبہ پکڑے ہماری طرف آتے نظر آئے۔ دیکھا تو دیسی گھی میں بنا ہوا خوشاب کا گندمی ڈھوڈا تھا۔ میں نے کہا سب کے ساتھ ہی چمچ میں بھی لے لوں گا۔ فرمانےلگے۔ نہیں، یہ بس آپ کے لیے ہے۔ ہمارے ڈائٹنگ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔
رات کو گھر واپس آئے اور بہ آواز بلند یہ اعلان فرمایا کہ خبردار، اگر کسی نے میرے ڈائٹنگ پلان میں کسی خلل ڈالنے کی کوشش کی۔ اب ہم کچھ نہ کھائیں گے۔ مگر کیا کہتے ہیں کہ ’’دن کٹا جس طرح کٹا لیکن، رات کٹتی نظر نہیں آتی‘‘ ۔گھر کی فضا میں شکر گھلی ہوئی تھی۔ ایک فرد برفی کی ڈلی لیے ایک طرف بیٹھا نظر آیا تو دوسرا پتیسہ کھا رہا تھا۔ یہ پتیسہ کہاں سے لائے ہو۔ ہم نے پوچھا۔ مہمان آئے تھے وہ مٹھائی لائے تھے۔ اچھا! ہم نے کہا۔ ہم کو کیا۔ جو بھی لائے ہوں۔ وہ ہمارے سامنے بیٹھ کر پتیسہ کھانے لگا۔ ہم اپنے ذہن کو کسی اور سمت مصروف کرنے کا سوچ ہی رہے تھے کہ وہ اپنا پتیسہ ختم کر کے واپس گیا اور ایک دو کلو مٹھائی کا ڈبہ لیکر واپس آیا۔ ہمارے عین سامنے بیٹھ چکنے کے بعد اس نے ڈبہ کھولا۔ اور اس میں سے سوہن حلوے کا ایک ٹکڑا اٹھا کر کھانے لگا۔ہم نے کہا دیکھیں تو سہی اس ڈبے میں اور کیا کیا ہے۔ ایک معصوم صورت گلاب جامن جو ہماری طرف ہی دیکھ رہا تھا پر ترس آگیا۔ اٹھا نے کی دیر تھی کہ اس نے خوشی کے مارے ہمارے ہاتھوں پر بھی شیرا ا نڈیل دیا۔ ہائے۔۔۔ رات کے پچھلے پہر پیاس سے حلق خشک ہو رہا تھا۔ ہمت کر کے اٹھے کہ قدم بےاختیار راستے میں پڑے فریج کے سامنے رک گئے۔ یوں ہی کھولا تھا کہ دل چلا اٹھا۔ اور اب یہ کیوی کا ڈبہ کس نے رکھ دیا ہے فریج میں؟ اور یہ کھیر کہاں سے آئی ہے؟ اب آپ خود ہی بتائیں کہ یہ سب یوں سامنے دھرنا کیا انسانیت ہے۔ کیا یہ سب ایک طرف چھپا کر نہیں رکھا جا سکتا تھا۔
اگلی صبح ایک نئے جذبے کے ساتھ پھر سے ڈائٹنگ کا ارادہ کیا اور سختی سے اس پر کاربند رہنے کا فیصلہ بھی ۔ دوپہر ہونے کو آچکی تھی اور ہم ابھی تک اپنے اصول پر سختی سے کاربند تھے، کئی بار کیفے سے گزرے، مگر مجال ہے جو کسی سٹرابری، کسی جوس کو ہاتھ لگایا ہو۔ کہ فون بج اٹھا۔ دوسری طرف ایک دوست تھا۔ کھانا کھایا؟ نہیں! ہم نے جواب دیا۔اور ابھی یہ کہنے کے لیے پر تول ہی رہے تھے کہ کھائیں گے بھی نہیں۔ مگر دوسرے طرف سے تابڑ توڑ جملے برسنے لگے۔ زبردست! بات سن، دس منٹ میں تیرے دفتر کے باہر آرہا ہوں۔ بس نکلتے ہیں۔ اکھٹے کھاتے ہیں۔ اس کی آواز مجھے بہت دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اور میں بس ایک ہی بات سوچ رہا تھا کہ جب آپ کوئی کام کرنا چاہتے ہیں تو آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ایک زمانہ آپ کے درمیان حائل ہوگیا ہے۔