ظہیراحمدظہیر
لائبریرین
احبابِ کرام ! ایک نسبتاً تازہ غزل آپ کے ذوق کی نذر ہے ۔ امید ہے کہ شرفِ نقد و نظر پائے گی۔ گر قبول افتد۔۔۔۔۔!
٭٭٭
نوائے شوق نہیں عرضِ نارسا ہے مری
یہ شورِ نغمۂ زنجیر التجا ہے مری
کس آستانِ تمنا پہ سر جھکا بیٹھا
غریقِ آبِ ندامت خوئے وفا ہے مری
برہنہ کر گئی مجھ کو ہوائے نام و نمود
رہینِ طرّۂِ دستار اب قبا ہے مری
میں لڑ رہا ہوں زمیں سے مقدمہ گھر کا
میں دربدر ہوں کہ پیشی جگہ جگہ ہے مری
کیا تھا میں نے ہواؤں سے اتفاق کا جرم
بجھے چراغ کی نوحہ گری سزا ہے مری
بھٹک رہی ہے کسی ہم نوا کی خواہش میں
ہجومِ صوت میں تنہا کہیں صدا ہے مری
یہ اک جزیرہ سمندر کی شورشوں سے الگ!
جسے رہائی سمجھتے ہو تم ، سزا ہے مری
وہ ایک نام جو شامل ہے دل کی دھڑکن میں
وہی سکوت ہے میرا ، وہی صدا ہے مری
خیالِ یار پہ جب تک ہے دسترس دل کی
بہار میری ہے ، گلشن مرا ، صبا ہے مری
محبتوں میں کئی لوگ اجڑ بھی جاتے ہیں
خدا کرے تو سلامت رہے ، دعا ہے مری
تمہی بدل گئے سود و زیاں کے پیمانے
وہی ظہیؔر ہوں میں تو وہی وفا ہے مری
٭٭٭
نوائے شوق نہیں عرضِ نارسا ہے مری
یہ شورِ نغمۂ زنجیر التجا ہے مری
کس آستانِ تمنا پہ سر جھکا بیٹھا
غریقِ آبِ ندامت خوئے وفا ہے مری
برہنہ کر گئی مجھ کو ہوائے نام و نمود
رہینِ طرّۂِ دستار اب قبا ہے مری
میں لڑ رہا ہوں زمیں سے مقدمہ گھر کا
میں دربدر ہوں کہ پیشی جگہ جگہ ہے مری
کیا تھا میں نے ہواؤں سے اتفاق کا جرم
بجھے چراغ کی نوحہ گری سزا ہے مری
بھٹک رہی ہے کسی ہم نوا کی خواہش میں
ہجومِ صوت میں تنہا کہیں صدا ہے مری
یہ اک جزیرہ سمندر کی شورشوں سے الگ!
جسے رہائی سمجھتے ہو تم ، سزا ہے مری
وہ ایک نام جو شامل ہے دل کی دھڑکن میں
وہی سکوت ہے میرا ، وہی صدا ہے مری
خیالِ یار پہ جب تک ہے دسترس دل کی
بہار میری ہے ، گلشن مرا ، صبا ہے مری
محبتوں میں کئی لوگ اجڑ بھی جاتے ہیں
خدا کرے تو سلامت رہے ، دعا ہے مری
تمہی بدل گئے سود و زیاں کے پیمانے
وہی ظہیؔر ہوں میں تو وہی وفا ہے مری
٭٭٭