میم نون
محفلین
بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلامُ علیکم
پچھلے سال مارچ کا مہینہ آیا تو سوچا کہ کیوں نہ اگست کی چھٹیوں میں انگلینڈ کا چکر لگا لوں۔
ٹریول ایجنسی سے ویزے کے لئیے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسکے لئیے روم جانا پڑے گا انٹرویو دینے کے لئیے، یہ سن کر حیران رہ گیا کیوں کہ پہلے ایسا قانون نہیں تھا، یہ اس لئیے معلوم ہے کہ کچھ سال قبل ابو گئے تھے تو ٹریول ایجنسی نے اپنی فیس لے کر ویزا لگوا دیا اور ایمبیسی یا کونسلیٹ نہیں جانا پڑا تھا، غالبا یہ قانون ایک مشہور 7 جولائی کے واقعے کے بعد بنایا گیا تھا۔
خیر میں نے ان سے تمام کاغذات کی فہرست لے لی جو کہ ویزے کے لئیے درکار ہوتے ہیں۔
ان تمام کاغذات کو اکٹھا کر لیا اور ساتھ ہی روم میں انگریزی سفارتکانے کی ویب سائٹ کا بھی آپریشن کر ڈالا کہ تمام تر معلوم حاصل کر لی جائیں۔
اب صرف ملاقات کے لئیے وقت لینا تھا اور پھر انٹرویو کے لئیے جانا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں روم جانے کو دل نہیں کرتا تھا، خیر سوچا ابھی بڑا وقت ہے اگست کے آنے میں آرام سے ویزا لگوا لوں گا، یہ سوچتے سوچتے ہی مئی کا مہینہ بھی آگیا اور روم جانے کو پھر بھی دل نہیں کر رہا تھا، آخر یہ فیصلہ کیا کہ دفعہ مارو انگلینڈ کو ہم کونسے اسکے بغیر پاگل ہوئے چلے ہیں اور کہیں اور جانے کا پروگرام بناؤ۔
بڑے بھائی ان دنوں کام کے سلسلے میں جرمنی تھے تو سوچا وہیں کا چکر لگا لوں گا، لیکن تھوڑے دنوں بعد بھائی واپس آگئے تو وہ بھی رہ گیا۔
جون آیا تو یہی سوچ رہا تھا کہ کہاں جاؤں یا کہیں نہ جاؤں اور بس آرام سے گھر میں چھٹیاں گزاروں ویسے بھی اگست میں روزے تھے۔
لیکن جب چھوٹے بھائیوں کو سکول سے چھٹیاں ہوئیں تو انھوں نے ابو کے پاس بیلجئیم جانے کا پروگرام بنایا۔ ابو ان دنوں کام کے سلسلے میں وہیں پر تھے۔
دونوں چھوٹے بھائی چھٹیاں ہوتے ہی چند دنوں کے لئیے ابو کے پاس چلے گئے، واپس آئے تو مجھے وہاں کی چند تصاویر دکھائیں، مجھے بڑی اچھی لگیں۔
میں نے ابو سے پوچھا تو بولے کہ شائد اگست تک وہیں رہیں اور اگست کے بعد واپس آئیں، انھیں دنوں بڑے بھائی کا بھی بیلجیئم جانے کا پروگرام بن گیا۔
تو میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہوا، یہ سوچ کر بارہ دنوں کی ہوئی جہاز کی واپسی کی ٹکٹ کروا لی کہ ایک دو دن بھائی کہ پاس رہوں گا جو کہ برسلز جا رہے تھے (وہاں پر چند عزیز بھی ہوتے ہیں) پھر تین چار دن ابو کے پاس اینٹ ورپن چلا جاؤں گا، وہاں سے پھر ایک اور عزیز کے پاس دو ایک دن چلا جاؤں وہ بھی اینٹ ورپن ہی میں کہیں ہوتے ہیں، اور آخر میں دوبارہ برسلز آ جاؤں گا اور دو دن بعد وہیں سے واپسی۔
یہ تو تھا سارا پروگرام جو کہ میں نے بنایا، لیکن ہوا کیا وہ اگلی قسط میں
السلامُ علیکم
پچھلے سال مارچ کا مہینہ آیا تو سوچا کہ کیوں نہ اگست کی چھٹیوں میں انگلینڈ کا چکر لگا لوں۔
ٹریول ایجنسی سے ویزے کے لئیے رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ اسکے لئیے روم جانا پڑے گا انٹرویو دینے کے لئیے، یہ سن کر حیران رہ گیا کیوں کہ پہلے ایسا قانون نہیں تھا، یہ اس لئیے معلوم ہے کہ کچھ سال قبل ابو گئے تھے تو ٹریول ایجنسی نے اپنی فیس لے کر ویزا لگوا دیا اور ایمبیسی یا کونسلیٹ نہیں جانا پڑا تھا، غالبا یہ قانون ایک مشہور 7 جولائی کے واقعے کے بعد بنایا گیا تھا۔
خیر میں نے ان سے تمام کاغذات کی فہرست لے لی جو کہ ویزے کے لئیے درکار ہوتے ہیں۔
ان تمام کاغذات کو اکٹھا کر لیا اور ساتھ ہی روم میں انگریزی سفارتکانے کی ویب سائٹ کا بھی آپریشن کر ڈالا کہ تمام تر معلوم حاصل کر لی جائیں۔
اب صرف ملاقات کے لئیے وقت لینا تھا اور پھر انٹرویو کے لئیے جانا تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں روم جانے کو دل نہیں کرتا تھا، خیر سوچا ابھی بڑا وقت ہے اگست کے آنے میں آرام سے ویزا لگوا لوں گا، یہ سوچتے سوچتے ہی مئی کا مہینہ بھی آگیا اور روم جانے کو پھر بھی دل نہیں کر رہا تھا، آخر یہ فیصلہ کیا کہ دفعہ مارو انگلینڈ کو ہم کونسے اسکے بغیر پاگل ہوئے چلے ہیں اور کہیں اور جانے کا پروگرام بناؤ۔
بڑے بھائی ان دنوں کام کے سلسلے میں جرمنی تھے تو سوچا وہیں کا چکر لگا لوں گا، لیکن تھوڑے دنوں بعد بھائی واپس آگئے تو وہ بھی رہ گیا۔
جون آیا تو یہی سوچ رہا تھا کہ کہاں جاؤں یا کہیں نہ جاؤں اور بس آرام سے گھر میں چھٹیاں گزاروں ویسے بھی اگست میں روزے تھے۔
لیکن جب چھوٹے بھائیوں کو سکول سے چھٹیاں ہوئیں تو انھوں نے ابو کے پاس بیلجئیم جانے کا پروگرام بنایا۔ ابو ان دنوں کام کے سلسلے میں وہیں پر تھے۔
دونوں چھوٹے بھائی چھٹیاں ہوتے ہی چند دنوں کے لئیے ابو کے پاس چلے گئے، واپس آئے تو مجھے وہاں کی چند تصاویر دکھائیں، مجھے بڑی اچھی لگیں۔
میں نے ابو سے پوچھا تو بولے کہ شائد اگست تک وہیں رہیں اور اگست کے بعد واپس آئیں، انھیں دنوں بڑے بھائی کا بھی بیلجیئم جانے کا پروگرام بن گیا۔
تو میں نے سوچا کہ چلو اچھا ہوا، یہ سوچ کر بارہ دنوں کی ہوئی جہاز کی واپسی کی ٹکٹ کروا لی کہ ایک دو دن بھائی کہ پاس رہوں گا جو کہ برسلز جا رہے تھے (وہاں پر چند عزیز بھی ہوتے ہیں) پھر تین چار دن ابو کے پاس اینٹ ورپن چلا جاؤں گا، وہاں سے پھر ایک اور عزیز کے پاس دو ایک دن چلا جاؤں وہ بھی اینٹ ورپن ہی میں کہیں ہوتے ہیں، اور آخر میں دوبارہ برسلز آ جاؤں گا اور دو دن بعد وہیں سے واپسی۔
یہ تو تھا سارا پروگرام جو کہ میں نے بنایا، لیکن ہوا کیا وہ اگلی قسط میں