فرخ منظور
لائبریرین
"میں دور تھا ضرور مگر راستوں میں تھا"
یہ شعر کا دوسرا مصرعہ ہے، پہلا مصرعہ بھول گیا،اگر کسی کو یاد تو براے مہربانی بتا دیں
منزل سفر میں تھی ، قدم فاصلوں میں تھا
میں دور تھا ضرور مگر راستوں میں تھا
"میں دور تھا ضرور مگر راستوں میں تھا"
یہ شعر کا دوسرا مصرعہ ہے، پہلا مصرعہ بھول گیا،اگر کسی کو یاد تو براے مہربانی بتا دیں
منزل سفر میں تھی ، قدم فاصلوں میں تھا
میں دور تھا ضرور مگر راستوں میں تھا
بابا جانی میں تو ۔ پریشان ہوگیا ہوں ، کیا کروں ، ؟؟ تو رکھوں کہ نہ ؟؟
پہلے تو یہ اس قسم کی بھی ایک ذیلی فورم کی ضرورت ہے جہاں اردو شعر و ادب کے متعلق سوالات پوسٹ کئے جائیں، ’سمت‘ کے اجراءء کی خبر بھی ویسے میں اردو نامہ میں ہی دے دیتا ہوں جو کہ گٌط ہی ہے.
بہر حال سوال یہ ہے، جو مجھ سے ای میل سے سرور عالم راز صاحب نے پوچھا ہے.، کہ یہ شعر (یا مصرع( کس کا ہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
ممکن ہے کہ یہ غلط ہی مشہور ہو، کہ ’نہ‘ کا یہ استعمال کلاسیکی شاعری میں نہیں ملتا.
اعجاز صاحب! فسانۂ عجائب از مرزا رجب علی بیگ سرور لکھنوی میں دو اشعار کی صورت میں یوں درج ہیں۔
گئے دونوں جہان کے کام سے ہم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
ان اشعار پر رشید حسن خاں صاحب کا نوٹ یوں درج ہے۔
نسّاخ نے سخنِ شعرا میں اسے بہ نام مرزا صادق علی شرر لکھا ہے۔ اس میں ردیف "نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے" ہے
السّلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
سخنوربھائی ہم آپ کی محنت کا قدر کرتے ہیں
ہماری نیک تمنائیں آپ کے ساتھ ہیں
اللہ آپ کو خوش و خرم رکھے آمین ثم آمین
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
یہ کس کا شعر ہے؟
یہ شعر صادق حسین ایڈوکیٹ کا ھے