یورپ کے تاریک دور سے تاریک تر، بر صغیر کا دور مولویت

لوگ عموما 'دور تاریکی' سے واقف ہیں کہ یہ یورپ کا پسماندہ ترین دور تھا۔ میرا اپنا یہ خیال ہے کہ اسی طرح کا ایک دورمسلمانانِ برصغیر پاک ہند پر بھی گذرا ہے۔
یہ دور ہے برصغیر میں وسطی ایشیاء کے مسلمان حکمرانوں کے اقتدار کا دور جو بابر سے شروع ہوا اور بہادر شاہ ظفر پر ختم ہوا۔ کچھ لوگ اس دور کو کھینچ کر محمد بن قاسم تک لے جاتے ہیں اور کچھ صرف 1000 سال تک۔ مت۔ف۔ق۔ہ تاریخ یہ ہے کے یہ مسلمانوں کا سنہری دور تھا۔ عسکری نکتہء نگاہ سے یہ تو درست ہے، لیکن اس دور میں فرد واحد حکمراں رہا اور فرد واحد ہی قانون سازی کرتا رہا۔ کسی مجلس شوری کے آثار تاریخ میں نہیں ملتے، بغور دیکھئے تو حالات کا تانا بانا کچھ اس طرح رہا کہ، برصغیر میں، اس دور میں کوئی علمی ترقی نہ ہوئی، کوئی ایجاد قابل ذکر نہیں ہے، کوئی قابل ذکر درسگاہ، کوئی یونیورسٹی، کوئی شفا خانوں‌کا نظام، سڑکوں کا نظام، فلاحی نظام، گویا علمی ترقی جو مسلمانوں کا مشرق وسطیٰ میں‌طرہء امتیاز رہا، معدوم ہے۔ اس کم علمی و تاریکی کی بڑی وجہ کیا ہے، میں بے بہرہ ہوں۔ اور اس کا الزام کس کے سر ہے؟ بتانا بہت مشکل ہے۔
البتہ سر سید احمد خان نے جس ادارے کی ابتداء کی اور جس نظام کی بنیاد ڈالی، اس سے اوریجنل تعلیم یعنی سیاست، معاشیت، ثقافت، شہریات، علم ھندسہ (انجینئیرنگ) و ریاضی کی تعلیم عام ہوئی اور برصغیر میں تھوڑے وقت میں ہی مسلمانوں نے جس نشاط ثانیہ کی طرف پیش رفت شروع کی، اس کی رفتار دنیا کے کسی بھی مسلم ملک میں گذشتہ 60 سال میں خصوصا اور قیام علیگڑھ کے وقت سے خصوصاَ نہیں ملتی۔
اس لئے جو طبقہ سرسید کی لائی ہوئی تبدیلی کی مخالفت سرسید کی کردار کشی اس زمانے میں کرتا رہا، اور روایتی مدرسہ کو جدید مدرسہ پر ترجیح دیتا رہا، اور جدید تعلیم کی مخالفت کرتا رہا، اس طبقہ کو میں فطری طور پر اس عصرِانحطاط کا ذمہ دار ٹہراتا ہوں۔ اور اسی وجہ سے اس دور کو 'دور مولویت' کہہ کر اس کا مقابلہ یورپ کے دور تاریکی سے کرتا ہوں۔ اس موازنہ کی وجہ علم کی روشنی کی کمی، علمی انحطاط، روایئتوں کا فروغ، توہم پرستی کا فروغ، ایجادات کی کمی اور اس کے نتیجے میں آزادی سے غلامی میں داخلہ ہے۔
اس 'تاریک دور مولویت' کو میں 'یوروپی دور تاریکی' سی بدتر کیوں قرار دیتا ہوں، اکی وجہ علم کے نام پر تاریکی کو فروغ‌ دینا ہے۔اور اس لئے بھی کہ اس دور میں تعلیم عظیم یعنی قران سے سنگدلانہ اختراعات کا سلسلہء غیر متناہی شروع ہوا۔ کلام الہی سے جنوں‌کی تسخیر، جنوں کی مدد سے عورتوں کو اڑوا کر منگوانا، علم الہی کو پھونک کر علاج کرنا، بے بسوں پر ظلم، اور اسی طرح کی دوسرے توہمات کو علم قران قرار دینا، علم کی نام سے تاریکی کے فروغ کی ادنیٰ مثالیں ہیں اور کچھ لوگوں کے عقیدہ میں اب تک اس قدر راسخ ہیں کہ دل کانپ اٹھتا ہے۔ مولویت اس دور میں عروج پر رہی۔ مولویں‌کی کوشش تھی کہ درپردہ علم و حکومت ان کے اپنے ہاتھ رہے، چاہے بادشاہ کوئی ہو۔ درسگاہیں صرف ان لوگوں کے لئے محدود تھیں جو ان کے "اپنے" خیالات سے متفق تھے۔ مولوی کا اپنا خیال تھا کہ وہ دین و علم کی خدمت کر رہا ہے لیکن وہ تمام مسلمانوں کو پسمانڈگی کی طرف دھکیلتا رہا۔ کوئی ایسی کوشش جو کسی دوسری درسگا کی ہوئی، مولوی اس کی راہ میں رکاوٹ‌بنا رہا، حتی کہ کسی بھی درسگاہ کی کوشش کو حکومتی زور و طاقت سے کچلتا رہا۔ یہی رکاوٹ سر سید احمد خان کو بھی پیش آئی، جب علی گڑھ یونیورسٹ کے قیام کا وقت آیا اور اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا۔ مولویوں نے ایک نظریاتی جنگ کی ابتداء کی اور سرسید کی کردار کشی اپنے پرانے ہتھکنڈوں سے کرنی شروع کردی۔ جس میں کفر کا فتوی، تارک دین ، تارک حدیث، تارک قرآن اور تارک کے سنت کے فتاوی بہ آسانی ملتے ہیں۔

مولویت کو سب سے بڑا خطرہ کسی بھی قسم کی سند سے تھا۔ اب تک وہ خود ہی قوانین بناتے آرہے تھے، جس کے گواہ، بے تحاشا فتاوی ہیں۔ لیکن کسی دوسری قسم کی سند کا مطلب تھا کہ تعلیم یافتہ افراد اپنا حصہ قانون سازی، سیاست، اور معاشرے کے دوسرے حصوں میں مانگیں گے۔ یہی ہوا بھی اور مولویت کی اولیں شکست کے بعد ہی ایک مسلم حکومت کے آثار بر صغیر پاک و ہند میں نظر آنا شروع ہوگئے۔ مولویت کی اس استحصال کو برصغیر کی کسی قوم بشمول مسلمانوں نے معاف نہیں کیا اور نئی بننے والی حکومت میں ان مولویوں کو کوئی حصہ نہیں دیا کہ مولویت معاشرے کے لئے ایک زہر قاتل ہے۔ اور مذہب کے نام پر ایک مذموم عزائم سے بھرپور سیاسی نظام کا نام ہے۔


آسانی کے لئے تاریخ‌ برصغیر میں نمایاں کارنامے:
حرم سراء کے لئے محلوں کی تعمیر۔
مال کی حفاظت کے لئے قلعوں کی تعمیر۔
حکومت کی حفاظت کے لئے چھاونیوں کی تعمیر۔
فرد واحد کی حکومت کے نظریاتی دفاع کے لئے ایک مذہبی ان۔فراسٹرکچر کا قیام جو کہ حکومت کے لئے زیادہ منافع بخش اور عوام کے لئیے سخت تکلیف دہ سزاؤں پر مشتمل۔
ایکسٹرا جیوڈیشیل طریقہ سے مقدمات کی ہینڈلنگ۔
جنگوں سے بھرپور تاریخ۔

اس کے تاریخی حوالہ جات تو ہم سب کو زبانی یاد ہیں۔ کیا وجہ ہے کی ہماری تاریخ درج ذیل سے عاری ہے؟

جن خامیوں کی طرف اشارہ ہے، مسلمان قرون وسطی میں درج ذیل کار ہائے نمایاں انجام دے چکے تھے۔ ان میں سے، بابر سے ظفر تک علم کا ارتقاء اور قابل ذکر انسٹی ٹیوشنز کے قیام میں سرکاری اور حکومتی کوششوں کے بارے میں حوالہ جات سے بتائیے:

مشترکہ ہندوستان میں
چند بڑی یونیورسٹیوں‌کے نام؟
بڑے شفا خانوں کا نظام، ان کا وجود؟
ان دواؤں کی ایجاد و تعداد جو صحت و زندگی کی ضامن ہیں؟
عوامی دولت کے معاشرے میں‌نفوذ کے بڑے ادارے؟
نظام زکوۃ‌ اور غرباء کی فلاح کے ادارے؟
قرآن و سنت کی ترویج کے ادارے اور مدرسے؟
سائینسی، دفاعی اور دیگر ایجادات؟
صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے کئے گئے انتظامات؟
نقل حمل کا نظام۔ (شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ کو ہٹا کر)؟
عوام الناس کو درج بالاء مدوں‌ میں مشغول اور استعمال کرنے کے نظام؟
ملک گیر مالیاتی نظام؟
عوام کی فلاح و بہبود کی تعمیرات کے نظام کے فروغ کے ادارے؟
ملک گیر مکمل عدالتی نظام کی مثال؟
دفاعی آلات حرب اور کمیونیکشن کی ایجادات؟

یہ سب کچھ میرے لیے بھی اتنا تکلیف دہ ہے جتنا شاید آپ کےلئے کہ خود اپنی زریں تاریخ ہم پر عیاں ہے اور اس تاریکی کے نتیجے میں‌ 200 سالہ غلامی کی سزا بھی یاد ہے۔ اس کا سدباب کیسے ہوا، یہ بھی یاد ہے اور علم حاصل کرنے کی راہ میں کون سا فلسفہ رکاوٹ بنا یہ بھی یاد ہے۔

ذہن میں‌رکھئے کی یہ مجموعی تنقید آزردہ دلی اور برائی کے نکتہ نظر سے نہیں بلکہ خود آگہی کے لئے ہے کہ مولویت مسلمان کو کس پسماندگی میں دھکیل دیتی ہے۔ کہ معاشرے کا ہر فرد، ہرحصہ تاریکیوں میں‌ڈوب جاتا ہے۔ اور مزا یہ ہے کہ یہ سب اس مذہب کے نام پر ہوتا ہے جو دنیا میں نور کا گہوارہ ہے۔

والسلام
 

ساجداقبال

محفلین
کسی حد تک آپکی بات درست ہے۔ میرے ناقص علم کے مطابق ٹیپو سلطان نے ریاست میسور میں اسکی کچھ حد تک تلافی کی کوشش کی تھی لیکن انہیں اتنی مہلت ہی نہ مل سکی۔
 

رضوان

محفلین
فاروق سرور صاحب بہت عمدہ تحریر ہے۔
اب تک ہم یورپ کے تاریک دور پر ہی انگشت نمائی کرتے رہے ہیں لیکن یہ کوئی نہیں بتاتا کہ ہمارے یہاں علم و فن کے کونسے چراغ روشن تھے۔ منگول آندھی نے بغداد کے فانوسوں کو بجھا دیا اس یورش سے بریصغیر محفوظ رہا مگر کیا وجہ ہے کہ بریصغیر اور ترکی میں باوجود اتنی بڑے جاگیرداری اور شہنشاہی اداروں کے علم و فن کا ڈنکا نہ بج سکا؟ کیا مولویت اور جاگیرداری گٹھ جوڑ نے یورپی کلیسا اور فیوڈلز والا کردار ادا کیا؟ کیا بریصغیر اور ترکی میں اس طرح کی کوئی احتجاجی تحریک اُٹھی جیسا ردِعمل یورپ میں ہوا تھا؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
برصغیر میں تحریک مجاہدین اور تحریک خلافت جیسی تحاریک جنم لیتی رہی ہیں۔ ان کے بارے میں تاریخ دانوں کا یہ موقف بھی ہے کہ یہ برصغیر کے مسلمانوں کے لیے تباہی اور انتشار کا باعث ثابت ہوئی تھیں۔ تحریک خلافت خلافت عثمانیہ کی بقا کے لیے چلائی جانی والی تحریک تھی جس کی قیادت آخر میں مہاتما گاندھی نے سنبھال لی تھی۔ سنا ہے کچھ کمزور عقیدے کے مسلمان گاندھی کو امام مہدی بھی سمجھنے لگ گئے تھے۔ واللہ اعلم باالصواب۔
 
مولوی کی یہ خاصیت ہے کہ وہ تارک سنت ہے، نماز کا طریقہ اس سنت جاریہ کے بعد بھی ڈھونڈھ رہا ہے اور مصر ہے کہ یہ تعلیم قرآن میں نہیں، بلکہ مولویت کی کتب روایات میں‌ہے۔

مولوی تارک حدیث ہے، اس کو حدیث‌پیش کریں تو اس کو منسوخ قرار دے کر ریجیکٹ کر دیتا ہے، لیکن منسوخ‌شدہ روایات کی لسٹ اس کے پاس نہیں ہے۔ نہ کوئی ثبوت ہے کہ یہ حدیث کب منسوخ‌ہوئی۔
مولوی تارک قرآن ہے، یہ قرآن کے ساتھ انسانوں کی لکھی ہوئی کتب روایات شامل کرتا ہے، وہ کتب روایات جس میں رسول کی احادیث کے علاوہ اسرائیلی روایات بھی شامل ہیں

جب بھی کسی نے اس طرف اشارہ کیا، تاریخ گواہ ہے کہ مولویت نے اسکو کٹوا دیا، سازش کی اور اپنی مولویت کی حفاظت کی۔
مولویت مذہب کی آڑ میں ایک مذموم سیاسی تحریک ہے۔ اس کے بارے میں‌مزید جانئیے اور قرآن و سنت اور درست احادیث کا خود مطالعہ کریں۔
 

ساجداقبال

محفلین
مولویت کی تشریح بھی کجییے نہ۔ اس زمرہ میں کون لوگ شامل ہیں؟ محض اشارہ سے ہم لاعلم سمجھنے سے تو رہے۔۔۔
 
فاروق صاحب بہت ضروری ہے کہ پہلے آپ تفصیل سے لفظ 'مولوی' پر روشنی ڈال دیں اور اس کے ساتھ ساتھ عالم ، علماء‌ کے لفظ پر بھی روشنی ڈالیں ورنہ بہت ممکن ہے کہ آپ جس نکتہ نظر سے یہ پوسٹس کر رہے ہیں اسے درست تناظر میں نہ سمجھا جائے ، میری ذاتی رائے میں مولوی لفظ اس کے لیے ٹھیک نہیں ہے بلکہ لفظ 'ملا' رائج بھی ہے اور جس مفہوم میں آپ ادا کر رہے ہیں اسی مفہوم میں سمجھا بھی جاتا ہے جیسے کہ اقبال اپنے شعروں میں اس کا کافی ذکر کر چکے ہیں اور موجودہ دور میں بھی خاص طور پر پاکستان میں لفظ ' ملا ملٹری الائنس ' آجکل خاصہ مقبول ہے۔

مولوی اور مولانا کا لفظ بہت سے اکابرین کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے اسے علیحدہ رکھیں کیونکہ یہ لاحقہ عبدالحق بابائے اردو کے ساتھ بھی لگتا ہے اور کئی بڑی علمی اور ادبی شخصیات کے ساتھ بھی جن کا کردار بہت صاف اور اجلا ہے۔
 

ساجداقبال

محفلین
ایک اور بات، میری ناقص رائے میں اس تحریر کیلیے ”سیرت سرور کائنات صلی اللہ علیہ وسلم“ کا زمرہ موزوں نہیں۔ بلکہ مذہب اور نظریات درست ہے۔ کیا خیال ہے فاروق بھائی؟؟؟
 
مولویت کی تشریح بھی کجییے نہ۔ اس زمرہ میں کون لوگ شامل ہیں؟ محض اشارہ سے ہم لاعلم سمجھنے سے تو رہے۔۔۔
آپ کی، محب کی اور دوسرے برادران کے حکم کے مطابق، میں نے مولویت کے تفصیل کے بارے میں یہاں لکھا - مولویت کیا ہے

اگر آپ تاریخ‌ہند کا بغور مطالعہ کیجئیے تو آپ نوٹ کریں گے کہ کسی بھی درسگاہ کے قیام کو یا کسی بھی مذہبی خیالات کو جو مولوی کے مکتبہء فکر کے خلاف تھا، سختی سے دبا دیا گیا۔ ملائیت یا مولویت، جو بھی نام آپ بہتر سمجھیں ، اس نے ایک بڑا کردار ادا کیا برصضیر پاک ہند میں مسلمانوں کی پسماندگی اور زوال میں۔ کہ آج علی گڑھ کے علاوہ ایک بھی قابل ذکر یونیورسٹی نہیں ملتی۔ بقیہ سوال پہلے آچکے ہیں۔
 

رضوان

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔
جب بھی کسی نے اس طرف اشارہ کیا، تاریخ گواہ ہے کہ مولویت نے اسکو کٹوا دیا، سازش کی اور اپنی مولویت کی حفاظت کی۔
مولویت مذہب کی آڑ میں ایک مذموم سیاسی تحریک ہے۔ اس کے بارے میں‌مزید جانئیے اور قرآن و سنت اور درست احادیث کا خود مطالعہ کریں۔
میرے خیال میں مُلائیت ہمیشہ سے ہی ایک مضبوط سیاسی اور معاشی ادارہ یا تحریک رہا ہے اور ہمارے معاشرے میں اس کی جڑیں انتہائی گہری ہیں۔ اس تحریک کے اثر و نفوذ کا یہ عالم ہے کہ چاہے انگریز ہوں یا سیاسی رہنماء سب ہی اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے ان سے رجوع کرنے پر مجبور رہے ہیں اور انکے کردار کی منافقت کو عیاں کرنے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ انہوں نے کسی کو مایوس نہیں کیا اور مقتدر طبقے کو دلخواہ فتاوے جاری کیے۔
 

ساجد

محفلین
دوستانِ عزیز ،
آپ نے بہت اچھا لکھا اور جو کچھ میرے ذہن میں تھا اس سے بھی زیادہ اور بہتر طریقے سے آپ سب نے حقیقت آشنائی کا حق ادا کیا۔ مجھ ایسے بے علم کی کیا حیثیت کہ اس پر کچھ اور لکھ سکوں۔
آپ لوگوں کی بات کی تائید کرتے ہوئے آگے بڑھوں گا اور یہ کہنا چاہوں گا کہ مولوی ، مولانا یا ملا (آپ کوئی بھی نام دے لیں) کے معانی اپنے اندر جو عزت اور وقار رکھتے ہیں ان کو اس تناظر میں سمجھنے کی بہت کم کوشش کی گئی ہے۔
آپ دیکھئیے آج بھی رواج ہے کہ جس کی داڑھی ہو اسے مولوی صاحب یا مولانا پکارا جاتا ہے بھلے وہ بیچارہ میرے جیسا جاہل ہی کیوں نہ ہو اور قرآن و حدیث کا واجبی علم ہی کیوں نہ رکھتا ہو۔
کیوں کہ علوم دینییہ کی تعلیم و تدریس کا طریقہ جدید دور کے سائینسی طریقہ ہائے تعلیم سے یکسر مختلف رہا ہے (واضح رہے کہ اس میں اسلام کے علاوہ دیگر مذاہب بھی شامل ہیں)۔ اس لئیے کسی عالم کی قابلیت جانچنے اور اس کی علوم دینیہ پر دسترس پرکھنے کے طریقے بھی روایتی ہیں اور پھر ان میں وراثت کا عنصر بھی آیا کہ مولوی کا بیٹا ہی اپنے باپ کا (مدرسہ یا مسجد میں) جانشین بنا،قطع نظر اس بات کے کہ وہ اس کے لئیے مطلوبہ اہلیت رکھتا بھی تھا کہ نہیں۔ گنتی کے چند مدارس کو چھوڑ کر آج بھی پاکستان میں یہی چل رہا ہے۔ خاص طور پر دیہاتوں اور گاؤں میں تو حالت اور بھی بری ہے۔
ایسے لوگ بھی دیکھے کہ قرآن پاک کی آخری 10 سورتیں اور سورۃ الفاتحہ کے بعد سورۃ البقرۃ کی مخصوص آیات کو رٹا لگا لیا کہ ختم پڑھنا آ جائے اس کے بعد اپنے نام کے ساتھ اپنے قد سے بھی بڑے القابات خود ہی لکھوا لئیے اور ایک مسجد سنبھال لی یا پھر ایک مدرسے کی بنیاد ڈال لی ۔ لاؤڈ سپیکر پر اس کی تعمیر کے لئیے چندہ مانگتے مانگتے عمر گزار دی اور اپنی وفات کے بعد اولاد کے لئیے معقول آمدنی کا ذریعہ چھوڑ گئے۔ ستم ظریفی یہ کہ ہم ان کو بھی مولویوں کے کھاتے میں شمار کر دیتے ہیں۔
پھر ایک اور طبقہ وجود میں آیا جو جاہلیت میں اس پہلے والے طبقے کا ہم پلہ تھا لیکن اس کا طریقہ واردات مختلف تھا۔ یعنی جو کام پہلے والے طبقے نے کئیے یہ ان کی مخالفت میں جاتے۔ اگر انہوں نے بدعات کو فروغ دے کر اپنی روزی کا بندو بست کیا تو اِنہوں نے اس کی مخالفت کو اس طریقہ سے وسیلہ روزگار بنایا کہ حد سے گزر گئے۔ بات بات پر دوسروں کو کافر اور مشرک کہہ کر انہوں نے اصلاح کے راستے بند کئیے اور یہ کبھی نہ سوچا کہ ہمارے عوام میں تعلیم کی جو مخدوش صورتحال ہے وہ اصلاح کے کون سے طریقے کا تقاضا کرتی ہے۔ قصہ مختصر ہم نے ان کو بھی مولوی مان لیا۔
پھر ہمارا واسطہ ایک اور طبقے سے پڑا کہ جو عقل کو تکلیف دینا گوارہ نہ کرتے اور ماضی میں جینے کی کوشش کرتے رہے۔ ان کے نزدیک سائنسی ترقی حرام اور شجرِ ممنوعہ تھی۔ ان کا ماٹو تھا کہ مخلوق خدا کو سلف اور خلف کے چکر میں ایسا الجھا ؤ کہ اصل مسائل اور حقائق نظروں سے اوجھل ہی رہیں۔ سائنسی ایجادات کو شیطان کے آلات کا نام دو اور جدید علوم و فنون کو اس لئیے رد کر دو کہ ان سے ہمارے "اسلام" کو خطرہ ہے۔ ہماری دریا دلی دیکھئیے کہ ان کو بھی مولوی صاحب مان لیا۔
حضرات گرامی ، آپ غور فرمائیے کہ کہاں قرآن کی آفاقی اور انقلابی تعلیمات اور کہاں یہ سطحی خیالات۔ جو سچے مولوی تھے وہ تو اس طوفانِ بد تمیزی میں انگشتِ بدنداں رہ گئے۔ اور ان لوگوں نے اسلام کے ساتھ ساتھ لفظ مولوی کی بھی لُٹیا ڈبو دی۔ اور آج یہ حال ہے کہ کسی کو مولوی کہو تو اس کو یہ لفظ کھٹکتا ہے۔ اور وہ پہلے اس بات کا جائزہ لیتا ہے کہ ہم نے اسے احترام سے مولوی کہا ہے یا اس پر طنز کیا ہے۔
اگر برصغیر کی تاریخ دیکھیں تو آپ کو ساداتِ بارہ بھی اسی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں کہ جو عوام کی ان سے مذہبی عقیدت کو شاہی درباروں سے کیش کرواتے رہے اور آخر کار اس عظیم سلطنت کی تباہی میں آخری کیل ٹھونکنے والے سب سے بڑے عنصر کے طور پر سامنے آئے۔ انہی سادات کی ریشہ دوانیاں ہی تھیں کہ برصغیر پر باہر سے یلغاریں ہوئیں اور انہوں نے بھی ان حملہ آوروں کا ساتھ دے کر اپنی رہی سہی عزت کا جنازہ نکال دیا۔
تاریک دور تو ابھی بھی چل رہا ہے۔ اگر اس وقت سائنسی اور علمی ترقی نہیں ہوئی تو آج ہم نے کون سا تیر مار لیا ہے؟ 1980 کی آخر تک کسی حد تک پاکستان میں طبی تحقیق کا رواج تھا لیکن اب تو کان ترس گئے ہیں یہ سننے کے لئیے کہ کہیں سے یہ خبر بھی آئے کہ پاکستان میں فلاں تحقیق ہوئی اور اس کی بنیاد پر کوئی منصوبہ بنا یا ایجاد ہوئی۔
 
ساجد صاحب بہت شکریہ۔ بہت اچھے خیالات کا اظہار فرمایا آپ نے۔

مولویت، ایک سیاسی، معاشی، اور شہریاتی - پراسیس اور ایک انسٹی ٹیوشن ہے، کسی خاص شخصیت کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ مولویت، ملائیت - کا مقصد ایک مخصوص طریقہ سے کنٹرول حاصل کرنا ہے ۔ چھوٹے بڑے مولوی اس میں مختلف طریقوں سے شامل ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ جن کے نام میں مولوی کا لفظ ہے، مولوی ہی نہیں۔ اس تناظر میں دیکھئے۔ جو لوگ مولویت کی حرکات کو اور اس عمل کو جاری رکھتے ہیں، مولوی ہیں۔ ان کے اعمال، ان کا لٹریچر، ان کا طریقہء واردات آہستہ آہستہ سامنے آتا جا رہا ہے۔
مولویت - Holy Corporation of Islam for Political Gains - کے مترادف ہے ۔ اور آپ نے جن مزید مذموم مقاصد کی طرف اشارہ کیا، وہ تمام بدرجہ اتم اس میں شامل ہیں۔

ذہن میں رکھئے کہ علی گڑھ یونیورسٹی کا قیام 'مولویت' کی شکست فاش تھی۔ اس یونیورسٹی سے ہی اسلامی حکومت و سیاست کی ابتدا ہوئی اور آج پاکستان اسلامی نظام کی طرف رواں دواں ہے۔ 'مولویت' کی پوری کوشش ہے کے کنفیوژن پیدا کیا جائے۔
مولویت کا ازالہ و مقابلہ صرف و صرف قران حکیم کی تعلیم عام کرکے کیا جاسکتا ہے۔ قران حکیم مولویت کے لئے سم قاتل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولویت قران کو ہٹا کر 'کتب روایات' پر زور دیتی ہے۔
 

فرید احمد

محفلین
سوال :
آسانی کے لئے تاریخ‌ برصغیر میں نمایاں کارنامے:
حرم سراء کے لئے محلوں کی تعمیر۔
مال کی حفاظت کے لئے قلعوں کی تعمیر۔
حکومت کی حفاظت کے لئے چھاونیوں کی تعمیر۔
فرد واحد کی حکومت کے نظریاتی دفاع کے لئے ایک مذہبی ان۔فراسٹرکچر کا قیام جو کہ حکومت کے لئے زیادہ منافع بخش اور عوام کے لئیے سخت تکلیف دہ سزاؤں پر مشتمل۔
ایکسٹرا جیوڈیشیل طریقہ سے مقدمات کی ہینڈلنگ۔
جنگوں سے بھرپور تاریخ۔

اس کے تاریخی حوالہ جات تو ہم سب کو زبانی یاد ہیں۔ کیا وجہ ہے کی ہماری تاریخ درج ذیل سے عاری ہے؟

جن خامیوں کی طرف اشارہ ہے، مسلمان قرون وسطی میں درج ذیل کار ہائے نمایاں انجام دے چکے تھے۔ ان میں سے، بابر سے ظفر تک علم کا ارتقاء اور قابل ذکر انسٹی ٹیوشنز کے قیام میں سرکاری اور حکومتی کوششوں کے بارے میں حوالہ جات سے بتائیے:

مشترکہ ہندوستان میں
چند بڑی یونیورسٹیوں‌کے نام؟
بڑے شفا خانوں کا نظام، ان کا وجود؟
ان دواؤں کی ایجاد و تعداد جو صحت و زندگی کی ضامن ہیں؟
عوامی دولت کے معاشرے میں‌نفوذ کے بڑے ادارے؟
نظام زکوۃ‌ اور غرباء کی فلاح کے ادارے؟
قرآن و سنت کی ترویج کے ادارے اور مدرسے؟
سائینسی، دفاعی اور دیگر ایجادات؟
صنعت و حرفت کی ترقی کے لیے کئے گئے انتظامات؟
نقل حمل کا نظام۔ (شیر شاہ سوری کی جی ٹی روڈ کو ہٹا کر)؟
عوام الناس کو درج بالاء مدوں‌ میں مشغول اور استعمال کرنے کے نظام؟
ملک گیر مالیاتی نظام؟
عوام کی فلاح و بہبود کی تعمیرات کے نظام کے فروغ کے ادارے؟
ملک گیر مکمل عدالتی نظام کی مثال؟
دفاعی آلات حرب اور کمیونیکشن کی ایجادات؟



یہ سب مولوی کے ذمہ کیوں ؟ اسے کب کسی نے اقتدار دیا ؟
کیا سب کو معلوم نہیں کہ ایک مختصر کے وقت کے بعد سے دین کو سیاست سے جداگانہ رکھنا ہی حکام کی پالیسی رہی ہے ۔
یہ سوالات تو مولوی لوگ اٹھاتے ہیں آپ جدید تعلیم یافتہ حضرات سے جو سرکاری بیوروکریسی کے آلہ بنے رہتے ہیں ۔
یہ ہمیشہ ذہن میں رکھیں کہ مولوی کب نظام حکومت پر آئے اور پھر انہوں نے یہ سب کیا یا نہ کیا ہو ؟ آج تک جو کچھ غلط کام مسلمانوں نے کیے ، وہ مولویوں نے کیے ، اور مسلم حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا ۔
اگر مولویوں نے یہ سب غلط کام کیے ، یا کوئی اچھا کام نہیں کیا تو پھر وہ دوسرے کون ہے جنہوں نے کچھ کر دکھایا ؟

سر سید کی بات
سر سید کے متعلق یہ عام ہے کہ قدامت پسند مولوی حضرات ان کے ، ان کی راہ دکھائی جدید تعلیم کے مخالف ہیں‌ ۔
یہ بات بالکل درست نہیں ۔
سر سید کی جدید تعلیم ، انگریزی اور تمام جدید علوم کی مولوی حضرات تایید کرتے ہیں، آپ علیگڑھ یونی ورسٹی کی تاسیس کے احوال پڑھ لیں ، مولانا نانوتوی رحمہ اللہ اس میں شریک نہ ہو سکے مگر اپنا پیغام بھیجا ۔ چندہ لکھوایا وہاں کے دینی شعبے کے صدر کے طورپر اپنے داماد کو بھیجا، اور وہ بھی سر سید کے اصرار سے ۔
1874 کے سالانہ اجلاس دارالعلوم دیوبند میں مولاناقاسم نانوتوی نے تقریر میں کہا کہ طلبہ یہاں سے کورس مکمل فرما کر سرکاری درسگاہوں میں جا کر جدید علوم حاصل کریں تو ان کی نافعیت میں اضافہ ہوگا ۔

موجود جامعہ ملیہ اسلامیہ ( یہ اس وقت علیگڑھ کی طرح ہندستان میں مسلمانوں‌کی بڑی یونی ورسٹی ہے ) کا قیام 1920 میں عمل میں آیا ، شیخ الہند مولانا محمود حسن سخت بیماری باوجود اس کی تاسیس میں شریک ہوئے ، بلکہ صدر اجلاس تھے ۔

اور اب کچھ حقیقت گھر کے آدمی سے ،
سر سید کی مخالفت مولویوں نے کیوں کی اور کن امور میں کی ؟

ایک علیگ جناب سید طفیل احمد منگلوری بڑے مصنف ہے
لکھتے ہیں ،سر سید کی مخالفت اس لیے کی گئی کہ وہ مدرسوں کی بہت زیادہ مخالفت کرتے تھے ، کئی مدرسے تو یونی ورسٹی کے قیام کے قبل سے جاری تھے، ان کے طلبہ بھی نادار تھے اور اتنے کم تھے کہ ان سے ان کے کالج کو نقصان بھی نہ تھا۔
آپ تو قرآن کا مطالعہ کرتے ہو ، ذرا سر سید کی ان باتوں سے واقف ہو لیں کہ وہ ایک موقع پر دہلی کی جامع مسجد کی مرمت اور مدارس کی تعمیر کی مناسبت سے انہوں نے جنت، جنت کے باغات نہروں ، پھلوں کو دھوکا ، فریب، گدھے کا کھایا ہو کھاد ، نہ ثواب ، نہ گناہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وغیرہ الفاظ استعمال کیے ۔

خیر چھوڑیے مولویوں کے قصے کو ،
اس وقت زمام اقتدار مولویوں کے پاس نہیں ، تمہارے ہم خیال کمال اتاترک کے پیروں کاروں کے پاس ہے ، انہوں نے دین و سیاست کے بارے میں کیا کیا ہے ؟
جتنا کچھ دین کے نام پر مولویوں نے کیا ہے اتبا کسی اور نے بھی کیا ہے ؟
 

قیصرانی

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ملا یا مولوی سے مراد وہ افراد ہیں جو کہ مذہب کےنام پر تجارت یا سیاست یا جو کہہ لیں، کرتے ہیں۔ وہ افراد مقصود نہیں جو کہ واقعی عالم یا فاضل ہیں اور ان کا اس نام نہاد سیاسی گروہ سے کوئی تعلق نہیں
 

قسیم حیدر

محفلین
برصغیر میں ان لوگوں کا کردار پر بات کی جا سکتی ہے لیکن یہ بھی دیکھیے بغداد میں قاضی ابویوسف، امام محمد، امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ جیسے لوگوں کی موجودگی اور اثرونفوذ کے دور میں وہ علمی دنیا کا مرکز تھا اور اس میں وہ تمام خوبیاں بدرجہ کمال نہ سہی لیکن کسی نہ کسی حد تک پائی جاتی تھیں جو برصغیر میں نہیں دیکھی گئیں۔ لہٰذا "مولوی" کی آڑ‌ میں "قرآن و حدیث" کو نشانہ بنانے سے پہلے یہ سوچ لینا چاہیے کہ اگر "مولویت" بجائے خود ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہوتی تو بغداد کی افسانوی داستانیں آج تک گردش میں نہ ہوتیں۔ تقی عثمانی صاحب کی کتاب "اسلام اور جدت پسندی" اس موضوع پر اکسیر کا درجہ رکھتی ہے۔
 
میں‌کئی بار واضح کرچکا ہوں کہ
مولویت : مذہبی سیاست۔
سوال ہی یہ ہے ان آرٹیکلز کا کہ جب مشرق وسطی میں مسلمانوں نے کامیاب نظام قائم کئے تو برصغیر میں‌کیا ہوا اور کیوں؟

اگر میری وضاحت درست نہیں تو آپ ایک اچھا آرٹیکل لکھیں
 

قسیم حیدر

محفلین
یہ بات بھی سوچنے کےلائق ہے کہ دینی طبقے میں نظر آنے والی خامیوں کے ذمے دار صرف مولوی ہیں یا اس کی وجوہات کچھ اور بھی ہیں۔ مولوی پر تنقید کرنا ایک فیشن بن چکا ہے لیکن بہت کم لوگ غور کرتے ہیں کہ ہم نے مولوی کو کیا دیا ہے جس کے بدلے میں اتنی ساری توقعات اس سے وابستہ کر لیتے ہیں۔ میں اس بات پر بہت غور کرتا رہا ہوں اور بالآخر اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ ہمارے دینی زوال، فرقہ وارانہ انتہا پسندی اور اس قسم کی دوسری خرابیوں کی جڑ دو چیزیں ہیں۔
1۔ اللہ تعالیٰ نے نبوت و رسالت کے لیے جن لوگوں کو منتخب کیا وہ صلاحیتوں، شخصیت اور شکل و صورت کے لحاظ سے بہترین لوگ ہوئے ہیں۔ اسلام کی ہمہ گیری تقاضا کرتی ہے کہ اس کے ابلاغ کی ذمہ داری سنبھالنے والے انسان معاملہ فہمی، اندازِ بیان اور ذہنی صلاحیتوں کے لحاظ سے اگر دوسروں سے برتر نہ بھی ہوں تو کم از کم کمتر نہ ہوں۔ ہمارے ہاں الٹ معاملہ ہے۔ جو بچہ کسی میدان میں کارکردگی نہ دکھا سکے اسے مدرسے کے حوالے کر دیا جاتا ہے تاکہ وہ اس ذمہ داری کو سنبھالے جسے اٹھانے سے زمین و آسمان اور پہاڑ عاجز آ گئے تھے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ "حافظ" کا لفظ ہمارے ہاں نابینا کے معنوں میں استعمال ہونے لگا۔ اس روش کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اس میدان میں ان لوگوں کی اکثریت ہو گئی جن کی سوچ اور اہداف عمومًا محدود ہیں ۔ اور شاید اسی کا شاخسانہ ہے کہ دین صرف نکاح اور جنازے تک محدور ہو کر رہ گیا ہے۔ میرا مقصد کسی کی تحقیر کرنا نہیں ہے بلکہ ایک حقیقت کی طرف توجہ دلانا ہے۔
2۔ دوسری وجہ معاشی خود کفالت کا نہ ہونا ہے۔ قرآن کریم میں کئی مقامات پر انبیاء کی یہ خصوصیت بیان کی گئی ہے کہ وہ لوگوں سے کسی اجرت کے طالب نہیں ہوتے۔ انسان کی بات میں اثر اسی وقت پیدا ہوتا ہے جب وہ بے غرض اور مخلص ہو کر کام کرے۔
اتبعوا من لا یسئلکم اجرا و ھم مھتدون (یٰس)
"ان کی پیروی کرو جو تم سے کوئی صلہ نہیں مانگتے اورہیں بھی وہ ہدایت پانے والے۔"
نوح علیہ السلام اپنی قوم سے کہتے ہیں:
یقوم لا اسلکم علیہ مالا (ہود۔29)
" اے میری قوم! میں اس کام کے لیے تم سے مال نہیں مانگتا۔"
اس کے برعکس ہماری حالت یہ ہے کہ چند دہائیاں قبل تک امام مسجد ایک روٹی حاصل کرنے کے لیے محلے کے تمام گھروں کا چکر لگایا کرتے تھے۔ مدرسے کے بچے کو پہلی تربیت ہی گھر گھر جا کر روٹی مانگنے کی دی جاتی تھی۔ ہو سکتا ہے بعض دیہاتوں میں اب بھی اس کا رواج ہو۔ لہٰذا وہ شخص جس کو دینی پیشوا بنایا جاتا، اس کی عزتِ نفس کب کی مر چکی ہوتی تھی۔ ایسے حالات میں وہ کہاں سے حق بیان کرے گا اور کیسے قرآن و حدیث کی تعلیم دے گا الا ما شاء اللہ۔ معاشرے میں پائی جانے والی کئی بدعات اور خرافات کے پیچھے معاشی بدحالی کا کچھ نہ کچھ ہاتھ ضرور نظر آتا ہے۔ آج بھی ہمارے امام مسجد کا معاشرتی مرتبہ یہ ہے کہ مسجد کی انتظامیہ جب چاہے اسے اٹھا کر باہر پھینک دے۔ انتظامی کمیٹی کا کوئی رکن قرآن و حدیث سے کتنا ہی نابلد کیوں نہ ہو لیکن اپنی دولت کے بل بوتے پر جب چاہے اس شخص کو ذلیل کرسکتا ہے جسے ہم اللہ کے سامنے اپنا پیشوا بناتے ہیں۔ جب تک امام مسجد اور خطیب کو معاشی خود کفالت حاصل نہیں ہوتی بھول جائیے کہ ہم فرقہ بازی اور اختلافی مسائل کے چکر سے نکل سکیں گے۔ یاد رہے کہ میں دینی تعلیم پر اجرت کے فقہی مسئلے پر نہیں بلکہ اس کے نفسیاتی اثرات پر گفتگو کر رہا ہوں۔
یہ واضح کرنا بھی ضروری ہے کہ یہاں کسی استثنائی صورت (Exceptional Case) کی بات نہیں ہو رہی بلکہ مجموعی صورتحال کا جائزہ لینا مقصود ہے۔ نیز یہ کہ مجھے کسی مدرسے میں یا کسی عالم سے پڑھنے کا شرف حاصل نہیں ہوا اس لیے ممکن ہے میری معروضات میں اصلاح کی گنجائش ہو۔ اس بارے میں تنقید اور تائید دونوں کو خوش آمدید کہا جائے گا۔
 
Top