پہلے اسی طرح کا موضوع
عبدالقیوم چوہدری بھائی نے شروع کیا تھا تو میں بہت اداس ہوئی تھی۔ اب آپ نے وہی باتیں شروع کیں۔ میری پریشانی و اداسی میں مزید اضافہ۔ کیا ریٹنگ دوں! جی ہی نہیں چاہا۔۔۔۔ اداسی کی ہزار ہا ریٹنگز تھیں بس۔
کل اور آج میں کافی خوش ہوں۔۔۔ کافی طلبہ کو پڑھایا اور جی جان سے پڑھایا بھی اور تربیت بھی دی۔
اللہ سے امیدیں ہیں بس۔ اللہ پوری فرمائے۔ آمین!
جب لوگوں کی گمراہی اور ایمان نہ قبول کرنے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی شفقت کی بنا پر بہت زیادہ رنجیدہ رہنے لگے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ کو تسلی کا یہ پیغام ملا:
لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ اَلَّا یَكُوْنُوْا مُؤْمِنِیْنَ(الشعراء:۳)
ترجمہ: (اے پیغمبر)آپ اپنی جان کو ختم نہ کردیں اس غم میں کہ یہ لوگ ایمان نہیں لاتے۔
بس اعتدال ہر حال میں اچھا ہے۔ اعتدال سے ہٹ کر انسان غیر معتدل ہوجائے تو نفسیاتی مریض بھی بن سکتا ہے۔ ایک بے اعتدالی بے رحمی ہے، اس سے اجتناب ضروری ہے۔ دوسری بے اعتدالی حد سے زیادہ رحم دلی ہے۔ مخلوق پر رحم و شفقت تو ہو مگر اعتدال کے ساتھ۔ اس ایمان و عقیدہ کے ساتھ کہ جتنا ہوسکے ہم اتنا کام کریں گے، باقی اللہ پرچھوڑ دیں گے۔ کیوں کہ ہم خدا نہیں ہیں، نہ ہی مخلوقِ خدا ہمارے بندے ہیں۔ اللہ نے جس بندہ کو جس حال میں رکھا ہے اس کی حکمت ہے۔ اسی لیے ہمیں بھی صرف استطاعت کے مطابق مخلوق کی مدد کی ترغیب دی ہے اور اس سلسلہ میں حد سے گزر جانے کو پسند نہیں فرمایا۔ کیوں کہ یہ جذبہ آگے چل کر کہیں خدا پر اعتراض کا سبب نہ بن جائے کہ اس نے بندوں کو اس حال میں کیوں رکھا ہے۔ حالاں کہ دنیا کی تکالیف کے بدلہ میں جو کچھ آخرت میں ملے گا اس پر لوگ تمنا کریں گے کہ کاش دنیا میں ہماری کھالیں قینچی سے کتر دی جاتیں تو بھی کم تھا۔ اس لیے دنیاوی مصائب پر ہر وقت اللہ تعالیٰ کی یہ بات یاد رکھنے والی ہے:
وَ الاٰخِرَۃُ خَیرٌ وَّ اَبقٰی(سورہ اعلیٰ: ۱۷)
اور آخرت کی زندگی (ہر اعتبار سے دنیا کی زندگی سے) بہترین اور ہمیشہ کے لیے باقی رہنے والی ہے!!!