زخم ہوتے ایک دو، تو رفو کا سوچتے
جناب شاعر تو مجھے معلوم نہیں البتہ مصرعے میں کمی کا احساس ستا رہاہے۔ ممکن ہے میں غلطی پر ہوں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے لگتا ہے،
زخم ہوتے ایک دو، تو ہم رفو کا سوچتے
ہم آئے گا یہاں ویسے جاننے والے بہتر جانتے ہیں۔ میری غلطی درست کر دیجیے
بہت شکریہ خوشی صاحبہ! آپ نے بالکل درست فرمایا۔ یہ شعر صادق حسین ایڈووکیٹ کا ہی ہے۔
شکریہ سخنور جی ، آپ کی ممنون ہوں جو آپ نے تائید فرمائی
جی واقعی ۔ یہ علامہ اقبال کا نہیں ہے۔ ہمارے اردو کے پروفیسرصاحب نے بتایا تھا کہ یہ کس کا ہے لیکن ابھی وہ نام یاد نہیں ہے۔ اور میں نے کسی رسالے میں بھی اس بارے میں پڑھا تھا۔مشہور بھی اقبال کے نام سے ہے، لیکن میرے پاس ایک اخباری تراشا موجود تھا جہاں لکھا تھا کہ اقبال کا نہیں بلکہ کسی دوسرے شاعر کا ہے ساتھ دیگر اشعار بھی تھے ۔ لیکن وہ مجھ سے کھو گیا ہے ۔
اگر اقبال کا ہے تو کس دیوان میں ہے؟ اور کس نظم یا غزل کا حصہ ہے؟
استاد جی!نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
ممکن ہے کہ یہ غلط ہی مشہور ہو، کہ ’نہ‘ کا یہ استعمال کلاسیکی شاعری میں نہیں ملتا.
یه شعر مرزا صادق شرر کا هے اور یوں هےپر یہ ہے کس کا؟
صحیح شعر کچھ یوںہے۔
گئے دونوںجہاں سے خدا کی قسم نہ اِدھر کےہوئے نہ اُدھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم نہ اِدھر کےہوئے نہ اُدھر کے رہے
یہ اقبال کا شعر نہیں ہے۔ عطاالحق قاسمی صاحب کے ایک کالم میں اس شعر کے خالق کا نام میں نے پڑھا تھا لیکن ذہن سے نکل گیا ہے۔ بہرحال علامہ اقبال کا یہ شعر نہیں ہے۔
ایڈووکیٹ ان کا تخلص ہے؟یه شعر محمد صادق ایڈووکیٹ کا هے
جی نہیں، پیشہ، صادق صاحب تخلص نہیں رکھتے تھے شایدایڈووکیٹ ان کا تخلص ہے؟
مکمل غزل پڑھیے۔ اگر آپ تحمل سے مزید مراسلے بھی پڑھتے تو آپ کو مکمل غزل بھی مل جاتی جو میں نے ہی ارسال کی تھی۔یه شعر محمد صادق ایڈووکیٹ کا هے
مکمل غزل شئیر کرنے کا شکریہ۔مکمل غزل پڑھیے۔ اگر آپ تحمل سے مزید مراسلے بھی پڑھتے تو آپ کو مکمل غزل بھی مل جاتی جو میں نے ہی ارسال کی تھی۔
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں سنانے کیلئے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کیلئے
تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
کامیابی تو ہوا کرتی ہے ناکامیِ دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کیلئے
نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اسکو بچانے کیلئے
استقامت سے اٹھا وہ نالہ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو در لندن ہلانے کیلئے
آتشِ نمرود گر بھڑکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کیلئے
(صادق حسین ایڈووکیٹ)
مکمل غزل پڑھیے۔ اگر آپ تحمل سے مزید مراسلے بھی پڑھتے تو آپ کو مکمل غزل بھی مل جاتی جو میں نے ہی ارسال کی تھی۔
تو سمجھتا ہے حوادث ہیں ستانے کیلئے
یہ ہوا کرتے ہیں ظاہر آزمانے کیلئے
تندیِ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کیلئے
کامیابی تو ہوا کرتی ہے ناکامیِ دلیل
رنج آتے ہیں تجھے راحت دلانے کیلئے
نیم جاں ہے کس لیے حال خلافت دیکھ کر
ڈھونڈ لے کوئی دوا اسکو بچانے کیلئے
استقامت سے اٹھا وہ نالہ آہ و فغاں
جو کہ کافی ہو در لندن ہلانے کیلئے
آتشِ نمرود گر بھڑکی ہے کچھ پروا نہیں
وقت ہے شانِ براہیمی دکھانے کیلئے
اختر شمارتندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لئے
یہ کس کا شعر ہے؟
"میں دور تھا ضرور مگر راستوں میں تھا"
یہ شعر کا دوسرا مصرعہ ہے، پہلا مصرعہ بھول گیا،اگر کسی کو یاد تو براے مہربانی بتا دیں
سید صادق حسین شاہ کاظمییہ اقبال کا شعر نہیں ہے۔ عطاالحق قاسمی صاحب کے ایک کالم میں اس شعر کے خالق کا نام میں نے پڑھا تھا لیکن ذہن سے نکل گیا ہے۔ بہرحال علامہ اقبال کا یہ شعر نہیں ہے۔