یقینِ نور ہو دل میں تو شب گوارا ہے

عاطف ملک

محفلین
بندھا ہوا ہے نگاہوں سے مہرِ تاباں تک
چلے چلو کہ یہ تارِ نظر سہارا ہے

ابھی سے شکوۂ ایامِ رفتہ چہ معنی !
ابھی تو رات ہماری ہے دن ہمارا ہے

دھڑک بھی جائے تو چنگاریاںسی اٹھتی ہیں
یہ دل نہیں مرےسینے میں سنگِ خارا ہے

ہجومِ کارِ مسلسل نے کردیا تنہا
مری کمائی منافع نہیں خسارہ ہے

غزل میں حدِ ادب ہے بیانِ راز و نیاز
یہاں شگفتنِ غنچہ بھی استعارہ ہے

بس یہی اشعار بہت زیادہ ہسند آئے:)
باقی صرف پسند آئے ہیں۔
مطلع کیلیے خصوصی داد:notworthy:
 
بہت نوازش ، بہت عنایت ! بہت شکریہ راحل بھائی ! اللہ آپ کو خوش رکھے!
امان عزیز ہے میری طرح سے اُس کو بھی
ہمارے بیچ میں دریا نہیں کنارہ ہے
یہاں مصرع میں کتابت کی غلطی نہیں ہے ۔ یہاں قصداً میں نے "امان" ہی لکھا ہے تاکہ عزیز کا عین ساقط کیا جاسکے ۔اگرچہ روایتی عروض میں ایسا کرنا روا نہیں لیکن میں عین کو الف اور ہائے مختفی کی طرح برتنے کی ایک شعوری کوشش کرتا ہوں ۔ یہ فارسی سے درآمدہ روایتی عروض کی تخریج و تسہیل کی ایک چھوٹی سی کوشش ہے ۔ شاید رواج پاجائے ۔ مختصراً یہ کہ اردو میں الف ، عین اور ہائے مختفی ہم مخرج و ہم آواز ہیں اور ایک ہی طرح سے ادا کئے جاتے ہیں ۔ یعنی چہرہ ، مصرع اور ایسا تینوں ہم آواز الفاظ ہیں ۔ جب الف اور ہائے مختفی کو گرایا اور دبایا جاتا ہے تو یہی رویہ عین کے ساتھ روا رکھنا اردو زبان کے تقاضوں کے عین مطابق ہوگا ۔ یہ میری ادنی اور ناقص سی رائے ہے ۔ اس بارے میں مفصل کسی جگہ پر لکھا تھا ۔ وقت ملا تو ڈھونڈ کر وہ ربط نکالتا ہوں ۔
مکرمی جناب ظہیرؔ صاحب، آداب!
آپ کے مراسلوں سے ہمیشہ ہی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے۔
آپ نے جو ارشاد فرمایا، کم و بیش اسی رجحان کا اظہار قبلہ و استاذی سرورؔ صاحب نے اپنی کتاب کے ضمیمے میں کیا ہے۔ غالباً وہ اسی صورت میں عین سے اسقاط کے قائل ہیں جب کہ یہ حرف لفظ کے شروع میں آئے اور حرفِ سابق سے اتصال ممکن ہو، جیسا کے آپ کے شعر میں ہے۔ میری حقیر و ناقص رائے اس بابت یہ ہے کہ گو یہ راویتی عروض کی تسہیل کی کوشش ہے، مگر درحقیقت اس طرح عروض میں ایک اور پیچیدگی کا اضافہ ہوگا۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اردو کے مزاج کے مطابق عین کا اسقاط کن کن صورتوں میں روا رکھا جائے؟ کیا ’’معاف‘‘ کو ’’ماف‘‘ اور ’’معالج‘‘ کو ’’مالج‘‘ بھی باندھا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کہ جب اردو والے ایسے الفاظ میں بھی عین کی تخریج حلق سے نہیں کرتے۔
پھر اگر اردو کے مزاج کی بات کریں تو میرے خیال میں یہ محض جدید دور کا مسئلہ تو نہیں، عام بول چال میں ع، ح، ق وغیرہ کے درست (بمثل عربی) مخارج کی رعایت تو میرؔ، غالبؔ، داغؔ ایسے استاتذہ کے زمانے میں بھی شاید ہی کوئی رکھتا ہو، لیکن اساتذہ نے پھر بھی روایتی طریقہ ہی روا رکھا۔
اس کے علاوہ یہ بھی امکان ہے کہ اس قیاس کے زیر اثر شروع، طلوع وغیرہ کو لہو، روبرو، آبرو کا ۔۔۔ اور عیسیٰ، تقویٰ کو ارفع، منبع وغیرہ کا (کم از کم صوتی) قافیہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا!

بہرحال، آپ کاملینِ فن میں سے ہیں، اس لئے آپ کے حقِ اجتہاد پر اعتراض کیا جاسکتا ہے نہ ہی یہ میرا مقصود تھا۔ امید ہے آپ نے میری تلمیذانہ معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ کوئی بات سوئے ادب محسوس ہوئی ہو تو اس کے معذرت۔ آپ کے قدیم تفصیلی مضمون کا بھی انتظار رہے گا۔

دعاگو،
راحلؔ۔
 
آخری تدوین:
سوال کیا جاسکتا ہے کہ اردو کے مزاج کے مطابق عین کا اسقاط کن کن صورتوں میں روا رکھا جائے؟ کیا ’’معاف‘‘ کو ’’ماف‘‘ اور ’’معالج‘‘ کو ’’مالج‘‘ بھی باندھا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کہ جب اردو والے ایسے الفاظ میں بھی عین کی تخریج حلق سے نہیں کرتے۔
ویسے تو سوال آپ نے ظہیر بھائی سے پوچھا ہے۔ اور میں ابھی تک ع کے اسقاط کے لیے خود کو راضی نہیں کر پایا ہوں۔
البتہ یہ واضح کرنا یہاں ضروری ہے کہ الفاظ کے درمیان تو الف کا اسقاط بھی جائز نہیں ہے۔ اور لفظ کے درمیان عین کی تخریج حلق سے کریں یا نہ کریں، ادائیگی میں تو آتا ہے۔
 
ویسے تو سوال آپ نے ظہیر بھائی سے پوچھا ہے۔ اور میں ابھی تک ع کے اسقاط کے لیے خود کو راضی نہیں کر پایا ہوں۔
البتہ یہ واضح کرنا یہاں ضروری ہے کہ الفاظ کے درمیان تو الف کا اسقاط بھی جائز نہیں ہے۔ اور لفظ کے درمیان عین کی تخریج حلق سے کریں یا نہ کریں، ادائیگی میں تو آتا ہے۔
تابش بھائی، آداب!
بہت اچھا کیا جو آپ نے بھی اپنی رائے کا اظہار کیا، سب احباب کو ایسے مباحث میں حصہ لینا چایئے۔
آپ نے بہت اچھا نکتہ اٹھایا کہ الفظ کے درمیان الف کا اسقاط گوارہ نہیں، مگر میرا مدعا یہ تھا کہ عملی طور پر تو اردو والے معاف کو ماف ہی بولتے ہیں۔ یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر عزیز کو تعطیع میں ازیز کی طرح برتا جاسکتا ہے تو معاف کو ماف کیوں نہیں (ملفوظی اصول پر) ۔۔۔ اصل بات یہ تھی کہ عین کے اسقاط سے مطلوب عروض کی تسہیل ہے، مگر عملاً یہاں ایک نئی تفصیل پیدا ہو رہی ہے۔
اس کے علاوہ شروع اور لہو وغیرہ کی بحث تو اپنی جگہ موجود ہے۔
میں چھوٹے دماغ اور کم علمی کا مارا طالب علم ہوں، ممکن ہے بات کو سمجھ نہ پایا ہوں۔ یہاں اپنے ذہن کی گرہیں دکھانے کا مقصد صرف اتنا ہوتا ہے کہ کسی موقر شخصیت کی نظر میں آجائیں اور کھل جائیں۔

دعاگو،
راحلؔ
 
اگر عزیز کو تعطیع میں ازیز کی طرح برتا جاسکتا ہے تو معاف کو ماف کیوں نہیں
یہاں سے فرق دیکھیے
عزیز کی ع کو الف سے بدلنا اور معاف میں ع کو غائب کر دینا دو مختلف باتیں ہیں۔ ازیز کے اصول پر تو مااف یا مئاف کر سکتے ہیں ماف نہیں۔ :)
 
یہاں سے فرق دیکھیے
عزیز کی ع کو الف سے بدلنا اور معاف میں ع کو غائب کر دینا دو مختلف باتیں ہیں۔ ازیز کے اصول پر تو مااف یا مئاف کر سکتے ہیں ماف نہیں۔ :)
جناب، ہمارا مدعا یہ ہے کہ یہاں تسہیل کا جو بنیادی محرک ہے وہ عروض کو اردو کے مزاج سے ہم آہنگ کرنا ہے۔
اردو والوں کا، بجز مدارس عربیہ کے فضلاء کے، مزاج یہ ہے کہ وہ عین کی آواز یا تو الف سے بدل دیتے ہیں یا نکالتے ہی نہیں۔ عزیز میں الف سے بدل جاتی ہے۔ معاف اور شروع میں سنائی ہی نہیں دیتی۔
سو اگر یہ نکتہ جواب طلب رہ جائے کہ معاف کو ماف یا مآف کیوں نہیں برتا جا سکتا، جبکہ عملاً اس کا یہی تلفظ ہے تو تسہیل تو نہ ہو پائی نا! :)
چلیں معاف کی بحث کو سمیٹ بھی لیں تو شروع اور لہو کا کیا کریں گے؟ خود قبلہ ظہیرؔ صاحب نے اپنے مراسلے میں لکھا کہ چہرہ، مصرع اور ایسا ۔۔۔ تینوں ہم آواز ہیں۔ یہ تب ہی ہوسکتے ہیں جب مصرع کی عین کو نظرانداز کیا جائے۔

دعاگو،
راحلؔ
 
چلیں معاف کی بحث کو سمیٹ بھی لیں تو شروع اور لہو کا کیا کریں گے؟ خود قبلہ ظہیرؔ صاحب نے اپنے مراسلے میں لکھا کہ چہرہ، مصرع اور ایسا ۔۔۔ تینوں ہم آواز ہیں۔ یہ تب ہی ہوسکتے ہیں جب مصرع کی عین کو نظرانداز کیا جائے۔
اس کا جواب تو ظہیر بھائی ہی دیں گے۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ الفاظ کے درمیان تو الف کا اسقاط بھی جائز نہیں ہے۔ اگر ع کو الف کے برابر ہی تسلیم کر لیا جائے تب بھی الفاظ کے درمیان سے گرانا جائز نہ ہو گا۔
 
اس کا جواب تو ظہیر بھائی ہی دیں گے۔ میں صرف یہ عرض کرنا چاہ رہا تھا کہ الفاظ کے درمیان تو الف کا اسقاط بھی جائز نہیں ہے۔ اگر ع کو الف کے برابر ہی تسلیم کر لیا جائے تب بھی الفاظ کے درمیان سے گرانا جائز نہ ہو گا۔
تسلیم، ہم تو بس ایک مفروضہ بیان کررہے ہیں وگرنہ اس معاملے میں ہم بھی آپ کے دبستان کے ایک خادم ہیں :)
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
مکرمی جناب ظہیرؔ صاحب، آداب!
آپ کے مراسلوں سے ہمیشہ ہی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ اللہ آپ کو شاد و آباد رکھے۔
آپ نے جو ارشاد فرمایا، کم و بیش اسی رجحان کا اظہار قبلہ و استاذی سرورؔ صاحب نے اپنی کتاب کے ضمیمے میں کیا ہے۔ غالباً وہ اسی صورت میں عین سے اسقاط کے قائل ہیں جب کہ یہ حرف لفظ کے شروع میں آئے اور حرفِ سابق سے اتصال ممکن ہو، جیسا کے آپ کے شعر میں ہے۔ میری حقیر و ناقص رائے اس بابت یہ ہے کہ گو یہ راویتی عروض کی تسہیل کی کوشش ہے، مگر درحقیقت اس طرح عروض میں ایک اور پیچیدگی کا اضافہ ہوگا۔ سوال کیا جاسکتا ہے کہ اردو کے مزاج کے مطابق عین کا اسقاط کن کن صورتوں میں روا رکھا جائے؟ کیا ’’معاف‘‘ کو ’’ماف‘‘ اور ’’معالج‘‘ کو ’’مالج‘‘ بھی باندھا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کہ جب اردو والے ایسے الفاظ میں بھی عین کی تخریج حلق سے نہیں کرتے۔
پھر اگر اردو کے مزاج کی بات کریں تو میرے خیال میں یہ محض جدید دور کا مسئلہ تو نہیں، عام بول چال میں ع، ح، ق وغیرہ کے درست (بمثل عربی) مخارج کی رعایت تو میرؔ، غالبؔ، داغؔ ایسے استاتذہ کے زمانے میں بھی شاید ہی کوئی رکھتا ہو، لیکن اساتذہ نے پھر بھی روایتی طریقہ ہی روا رکھا۔
اس کے علاوہ یہ بھی امکان ہے کہ اس قیاس کے زیر اثر شروع، طلوع وغیرہ کو لہو، روبرو، آبرو کا ۔۔۔ اور عیسیٰ، تقویٰ کو ارفع، منبع وغیرہ کا (کم از کم صوتی) قافیہ تسلیم کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا!
بہرحال، آپ کاملینِ فن میں سے ہیں، اس لئے آپ کے حقِ اجتہاد پر اعتراض کیا جاسکتا ہے نہ ہی یہ میرا مقصود تھا۔ امید ہے آپ نے میری تلمیذانہ معروضات کا برا نہیں مانا ہوگا۔ کوئی بات سوئے ادب محسوس ہوئی ہو تو اس کے معذرت۔ آپ کے قدیم تفصیلی مضمون کا بھی انتظار رہے گا۔
دعاگو،
راحلؔ۔
راحل بھائی ، آپ نے اپنے مراسلوں میں کئی مختلف مسائل کو خلط ملط کردیا ہے ۔ خلط مبحث سے نبٹنا مشکل ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے میرے پاس وقت ذرا کم ہے ۔ اور دوسرے یہ کہ ان موضوعات پر پہلے بھی ان صفحات پر کہیں لکھ چکا ہوں ۔ باتوں کو دہرانے سے میری جان جاتی ہے ۔ بہرحال ، بنیادی موضوع پر کچھ نکات مختصراً بیان کرتا ہوں ۔
۔ پہلی بات تو یہ کہ نہ تو میں کسی طور کاملین فن میں سے ہوں ، نہ ہی استاد ہوں اور نہ ہی شعر و ادب کا ماہر ہوں ۔ میں ایک عام شاعر ہوں ۔ شعر گوئی کے جو مروجہ اصول و قواعد ہر شاعر کے لئے ہیں میں بھی ان کی پاسداری کی بھرپور کوشش کرتا ہوں ۔ البتہ میری خواہش اور کوشش یہ بھی ہے کہ ان اصول و قواعد کوجہاں جہاں مزید آسان بنایا جاسکے وہاں ایسا کردینا چاہئے تاکہ اظہار بیان کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں وہ کم ہوجائیں ۔

۔ اسقاطِ عین میرا ذاتی اجتہاد نہیں ہے ۔ اس کی مثالیں اردو شاعری میں قدماء سے لے کر عصرحاضر تک ملتی ہیں ۔ میں تو اسی اجتہادی سلسلے کو آگے بڑھارہا ہوں ۔سرورعالم راز سرور کا ایک مستقل مضمون " علمِ عروض اور اردو کے تقاضے" ان کی ویب گاہ پر موجود ہے ۔ تفصیل کے لئے اُسے دیکھ لیجئے ۔ مختصراً میں اس مراسلے کے آخر میں اسقاطِ عین کی کچھ مثالیں اس مضمون سے نقل کردوں گا۔

۔ میرا ماننا یہ ہے کہ فارسی سے درآمدہ روایتی اردو عروض کی بعض پابندیاں بیجا ہیں اور اردو زبان کے مزاج سے میل نہیں کھاتیں ۔ ان عروضی قواعد میں کئی داخلی تضادات موجود ہیں اور ان کے دور کرنے سے کئی مشکلات حل ہوجائیں گی ۔ مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اردو شعراء کے تمام زمانی طبقات میں ان مسائل اور مشکلات کا بخوبی ادراک پایا جاتا ہے ۔ نیز بہت سارے مشاہیر اور عمائدین نے اردو زبان کے قواعد کی تسہیل کی کوششیں بھی کیں ۔ لیکن ان کی یہ کوششیں بوجوہ چند ابتدائی قدم اٹھانے سے آگے نہ بڑھ سکیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورتحال میں اردو زبان اور بالخصوص اردو شاعری کی ترویج و ترقی کے لئے ان اجتہادی سلسلوں کو آگے بڑھانا بہت ضروری ہے۔

۔ ان کوششوں کی چند مثالیں یہ ہیں : ہندی اور عربی فارسی الفاظ کو واؤ عطف کے ساتھ مرکب کرنا ، اضافتِ فارسی کے ساتھ مرکب کرنا ، ہندی الفاظ کے ساتھ "بہ" اور 'با" کے سابقے اور جوڑ استعمال کرنا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ان تراکیب کی مثالیں اردو زبان میں زمانۂ قدیم ہی سے چلی آرہی ہیں لیکن ایک سطح پر آکر ان کی ترویج اور ترقی رک گئی یا یوں کہئے کہ روک دی گئی ۔ اب اگر میں یا آپ اس سلسلے کو شعوری طور پر کوشش کرکے اگے بڑھائیں تو اسے کس طرح غلط کہا جائے گا؟ شاعری میں جب ردیف ، قافیے اور بحر کی پابندیاں اظہارِ خیال کی راہ میں حائل ہوئیں تو نظمِ معریٰ اور پھر آزاد نظم نے ان مسائل کا حل پیش کیا ۔ آج یہ تبدیلیاں مستند مانی جاتی ہیں ۔

۔ اب سو بات کی ایک بات کہ جسے آپ اس گفتگو کا حرفِ آخر بھی کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ زبان کسی ایک شخص کے بنانے سے نہیں بنتی ۔ زبان میں نئے الفاظ یا نئے قاعدے کا اضافہ گھر بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا بات تھی ۔ دوچار اہلِ علم مل بیٹھ کر سارے لسانی اور عروضی مسائل حل کرسکتے تھے۔ زبان اور زبان کے قاعدے اس کے بولنے اور لکھنے والے بناتے ہیں ۔ یہ ایک غیر شعوری اور سست رَو عمل ہے جو دہائیوں اور بعض اوقات صدیوں پر محیط ہوتا ہے ۔ زبان میں تبدیلی ایک دم سے نہیں ہوتی ۔ سو ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بحیثیت لکھاری میرا کام یہ ہے کہ میں ان اجتہادی سلسلوں کو اپنی شعوری کوشش اور محنت سے آگے بڑھاؤں۔ رد و قبول وقت کے ہاتھ میں ہے ۔ ایسا ممکن ہے کہ آج سے بیس تیس چالیس سال بعد اسقاطِ عین کا چلن عام ہوجائے اور یہ ایک مستند قاعدہ قرار پائے ۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ تبدیلی رواج نہ پاسکے اور اپنی موت آپ مرجائے ۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ادبی اور لسانی تحریکیں ایک دو لوگوں ہی سے شروع ہوتی ہیں ۔ اگر آپ بدذوقی نہ سمجھیں تو اپنے اس موقف کو اپنے ہی دو شعار میں سمیٹتا ہوں :

میں رکھ رہا ہوں زمینوں میں شجر کی امید
مجھ کو سائے کی تمنا ، نہ ثمر کی امید

پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی ، مانا لیکن
قطرہ پہلا ہوں میں بارش کا مرے بعد تو دیکھ


اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ عین کو الف کی طرح کس کس صورت میں برتا جائے گا تو ان باتوں پر غور کیجئے :
۔ صوتی قافیے کو شاعری میں تسلیم کرلیا گیا اور سند کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔(صوتی قافیے کا اجتہاد بھی بہت قدیم ہے ۔ اور غالب نے بھی اپنی ایک غزل میں جو ، گو ، کھو ، ڈبو کا قافیہ"وہ" استعمال کیا ہے۔) چونکہ اردو میں الف اور عین ہم صوت ہیں ۔ اسی روایت کے تحت میں نے اپنی اس غزل میں لفظ ضایع کو سوچا ، رسوا ، شکوہ کا قافیہ رکھا ہے ۔
۔ عین سے شروع ہونے والے الفاظ میں عین کو الف وصل کی طرح ساقط کرنے کی مثالیں موجود ہیں اور ایسا کرنے سے نہ تو شعر کی روانی میں فرق آتا ہے اور نہ کسی ناگواری کا احساس ہوتا ہے ۔ یاد رہے کہ بنیادی طور پر شاعری پڑھنے اور سننے کی چیز ہے ، لکھنے اور پڑھنے کی نہیں ۔ یعنی شعرکی بُنت اپنی اصل میں ملفوظی ہے مکتوبی نہیں ۔( شعر کو گنگنایا اور گایا جاتا ہے ۔ شعر کی سو سو طرح سے خطاطی تو فوٹوشاپ والوں کی بدعت ہے۔:)) ۔ اس لئے شعر میں عزیز کو ازیز کی طرح برتنے میں کوئی مسئلہ نہیں ۔ بلکہ شاعر کے لئے آسانی کا ایک دروازہ کھلتا ہے ۔
۔ کیا لفظ کے آخر سے بھی عین کو گرایا جاسکتا ہے؟ اس کی مثالیں بھی موجود تو ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ازحد احتیاط اور مزید غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ اب میں اس پر مزید غور کرتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہ کرنا بہتر ہوگا ۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ پھر میں ایسا کیوں کررہا ہوں تو جواب اس کا یہ ہے کہ میں ایسا کرکےدراصل توپ کے لائسنس کی درخواست دے رہا ہوں ۔ اس امید پر کہ پستول کا لائسنس تو کم از کم مل ہی جائے گا ۔ :):):)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی سرور عالم راز سرور صاحب کے محولہ بالا مضمون سے اسقاطِ عین کے اشعار کی مثالیں یہ ہیں :

سودا تجھے کہتا ہوں نہ خوباں سے مل اتنا
تو اپنا غریب عاجز دل بیچنے والا
(سودا)

خرید عشق نے جس روز کی متاعِ چمن
جو نقدِ جاں پڑی قیمت تو دل بیعانہ تھا
(سودا)

نہ مانا کبھی دل نے کہنا ہمارا
نہایت ہم عاجز ہوئے بکتے بکتے
(نظیر اکبر آبادی)

بزرگوں بیچ کہیں بوئے میہمانی نہیں
تواضع کھانے کی ڈھونڈو سو جگ میں پانی نہیں
(شاہ حاتم)

کون عہدِ وفا اُس بتِ سفاک سے باندھے
سر کاٹ کے عاشق کا جو فتراک سے باندھے
(مصحفی)

ظفر خارِ کیوں گُل کے پہلو میں ہوتے
جو اچھے نصیب عندلیبوں کے ہوتے
(بہادر شاہ ظفر)

ہاں ابھی دور بہت دور مجھے جانا ہے
الوداع اے مہ و خورشید کہ ہوں پا بہ رکاب
(فراق گورکھپوری)

اُمید و یاس ، وفا و جفا ، فراق و وصال
مسائل عشق کے اِن کے سوا کچھ اور بھی ہیں
(فراق گورکھپوری)

پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
دیوارِ شب اور عکسِ رُخِ یار سامنے
(فیض احمد فیض)

لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
(پروین شاکر)

اب تو میرے دل میں غم کا نام بھی باقی نہیں
عیش ہے اب عیش ہے ، دن عیش کا رات عیش کی
(عبدالحمید عدم)

نہیں کہ عرضِ تمنا پہ مان ہی جاؤ
ہمیں اِس عہدِ تمنا میں آزماؤ بھی
(مصطفٰے زیدی)

اک دواخانے کی کرسی پر بھرے بازار میں
تھی اک عورت چپکے چپکے ڈاکٹر سے ہمکلام
(احسان دانش)
 
آخری تدوین:

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
کیا ’’معاف‘‘ کو ’’ماف‘‘ اور ’’معالج‘‘ کو ’’مالج‘‘ بھی باندھا جاسکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟ کہ جب اردو والے ایسے الفاظ میں بھی عین کی تخریج حلق سے نہیں کرتے۔

مگر میرا مدعا یہ تھا کہ عملی طور پر تو اردو والے معاف کو ماف ہی بولتے ہیں۔ یہ سوال ہو سکتا ہے کہ اگر عزیز کو تعطیع میں ازیز کی طرح برتا جاسکتا ہے تو معاف کو ماف کیوں نہیں (ملفوظی اصول پر)

آپ کے ان سوالات کا تعلق اسقاطِ عین کی بحث سے نہیں بلکہ غلط عوامی تلفظ سے ہے ۔ عوامی تلفظ کے بارے میں چلن اور قاعدہ یہی ہے کہ اسے شعر میں نہین برتا جائے گا ۔ گرم ، شرم اور وزن کو مجھ سمیت ہر ایک کے گھر میں فعو کے وزن پر بولا جاتا ہے ۔ لیکن شاعری میں ان کا معیاری اور لغت کی رو سے مستند وزن ہی برتا جائے گا ۔ اس کے برعکس اسقاطِ عین کا تعلق ہم صوت الفاظ اور اسقاطِ الف سے ہے جو ایک مستند عروضی رویہ ہے ۔ اس پر میں مفصل جواب اوپر لکھ چکا ۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
لفظ کے درمیان سے اسقاط ویسے ہی درست نہیں ہے۔
میں تو کہہ رہا تھا کہ کوئی عرفان کو رفان (کسٹرڈ) نہ بنا دے!
:)

جب الف اچھالے جائیں گے
جب عین گرائے جائیں گے

ہم دیکھیں گے
لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے


کسٹرڈ تو بنے گا ۔۔۔۔
 
Top