ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ بزمِ سخن! آپ کی خدمت میں ایک دوغزلہ پیش کررہا ہوں اس امید کے ساتھ کہ کچھ اشعار آپ کو پسند آئیں گے ۔
یقینِ نور ہو دل میں تو شب گوارا ہے
سحر نے رات کے اُس پار سے پکارا ہے
نہ کھاؤ خوف طلسماتِ منظرِ شب سے
فریبِ شعلۂ ظلمت ہے جو نظارہ ہے
بندھا ہوا ہے نگاہوں سے مہرِ تاباں تک
چلے چلو کہ یہ تارِ نظر سہارا ہے
ابھی سے شکوۂ ایامِ رفتہ چہ معنی !
ابھی تو رات ہماری ہے دن ہمارا ہے
دھڑک بھی جائے تو چنگاریاںسی اٹھتی ہیں
یہ دل نہیں مرےسینے میں سنگِ خارا ہے
ہجومِ کارِ مسلسل نے کردیا تنہا
مری کمائی منافع نہیں خسارہ ہے
- - -
نہ فکرِ سود و زیاں ہے نہ غم تمہارا ہے
یہ وقت نے مجھے کس راہ سے گزارا ہے
نگارخانۂ ہستی کے کینوس تھے سفید
تمہارے درد کی تصویر سے نکھاراہے
وہ ایک نقشِ فسوں گر جسے وفا کہئے
بصد ہزار سلیقہ اُسے سنواراہے
رکھا ہوا ہے جو سینے پر ایک سنگِ گراں
کسی کی پلکوں سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہے
غزل میں حدِ ادب ہے بیانِ راز و نیاز
یہاں شگفتنِ غنچہ بھی استعارہ ہے
امان عزیز ہے میری طرح سے اُس کو بھی
ہمارے بیچ میں دریا نہیں کنارہ ہے
٭٭٭
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2019
یقینِ نور ہو دل میں تو شب گوارا ہے
سحر نے رات کے اُس پار سے پکارا ہے
نہ کھاؤ خوف طلسماتِ منظرِ شب سے
فریبِ شعلۂ ظلمت ہے جو نظارہ ہے
بندھا ہوا ہے نگاہوں سے مہرِ تاباں تک
چلے چلو کہ یہ تارِ نظر سہارا ہے
ابھی سے شکوۂ ایامِ رفتہ چہ معنی !
ابھی تو رات ہماری ہے دن ہمارا ہے
دھڑک بھی جائے تو چنگاریاںسی اٹھتی ہیں
یہ دل نہیں مرےسینے میں سنگِ خارا ہے
ہجومِ کارِ مسلسل نے کردیا تنہا
مری کمائی منافع نہیں خسارہ ہے
- - -
نہ فکرِ سود و زیاں ہے نہ غم تمہارا ہے
یہ وقت نے مجھے کس راہ سے گزارا ہے
نگارخانۂ ہستی کے کینوس تھے سفید
تمہارے درد کی تصویر سے نکھاراہے
وہ ایک نقشِ فسوں گر جسے وفا کہئے
بصد ہزار سلیقہ اُسے سنواراہے
رکھا ہوا ہے جو سینے پر ایک سنگِ گراں
کسی کی پلکوں سے ٹوٹا ہوا ستارہ ہے
غزل میں حدِ ادب ہے بیانِ راز و نیاز
یہاں شگفتنِ غنچہ بھی استعارہ ہے
امان عزیز ہے میری طرح سے اُس کو بھی
ہمارے بیچ میں دریا نہیں کنارہ ہے
٭٭٭
ظہیرؔ احمد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 2019
آخری تدوین: