فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
حزب التحریر کے حوالے سے جاری بحث اور اسی ضمن ميں ديگر ايسی مذہبی جماعتيں جو انقلابی سوچ کی تشہير تو کرتی ہيں ليکن اس ضمن ميں عدم تشدد کی راہ اختیار کرتی ہيں، ان کے بارے ميں امريکی موقف بالکل واضح ہے۔
امريکی حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ديگر ادارے صرف اسی صورت ميں مداخلت کرتے ہيں جب کوئ فرد يا گروہ کسی مخصوص گروپ سے متعلق دانستہ تشدد کی ترغيب میں ملوث ہو يا تشدد کی کاروائ کرے۔ قانون کی تشريح کے مطابق "ہيٹ سپيچ" وہ تقرير ہوتی ہے جو نفرت اور تشدد کی حوصلہ افزائ اور ترغيب ديتی ہے۔
يہ الزام کہ امريکی حکومت نے کسی بيرونی حکومت پر دباؤ ڈالا کہ حزب التحرير کی کاروائيوں پر قدغن لگائ جائے يا انھيں بين کر ديا جائے، بالکل غلط ہے۔
يہ دليل اس ليے بھی بالکل بےبنياد اور منطق سے عاری ہے کيونکہ اس تنظيم پر تو امريکہ کے اندر بھی پابندی نہيں ہے۔ يہی نہيں بلکہ اس تنظيم کی امريکہ ميں فعال ويب سائٹ بھی موجود ہے اور وہ باقاعدگی کے ساتھ پورے ملک ميں اجلاس منعقد کرتے ہيں جن ميں وہ بغیر کسی حکومتی روک ٹوک کے اپنے مذہبی اور سياسی خيالات کا پرچار کرتے رہتے ہيں۔
http://hizb-america.org/
اس میں کوئ شک نہیں ہے کہ بہت سے امريکی شہری اس تنطیم کے خيالات سے نہ صرف يہ کہ اختلاف کریں گے بلکہ ان کے تشہیری مواد سے ان کے جذبات کو ٹھيس بھی پہنچے گی۔ اسی طرح امريکی حکومت کے ليے يہ ضروری نہيں ہے کہ وہ کسی بھی ايشو کے حوالے سے کسی بھی سياسی يا مذہبی گروہ کی محضوص سوچ کی کھلم کھلا تشہير کے ضمن ميں ان خيالات کی تائيد کرے يا ان کی منظوری دے۔ يہ ہمارے آئين کے عين مطابق ہے۔
اگر امريکی حکومت نے مذکورہ تنظيم پر اپنے مذہبی افکار کے پرچار اور اپنے نظريات کی آزادانہ تشہير پر اپنے ملک کی حدود کے اندر کسی قسم کی پابندی عائد نہيں کی تو پھر اس بات کی کيا منطق ہے کہ اسی تنظيم کے خيالات اور سرگرميوں پر ہزاروں ميل دور ملک ميں پابندی کے ليے ہم مطالبات کريں؟
يہ رائے اس غلط سوچ اور تاثر کی آئينہ دار ہے جس کے مطابق امريکہ اسلامی تشخص پر حملے کا خواہش مند اور مسلم معاشروں کو زبردستی سيکولر بنانے کا متمنی ہے۔ کچھ تنگ نظر تبصرہ نگاروں کی جانب سے اخباری کالمز، فورمز پر گفتگو اور ٹی وی ٹاک شوز پر بحث و مباحثے کے دوران يہ نظريات صرف اس ايک نقطے کو بنياد بنا کر پيش کيے جاتے ہيں کہ امريکہ مسلم امہ کے خلاف بدی کی کوئ بہت بڑی قوت ہے۔
امريکہ نہ ہی اپنی جغرافيائ حدود ميں اضافے کا خواہ ہے اور نہ ہی کسی قوم، مذہب يا گروہ کو ختم کرنے کے درپے ہے اور اس کا ثبوت يہ ہے امريکی آئين کے مطابق امريکی شہريوں کو بغير کسی تفريق کے اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہے۔ دنيا ميں کتنے ممالک ايسے ہيں جو يہ دعوی کر سکتے ہيں کہ وہاں پر ہر قوم اور مذہب کے لوگوں کو مکمل آزادی حاصل ہے۔ جب امريکی حکومت نے اپنے ملک ميں کسی مذہب يا قوم پر پابندی نہيں لگائ تو پھر يہ الزام کيسے لگايا جا سکتا ہے کہ امريکہ ايک خاص نظام، مذہب يا اقدار مسلط کرنے کا خواہش مند ہے ؟
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu