یروشلم میں ہزاروں فلسطینی پاکستانی فوج کو مدد کے لیے پکارتے ہوئے جمع ہیں۔ویڈیو

اور اس تحریف کا کوئی ناقابل تردید اثبوت؟ بعض یہود و نصاریٰ کے مطابق تو الٹا قرآن پاک میں انکے قدیم مقدس صحیفوں کی تحریف کر کے نئے دین کا نام دیا گیا ہے۔
اصلی بائبل کی موجودگی کا ناقابل تردید اور متفقہ ثبوت؟؟ اس کے بعد ہم "تحریف کا کوئی ناقابل تردید اثبوت" بھی پیش کرنے کی سعی کریں گے :) :)
 

arifkarim

معطل
اصلی بائبل کی موجودگی کا ناقابل تردید اور متفقہ ثبوت؟؟ اس کے بعد ہم "تحریف کا کوئی ناقابل تردید اثبوت" بھی پیش کرنے کی سعی کریں گے :) :)
یہ لیں:
The Dead Sea Scrolls are a collection of 981 texts discovered between 1946 and 1956 at Khirbet Qumran in the West Bank. They were found inside caves about a mile inland from the northwest shore of the Dead Sea, from which they derive their name
The texts are of great historical, religious, and linguistic significance because they include the earliest known surviving manuscripts of works later included in the Hebrew Bible canon, along with deuterocanonical and extra-biblical manuscripts which preserve evidence of the diversity of religious thought in late Second Temple Judaism
http://en.wikipedia.org/wiki/Dead_Sea_Scrolls

اردو میں ان قدیم ترین یہودی موسوی صحیفوں کو بحیرہ مردار کے طومار کانام دیا گیا ہے:
http://ur.wikipedia.org/wiki/بحیرہ_مردار_کے_طومار

ان قدیم مقدس موسوی صحیفوں کے متن اور موجودہ یہودی و عیسائی مقدس صحیفوں کے متن میں فرق بہت کم ہے۔ جو کہ یہ سائنسی طور پر ثابت کر تا ہے کہ ان کیخلاف بہت بڑی تحریف کے الزامات بالکل بےبنیاد ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Dead_Sea_Scrolls#Biblical_significance
 
یہ لیں:
The Dead Sea Scrolls are a collection of 981 texts discovered between 1946 and 1956 at Khirbet Qumran in the West Bank. They were found inside caves about a mile inland from the northwest shore of the Dead Sea, from which they derive their name
The texts are of great historical, religious, and linguistic significance because they include the earliest known surviving manuscripts of works later included in the Hebrew Bible canon, along with deuterocanonical and extra-biblical manuscripts which preserve evidence of the diversity of religious thought in late Second Temple Judaism
http://en.wikipedia.org/wiki/Dead_Sea_Scrolls

اردو میں ان قدیم ترین یہودی موسوی صحیفوں کو بحیرہ مردار کے طومار کانام دیا گیا ہے:
http://ur.wikipedia.org/wiki/بحیرہ_مردار_کے_طومار

ان قدیم مقدس موسوی صحیفوں کے متن اور موجودہ یہودی و عیسائی مقدس صحیفوں کے متن میں فرق بہت کم ہے۔ جو کہ یہ سائنسی طور پر ثابت کر تا ہے کہ ان کیخلاف بہت بڑی تحریف کے الزامات بالکل بےبنیاد ہیں:
http://en.wikipedia.org/wiki/Dead_Sea_Scrolls#Biblical_significance
ہم نے اصل بائبل بشمول عہدنامہ قدیم وجدید کی موجودگی کا ثبوت مانگا تھا :) :)
 

arifkarim

معطل
ہم نے اصل بائبل بشمول عہدنامہ قدیم وجدید کی موجودگی کا ثبوت مانگا تھا :) :)
اوپر اصل بائبل یعنی عہدنامہ قدیم (موسوی شریعت) کے قدیم ترین مقدس صحیفے کا اثبوت موجود ہے۔ اسمیں اور آجکل کے یہودی صحیفے میں زیادہ فرق موجود نہیں۔ مطلب 3000 سالوں میں موسوی مذہبی تعلیمات میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی۔ اب آگے چلیں۔ میں یہاں عہد نامہ جدید کی بات نہیں کروں گا کہ اسبارہ میں میرا علم محدود ہے۔
 

رانا

محفلین
قادیانی جماعت صیہونی ریاست ہائے اسرائیل کے وجود کو عین اسلامی پیشگوئیوں کے مطابق تسلیم کرتی ہے۔ ذرا اسکی بھی وضاحت کریں قرآن اور اسلام کی رو سے:
http://en.wikipedia.org/wiki/Ahmadiyya–Jewish_relations
سورہ بنی اسرائیل کی آیات 4 تا 8 میں یہود کی بداعمالیوں اور اس کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ کا ذکر ہے۔ اسی سورہ کی آیت 104 میں بھی یہود کو فلسطین میں دوبارہ جمع کئے جانے کا ذکر ہے۔ لیکن آیت 8 میں ان کو فلسطین میں دوبارہ لابسانے کے وعدے کے بعد انہیں انذار بھی کیا ہے کہ اگر تم پھر ظلم سے باز نہ آئے اور تکرار کی تو ہم بھی تکرار کریں گے۔ اب آیت کا پہلا حصہ تو پورا ہوگیا ہے کہ انہیں فلسطین میں ودبارہ غلبہ دیا گیا ہے۔ تو لازمی ہے کہ آیت کا اگلا حصہ جس میں ان کے ظلم سے باز نہ آنے پر پکڑ کا انذار ہے وہ بھی پورا ہو۔ اور یہ تو سب دیکھ رہے ہیں کہ یہود ظلم سے باز نہیں آرہے تو جلد ہی انشاءاللہ وہ اللہ تعالیٰ کی پکڑ کے نیچے آئیں گے۔ لیکن آپ کے نزدیک تو اسرائیل کوئی ظلم کرہی نہیں رہا تو آپ تو اسے مانیں گے نہیں۔
 

arifkarim

معطل
لیکن آپ کے نزدیک تو اسرائیل کوئی ظلم کرہی نہیں رہا تو آپ تو اسے مانیں گے نہیں۔
تشدد کا جواب تشدد سے دیناکیا ظلم کے زمرہ میں آتا ہے؟ فلسطینی عربوں کیساتھ اسرائیل نے ناروے کے تعاون سے 1993 میں ایک امن معائدہ کیا تھا جس کے بعد فلسطینیوں کے مقبوضہ علاقے رفتہ رفتہ انکو واپس کر دئے گئے تھے۔ لیکن اسرائیلی فوج کے اس انخلاء کے باوجود فلسطینی دہشت گردوں نے بجائے امن قائم کرنے کے اسرائیل کیخلاف دہشت گردی مزید بڑھا دی۔ کیونکہ اب انکو اسرائیل کی طرف سے مزید آزادی اور کھلی چھٹی مل گئی تھی۔ یہ گراف دیکھیں:
oslo1.gif


جبکہ اسرائیل - فلسطین امن معاہدے کے مطابق فلسطینیوں نے اسرائیلی سالمیت کو تسلیم کیا تھا اور اسکے خلاف دہشت گردی کے خاتمے کو یقینی بنایا تھا:
http://en.wikipedia.org/wiki/Oslo_I_Accord

اب بتائیں اصل ظالم کون ہے؟ اسرائیلی یہود یا فلسطینی عرب؟
 
ایک دفعہ بی بی سی اردو پر خبر آئی تھی کہ ایک برطانوی رکن پارلیمنٹ نے فلسطین اور اسرائیل کے دورے کے بعد واپس برطانیہ جاکر پارلیمنٹ میں تقریر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسرائیل کا فلسطینیوں پر ظلم دیکھ کر مجھے یہ خیال آتا ہے کہ اگر فلسطینیوں کی جگہ میں ہوتی تو میں بھی اسرائیلیوں کے خلاف وہی رد عمل ظاہر کرتی جیسا فلسطینی اسرائیل کے خلاف کرتے ہیں۔
اس کلمہ حق کی پاداش میں اس خاتون رکن پارلیمنٹ کو اپنی جماعت سے نکال دیا گیا۔
 

Fawad -

محفلین
جہاں تک حزب التحریر کا تعلق ہے اس کے بارے میں ایک دفعہ بی بی سی پر پڑھا تھا کہ یہ جماعت خالصتاً سیاسی تحریک ہے جو تمام اسلامی ممالک کو متحد کرکے خلافت قائم کرنا چاہتی ہے۔ اور کبھی دہشت گردانہ یا عسکریت پسندی میں ملوث نہیں رہی۔ لیکن امریکہ کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اسی وجہ سے امریکہ کے زیر اثر ممالک میں اس پر پابندی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

حزب التحریر کے حوالے سے جاری بحث اور اسی ضمن ميں ديگر ايسی مذہبی جماعتيں جو انقلابی سوچ کی تشہير تو کرتی ہيں ليکن اس ضمن ميں عدم تشدد کی راہ اختیار کرتی ہيں، ان کے بارے ميں امريکی موقف بالکل واضح ہے۔

امريکی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ديگر ادارے صرف اسی صورت ميں مداخلت کرتے ہيں جب کوئ فرد يا گروہ کسی مخصوص گروپ سے متعلق دانستہ تشدد کی ترغيب میں ملوث ہو يا تشدد کی کاروائ کرے۔ قانون کی تشريح کے مطابق "ہيٹ سپيچ" وہ تقرير ہوتی ہے جو نفرت اور تشدد کی حوصلہ افزائ اور ترغيب ديتی ہے۔

يہ الزام کہ امريکی حکومت نے کسی بيرونی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ حزب التحرير کی کاروائيوں پر قدغن لگائ جائے يا انھيں بين کر ديا جائے، بالکل غلط ہے۔

يہ دليل اس ليے بھی بالکل بےبنياد اور منطق سے عاری ہے کيونکہ اس تنظيم پر تو امريکہ کے اندر بھی پابندی نہيں ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس تنظيم کی امريکہ ميں فعال ويب سائٹ بھی موجود ہے اور وہ باقاعدگی کے ساتھ پورے ملک ميں اجلاس منعقد کرتے ہيں جن ميں وہ بغیر کسی حکومتی روک ٹوک کے اپنے مذہبی اور سياسی خيالات کا پرچار کرتے رہتے ہيں۔

http://hizb-america.org/

اس میں کوئ شک نہیں ہے کہ بہت سے امريکی شہری اس تنطیم کے خيالات سے نہ صرف يہ کہ اختلاف کریں گے بلکہ ان کے تشہیری مواد سے ان کے جذبات کو ٹھيس بھی پہنچے گی۔ اسی طرح امريکی حکومت کے ليے يہ ضروری نہيں ہے کہ وہ کسی بھی ايشو کے حوالے سے کسی بھی سياسی يا مذہبی گروہ کی محضوص سوچ کی کھلم کھلا تشہير کے ضمن ميں ان خيالات کی تائيد کرے يا ان کی منظوری دے۔ يہ ہمارے آئين کے عين مطابق ہے۔

اگر امريکی حکومت نے مذکورہ تنظيم پر اپنے مذہبی افکار کے پرچار اور اپنے نظريات کی آزادانہ تشہير پر اپنے ملک کی حدود کے اندر کسی قسم کی پابندی عائد نہيں کی تو پھر اس بات کی کيا منطق ہے کہ اسی تنظيم کے خيالات اور سرگرميوں پر ہزاروں ميل دور ملک ميں پابندی کے ليے ہم مطالبات کريں؟

يہ رائے اس غلط سوچ اور تاثر کی آئينہ دار ہے جس کے مطابق امريکہ اسلامی تشخص پر حملے کا خواہش مند اور مسلم معاشروں کو زبردستی سيکولر بنانے کا متمنی ہے۔ کچھ تنگ نظر تبصرہ نگاروں کی جانب سے اخباری کالمز، فورمز پر گفتگو اور ٹی وی ٹاک شوز پر بحث و مباحثے کے دوران يہ نظريات صرف اس ايک نقطے کو بنياد بنا کر پيش کيے جاتے ہيں کہ امريکہ مسلم امہ کے خلاف بدی کی کوئ بہت بڑی قوت ہے۔

امريکہ نہ ہی اپنی جغرافيائ حدود ميں اضافے کا خواہ ہے اور نہ ہی کسی قوم، مذہب يا گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کا ثبوت يہ ہے امريکی آئين کے مطابق امريکی شہريوں کو بغير کسی تفريق کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ دنيا ميں کتنے ممالک ايسے ہيں جو يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ وہاں پر ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

حزب التحریر کے حوالے سے جاری بحث اور اسی ضمن ميں ديگر ايسی مذہبی جماعتيں جو انقلابی سوچ کی تشہير تو کرتی ہيں ليکن اس ضمن ميں عدم تشدد کی راہ اختیار کرتی ہيں، ان کے بارے ميں امريکی موقف بالکل واضح ہے۔

امريکی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ديگر ادارے صرف اسی صورت ميں مداخلت کرتے ہيں جب کوئ فرد يا گروہ کسی مخصوص گروپ سے متعلق دانستہ تشدد کی ترغيب میں ملوث ہو يا تشدد کی کاروائ کرے۔ قانون کی تشريح کے مطابق "ہيٹ سپيچ" وہ تقرير ہوتی ہے جو نفرت اور تشدد کی حوصلہ افزائ اور ترغيب ديتی ہے۔

يہ الزام کہ امريکی حکومت نے کسی بيرونی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ حزب التحرير کی کاروائيوں پر قدغن لگائ جائے يا انھيں بين کر ديا جائے، بالکل غلط ہے۔

يہ دليل اس ليے بھی بالکل بےبنياد اور منطق سے عاری ہے کيونکہ اس تنظيم پر تو امريکہ کے اندر بھی پابندی نہيں ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس تنظيم کی امريکہ ميں فعال ويب سائٹ بھی موجود ہے اور وہ باقاعدگی کے ساتھ پورے ملک ميں اجلاس منعقد کرتے ہيں جن ميں وہ بغیر کسی حکومتی روک ٹوک کے اپنے مذہبی اور سياسی خيالات کا پرچار کرتے رہتے ہيں۔

http://hizb-america.org/

اس میں کوئ شک نہیں ہے کہ بہت سے امريکی شہری اس تنطیم کے خيالات سے نہ صرف يہ کہ اختلاف کریں گے بلکہ ان کے تشہیری مواد سے ان کے جذبات کو ٹھيس بھی پہنچے گی۔ اسی طرح امريکی حکومت کے ليے يہ ضروری نہيں ہے کہ وہ کسی بھی ايشو کے حوالے سے کسی بھی سياسی يا مذہبی گروہ کی محضوص سوچ کی کھلم کھلا تشہير کے ضمن ميں ان خيالات کی تائيد کرے يا ان کی منظوری دے۔ يہ ہمارے آئين کے عين مطابق ہے۔

اگر امريکی حکومت نے مذکورہ تنظيم پر اپنے مذہبی افکار کے پرچار اور اپنے نظريات کی آزادانہ تشہير پر اپنے ملک کی حدود کے اندر کسی قسم کی پابندی عائد نہيں کی تو پھر اس بات کی کيا منطق ہے کہ اسی تنظيم کے خيالات اور سرگرميوں پر ہزاروں ميل دور ملک ميں پابندی کے ليے ہم مطالبات کريں؟

يہ رائے اس غلط سوچ اور تاثر کی آئينہ دار ہے جس کے مطابق امريکہ اسلامی تشخص پر حملے کا خواہش مند اور مسلم معاشروں کو زبردستی سيکولر بنانے کا متمنی ہے۔ کچھ تنگ نظر تبصرہ نگاروں کی جانب سے اخباری کالمز، فورمز پر گفتگو اور ٹی وی ٹاک شوز پر بحث و مباحثے کے دوران يہ نظريات صرف اس ايک نقطے کو بنياد بنا کر پيش کيے جاتے ہيں کہ امريکہ مسلم امہ کے خلاف بدی کی کوئ بہت بڑی قوت ہے۔

امريکہ نہ ہی اپنی جغرافيائ حدود ميں اضافے کا خواہ ہے اور نہ ہی کسی قوم، مذہب يا گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کا ثبوت يہ ہے امريکی آئين کے مطابق امريکی شہريوں کو بغير کسی تفريق کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ دنيا ميں کتنے ممالک ايسے ہيں جو يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ وہاں پر ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

www.state.gov

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
کہ خوشی سے مر نا جاتے اگر اعتبار ہوتا۔
 
Top