راحل بھائی ، آپ نے اپنے مراسلوں میں کئی مختلف مسائل کو خلط ملط کردیا ہے ۔ خلط مبحث سے نبٹنا مشکل ہوتا ہے ۔ بدقسمتی سے میرے پاس وقت ذرا کم ہے ۔ اور دوسرے یہ کہ ان موضوعات پر پہلے بھی ان صفحات پر کہیں لکھ چکا ہوں ۔ باتوں کو دہرانے سے میری جان جاتی ہے ۔ بہرحال ، بنیادی موضوع پر کچھ نکات مختصراً بیان کرتا ہوں ۔
۔ پہلی بات تو یہ کہ نہ تو میں کسی طور کاملین فن میں سے ہوں ، نہ ہی استاد ہوں اور نہ ہی شعر و ادب کا ماہر ہوں ۔ میں ایک عام شاعر ہوں ۔ شعر گوئی کے جو مروجہ اصول و قواعد ہر شاعر کے لئے ہیں میں بھی ان کی پاسداری کی بھرپور کوشش کرتا ہوں ۔ البتہ میری خواہش اور کوشش یہ بھی ہے کہ ان اصول و قواعد کوجہاں جہاں مزید آسان بنایا جاسکے وہاں ایسا کردینا چاہئے تاکہ اظہار بیان کی راہ میں جو رکاوٹیں ہیں وہ کم ہوجائیں ۔
۔ اسقاطِ عین میرا ذاتی اجتہاد نہیں ہے ۔ اس کی مثالیں اردو شاعری میں قدماء سے لے کر عصرحاضر تک ملتی ہیں ۔ میں تو اسی اجتہادی سلسلے کو آگے بڑھارہا ہوں ۔سرورعالم راز سرور کا ایک مستقل مضمون " علمِ عروض اور اردو کے تقاضے" ان کی ویب گاہ پر موجود ہے ۔ تفصیل کے لئے اُسے دیکھ لیجئے ۔ مختصراً میں اس مراسلے کے آخر میں اسقاطِ عین کی کچھ مثالیں اس مضمون سے نقل کردوں گا۔
۔ میرا ماننا یہ ہے کہ فارسی سے درآمدہ روایتی اردو عروض کی بعض پابندیاں بیجا ہیں اور اردو زبان کے مزاج سے میل نہیں کھاتیں ۔ ان عروضی قواعد میں کئی داخلی تضادات موجود ہیں اور ان کے دور کرنے سے کئی مشکلات حل ہوجائیں گی ۔ مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ اردو شعراء کے تمام زمانی طبقات میں ان مسائل اور مشکلات کا بخوبی ادراک پایا جاتا ہے ۔ نیز بہت سارے مشاہیر اور عمائدین نے اردو زبان کے قواعد کی تسہیل کی کوششیں بھی کیں ۔ لیکن ان کی یہ کوششیں بوجوہ چند ابتدائی قدم اٹھانے سے آگے نہ بڑھ سکیں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ صورتحال میں اردو زبان اور بالخصوص اردو شاعری کی ترویج و ترقی کے لئے ان اجتہادی سلسلوں کو آگے بڑھانا بہت ضروری ہے۔
۔ ان کوششوں کی چند مثالیں یہ ہیں : ہندی اور عربی فارسی الفاظ کو واؤ عطف کے ساتھ مرکب کرنا ، اضافتِ فارسی کے ساتھ مرکب کرنا ، ہندی الفاظ کے ساتھ "بہ" اور 'با" کے سابقے اور جوڑ استعمال کرنا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔ ان تراکیب کی مثالیں اردو زبان میں زمانۂ قدیم ہی سے چلی آرہی ہیں لیکن ایک سطح پر آکر ان کی ترویج اور ترقی رک گئی یا یوں کہئے کہ روک دی گئی ۔ اب اگر میں یا آپ اس سلسلے کو شعوری طور پر کوشش کرکے اگے بڑھائیں تو اسے کس طرح غلط کہا جائے گا؟ شاعری میں جب ردیف ، قافیے اور بحر کی پابندیاں اظہارِ خیال کی راہ میں حائل ہوئیں تو نظمِ معریٰ اور پھر آزاد نظم نے ان مسائل کا حل پیش کیا ۔ آج یہ تبدیلیاں مستند مانی جاتی ہیں ۔
۔ اب سو بات کی ایک بات کہ جسے آپ اس گفتگو کا حرفِ آخر بھی کہہ سکتے ہیں وہ یہ ہے کہ زبان کسی ایک شخص کے بنانے سے نہیں بنتی ۔ زبان میں نئے الفاظ یا نئے قاعدے کا اضافہ گھر بیٹھ کر نہیں کیا جاسکتا ۔ اگر ایسا ہوتا تو کیا بات تھی ۔ دوچار اہلِ علم مل بیٹھ کر سارے لسانی اور عروضی مسائل حل کرسکتے تھے۔ زبان اور زبان کے قاعدے اس کے بولنے اور لکھنے والے بناتے ہیں ۔ یہ ایک غیر شعوری اور سست رَو عمل ہے جو دہائیوں اور بعض اوقات صدیوں پر محیط ہوتا ہے ۔ زبان میں تبدیلی ایک دم سے نہیں ہوتی ۔ سو ان تمام باتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بحیثیت لکھاری میرا کام یہ ہے کہ میں ان اجتہادی سلسلوں کو اپنی شعوری کوشش اور محنت سے آگے بڑھاؤں۔ رد و قبول وقت کے ہاتھ میں ہے ۔ ایسا ممکن ہے کہ آج سے بیس تیس چالیس سال بعد اسقاطِ عین کا چلن عام ہوجائے اور یہ ایک مستند قاعدہ قرار پائے ۔ اور یہ بھی عین ممکن ہے کہ یہ تبدیلی رواج نہ پاسکے اور اپنی موت آپ مرجائے ۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ ادبی اور لسانی تحریکیں ایک دو لوگوں ہی سے شروع ہوتی ہیں ۔ اگر آپ بدذوقی نہ سمجھیں تو اپنے اس موقف کو اپنے ہی دو شعار میں سمیٹتا ہوں :
میں رکھ رہا ہوں زمینوں میں شجر کی امید
مجھ کو سائے کی تمنا ، نہ ثمر کی امید
پیاسی مٹی مجھے پی جائے گی ، مانا لیکن
قطرہ پہلا ہوں میں بارش کا مرے بعد تو دیکھ
اب جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ عین کو الف کی طرح کس کس صورت میں برتا جائے گا تو ان باتوں پر غور کیجئے :
۔ صوتی قافیے کو شاعری میں تسلیم کرلیا گیا اور سند کا درجہ دے دیا گیا ہے ۔(صوتی قافیے کا اجتہاد بھی بہت قدیم ہے ۔ اور غالب نے بھی اپنی ایک غزل میں جو ، گو ، کھو ، ڈبو کا قافیہ"وہ" استعمال کیا ہے۔) چونکہ اردو میں الف اور عین ہم صوت ہیں ۔ اسی روایت کے تحت میں نے
اپنی اس غزل میں لفظ ضایع کو سوچا ، رسوا ، شکوہ کا قافیہ رکھا ہے ۔
۔ عین سے شروع ہونے والے الفاظ میں عین کو الف وصل کی طرح ساقط کرنے کی مثالیں موجود ہیں اور ایسا کرنے سے نہ تو شعر کی روانی میں فرق آتا ہے اور نہ کسی ناگواری کا احساس ہوتا ہے ۔ یاد رہے کہ بنیادی طور پر شاعری پڑھنے اور سننے کی چیز ہے ، لکھنے اور پڑھنے کی نہیں ۔ یعنی شعرکی بُنت اپنی اصل میں ملفوظی ہے مکتوبی نہیں ۔( شعر کو گنگنایا اور گایا جاتا ہے ۔ شعر کی سو سو طرح سے خطاطی تو فوٹوشاپ والوں کی بدعت ہے۔
) ۔ اس لئے شعر میں عزیز کو ازیز کی طرح برتنے میں کوئی مسئلہ نہیں ۔ بلکہ شاعر کے لئے آسانی کا ایک دروازہ کھلتا ہے ۔
۔ کیا لفظ کے آخر سے بھی عین کو گرایا جاسکتا ہے؟ اس کی مثالیں بھی موجود تو ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس میں ازحد احتیاط اور مزید غور و فکر کی ضرورت ہے ۔ اب میں اس پر مزید غور کرتا ہوں تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ ایسا نہ کرنا بہتر ہوگا ۔ جہاں تک اس بات کا سوال ہے کہ پھر میں ایسا کیوں کررہا ہوں تو جواب اس کا یہ ہے کہ میں ایسا کرکےدراصل توپ کے لائسنس کی درخواست دے رہا ہوں ۔ اس امید پر کہ پستول کا لائسنس تو کم از کم مل ہی جائے گا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محترمی سرور عالم راز سرور صاحب کے محولہ بالا مضمون سے اسقاطِ عین کے اشعار کی مثالیں یہ ہیں :
سودا تجھے کہتا ہوں نہ خوباں سے مل اتنا
تو اپنا غریب عاجز دل بیچنے والا
(سودا)
خرید عشق نے جس روز کی متاعِ چمن
جو نقدِ جاں پڑی قیمت تو دل بیعانہ تھا
(سودا)
نہ مانا کبھی دل نے کہنا ہمارا
نہایت ہم عاجز ہوئے بکتے بکتے
(نظیر اکبر آبادی)
بزرگوں بیچ کہیں بوئے میہمانی نہیں
تواضع کھانے کی ڈھونڈو سو جگ میں پانی نہیں
(شاہ حاتم)
کون عہدِ وفا اُس بتِ سفاک سے باندھے
سر کاٹ کے عاشق کا جو فتراک سے باندھے
(مصحفی)
ظفر خارِ کیوں گُل کے پہلو میں ہوتے
جو اچھے نصیب عندلیبوں کے ہوتے
(بہادر شاہ ظفر)
ہاں ابھی دور بہت دور مجھے جانا ہے
الوداع اے مہ و خورشید کہ ہوں پا بہ رکاب
(فراق گورکھپوری)
اُمید و یاس ، وفا و جفا ، فراق و وصال
مسائل عشق کے اِن کے سوا کچھ اور بھی ہیں
(فراق گورکھپوری)
پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
دیوارِ شب اور عکسِ رُخِ یار سامنے
(فیض احمد فیض)
لے جائیں مجھ کو مالِ غنیمت کے ساتھ عدو
تم نے تو ڈال دی ہے سپر تم کو اس سے کیا
(پروین شاکر)
اب تو میرے دل میں غم کا نام بھی باقی نہیں
عیش ہے اب عیش ہے ، دن عیش کا رات عیش کی
(عبدالحمید عدم)
نہیں کہ عرضِ تمنا پہ مان ہی جاؤ
ہمیں اِس عہدِ تمنا میں آزماؤ بھی
(مصطفٰے زیدی)
اک دواخانے کی کرسی پر بھرے بازار میں
تھی اک عورت چپکے چپکے ڈاکٹر سے ہمکلام
(احسان دانش)