یورپ کی سیر: بیلجئیم، فرانس اور سویزرلینڈ

میم نون

محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم

السلامُ علیکم

پچھلے سال مارچ کا مہینہ آیا تو سوچا کہ کیوں نہ اگست کی چھٹیوں میں انگلینڈ کا چکر لگا لوں۔
ٹریول ایجنسی سے ویزے کے لئیے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسکے لئیے روم جانا پڑے گا انٹرویو دینے کے لئیے، یہ سن کر حیران رہ گیا کیوں کہ پہلے ایسا قانون نہیں تھا، یہ اس لئیے معلوم ہے کہ کچھ سال قبل ابو گئے تھے تو ٹریول ایجنسی نے اپنی فیس لے کر ویزا لگوا دیا اور ایمبیسی یا کونسلیٹ نہیں جانا پڑا تھا، غالبا یہ قانون ایک مشہور 7 جولائی کے واقعے کے بعد بنایا گیا تھا۔
خیر میں نے ان سے تمام کاغذات کی فہرست لے لی جو کہ ویزے کے لئیے درکار ہوتے ہیں۔
ان تمام کاغذات کو اکٹھا کر لیا اور ساتھ ہی روم میں انگریزی سفارتکانے کی ویب سائٹ کا بھی آپریشن کر ڈالا کہ تمام تر معلوم حاصل کر لی جائیں۔
اب صرف ملاقات کے لئیے وقت لینا تھا اور پھر انٹرویو کے لئیے جانا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں روم جانے کو دل نہیں کرتا تھا، خیر سوچا ابھی بڑا وقت ہے اگست کے آنے میں آرام سے ویزا لگوا لوں گا، یہ سوچتے سوچتے ہی مئی کا مہینہ بھی آگیا اور روم جانے کو پھر بھی دل نہیں کر رہا تھا، آخر یہ فیصلہ کیا کہ دفعہ مارو انگلینڈ کو ہم کونسے اسکے بغیر پاگل ہوئے چلے ہیں اور کہیں اور جانے کا پروگرام بناؤ۔
بڑے بھائی ان دنوں کام کے سلسلے میں جرمنی تھے تو سوچا وہیں کا چکر لگا لوں گا، لیکن تھوڑے دنوں بعد بھائی واپس آگئے تو وہ بھی رہ گیا۔
جون آیا تو یہی سوچ رہا تھا کہ کہاں جاؤں یا کہیں نہ جاؤں اور بس آرام سے گھر میں چھٹیاں گزاروں ویسے بھی اگست میں روزے تھے۔
لیکن جب چھوٹے بھائیوں کو سکول سے چھٹیاں ہوئیں تو انھوں نے ابو کے پاس بیلجئیم جانے کا پروگرام بنایا۔ ابو ان دنوں کام کے سلسلے میں وہیں پر تھے۔
دونوں چھوٹے بھائی چھٹیاں ہوتے ہی چند دنوں کے لئیے ابو کے پاس چلے گئے، واپس آئے تو مجھے وہاں کی چند تصاویر دکھائیں، مجھے بڑی اچھی لگیں۔
میں نے ابو سے پوچھا تو بولے کہ شائد اگست تک وہیں رہیں اور اگست کے بعد واپس آئیں، انھیں دنوں بڑے بھائی کا بھی بیلجیئم جانے کا پروگرام بن گیا۔
تو میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہوا، یہ سوچ کر بارہ دنوں کی ہوئی جہاز کی واپسی کی ٹکٹ کروا لی کہ ایک دو دن بھائی کہ پاس رہوں گا جو کہ برسلز جا رہے تھے (وہاں پر چند عزیز بھی ہوتے ہیں) پھر تین چار دن ابو کے پاس اینٹ ورپن چلا جاؤں گا، وہاں سے پھر ایک اور عزیز کے پاس دو ایک دن چلا جاؤں وہ بھی اینٹ ورپن ہی میں کہیں ہوتے ہیں، اور آخر میں دوبارہ برسلز آ جاؤں گا اور دو دن بعد وہیں سے واپسی۔
یہ تو تھا سارا پروگرام جو کہ میں نے بنایا، لیکن ہوا کیا وہ اگلی قسط میں
 

میم نون

محفلین
ساری تیاری مکمل تھی، جو کہ ذہنی تھی، باقی میں نے کیا تیاری کرنی تھی بس ایک بیگ میں دو تین جوڑے کپڑوں کے لینے تھے اور بس۔
اور ٹکٹ بھی لے لی، جو کہ کافی سستی مل گئی :grin:
لیکن جولائی کا مہینہ آیا تو ابو واپس آ گئے اور بھائی کا بھی جانے کا پروگرام منسوخ ہو گیا :eek:
پہلے تو سوچا کہ نہیں جاتا، اور ٹکٹ ضائع ہونے کا بھی افسوس نہیں تھا کہ سستی ہی ملی تھی ;)
لیکن ابو نے بولا کہ تم جاؤ اور چند دن دونوں عزیزوں کے گھر گزار آؤ اور اینٹ ورپن سے بس پکڑ کر ایک دن ایمسٹرڈم بھی ہو آنا۔
میں نے بولا اچھا ٹھیک ہے۔
اگست آیا اور جانے کا دن آیا تو صبح صبح گھر سے ہوائی اڈے کے لئیے نکلے، ابو اور ایک دوست ساتھ آئے تھے ہوائی اڈے تک، گاڑی میں یاد آیا کہ اپنی عینک تو گھر ہی بھول گیا ہوں :cool:
جی ہاں نظر کی عینک، عام طور سے نہیں لگاتا لیکن ڈرائیونگ کے وقت اور رات کو یا اندھیرے میں یا پھر جب کسی کورس پر جاؤں تو اس وقت ہی لگاتا ہوں (کہ تختہ سیاہ پر ٹھیک نظر آ جائے)۔
ابھی گھر سے زیادہ دور نہیں تھے اور اگر واپس بھی آ جاتے تو کافی وقت تھا ابھی پرواز میں لیکن میں نے سوچا جانے دیں اللہ کے فضل سے ابھی بغیر عینک کے بھی گزارا ہو جاتا ہے۔
تو بس ایسے ہی چلے گئے۔
ہوائی اڈے پر پہنچ کر جہاز پکڑا اور پھر پرواز نے اڑان لی برسلز کی طرف۔
سفر زیادہ لمبا نہیں تھا اور ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ وقت میں منزل پر پہنچ گئے، ہوئی اڈے سے برسلز کی ایک عدد نقشہ اور ایک گائیڈ لی کہ اس سے وہاں گھومنے میں آسانی رہے گی۔
ہوائی اڈا چونکہ برسلز سے دور تھا اس لئیے بس پکڑی وہاں جانے کے لئیے۔
لیکن ایک منٹ، بس کا ایک واقع یاد آگیا، میں ٹکٹ خرید کر بس میں سوار ہونے کا انتظار کر رہا تھا، ڈرائیور باری باری اوپر چڑھا رہا تھا کہ بس پوری ہو جانے کے بعد باقی مسافر اگلی بس کا انتظار کریں (ایک بس پہلے ہی چھوٹ چکی تھی، وہ بھی اس چکر میں کہ میں دھکیلا دھکیلی نہیں کرتا شریف بن کر ایک طرف سے آرام سے داخل ہونے کی کوشش کرتا ہوں :))
ہم بس میں سوار ہو رہے تھے کہ ایک عورت جو اپنا سامان بس کے نیچے بنے ہوئے خانے میں رکھ کر آئی تھی وہ ڈرائیور سے بولنے لگی کہ وہ اپنے بچے کو بس میں چھوڑ کر آئی ہے اور اسے اوپر چڑھنے دیا جائے، ڈرائیور نہ مانا تو عورت اس سے جھگڑا کرنے لگ گئی اور وہ بھی فرینچ میں:eek: پہلی بار فرینچ قریب سے سننے کو ملی اور وہ بھی اسطرح :grin:
آخر جھگڑا کر کرا کے وہ اوپر چڑھ گئی اور بعد میں میں بھی سوار ہو گیا، اتفاق سے مجھے اس عورت کے قریب ہی سیٹ ملی اور میرے ساتھ ایک اور پاکستانی بھائی بھی بیٹھ گیا، وہ اینٹ ورپن کا رہائشی تھا اور اٹلی سیروتفریح کے لئیے آیا تھا، اس سے کافی گپ شپ ہو گئی اور وہاں کے لوگوں کے بارے میں چند معلومات بھی لے لیں۔
بس سڑک پر دوڑی جا رہی تھی، ہر طرف سرسبز اور صفائی تھی، مجھے یہ سب بہت بھلا لگا، اس پاکستانی بھائی سے بات کرنے پر پتہ چلا کہ برسلز کا علاقہ اتنا صاف ستھرا نہیں ہے اور اینٹ ورپن کے علاقے میں زیادہ صفائی ہے۔
بیلجئیم اتنا بڑا نہیں ہے اور اسکی آبادی دو بنیادی گروہوں پر مشتمل ہے، ایک شمالی شمال مغربی علاقے میں یہ فرینچ بولنے والے ہیں، برسلز بھی انھیں علاقوں میں ہے، اور دوسرا مشرقی علاقے میں یہ لوگ ڈچ بولتے ہیں، یہاں تک کہ ان علاقوں کے تعلیمی نظام بھی ان دو زبانوں میں الگ ہیں۔
بس منزل کی طرف گامزن تھی کہ میرا دھیان اس عورت کی طرف چلا گیا، وہ اپنے پیچھے والی سیٹ پر بیٹھے اٹالین سے بس ڈرائیور کی برائی کر رہی تھی اور اسے گالیاں بھی نکال رہی تھی :eek: وہ بھی اٹالین میں، کہ ڈرائیور اسے اوپر نہیں چڑھنے دے رہا تھا، ویسے عورت ٹھیک ہی کہہ رہی تھہ کہ اسکا بچہ اوپر ہے وہ واقعی ہی اپنے بچے کے ساتھ تھی جو کہ سو رہا تھا۔
خیر اس بات کو یہیں ختم کرتے ہیں، یہ عورت اس لئیے یاد رہ گئی کہ اسکے منہ سے بڑی پیاری فرینچ سننے کو ملی :grin:
آخر کار بس "مڈی ٹرین اسٹیشن" پر پہنچی جو کہ برسلز کا مرکزی اسٹیشن ہے۔ اور یہی میری منزل تھی۔
 

میم نون

محفلین
اسٹیشن پر پہنچ کر اب ان عزیز کے گھر جانا تھا جو کہ اسٹیشن کے قریب ہی کہیں تھا، وہ عزیز مجھے لینے تو نہ آ سکے کیونکہ کام کے سلسلے میں دوسرے علاقے میں گئے ہوئے تھے، لیکن میرے پاس ایڈریس موجود تھا، نقشی کی مدد سے پیدل ہی اس گلی کی طرف چل دیا جو کہ نقشے کے زیادہ دور نہیں ہونی چاہئیے تھی۔
یہاں سے تصاویر لینے کا سلسلہ بھی شروع کیا۔

تو یہ ہے پہلی تصویر جو کہ میں نے کھینچی۔

Belgium-France-Switzerland001.jpg



یہ عمارت مڈی اسٹیشن کے پاس ہے۔

راستے پر چلتے ہوئے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کس طرف جانا ہے، وہاں کے نقشے کی ابھی سمجھ نہیں آرہی تھی، لیکن اندازہ تھا کہ درست سمت جا رہا ہوں۔
کچھ دور جا کہ ایک بڑا سا جھولا نظر آیا قریب گیا تو لگتا تھا کہ کوئی میلہ ہے، لیکن ابھی دن تھا تو سب کچھ بند تھا (یہاں پر ایسے میلے عام طور سے شام کے بعد ہی چلتے ہیں)۔
اس جھولے کی تصویر بھی کھینچی

Belgium-France-Switzerland002.jpg


تقریبا آدھے گھنٹے کی "آوارہ گردی" کے بعد کچھ شک ہوا کہ شائد میں اپنی مطلوبہ گلی میں پہنچ گیا ہوں، مشکل یہ تھی کہ وہاں پر گلیوں پر انکے نام کہیں کہیں ہی لکھے تھے، اس گلی میں ایک دیسی رستوران سا نظر آیا جو کہ بند تھا، رمضان کا مہینہ تھا اور دن میں بند ہی ہونا تھا اسے، لیکن ساتھ ہی ایک دروازہ کھلا ہوا تھا، جس کے اندر کچھ نظر آرہا تھا، میں نے دروازہ کھٹکھٹایا تو ایک صاحب نمودار ہوئے، شکل سے دیسی ہی لگے، میں نے انگلش میں بات شروع کی اور انھیں پتہ پوچھا جہاں مجھے جانا تھا، انکے بتانے پر پک ہوا کہ میں درست گلی میں پہنچ چکا ہوں اور جہاں مجھے جانا ہے وہ مکان تھوڑی ہی آگے ہے، وہاں سے چلنے سے پہلے میں نے ان صاحب کا شکریہ ادا کیا اور انکے بارے میں چکھ دریافت کیا تو معلوم ہو کہ وہ افغانی ہیں اور اردو بھی اچھی بول لیتے ہیں، اس وقت وہ اپنے رستوران کا شام کے لئیے سامان تیار کر رہے تھے، میں وہاں سے چلا اور پھر اس گھر پہنچ گیا جہاں مجھے جانا تھا، اس عمارت میں تقریبا تمام فلیٹ پاکستانیوں ہی کے پاس تھے، ایک صاحب نے مجھے میرے عزیز کا فلیٹ کھول دیا اور میں اندر چلا گیا۔
 

میم نون

محفلین
جب گھر پہنچا تو شام ہونے میں ابھی کچھ وقت باقی تھا، جن صاحب نے دروازہ کھولا (بعد میں پتہ چلا کہ ساتھ والے فلیٹ میں رہتے ہیں) روزہ کا پوچھا، میں نے سفر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا تھا تو انھوں نے پانی وغیرہ پلایا۔
پھر میں اکیلا ہی باہر نکل گیا کہ آس پاس کا ایک چکر ہی لگا لوں۔

یہ سبزی کی دوکان غالبا کسی مرکشی باشندے کی تھی

Belgium-France-Switzerland012.jpg



اور یہ حلال گوشت کی دوکان جو کہ بند تھی
Belgium-France-Switzerland013.jpg


تھوڑی دیر چکر لگا کر واپس آگیا۔
شام کو میرے عزیز گھر آئے تو انسے ملاقات ہوئی، انسے پتہ چلا کہ اسٹیشن سے انکے گھر کا فاصلہ پیدل چند منٹ سے زیادہ نہیں ہے اور میں نے ایک لمبا چکر لگایا تھا :eek:
اس میلے کے بارے میں معلوم ہوا کہ بیلجئیم کا سب سے بڑا میلہ ہے اور کوئی چالیس دن لگا رہتا ہے، اب چند دن اور رہنا تھا اسنے۔
 

میم نون

محفلین
دوسرے دن میں اکیلا ہی نکل پڑا برسلز دیکھنے کے لئیے۔

مجھے بتایا گیا کہ میں بڑے اچھے موقع پر پہنچا تھا، برسلز کے ایک چوک میں ہر سال ان دنوں پھولوں سے ایک قالین بنایا جاتا ہے جو کہ شائد دو یا تین دن رہتا ہے ( تازہ پھولوں سے بنایا جاتا ہے اور دو تین دن بعد یہ خراب ہو جاتے ہیں) اور وہ دن پہلا دن تھا ;)

تو بس اسے دیکھنے نکل پڑا مجھے سمت سمجھائی گئی تھی اور میرے پاس نقشہ بھی تھا۔
جو میلہ لگا ہوا تھا اس وقت تو سارا سنسان ہی تھا اور میں وہ سارا پار کر گیا کہ مجھے دوسری طرف جانا تھا، کوئی ڈیڑھ کلومیٹر لمبا ہو گا وہ میلہ۔

رستے میں ایک اسلامی بک شاپ نظر آئی

Belgium-France-Switzerland019.jpg


Belgium-France-Switzerland020.jpg


اسکے اندر بھی گیا، ماشاء اللہ قران پاک کے نسخے، سپارے، اسلامی کتابیں، کیسٹس، اور ہر طرح کی دینی کتابیں اور اسلامی چیزیں موجود تھی، میں نے ایک شیشی عطر کی خریدی۔
 

میم نون

محفلین
رستے میں چند مزید تصاویر بھی کھینچیں

Belgium-France-Switzerland021.jpg

اٹالین حلال کھانوں کی دوکان :eek:

Belgium-France-Switzerland022.jpg

شائد کسی عربی بینک کی ایک شاخ



Belgium-France-Switzerland023.jpg


ہیری پوٹر فلم میں استعمال ہوے والی اشیاء، جادوئی چھڑیاں، جھاڑو، ویسے لباس اور پتہ نہیں کیا کیا
 

میم نون

محفلین
کچھ دیر وہاں رکنے کے بعد آگے کو چل دیا، ایک لیدر کی مارکیٹ نظر آئی، جہاں پر تقریبا تمام دوکانیں پاکستانیوں کی تھیں۔

ایک دوکان پر یہ تصویر دیکھی
Belgium-France-Switzerland045.jpg


پھولوں والے کارپٹ کے بعد سے میں نقشے کا استعمال نہیں کر رہا تھا بس جدھر کو رخ ہوتا چل پڑتا،
کچھ دیر بعد احساس ہوا کہ جس طرف جا رہا ہوں شہر کا وہ علاقہ پیچھے کی نسبت اونچائی پر ہے، یہاں تک کہ مجھے کافی دفعہ سیڑھیاں بھی چڑھنی پڑیں

یہ ایک پارک ہے جو کہ پیچھے شہر کی نسبت اونچائی پر ہے
Belgium-France-Switzerland060.jpg



اب جہاں پر موجود تھا وہ حصہ تو واقعی ہی پچھلے حصے سے کافی اونچائی پر تھا

Belgium-France-Switzerland067.jpg
 

میم نون

محفلین
آگے جا کر میلے قسم کی ایک اور جگہ نظر آئی لیکن میں وہاں رکا نہیں اور آگے چل دیا
Belgium-France-Switzerland070.jpg


Belgium-France-Switzerland071.jpg

۔ ۔ ۔

کافی آگے جا کہ ایک بہت بڑا پارک نظر آیا میں اندر گھس گیا، اب دوپہر ہو چکی تھی اور میں تھوڑا تھک بھی گیا تھا، بس وہیں ایک درخت کے نیچے بینچ پر بیٹھ گیا، روزہ تھا اس لئیے مناسب سمجھا کہ کچھ دیر ادھر ہی گزاری جائے، اتنی دیر میں گھر فون کر لیا۔

اب مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا کہ میں شہر میں کسطرف نکل آیا ہوں، میں نقشے کا استعمال بھی نہیں کر رہا تھا، خیر اب میں نے نقشہ کو دوبارہ کھولا اور جو رستہ طے کر کے آیا تھا اسے ذہن میں دوڑانے لگا، اور نقشے پر نشان لگاتا گیا، آخر کو پتہ چلا کہ میں ایک بہت بڑے پارک میں بیٹھا ہوا ہوں :)
اسکا نام تو یاد نہیں آرہا لیکن نقشے پر لکھا ہوا ہے میرے پاس۔
اور تھکان کی وجہ سے تصویر لینا بھی یاد نہ رہا۔

مجھے برسلز میں آئے ہوئے ایک دن ہو گیا تھا، اور پارک میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ اب کدھر جایا جائے :)
 

میم نون

محفلین
تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ پارک میں گزارنے کے بعد نقشہ ہاتھ میں تھمائے پارک کے پچھلے دروازے کی طرف چل پڑا۔ نقشے پر مجھے یورپین کوارٹر نظر آیا جو کہ کہیں قریب ہی ہونا چاہئیے تھا، سوچا چلیں یورپی پارلیمنٹ ہی دیکھ لیتے ہیں۔
پچھلے دروازے سے باہر نکل کر ایک چوک میں آیا لیکن یہاں بھی وہی مسئلہ، گلیوں کے نام نہیں لکھے ہوئے تھے اور پتہ نہیں چل رہا تھا کہ پارلیمنٹ کی جانب کس رستے سے جانا ہے، رستے پر گزرتے ایک شخص کو روک کر اس سے پوچھا تو اس نے تھوڑا رستہ سمجھایا اور یہ بھی بتایا کہ میٹرو میں جانے سے جلدی پہنچ جاؤں گا، ساتھ ہی میٹرو کا زمین دوز سٹاپ تھا، میں نیچے چلا گیا اور ٹکٹ کے بارے میں پتہ کیا، معلوم ہوا کہ سارے دن کی ٹکت لینا میرے لئیے مناسب رہے گا جو کہ ساڑھے چار یورو کی تھی، اور اس ٹکٹ سے برسلز کی تمام پبلک ٹرانسپورٹ میں پورے ایک دن کے لئیے سفر کیا جا سکتا تھا کہ جدھر چاہے جاؤ۔
وہاں سے میٹرو کا نقشہ بھی لیا جو کہ میں نے وہیں معلوماتی دفتر سے سمجھ لیا کہ اسے کیسے پڑھنا ہے، برسلز میں میٹرو کی کل چھ ٹرینیں ہیں جو کہ سارے شہر کا چکر لگاتی ہیں، اور ہر ٹرین کوئی پندرہ بیس منٹ میں اپنا چکر پورا کر کے دوبارہ اسی سٹاپ پر پہنچ جاتی ہے۔
پھر ایک میٹرو پر سوار ہو گیا، یورپین پارلیمنٹ جانے کے لئیے مجھے ایک سٹاپ پر میٹرو بدلنی تھی، اس لئیے میں بہت چکنا تھا کہ کہیں وہ اسٹاپ چھوٹ نہ جائے، پریشانی کوئی نہیں تھی کیونکہ سارے دن کی ٹکٹ لے لی تھی اور ابھی دوپہر کے ڈھائی تین کا وقت تھا۔
میں اپنے مطلوبہ سٹاپ پر اتر گیا اور چند منٹ بعد دوسری میٹرو پر سوار ہو کر یورپین کوارٹر پہنچ گیا۔
وہاں پر چند تصویریں لی جن میں سے کچھ یہ ہیں:

یہ عمارت کی پچھلی طرف

Belgium-France-Switzerland084.jpg



زمین پر جگہ جگہ یورپی یونین کا نشان بنا ہوا تھا

Belgium-France-Switzerland085.jpg



عمارت کے سامنے جاتے ہوئے

Belgium-France-Switzerland087.jpg


Belgium-France-Switzerland089.jpg


یہ عمارت کے سامنے

Belgium-France-Switzerland090.jpg
 

میم نون

محفلین
یہ یورپی کمیشن کی عمارت والی گلی

Belgium-France-Switzerland096.jpg



یورپی کمیشن کی عمارت کے نیچے

Belgium-France-Switzerland101.jpg



عمارت کے نیچے کھڑے ہو کر سامنے والی عمارت کی تصویر لی

Belgium-France-Switzerland109.jpg



رابرٹ شومن کے نام کا ایک پتھر

Belgium-France-Switzerland111.jpg


اس پر اٹالین میں شومن کو اس کی کوششوں کے نتیجے میں خراج تحسین پیش کیا گیا ہے، جو کہ اس نے یورپی یونین بنانے کے لئیے کی تھیں، پتھر کی دوسری اطراف انگریزی، فرینچ اور ایک چھوتھی زبان میں بھی یہی لکھا ہوا تھا۔
اب شومن کون ہے اسکا مجھے کوئی پتا نہیں، اسکا نام بھی پہلی بار یہیں پڑھا، برسلز کے ایک علاقے کو بھی شومن کے نام دیا گیا ہے۔


عمارت کے نیچے سے ایک اور تصویر

Belgium-France-Switzerland117.jpg
 

میم نون

محفلین
سوچا عمارت کے اندر جایا جائے لیکن کسی کو نہ ہی اندر جاتے دیکھا اور نہ ہی باہر آتے، اس لئیے تھوڑی دیر ارد گرد چکر لگا کر ایک جانب چل دیا۔

ایک چوک میں انسانی حقوق کی حفاظت کے لئیے بہت بڑے بڑے پوسٹر اور بینر لگے ہوئے تھے۔

Belgium-France-Switzerland135.jpg


Belgium-France-Switzerland136.jpg


Belgium-France-Switzerland137.jpg


Belgium-France-Switzerland138.jpg
 

میم نون

محفلین
ہر تصویر میں کسی انسانی حق کی پامالی دکھائی گئی تھی اور اس کے نیچے زمین پر مختلف زبانوں میں اس بنیادی انسانی حق کے بارے میں لکھا ہوا تھا

Belgium-France-Switzerland139.jpg



Belgium-France-Switzerland140.jpg


Belgium-France-Switzerland141.jpg


Belgium-France-Switzerland143.jpg
 

میم نون

محفلین
کچھ دیر وہاں ٹھہر کر آگے چل دیا، اب میں شہر میں کافی دور نکل چکا تھا، صبح سے پیدل سفر کیا تھا اور پھر میٹرو میں بھی۔
یہاں پر میں نے دوبارہ نقشہ نکال لیا اور اس پر نظر دوڑانے لگا، اس نقشہ کی ایک خاص بات یہ تھی کہ بہت سی اہم جگہوں پر انکی تصاویر بنی ہوئی تھیں، چونکہ میں میٹرو سے یورپین کوارٹر پہنچا تھا اور پھر کچھ پیدل بھی چلا تھا، اس لئیے نقشے پر اپنا مقام ڈھونڈنے میں کچھ وقت لگ گیا، بہر حال جب کچھ سمجھ آئی کہ میں کس مقام پر موجود ہوں تو یہ دیکھنے لگ گیا کہ اب کدھر جایا جائے، جہاں پر میں موجود تھا وہاں قریب ہی ایک عجائب گھر تھا جہاں پر ڈاینا سور کے مجسمے وغیرہ ہونے چاہئیے تھے، کم از کم نقشے سے تو مجھے یہی سمجھ آئی۔
میں اس عجائب گھر کو دیکھنے کی نیت سے اس طرف چل پڑا کہ زیادہ دور بھی نہیں ہے۔

رستے میں ایک عمارت کی تصویر لی جو کہ یہ ہے:

Belgium-France-Switzerland149.jpg


یہ والی تصویر میری بنائی ہوئی ان چند تصاویر میں سے ہے جو مجھے بہت اچھی لگیں۔


سڑک سے ہٹ کر میں چھوٹی گلیوں کے اندر سے گزرتا ہوا عجائب گھر کی طرف بڑھتا رہا، لیکن ابھی تک میں یورپین کوارٹر میں ہی تھا اور کبھی کبھار مختلف عمارات میں کچھ یورپی دفاتر نظر آ جاتے تھے:

Belgium-France-Switzerland151.jpg


کافی دیر پیدل چلنے کے بعد اندازہ ہوا کہ نقشہ پر کم نظر آنے والا فاصلہ در حقیقت اتنا کم بھی نہیں ہے، ایک دفعہ تو میں تھک کر کچھ دیر کے لئیے ایک عمارت کے نیچے چھاؤں میں بیٹھ گیا، تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ سے اٹھا اور وہاں سے گزرنے والے پولیس افسران سے پوچھا کہ عجائب گھر جانے کے لئیے نزدیک ترین راستہ کونسا ہے، انھوں نے مجھے ایک رستہ بتایا اور میں اس طرف چل دیا، یہ بالکل ایک چھوٹی سی گلی تھی اس کا احتتام عجائب گھر والی سڑک پر ہوتا تھا، میں گلی کے احتتام پر پہنچ کر بائیں طرف مڑ گیا۔
 

میم نون

محفلین
اس سڑک پر کچھ آگے جا کر وہ عجائب گھر آگیا، باہر سے تو یہ ایک دیوار تھی اور ایک بہٹ بڑا سلاخوں والا دروازہ، اس دروازے کے پیچھے بہت ساری سیڑھیاں جنھیں چڑھ کر اوپر جانا تھا اور پھر دیکھنا تھا کہ جس جگہ کے لئیے اتنا پیدل چلا آیا وہ اس قابل ہے بھی کہ نہیں۔

خیر میں سیڑھیاں اوپر چڑھنے لگا، کچھ لوگ نیچے آ رہے تھے، ایک عورت تو اپنے بچے کو ایک ہاتھ میں اٹھائے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اس کی ریڑھی کو گھسیٹے ہوئی بڑی مشکل سے نیچے اتر رہی تھی، کچھ مزید لوگ بھی نیچے آ رہے تھے جبکہ کچھ اوپر چڑھ رہے تھے، اوپرجا کے ایک بہت بڑی عمارت نظر آئی نسکا صرف سامنے والا حصہ ہی نظر آرہا تھا، اسکے سامنے ڈاینا سور کا ایک بہت بڑا مجسمہ بنا ہوا تھا:

Belgium-France-Switzerland153.jpg


اب یہ گاڑیاں کیسے اندر آئیں کوئی پتہ نہیں کیونکہ جس راستے سے میں آیا تھا وہاں سے تو آ نہیں سکتی تھیں۔
ضرور کوئی دوسرا رستہ بھی ہو گا۔

اب تقریبا ساڑے چار بجنے والے تھے اور عصر کا وقت بھی ہو گیا تھا، چنانچہ سوچا اندر جانے سے پہلے نماز ادا کر لی جائے، جہاں پر کھڑے ہو کر یہ اوپر والی تصوری بنائی ہے وہیں دائیں جانب کچھ درخت لگے ہوئے تھے اور انکے نیچھے بیٹھنے کے لئیے بینچ بھی تھے اور گھاس بھی موجود تھی، تووہیں پر نماز ادا کی اور پھر عجائب گھر کے اندر داخل ہو گیا، وہاں پر کوئی آدھ درجن کاؤنٹر بنے ہوئے تھے لیکن کوئی رش نہیں تھا، میں ایک کاؤنٹر پر چلا گیا تو پتہ چلا کہ ڈایناسور کے علاوہ یہاں پر وہیل مچھلیاں بھی موجود تھیں :) جو کہ صرف تین دن کے لئیے لائی گئی تھیں اور آج انکا دوسرا دن تھا، اسکی ٹکٹ الگ تھی، میرے دریافت کرنے پر کاؤنٹر پر موجود آدمی نے بتایا کہ عجائب گھر چھ بجے بند ہو جاتا ہے اور اب ساڑھے چار بج رہے تھے، ڈیڑھ گھنٹے میں تو سارا کچھ نہیں دیکھا جا سکتا تھا، حاصکر مجھے وہیل مچھلیاں بھی دیکھنا تھیں تو سوچا ابھی واپس چلتا ہوں اور کل پھر سے آ جاؤں گا۔
 

میم نون

محفلین
وہاں سے نکل کر باہر آیا تو بہت تھکا ہوا تھا، اب تو یہی کوشش تھی کہ واپس جانے کے لئیے کوئی بس پکڑی جائے، وہیں بس کا ایک اسٹاپ بھی موجود تھا، میں وہاں بیٹھ کر انتظار کرنے لگا، وہاں پر کسی قسم کے کوئی اوقات کار نہیں لکھے ہوئے تھے اس لئیے مجھے معلوم نہیں تھا کہ مزید کتنا انتظار کرنا پڑے گا، کچھ دیر وہیں بیٹھا رہا اور پھر دو لڑکیاں بھی آ کر بیٹھ گئیں، خلئیے سے یونیورسٹی کی طالبات لگتی تھیں، میں نے ان سے پوچھا کیا تمہیں انگلش آتی ہے تو انھوں مثبت جواب دیا، پھر میں نے انھیں بتایا کہ مجھے مڈی اسٹیشن پر جانا ہے اور پوچھا کہ بس کس وقت آئے گی؟ جو لڑکی میری طرف بیٹھی تھی اس نے بتایا کہ بس آنے ہی والی ہے، لیکن پکا پتہ اسے بھی نہیں تھا، یہی بولی کہ کبھی ساڑھے چار آجاتی ہے تو کبھی پانچ بج جاتے ہیں :eek: یعنی کہ اسکا کوئی پکا وقت نہیں تھا۔
خیر پانچ بھی بجنے ہی والے تھے، میں نے اسے اپنی ٹکٹ دکھا کر پوچھا کہ کیا یہی ٹکٹ اس بس پر بھی چل جائے گی؟ تو اس نے ہاں میں جواب دیا پھر بولی کہ انھوں نے بھی مڈی اسٹیشن کی طرف ہی جانا ہے اور اگر میں چاہوں تو انکے ساتھ چل سکتا ہوں، مجھے بھلا اور کیا چاہئیے تھا، پہلے ہی تھک کر برا حال تھا اور اب جلدی سے جلدی گھر جانا چاہتا تھا اور کوشش تھی کہ کہیں غلط سمت نا چلا جاؤں، خیر اب ان کے ساتھ ہونے سے یہ پریشانی نہیں رہی تھی۔
یہاں پر ایک بات یاد آئی، برسلز میں میں نے دیکھا کہ تقریبا تمام لوگوں کو انگلش آتی ہے، اگر کسی کو اچھی نہیں آتی تو کم از کم گزارہ ضرور کر لیتا ہے، یہی بات مجھے چھوٹے بھائی نے بھی بتائی تھی، بلکہ دونوں چھوٹے بھائی جب آئے تھے تو انھوں نے ایسا کیا کہ کافی دیر تک ہر ملنے والے شخص کو پتہ پوچھنے کے بہانے روکتے رہےاور پھر یہ دیکھتے رہے کہ اسے انگلش آتی ہے کہ نہیں، اور اسنے بتایا کہ اسے صرف دو شخص ایسے ملے جنھیں بالکل بھی نہیں آتی تھی :) نہیں تو باقی سب ہی بول لیتے تھے، اور اسی کا نظارہ میں بھی کر رہا تھا۔
ہمارے یہاں اٹلی میں تو بہت کم لوگوں کو آتی ہے، اگر آپ سو آدمیوں کو روک کر ان سے پوچھیں گے تو شائد ہی کسی ایک کو آتی ہو، نوجوان نسل کو اب تھوڑی بہت آتی ہے کہ سکولوں میں پچھلے پندرہ سالوں سے اس پر بھی توجہ دی جانے لگی ہے۔

تھوڑی دیر میں بس آگئی اور ہم اسمیں سوار ہو گئے، پھر ایک اسٹاپ پر وہ دونوں بس سے اتریں اور میں بھی انکے ساتھ ہی اتر گیا، وہیں قریب ہی میٹرو کا ایک زمین دوز اسٹیشن تھا ہم نیچے چلے گئے اور پھر ایک میٹرو میں سوار ہو گئے، یہاں سے مجھے کوئی پریشانی نہیں تھی کیونکہ میٹرو کا نقشہ میرے پاس تھا اور اب مجھے سمجھ بھی آ گئی تھی کہ اسے کیسے پڑھنا ہے، ایک اسٹاپ پر ہم اتر گئے اور پھر دوسری میٹرو پکڑی اور کچھ ہی دیر میں ہم مڈی پہنچ گئے، میں نے انکا شکریہ ادا کیا اور گھر کی طرف چل دیا
 

میم نون

محفلین
برسلز میں اگست مین بھی خوب سردی ہوتی ہے، میں اپنے ساتھ کوئی جیکٹ نہیں لے گیا تھا، کیونکہ یہاں پر تو اگست میں خاصی گرمی پرتی ہے تو یہی سوچا کہ وہاں کا موسم ادھر سے زیادہ مختلف نہیں ہونا چاہئیے، لیکن یہ تو وہاں جا کہ پتہ چلا کہ کیسا موسم ہوتا ہے برسلز کا، یہ تو اچھا ہوا کہ میں گرم کپڑے ساتھ لے گیا تھا نہیں تو مجھے لگ پتہ جانا تھا۔
شام کو میں میلہ دیکھنے نکل گیا، کیمرہ ساتھ نہیں لیا تھا اس لئیے کوئی تصویر نہیں بنائی، میلہ بھی کیا تھا، مجھے تو بالکل پسند نہیں آیا، کوئی ڈیڑھ کلومیٹر لمبا ہو گا لیکن بار بار وہی چیزیں تھیں، ویسے ہی جھولے اور ویسی ہی کھانے والی چیزیں (میں نے تو کچھ بھی نہیں لیا، ویسے بھی روزہ کھول کے ہی نکلا تھا) ہر سو دو سو میٹر پر ایک بھوت بنگلہ بنا ہوا تھا، اندر اور ویسی ہی گیمیں بار بار لگی ہوئی تھیں :eek:
شام سے ہی ٹھنڈک محسوس ہونے لگ گئی تھی، میلے کا چکر لگا کر گھنٹے ایک بعد واپس آگیا، اور پھر سونے سے پہلے تھوڑی گپ شپ لگائی۔
سونے میں بڑا مزہ آیا، ہم نے تو کھڑکی کھول رکھی تھی اور اوپر کمبل اوڑھے ہوئے تھے، ایسے تھا جیسے اے سی میں کمبل لئیے ہوں، بڑے سکون کی نیند آئی۔

دوسرے دن موسم کچھ ٹھیک نہیں تھا اور صبح سے ہی ہلکی ہلکی بارش شروع ہو گئی تھی۔
ویسے تو وہاں کا موسم ایسا ہی ہوتا ہے ایک پل دھوپ تو اگلے ہی پل بارش ہونے لگ جاتی ہے۔

اس دن میرا پروگرام تھا کہ پہلے عجائب گھر جایا جائے اور پھر "آٹومیم" دیکھنے جایا جائے، اس آٹومیم کے بارے میں وہاں پر ایک پاکستانی دوست نے بتایا تھا، سوچا یہ دونوں جگہیں دیکھ کر پھر کہیں اور جاؤں گا۔

تقریباً دن کے دس بجنے والے تھے اور بارش رکنے کا نام نہین لے رہی تھی، مجھے بارش میں گھومنا بالکل بھی اچھا نہیں لگتا، اس لئیے گھر ہی بیٹھا رہا، کچھ دیر کے بعد بارش تھوڑی تھمی تو نکلا اور اور ارد گرد کا ایک چکر لگایا لیکن آثار بتا رہے تھے کہ ابھی بہت بارش ہو گی اس لئیے میں کہیں جانا نہیں چاہتا تھا۔

دوپہر ہو چکی تھی اور ہلکی ہلکی بارش جاری تھی، سوچا کہ چلو جب تک بارش تھمتی نہیں، کوئی نیٹ پوائنٹ ہی ڈھونڈا جائے، ایک جگہ مل گئی (جو پتہ نہیں کسی پاکستانی کی تھی یا پھر کشمیری کی) لیکن دوپہر کو بند تھی۔

بارش ایسی تھی کہ کبھی رک جاتی تھی اور کبھی شروع ہو جاتی تھی، ایسے میں میں کہیں نہیں جا پا رہا تھا بس قریب ہی کچھ گلیوں میں گھوم لیا۔

ترین اسٹیشن کا بھی ایک چکر لگا لیا، بپت تیز بارش شروع ہو گئی تھی اس لئیے اسٹیشن پر کافی وقت گزر گیا۔

یہ پلیٹ فارم کی ایک تصویر:

Belgium-France-Switzerland154.jpg



یہ ایک ریل گاڑی کی:

Belgium-France-Switzerland155.jpg



یہ سائیکلوں کا ایک سٹینڈ، جہاں سے سائیکل کرائے پر لی جا سکتی ہے:

Belgium-France-Switzerland159.jpg




وہاں سے نکلا تو نیٹ پوائنٹ پر گیا اور گھر والوں سے ویڈیو کے ساتھ گپ شپ ہو گئی۔
کمپیوٹر فرانسیسی زبان میں تھا اس لئیے تھوڑی دقت پیش آئی لیکن اس سے بھی زیادہ پریشانی کیبورڈ کی وجہ سے ہوئی، کیونکہ فرانسیسی کیبورڈ کے کچھ بٹن یہاں کے کیبورڈ سے مختلف جگہ پر ہوتے ہیں۔


Belgium-France-Switzerland162.jpg


کیو، اے کے ساتھ بدل گیا ہے، ڈبلیو، زیڈ کے ساتھ اور ایم، ایل کے آگے چلا گیا ہے :eek:

میں نے عجائب گھر دیکھنے جانا تھا لیکن میرا سارا دن وہیں پر گزر رہا تھا۔
 

میم نون

محفلین
ڈیڑھ گھنٹہ نیٹ پوائنٹ پر گزارنے کے بعد وہاں سے نکل کر واپس گھر آگیا، اب تو ساڑھے تین بجنے والے تھے اور اب کہیں بھی نہیں جا سکتا تھا :(
میرا عجائب گھر دیکھے کا منصوبہ کھٹائی میں پڑ گیا تھا :(
بس برسلز کی یہی چیز مجھے پسند نہیں آئی کہ وہاں پر بارش بہت ہوتی ہے۔ بلکہ ایک اور چیز جو اچھی نہیں لگی وہ درختوں کا تقریبا نا پید ہونا ہے، اتنی بڑی بڑی عمارتیں اور درخت بہت ہی کم۔

اسی دن اپنےدوسرے عزیز کو فون کیا جسکے پاس جانے کا ارادہ تھا لیکن گھنٹی جاتی تھی پر فون کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔
خیر باقی کا دن بھی وہیں آوارہ گردی کرتے گزارہ اور شام کو واپس گھر۔

شام کو اس عزیز کا فون آیا تو انھوں نے بتایا کہ وہ تو مراکش میں ہیں اور فون اس لئیے نہیں اٹھایا تھا کہ سروس صرف ہوٹل میں آتی ہے اس لئیے فون کو وہیں چھوڑ کر باہر نکلے ہوئے تھے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ انکا تو مزید ایک ہفتہ وہاں رہنے کا اردہ تھا۔
دراصل ابو نے جب انکو بتایا کہ میں نے جانا تھا تب تاریخ نہیں بتائی تھی اس لئیے انھیں اسکا علم نہیں تھا۔

خیر اب یہ سوچ رہا تھا کہ کہاں جاؤں کیونکہ برسلز کا موسم مجھے پسند نہیں آیا تھا، بارش کی وجہ سے پورا ایک دن ضائع ہو گیا تھا۔
اور ویسے بھی کسی کے گھر زیادہ دن مہمان رہنا مجھے اچھا نہیں لگتا۔

دوسرا دن بھی ابر آلود تھا، اس دن وہاں پر ہفتہ وار بازار لگا ہوا تھا، میں اسے دیکھنے چلا گیا، کافی بڑا بازار تھا اور ہر طرح کے سامان کی خرید و فروخت کی جا رہی تھی، ایک چیز جسکا میں یہاں مشاہدہ کر رہا تھا وہ تھی یہاں کی بین القومی تہذیب، وہاں پر تقریبا دنیا کے ہر علاقے کے لوگ آباد تھے حاصکر مراکش، تیونس اور دیگر افریکن لوگ بہت زیادہ تھے، اور اس بازار میں بھی بہت ساری دوکانیں ایسی تھیں جہاں سے مختلف تہذیبوں کا سامان خریدا جا سکتا تھا۔

بازار میں چلتے چلتے میں ایک دوکان پر رک گیا، وہاں پر ایک شخص اسلامی کتب، کیسسٹس اور دیگر مذہبی ساز و سامان بیچ رہا تھا، اس سے تھوڑی بہت گپ شپ ہوئی، بات کرنے پر پتہ چلا کہ وہ بیلجئین تھا اور اسلام قبول کر چکا تھا (ماشاء اللہ)۔

کچھ دیر وہیں بازار میں گھوم پھر کر دوپہر کو واپس گھر آگیا۔

اس دن سہ پہر کو کشمیر کے حق میں ایک ریلی منعقد کی جانی تھی اور میرا وہاں جانے کا منصوبہ تھا، لیکن موسم پھر خراب ہو گیا اور بارش بھی شروع ہو گئی اس لئیے کہیں بھی نا جا سکا باقی کا دن بس وہیں گھومتے گزارہ اور تھوڑی دیر نیٹ پوائنٹ پر۔

شام کو گھر یہ بتانے کے لئیے فون کیا کہ میں واپس آ رہا ہوں اور میرا یہاں دل نہیں لگ رہا، ابو نے بتایا کہ چھوٹا بھائی چند دوستوں کے ساتھ کل سے پیرس گیا ہوا ہے،وہ اپنی گاڑی لے کر ھئے تھے، اسکے جانے کے منصوبے کا علم تو مجھے بھی تھا لیکن انکا منصوبہ پکا نہیں تھا، لیکن آخر چلے ہی گئے تھے۔
چھوٹے بھائی کے ایک دوست کے رشتہ دار پیرس میں ہوتے ہیں اور اٹلی سے ہمارے چند دوست بھی کام کے سلسلے میں وہیں پر تھے، میں نے ان سے رابطہ کیا تو کہنے لگے کہ تم پہنچنے والی بات کرو آگے ہم سمبھال لیں گے۔

دوسرے دن میں مڈی اسٹیشن پہنچ گیا تاکہ ٹرین کی ٹکٹ لی جاسکے، دور ایک دیوار پر پیرس کے لئیے اسپیشل آفر کا پڑھا دیکھا، جس پر غالبا پچیس یورو لکھے ہوئے تھے (غالبا اس لئیے کہ میرے پاس عینک نہیں تھی اور درست نظر نہیں آ رہا تھا)، میں ٹکٹ لینے کے لئیے کاؤنٹر پر پہنچا تو معلوم ہوا کہ ٹکٹ نوے یورو کی ہے :eek:
خیر جانا تو تھا ہی اس لئیے ٹکٹ لے لی، ابھی دس بج رہے تھے اور گاڑی کا وقت ساڑھے گیارہ بجے تھا، میں سامان لینے کے لئیے گھر واپس آیا، اپنے عزیزوں سے اجازت پہلے ہی لے چکا تھا، اب گھر پر کوئی نہیں تھا سب اپنے اپنے کاموں پر تھے۔
سامان لے کر اسٹیشن پہنچا اور گاڑی کا انتظار کرنے لگا۔
TGV ٹرین تھی جو کہ تیز ترین ٹرین ہے، گاڑی آئی تو میں اس پر سوار ہو گیا، میری سیٹ ایک افریکن خاتون کے ساتھ تھی، اسکے دو چھوٹے بچے بھی ساتھ تھے، جو کہ کافی شریر واقع ہو رہے تھے۔

گاڑی چلنے میں ابھی چند منٹ باقی تھے۔
 

میم نون

محفلین
2010 عیسوی، اگست کا مہینہ چل رہا تھا اور میں چھٹیوں میں سیر پر۔

چند منٹوں میں ٹرین چلی اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کو پیچھے چھوڑتی ہوئی آبادی سے دور نکل آئی، یہ تھا تو پہاڑی علاقہ لیکن بہت بڑے بڑے میدان موجود تھے، اور وقفے وقفے پر بجلی بنانے کے لئیے ہوائی چکیاں لگیں ہوئی تھیں۔

گاڑی کی رفتار ڈھائی سو سے تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ ہو گی لیکن اندر بیٹھے ہوئے اسکا بلکل بھی انداہ نہیں ہو رہا تھا، شائد اسکی وجہ بڑے بڑے میدان تھے، اگر تو کسی آبادی یا درختوں کے قریب ہوتی تو پھر تیز رفتار گاڑی کا مزہ آتا، اب تو یوں تھا جیسے آدمی چاند کو دیکھتے ہوئے درجنوں میل طے کر لے اور چاند بھی ساتھ ہی ہمسفر ہو۔

کچھ ہی دیرمیں افریکی نژاد بچوں نے چپس اور پینے کے لئیے کوکا کولا نکال لی اور مزے سے کھانے لگ گئے، میں تو اللہ کے فضل سے روزے سے تھا نہیں تو میں بھی کچھ نہ کچھ ساتھ رکھتا کھانے کو۔

کچھ زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ ہم فرانس میں داخل ہو گئے، اب میں باہر کی طرف گامزن ہو گیا اور پیچھے جانے والی مختلف چیزوں کا جائزہ لینے لگا، ریل کی پٹری آبادی سے کافی دور تھی اور پورے سفر میں بس میدان اور پہاڑ ہی نظر آتے رہے، خیر تقریبا ڈیڑھ گھنٹے کے بعد ہم اپنی منزل پر پہنچ گئے۔

ٹرین سے اتر کر میں اسٹیشن کی چھت کے نیچے آگیا اور دائیں بائیں نظر مار کر مرکزی دروازے کے طرف چل دیا، مجھے چھوٹا بھائی کہیں نظر نہیں آیا تھا، میں تو ویسے بھی عینک کے بغیر تھا اور اگر وہ مجھے سے سو گز کے فاصلے پر بھی ہوتا تو میں مشکل سے ہی اسے پہچان پاتا، میں نے چند قدم ہی آگے بڑھائے تھے کہ پیچھے سے کسی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا، میں نے مڑ کر دیکھا تو یہ ہمارہ ایک دوست وقاص تھا اور اسکے پیچھے میرا چھوٹا بھائی اور ایک اور دوست علیم تھا، انکے ساتھ ایک اور لڑکا بھی تھا جسے میں نہیں جانتا تھا۔

سلام دعا کے بعد پوچھنے لگے کہ اب کہاں جانا ہے، گھر یا کہیں گھومنے؟
میں بولا کہ بھائی ابھی تو دوپہر ہوئی ہے اس لئیے کہیں گھومنے جانا چاہئیے اور شام کو افطاری کے وقت ہی گھر جائیں گے، میرا بھائی اور ایک دوست آگے ہو گئے اور ہم باقی انکے پیچھے۔
 
Top