سیما علی

لائبریرین
بھلے وقتوں میں گھروں میں والدین اور سکولز اور کالجز میں ٹیچرز بچوں کی تعلیم و تربیت پر زور دیتے تھے۔ مگر آج کل اس میں سے تربیت کا عنصر تو بالکل نکل چکا ہے۔ باقی رہی تعلیم تو اس کا حال بھی سید عمران بھیا نے بہت اچھے انداز میں
تربیت سے عدم توجہی اور غفلت ہی ہر طرف معاشرے کی تباہی و بربادی کا سبب ہے ۔۔اور یہی وجہ ہے نئینسل بے لگام ہوتی چلی جارہی ہے ۔۔۔جس طرف ان کا جی کرتا ہے وہ جانوروں کے منتشر ریوڑ کی طرح چلے جاتے ہیں،اس میں قصور اِنکا بھی نہیں بڑے بھی اتنے ہی ذمہ دار ہیں کیونکہ پہلے حد درجہ آزادی دی جب بگڑ گئیے تو سدھارنے کی کوشش میں لگے تو بہت دیر ہوگئی اور اب ملک اور اس کی ملت کو تباہی و بربادی کی کھائیوں میں گرنے سے کوئی نہیں بچا سکتا ماسوائے اللہ تعالیٰ…اور دعائیں پروردگار اس نوجوان نسل میں بھی ابھی کچھ ہیں جو تربیت یافتہ ہیں ۔اسی لئیے دین اسلام دنیاوی فنون کے حصول کی مخالفت نہیں کرتا بلکہ ان کو دین کے تابع رکھنے کا حکم دیتا ہے۔
جیسا کہ نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے بیشک اللہ تعالیٰ اس کتاب کے ذریعے سے قوموں کو بلندیاں عطاء فرماتا ہے اور اس کو ترک کرنے کہ وجہ سے ان کو رسواکرتا ہے۔
 

سید عمران

محفلین
چلیں اس بہانے محض ڈگری یافتہ ہی ہو جاتے تعلیم تو پاس سے بھی نہیں گذرتی۔۔
افسوس صد افسوس طالب علم ڈگری یافتہ تو بن رہے ہیں مگر تعلیم یافتہ نہیں۔۔۔ہمارے ملک میں پڑھے لکھے تو بہت ہیں ڈگریاں یافتہ تو بہت ہیں لیکن ان میں کردار کی پختگی نہیں پائی جاتی حتیٰ کہ وہ تعلیم کے حرف ”ت“ سے بھی نابلد ہیں۔ کہتے ہیں کہ تعلیم لوگوں میں عقل و شعور اور آگاہی فراہم کرتی ہے اور انسان کی شخصیت اور کردار کے روشن پہلوﺅں کو مزید اجاگر کر کے انسان کے کردار کو مزید نکھارتی ہے۔لیکن اکثر جن کو ہم جاہل سمجھ رہے ہوتے ہیں اُن میں تعلیم یافتہ لوگون سے زیادہ رکھ رکھاؤ اور سوجھ بوجھ پائی جاتی ہے ۔۔۔
یہ مضمون آج سے تقریباً پانچ سال قبل لکھا گیا تھا۔۔۔
آج دنیا بھر کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ آنے والا وقت ڈگریوں کا نہیں تعلیم اور ہنر کا ہے۔۔۔
اگرچہ فی زمانہ ڈگریوں کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ضروری سرکاری دستاویزات مثلاً شناختی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ بننے میں سہولت رہتی ہے۔۔۔
نیز شادی بیاہ جیسی ’’اہم ضرورت‘‘ کے وقت بھی لوگ ڈگری کا پوچھتے ہیں(پاکھنڈی لوگ ہر معاشرہ میں ہوتے ہیں:arrogant::arrogant::arrogant:)۔۔۔
تاہم محض ڈگریوں کے بل بوتے پر ڈھنگ سے روٹی روزی نہیں کمائی جاسکتی!!!
 

سیما علی

لائبریرین
یہ مضمون آج سے تقریباً پانچ سال قبل لکھا گیا تھا۔۔۔
آج دنیا بھر کے ماہرین کہہ رہے ہیں کہ آنے والا وقت ڈگریوں کا نہیں تعلیم اور ہنر کا ہے۔۔۔
اگرچہ فی زمانہ ڈگریوں کی ضرورت اس لیے بھی ہے کہ ضروری سرکاری دستاویزات مثلاً شناختی کارڈ، پاسپورٹ وغیرہ بننے میں سہولت رہتی ہے۔۔۔
نیز شادی بیاہ جیسی ’’اہم ضرورت‘‘ کے وقت بھی لوگ ڈگری کا پوچھتے ہیں(پاکھنڈی لوگ ہر معاشرہ میں ہوتے ہیں:arrogant::arrogant::arrogant:)۔۔۔
تاہم محض ڈگریوں کے بل بوتے پر ڈھنگ سے روٹی روزی نہیں کمائی جاسکتی!!!
جناب ہمُ ایسے تو آپکو چرچلِ ثانی نہیں کہتے :star2::star2::star2::star2::star2:جناب
 

سیما علی

لائبریرین
نیز شادی بیاہ جیسی ’’اہم ضرورت‘‘ کے وقت بھی لوگ ڈگری کا پوچھتے ہیں(پاکھنڈی لوگ ہر معاشرہ میں ہوتے ہیں:arrogant::arrogant::arrogant:)۔۔۔
تاہم محض ڈگریوں کے بل بوتے پر ڈھنگ سے روٹی روزی نہیں کمائی جاسکتی!!!
خوب کہی ’’اہم ضرورت‘‘:nerd2::nerd2::nerd2::nerd2::nerd2:
 

سیما علی

لائبریرین
بس سارے مضمون کا لب لباب اسی اہم ضرورت کو سمجھا جائے۔۔۔
ماں باپ بچوں کو خود شوق دلاتے ہیں کہ بیٹا پڑھ لکھ کر شادی کے قابل ہوجا!!!
:cool::cool::cool:
بیس سال تک ایک عورت عقل سکھاتے سکھاتے بوڑھی ہوجاتی ہے اور دوسری آکر بیس منٹ میں عقل سے پیدل کردیتی ہے :lol::lol::lol::lol::lol:
 
اسکولوں میں بچوں کی ابتدائی علوم کی بنیاد مضبوط کرنے بجائے ان پر کئی مضامین کا بوجھ لاد دیا جاتا ہے نتیجۃً جن علوم کی بنیاد مضبوط ہونی چاہیے وہ ناقص رہ جاتی ہے۔ سرکاری اسکولوں کے آٹھویں جماعت کے طلبہ کی اردو کا یہ حال ہے کہ عام فہم الفاظ کا صحیح املا لکھنے سے قاصر ہیں، انگریزی ، ریاضی اور دیگر مضامین کا حال تو اور بھی برا ہے۔ پرائیوٹ ادارے بچوں پر بستے کا بوجھ تو لاد دیتے ہیں اور رٹا لگوا کر کچھ مضامین یاد بھی کرادیتے ہیں مگر ابتدائی علوم کو سمجھانے میں ناکام رہتے ہیں۔ درسی کتابوں سے ہٹ کر ان بچوں سے کچھ پوچھا جائے تو حیرت سے منہ تکنے لگتے ہیں یا شرم سے سر جھکالیتے ہیں۔ تعلیم کے نام پر ان تجارتی اداروں کی فیسیں والدین کی جیب خالی کررہی ہیں۔
اپنے بچوں کی تعلیم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کتنی بدل گئی ہے (یا کم از کم کیمبرج سسٹم کو ہی اگر ڈھنگ سے فالو کیا جائے تو کتنا فرق پڑ جاتا ہے)۔
میرے خیال میں دوسری جماعت تک صرف لکھنا، پڑھنا اور ریاضی میں بنیادی جمع تفریق سکھانے پر توجہ ہونی چاہیے ۔۔۔ جبکہ سائنس کے بنیادی کانسپٹس بچوں کو کھیل کھیل سمجھانے چاہئیں اور ان کا محض زبانی امتحان لینا چاہیے۔
 

سید عمران

محفلین
قابل ہونے کے بعد سب سے پہلے جو شوق دلاتے ہیں اُنہی سے نجات حاصل کرنا چاہتے اس وقت معاشرے کا ایک تلخ سچ ہے :crying3::crying3::crying3::crying3::crying3:
اس میں اکثر قصور والدین کا ہوتا ہے، نئی آنے والی کا کم۔۔۔
اب ہمیں نئی آنے والی کی سائیڈ تو لینی ہوگی!!!
والدین شروع سے بچے اور بعد میں پیار محبت سے بہو کی ذہن سازی کریں، ہر موڑ پر ان کا ساتھ دیں، ہر وقت ہرمعاملہ میں دخل اندازی، روک ٹوک،اجنبیت بھرے رویوں کے ساتھ تلخ کلامی نہ کریں، انہیں نئی زندگی آزادی سے جینے دیں تو صورتِ حال نسبتاً بہتر ہوسکتی ہے!!!
 

سیما علی

لائبریرین
س سارے مضمون کا لب لباب اسی اہم ضرورت کو سمجھا جائے۔۔۔
ماں باپ بچوں کو خود شوق دلاتے ہیں کہ بیٹا پڑھ لکھ کر شادی کے قابل ہوجا!!!
:cool::cool::cool:
ابھی ایک بہت اچھی دوست نے بیٹے کی شادی بڑے چاؤ سے کرائی بہو کی سب سے پہلی خواہش سا س کے ساتھ نہیں رہنا:crying3:
 

سید عمران

محفلین
اپنے بچوں کی تعلیم دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ دنیا کتنی بدل گئی ہے (یا کم از کم کیمبرج سسٹم کو ہی اگر ڈھنگ سے فالو کیا جائے تو کتنا فرق پڑ جاتا ہے)۔
میرے خیال میں دوسری جماعت تک صرف لکھنا، پڑھنا اور ریاضی میں بنیادی جمع تفریق سکھانے پر توجہ ہونی چاہیے ۔۔۔ جبکہ سائنس کے بنیادی کانسپٹس بچوں کو کھیل کھیل سمجھانے چاہئیں اور ان کا محض زبانی امتحان لینا چاہیے۔
جی بالکل درست کہا۔۔۔
بچوں کو ایک دن میں ہی علامہ بنانے کی کوشش نہ کی جائے۔۔۔
ہمارے اکابر کا دستور تھا کہ چار سال تک بچوں پر پڑھائی کا بوجھ نہ ڈالیں، زبانی تعلیم و تربیت کرتے رہیں۔۔۔
غالباً ناروے میں سات سال کی عمر تک اسکول میں داخلہ نہیں دیا جاتا!!!
کیوں جاسم محمد کیا ایسا ہی ہے؟؟؟
 

سیما علی

لائبریرین
اس میں اکثر قصور والدین کا ہوتا ہے، نئی آنے والی کا کم۔۔۔
بالکل درست فرمایا لیکن جہاں بیٹوں کی تربیت کی ضرورت ہے وہاں بیٹیوں کی بھی تربیت کی ضرورت ہے وہ سوچ پہلے دن سے علیحدگی کی لے کر آتیں ہیں ۔۔۔۔۔۔۔
 
ہمارے اکابر کا دستور تھا کہ چار سال تک بچوں پر پڑھائی کا بوجھ نہ ڈالیں،
اب تو دورانِ حمل ہی اگر اسکول میں رجسٹریشن نہ کروائی جائے تو داخلہ نہیں ملتا :)
ویسے پتہ نہیں یہ ہمارے یہاں ہی کیوں آگ لگی ہوتی ہے بچے کو پیدائش کے فوراً بعد سے اسکول میں داخل کروانے کی ۔۔۔ حالانکہ اکثر مغربی ممالک میں آج بھی ۴ سال سے پہلے بچے کو پری اسکول میں داخل نہیں کرتے اور کم از کم چھ سال کی عمر میں پہلی جماعت میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ مشرق وسطی کے بیشتر اسکولز میں بھی یہی معمول ہے۔
 

سید عمران

محفلین
ابھی ایک بہت اچھی دوست نے بیٹے کی شادی بڑے چاؤ سے کرائی بہو کی سب سے پہلی خواہش سا س کے ساتھ نہیں رہنا:crying3:
اگرچہ یہ کوئی اچھی بات نہیں لیکن بہت بری بات بھی نہیں۔۔۔
نئے جوڑے کو نئی زندگی اپنے طور پر شروع کرنے دیں۔۔۔
تاہم ناپسندیدہ عمل یہ ہے کہ الگ ہوکر بیٹا والدین کی خدمت نہ کرے!!!
 
وہ سوچ پہلے دن سے علیحدگی کی لے کر آتیں ہیں
ہماری بیگم کہتی ہیں کہ پتہ نہیں کیوں ہر عورت کو لگتا ہے کہ اس کی بہو بیٹے کو اس سے دور کروانے پر تُلی ہوتی ہے ۔۔۔ ہم کہتے ہیں کہ ان شاء اللہ تاریخ آپ کو اس مفروضے کو غلط ثابت کرنے کا موقع ضرور دے گی، بس آپ اپنی بات پر قائم رہیے گا :)
 
اگرچہ یہ کوئی اچھی بات نہیں لیکن بہت بری بات بھی نہیں۔۔۔
نئے جوڑے کو نئی زندگی اپنے طور پر شروع کرنے دیں۔۔۔
اصل میں برصغیر کی طرز کے جوائنٹ فیملی سسٹم میں میاں بیوی کو پرائیویسی میسر آنا جوئے شیر پھوٹنے سے زیادہ مشکل ہے ۔۔۔ اکثریت ۸۰ یا ۱۲۰ گز کے مکانوں میں رہتی ہے، اب ان میں کتنی پرائیویسی مل سکتی ہے ۔۔۔ پھر مہنگائی اتنی ہے کہ زیادہ تر لوگ اسی مکان میں ایک الگ منزل بنوانا بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ والدین سے قریب رہنے کے لیے اگر اسی محلے میں کوئی دوسرا مکان کرائے پر لیا جائے تو محلے والوں کے طعنے اور مشکوک نگاہیں پیچھا نہیں چھوڑتے۔
 

سید عمران

محفلین
اصل میں برصغیر کی طرز کے جوائنٹ فیملی سسٹم میں میاں بیوی کو پرائیویسی میسر آنا جوئے شیر پھوٹنے سے زیادہ مشکل ہے ۔۔۔ اکثریت ۸۰ یا ۱۲۰ گز کے مکانوں میں رہتی ہے، اب ان میں کتنی پرائیویسی مل سکتی ہے ۔۔۔ پھر مہنگائی اتنی ہے کہ زیادہ تر لوگ اسی مکان میں ایک الگ منزل بنوانا بھی افورڈ نہیں کر سکتے۔ والدین سے قریب رہنے کے لیے اگر اسی محلے میں کوئی دوسرا مکان کرائے پر لیا جائے تو محلے والوں کے طعنے اور مشکوک نگاہیں پیچھا نہیں چھوڑتے۔
جی ہاں، یہ مشکلات اور پریشانیاں اپنی جگہ ہیں۔۔۔
خاص کر بڑے شہروں میں جہاں جائیداد کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔۔۔
ایک عام آدمی کے لیے الگ گھر بنانا ناممکانات میں سے ہوچلا ہے۔۔۔
یہی حال کرائے کے گھروں کا ہے!!!
 
آخری تدوین:
Top