یہ مائیں بڑی جھوٹی ہوتی ہیں

صحن میں سوئے ہوئے ہلکی ہلکی ٹھنڈ محسوس ہونے پر سفید سوتی کھیس اوڑنے کی کوشش کرنا لیکن مٹی کی چاٹی میں لکڑی کی مدھانی چلنے کی گرر گرر کی آواز سے اپنی اس کوشش میں ناکام ہونا ، اور ساتھ ہی ایک تنبیہی آواز بھی، اونہوں۔۔۔۔۔ اب اور سونا نہیں، اٹھ جاو، سکول کا ٹائم ہو رہا ہے۔ مندی مندی آنکھوں سے بولنے والی کو دیکھنا اور منہ بنا کر پھر سے سو جانا، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آواز کی سمت سے ہی ہلکے ہلکے پانی کے چھینٹے آنے لگنا، اٹھ جاؤ بارش ہو رہی ہے، دیکھو کتنی موٹی موٹی "کنیاں" ہیں۔ شروع شروع میں واقعی لگتا تھا بارش ہے، پھر پتا چل گیا یہ تو "پانی کی دہشت گردی" ہے۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔۔۔

گندم اور مونجی خریدنے کے بعد اسے صاف کرنا، مونجی کے چاول چھڑوا کر انہیں ہلدی یا دھریک و نیم کے پتوں کے ساتھ محفوظ کرنا ہے، اور گندم کو صاف کر کے بھڑولوں میں ڈالنا، بغیر پیشگی اطلاع یہ کام شروع کرنا اور کئی دن کی محنت کے بعد اس کام کو انجام دینا، بیٹیوں کو بھی ساتھ لگانا، بسورے چہرے نظر انداز کرنا، شکایتی لفظوں پر خاموش رہنا، لیکن پورے سال کا کام ایک دو دن میں نمٹا کر سکون کا سانس لینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی ڈھیٹ ہوتی ہیں۔۔۔

کچے آم آتے ہی محلے کی کسی عورت سے بیس بیس کلو آم منگوانا، پانچ پانچ کلو سبز مرچ اور لیموں بھی ساتھ، اپنے ہاتھوں سے مرچوں کو کاٹنا، انہیں نمک اور ہلدی لگانا، اور یہ کہنے پر کہ آپ کو مرچیں کاٹتی نہیں؟ کچھ لمحات آنکھوں میں دیکھتے رہنا، ایک پھر ایک لمبی سانس کھینچنا اور کہنا۔۔۔ "نہیں"۔۔۔۔ اور یہی "نہیں" چھینکیں مارتے ہوئے اور بہتی آنکھوں سے اس وقت کہنا جب سوکھی سرخ مرچوں کو بڑے سے لنگرے میں موٹا موٹا پیسا جاتا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی جھوٹی ہوتی ہیں۔۔۔

سردیاں آنے پر پیٹیوں سے رضائیاں اور تلائیاں نکالنا، کچھ کو دھوپ لگوانا، کسی کو ادھیڑ کر روئی نکالنا، دھو کر مشین پر دھنکنے بھیجنا، واپس آنے پر چھت پر لے جا کر، موٹی سی سوئی سے انہیں دوبارہ سینا، اور اس طرح کے دھاگہ اوپر نظر نا آئے، اولاد کو پڑھتے دیکھنا اور خاموشی سے نئی سوئی میں دھاگہ ڈال لینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی سخت جان ہوتی ہیں۔۔۔

لکڑیاں سلگاتے، ان پر توا رکھے، دھڑا دھڑا ہاتھوں سے پیڑا بنا کر، پیڑے کی روٹی بناتے، کچھ کوئلے باہر نکال کر ان پر سالن گرم کرتے، "پہلی روٹی میری" کی ایک آواز سننی، اور پھر اس کے بعد تین چار آوازیں اسی صدا کے ساتھ سن کر، توے سے اترتے ہی انتہائی گرم روٹی کو ہاتھ سے چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے، چار اولادوں کے آگے چنگیر میں رکھ دینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بہت بے حس ہوتی ہیں۔۔۔

رات کو سونے سے پہلے، سارے دن کے کام کے بعد شل بازوں کے ساتھ، دونوں اطراف بازؤں میں ایک ایک بچے کو لئے سورہ فاتحہ اور آیت الکرسی یاد کروانا، سیف الملوک، یا میاں محمد بخش رح کے دوہے پڑھنا، دو تین بڑے بچوں کو دوسرے بستر پر بھی وقفے وقفے سے چہرہ سہلاتے ہوئے دیکھنا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی نا انصاف ہوتی ہیں۔۔۔

یہ ماں پچھلی کئی صدیوں کا اثاثہ ہے، اگلی نسلوں کو ایسی مائیں نہیں ملیں گی، ہم پتا نہیں ماں کی قدر کر پائیں یانہیں، لیکن اس ورثے کی قدر ہمیں بالکل نہیں۔

۔۔۔۔۔
از نامعلوم
 

محمد وارث

لائبریرین
یہ ماں پچھلی کئی صدیوں کا اثاثہ ہے، اگلی نسلوں کو ایسی مائیں نہیں ملیں گی۔
اس جاندار تحریر میں یہ جملہ انتہائی متنازع اور غیر حقیقی ہے اور زیادہ افسوس اس بات کا کہ ساری تحریر کی پنچ لائن بھی یہی ہے۔ ماں ہر عہد میں ماں ہی ہوتی ہے، مصنف نے بس ایک عہد کو لے کر (گمان ہے کہ یہ عہد مصنف کے اپنے بچپن کا ہوگا) ماں کی ذات، اوصاف اور اس کے دن بھر کے کام کاج کو اس میں محدود کر دیا ہے حالانکہ اس عہد سے پہلے بھی مائیں اسی طرح ہوتی تھیں اور اس عہد کے بعد میں بھی ماؤں کا جذبہ ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔
 
اس جاندار تحریر میں یہ جملہ انتہائی متنازع اور غیر حقیقی ہے اور زیادہ افسوس اس بات کا کہ ساری تحریر کی پنچ لائن بھی یہی ہے۔ ماں ہر عہد میں ماں ہی ہوتی ہے، مصنف نے بس ایک عہد کو لے کر (گمان ہے کہ یہ عہد مصنف کے اپنے بچپن کا ہوگا) ماں کی ذات، اوصاف اور اس کے دن بھر کے کام کاج کو اس میں محدود کر دیا ہے حالانکہ اس عہد سے پہلے بھی مائیں اسی طرح ہوتی تھیں اور اس عہد کے بعد میں بھی ماؤں کا جذبہ ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔
آپ کی بات بھی ٹھیک ہے، البتہ میں مصنف کو گریس مارکس ضرور دوں گا۔
مصنف کے ذہن میں شاید ان سرگرمیوں کا ذکر ہو جس کا حوالہ اس نے ماں کے ساتھ کیا ہے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ موجودہ دور کی مائیں خصوصاً شہروں میں رہنے والی ان سرگرمیوں میں مشغول ہونا تو ایک طرف، ان کے بارے میں علم بھی بہت کم رکھتی ہیں۔ اگر ہم سب پیرا گرافس کو فرداً فرداً دیکھیں تو شاید ہمیں شہروں میں ایسا کچھ بہت زیادہ دکھائی بھی نا دے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
جدید دور میں ماں اور بچے کے درمیان ٹیکنالوجی حائل ہوگئی ہے لہذا توجہ کا فقدان ہوگیا جو پہلے نہیں تھا۔
 

محمد وارث

لائبریرین
آپ کی بات بھی ٹھیک ہے، البتہ میں مصنف کو گریس مارکس ضرور دوں گا۔
مصنف کے ذہن میں شاید ان سرگرمیوں کا ذکر ہو جس کا حوالہ اس نے ماں کے ساتھ کیا ہے۔ عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ موجودہ دور کی مائیں خصوصاً شہروں میں رہنے والی ان سرگرمیوں میں مشغول ہونا تو ایک طرف، ان کے بارے میں علم بھی بہت کم رکھتی ہیں۔ اگر ہم سب پیرا گرافس کو فرداً فرداً دیکھیں تو شاید ہمیں شہروں میں ایسا کچھ بہت زیادہ دکھائی بھی نا دے۔
آپ کی بات درست ہے چوہدری صاحب اور میں بھی یہی کہنا چاہ رہا تھا کہ وقت کے ساتھ ماؤں کے کاموں کی نوعیت اور تفصیل بدل گئی ہے، پہلے ماں چاؤ سے اپنے بچے کے لیے دہی بلو کر اور اچھی خاصی محنت کر کے مکھن نکالتی تھی اب وہی ماں کچھ اور طرح کا کام کرتی ہے لیکن جذبہ وہی ہے۔

اگر کوئی ماں ورکنگ وومین بھی ہے اور اس کے بچے اسکول بھی جاتے ہیں تو پھر آپ اندازہ کیجیے کہ اس کی مصروفیات کا کیا حال ہوگا اور اس کے کاموں کی نوعیت آج سے تیس چالیس پہلے والی ماں کے کاموں سے کتنی مختلف ہوگی لیکن اس کا اپنے بچوں سے محبت میں فرق نہیں آیا، محبت کے اظہار کا طریقہ ضرور بدل گیا ہے اور وہ ہر عہد میں بدلتا ہی ہے لیکن ماں کی مامتا یا جذبوں میں کم ہی فرق آتا ہے۔

کم از کم میں نے تو یہی دیکھا، اپنی والدہ مرحومہ کو بھی دیکھا اور اب اپنے بچوں کی ماں کو بھی، اللہ اللہ۔ :)
 

آورکزئی

محفلین
یہاں کے ماوں کو دیکھ لیں جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے اکثر پہچانتے ہی نہیں۔۔ وہ اپنے ہاوس میڈ کو اپنی مائیں سمجھتے ہیں۔۔۔۔
وہ ’’ ایسی مائیں‘‘ واقعی اس کے بعد نہیں ملے گی۔۔۔
بہت خوبصورت تحریر ہے
 
یہاں کے ماوں کو دیکھ لیں جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بچے اکثر پہچانتے ہی نہیں۔۔ وہ اپنے ہاوس میڈ کو اپنی مائیں سمجھتے ہیں۔۔۔۔
وہ ’’ ایسی مائیں‘‘ واقعی اس کے بعد نہیں ملے گی۔۔۔
بہت خوبصورت تحریر ہے


'یہاں' سے کیا مراد ہوئی ؟ محفل پر ؟
 

سیما علی

لائبریرین
اس جاندار تحریر میں یہ جملہ انتہائی متنازع اور غیر حقیقی ہے اور زیادہ افسوس اس بات کا کہ ساری تحریر کی پنچ لائن بھی یہی ہے۔ ماں ہر عہد میں ماں ہی ہوتی ہے، مصنف نے بس ایک عہد کو لے کر (گمان ہے کہ یہ عہد مصنف کے اپنے بچپن کا ہوگا) ماں کی ذات، اوصاف اور اس کے دن بھر کے کام کاج کو اس میں محدود کر دیا ہے حالانکہ اس عہد سے پہلے بھی مائیں اسی طرح ہوتی تھیں اور اس عہد کے بعد میں بھی ماؤں کا جذبہ ایسا ہی ہے اور ایسا ہی رہے گا۔
سر ماں ہر دور میں ماں ہی ہے ۔پر تھوڑی سی ذمہ داریوں میں فرق آگیا ہے۔ نوکری کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں اور بچے اور دفتر ۔ ایک طرف مالی ضرورتیں ۔دوسری طرف کھریلو ذمہ داری۔اس پر سو مشکلیں زیادہ اُن خواتین کے لئے جنکو اکیلے یہ ذمے داری انجام دینا ہو۔ پوری زندگی اس جدو جہد مسلسل میں گذری۔شکر ہے میری والدہ میری مددگار رہیں۔تو خوش اسلوبی سے دونوں ذمہ داریوں کو نبھا سکی اور بقول منیر نیازی صاحب؀
چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
صحن میں سوئے ہوئے ہلکی ہلکی ٹھنڈ محسوس ہونے پر سفید سوتی کھیس اوڑنے کی کوشش کرنا لیکن مٹی کی چاٹی میں لکڑی کی مدھانی چلنے کی گرر گرر کی آواز سے اپنی اس کوشش میں ناکام ہونا ، اور ساتھ ہی ایک تنبیہی آواز بھی، اونہوں۔۔۔۔۔ اب اور سونا نہیں، اٹھ جاو، سکول کا ٹائم ہو رہا ہے۔ مندی مندی آنکھوں سے بولنے والی کو دیکھنا اور منہ بنا کر پھر سے سو جانا، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آواز کی سمت سے ہی ہلکے ہلکے پانی کے چھینٹے آنے لگنا، اٹھ جاؤ بارش ہو رہی ہے، دیکھو کتنی موٹی موٹی "کنیاں" ہیں۔ شروع شروع میں واقعی لگتا تھا بارش ہے، پھر پتا چل گیا یہ تو "پانی کی دہشت گردی" ہے۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔۔۔

گندم اور مونجی خریدنے کے بعد اسے صاف کرنا، مونجی کے چاول چھڑوا کر انہیں ہلدی یا دھریک و نیم کے پتوں کے ساتھ محفوظ کرنا ہے، اور گندم کو صاف کر کے بھڑولوں میں ڈالنا، بغیر پیشگی اطلاع یہ کام شروع کرنا اور کئی دن کی محنت کے بعد اس کام کو انجام دینا، بیٹیوں کو بھی ساتھ لگانا، بسورے چہرے نظر انداز کرنا، شکایتی لفظوں پر خاموش رہنا، لیکن پورے سال کا کام ایک دو دن میں نمٹا کر سکون کا سانس لینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی ڈھیٹ ہوتی ہیں۔۔۔

کچے آم آتے ہی محلے کی کسی عورت سے بیس بیس کلو آم منگوانا، پانچ پانچ کلو سبز مرچ اور لیموں بھی ساتھ، اپنے ہاتھوں سے مرچوں کو کاٹنا، انہیں نمک اور ہلدی لگانا، اور یہ کہنے پر کہ آپ کو مرچیں کاٹتی نہیں؟ کچھ لمحات آنکھوں میں دیکھتے رہنا، ایک پھر ایک لمبی سانس کھینچنا اور کہنا۔۔۔ "نہیں"۔۔۔۔ اور یہی "نہیں" چھینکیں مارتے ہوئے اور بہتی آنکھوں سے اس وقت کہنا جب سوکھی سرخ مرچوں کو بڑے سے لنگرے میں موٹا موٹا پیسا جاتا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی جھوٹی ہوتی ہیں۔۔۔

سردیاں آنے پر پیٹیوں سے رضائیاں اور تلائیاں نکالنا، کچھ کو دھوپ لگوانا، کسی کو ادھیڑ کر روئی نکالنا، دھو کر مشین پر دھنکنے بھیجنا، واپس آنے پر چھت پر لے جا کر، موٹی سی سوئی سے انہیں دوبارہ سینا، اور اس طرح کے دھاگہ اوپر نظر نا آئے، اولاد کو پڑھتے دیکھنا اور خاموشی سے نئی سوئی میں دھاگہ ڈال لینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی سخت جان ہوتی ہیں۔۔۔

لکڑیاں سلگاتے، ان پر توا رکھے، دھڑا دھڑا ہاتھوں سے پیڑا بنا کر، پیڑے کی روٹی بناتے، کچھ کوئلے باہر نکال کر ان پر سالن گرم کرتے، "پہلی روٹی میری" کی ایک آواز سننی، اور پھر اس کے بعد تین چار آوازیں اسی صدا کے ساتھ سن کر، توے سے اترتے ہی انتہائی گرم روٹی کو ہاتھ سے چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے، چار اولادوں کے آگے چنگیر میں رکھ دینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بہت بے حس ہوتی ہیں۔۔۔

رات کو سونے سے پہلے، سارے دن کے کام کے بعد شل بازوں کے ساتھ، دونوں اطراف بازؤں میں ایک ایک بچے کو لئے سورہ فاتحہ اور آیت الکرسی یاد کروانا، سیف الملوک، یا میاں محمد بخش رح کے دوہے پڑھنا، دو تین بڑے بچوں کو دوسرے بستر پر بھی وقفے وقفے سے چہرہ سہلاتے ہوئے دیکھنا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی نا انصاف ہوتی ہیں۔۔۔

یہ ماں پچھلی کئی صدیوں کا اثاثہ ہے، اگلی نسلوں کو ایسی مائیں نہیں ملیں گی، ہم پتا نہیں ماں کی قدر کر پائیں یانہیں، لیکن اس ورثے کی قدر ہمیں بالکل نہیں۔
۔۔۔۔۔
از نامعلوم
سر ماں ہر دور میں ماں ہی ہے ۔پر تھوڑی سی ذمہ داریوں میں فرق آگیا ہے۔ نوکری کے ساتھ گھر کی ذمہ داریاں اور بچے اور دفتر ۔ ایک طرف مالی ضرورتیں ۔دوسری طرف کھریلو ذمہ داری۔اس پر سو مشکلیں زیادہ اُن خواتین کے لئے جنکو اکیلے یہ ذمے داری انجام دینا ہو۔ پوری زندگی اس جدو جہد مسلسل میں گذری۔شکر ہے میری والدہ میری مددگار رہیں۔تو خوش اسلوبی سے دونوں ذمہ داریوں کو نبھا سکی اور بقول منیر نیازی صاحب؀
چاہتا ہوں میں منیرؔ اس عمر کے انجام پر
ایک ایسی زندگی جو اس طرح مشکل نہ ہو
 
آخری تدوین:

صابرہ امین

لائبریرین
صحن میں سوئے ہوئے ہلکی ہلکی ٹھنڈ محسوس ہونے پر سفید سوتی کھیس اوڑنے کی کوشش کرنا لیکن مٹی کی چاٹی میں لکڑی کی مدھانی چلنے کی گرر گرر کی آواز سے اپنی اس کوشش میں ناکام ہونا ، اور ساتھ ہی ایک تنبیہی آواز بھی، اونہوں۔۔۔۔۔ اب اور سونا نہیں، اٹھ جاو، سکول کا ٹائم ہو رہا ہے۔ مندی مندی آنکھوں سے بولنے والی کو دیکھنا اور منہ بنا کر پھر سے سو جانا، لیکن تھوڑی دیر بعد ہی آواز کی سمت سے ہی ہلکے ہلکے پانی کے چھینٹے آنے لگنا، اٹھ جاؤ بارش ہو رہی ہے، دیکھو کتنی موٹی موٹی "کنیاں" ہیں۔ شروع شروع میں واقعی لگتا تھا بارش ہے، پھر پتا چل گیا یہ تو "پانی کی دہشت گردی" ہے۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی ظالم ہوتی ہیں۔۔۔

گندم اور مونجی خریدنے کے بعد اسے صاف کرنا، مونجی کے چاول چھڑوا کر انہیں ہلدی یا دھریک و نیم کے پتوں کے ساتھ محفوظ کرنا ہے، اور گندم کو صاف کر کے بھڑولوں میں ڈالنا، بغیر پیشگی اطلاع یہ کام شروع کرنا اور کئی دن کی محنت کے بعد اس کام کو انجام دینا، بیٹیوں کو بھی ساتھ لگانا، بسورے چہرے نظر انداز کرنا، شکایتی لفظوں پر خاموش رہنا، لیکن پورے سال کا کام ایک دو دن میں نمٹا کر سکون کا سانس لینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی ڈھیٹ ہوتی ہیں۔۔۔

کچے آم آتے ہی محلے کی کسی عورت سے بیس بیس کلو آم منگوانا، پانچ پانچ کلو سبز مرچ اور لیموں بھی ساتھ، اپنے ہاتھوں سے مرچوں کو کاٹنا، انہیں نمک اور ہلدی لگانا، اور یہ کہنے پر کہ آپ کو مرچیں کاٹتی نہیں؟ کچھ لمحات آنکھوں میں دیکھتے رہنا، ایک پھر ایک لمبی سانس کھینچنا اور کہنا۔۔۔ "نہیں"۔۔۔۔ اور یہی "نہیں" چھینکیں مارتے ہوئے اور بہتی آنکھوں سے اس وقت کہنا جب سوکھی سرخ مرچوں کو بڑے سے لنگرے میں موٹا موٹا پیسا جاتا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی جھوٹی ہوتی ہیں۔۔۔

سردیاں آنے پر پیٹیوں سے رضائیاں اور تلائیاں نکالنا، کچھ کو دھوپ لگوانا، کسی کو ادھیڑ کر روئی نکالنا، دھو کر مشین پر دھنکنے بھیجنا، واپس آنے پر چھت پر لے جا کر، موٹی سی سوئی سے انہیں دوبارہ سینا، اور اس طرح کے دھاگہ اوپر نظر نا آئے، اولاد کو پڑھتے دیکھنا اور خاموشی سے نئی سوئی میں دھاگہ ڈال لینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی سخت جان ہوتی ہیں۔۔۔

لکڑیاں سلگاتے، ان پر توا رکھے، دھڑا دھڑا ہاتھوں سے پیڑا بنا کر، پیڑے کی روٹی بناتے، کچھ کوئلے باہر نکال کر ان پر سالن گرم کرتے، "پہلی روٹی میری" کی ایک آواز سننی، اور پھر اس کے بعد تین چار آوازیں اسی صدا کے ساتھ سن کر، توے سے اترتے ہی انتہائی گرم روٹی کو ہاتھ سے چار حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے، چار اولادوں کے آگے چنگیر میں رکھ دینا۔

۔۔۔ یہ مائیں بہت بے حس ہوتی ہیں۔۔۔

رات کو سونے سے پہلے، سارے دن کے کام کے بعد شل بازوں کے ساتھ، دونوں اطراف بازؤں میں ایک ایک بچے کو لئے سورہ فاتحہ اور آیت الکرسی یاد کروانا، سیف الملوک، یا میاں محمد بخش رح کے دوہے پڑھنا، دو تین بڑے بچوں کو دوسرے بستر پر بھی وقفے وقفے سے چہرہ سہلاتے ہوئے دیکھنا۔

۔۔۔ یہ مائیں بڑی نا انصاف ہوتی ہیں۔۔۔

یہ ماں پچھلی کئی صدیوں کا اثاثہ ہے، اگلی نسلوں کو ایسی مائیں نہیں ملیں گی، ہم پتا نہیں ماں کی قدر کر پائیں یانہیں، لیکن اس ورثے کی قدر ہمیں بالکل نہیں۔

۔۔۔۔۔
از نامعلوم

ان سب باتوں کا احساس ماں بن کر ہوا ۔ ۔ ۔

ماواں ٹھنڈیاں چھاواں ۔ ۔
 

ایس ایس ساگر

لائبریرین
آپ کی بات درست ہے چوہدری صاحب اور میں بھی یہی کہنا چاہ رہا تھا کہ وقت کے ساتھ ماؤں کے کاموں کی نوعیت اور تفصیل بدل گئی ہے، پہلے ماں چاؤ سے اپنے بچے کے لیے دہی بلو کر اور اچھی خاصی محنت کر کے مکھن نکالتی تھی اب وہی ماں کچھ اور طرح کا کام کرتی ہے لیکن جذبہ وہی ہے۔
اگر کوئی ماں ورکنگ وومین بھی ہے اور اس کے بچے اسکول بھی جاتے ہیں تو پھر آپ اندازہ کیجیے کہ اس کی مصروفیات کا کیا حال ہوگا اور اس کے کاموں کی نوعیت آج سے تیس چالیس پہلے والی ماں کے کاموں سے کتنی مختلف ہوگی لیکن اس کا اپنے بچوں سے محبت میں فرق نہیں آیا، محبت کے اظہار کا طریقہ ضرور بدل گیا ہے اور وہ ہر عہد میں بدلتا ہی ہے لیکن ماں کی مامتا یا جذبوں میں کم ہی فرق آتا ہے۔
وارث بھائی! آپ نے صحیح فرمایا۔ بدلتے ادوار کے ساتھ ماں کے اظہار محبت کا انداز تو بدل سکتا ہے مگراس کا جذبہ محبت نہیں۔ ماں ہر دور میں پیکر عظمت و ہمت اور اپنی اولاد کے لیے سرتاپا ممتا کے جذبے سے سرشار رہی ہے۔ ماں کے پیار کے اظہار کی بات ہوتی ہے تو ہمیشہ میرے ذہن میں جناب انور مسعود صاحب کی لکھی ہوئی پنجابی نظم امبڑی ابھر آتی ہے جس میں ماں کے جذبہ محبت کو بہترین طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔

ما سٹر: اَج بڑی دیر نال آیاں ایں بشیریا!
ایہ تیرا پنڈ اے تے نال ای سکول اے
جائں گا توُں میرے کولوں ہڈیاں بھناں کے
آیاں ایں تُو اَج دوونویں ٹلیاں گھسا کے

بشیرا: منشی جی میری اِک گل پہلں سُن لو
اکرمے نے نھیر جیہا نھیراَج پایا جے
مائی نوں ایہ ماردا اے تے بڑا ڈاہڈا ماردائے
اَج ایس بھیڑکے نے حد پئ مکائی اے
اوہنوں مارمار کے مدھانی بھَن سُٹی سوُ
بندے کٹھے ہوے نیں تے اوتھوں پج گیائے
چُک کے کتاباں تے سکوُل ول نسیائے

مائی ایہدی منشی جی گھر ساڈے آئی سی
مُونہہ اُتے نیل سن سُجا ھویا ہتھ سی
اکھاں وچ اتھرو تے بُلاں وچ رَت سی

کہن لگی سوہنیا وے پتر بشیریا
میرا اک کم وی توں کریں اج ہیریا
روٹی میرے اکرمے دی لئ جا مدرسے
اَج فیر ٹُر گیا اے میرے نال رُس کے

گھیؤ وچ گُنّھ کے پراؤنٹھے اوس پکاے نیں
ریجھ نال رِنھیاں سُوآنڈیاں دا حلوہ
پونے وچ بَنھ کے تے میرے ہتھ وچ دَتی سُو
ایہو گل آکھدی سی مُڑ مُڑ منشی جی
چھیتی نال جائیں بیبا’دیریاں نہ لائیں بیبا

اوہدیاں تے لُو سدیاں ہون گیاں آندراں
بھکھا بھانا اج او سکولے ٹُر گیااے
روٹی اوہنے دتی اے میں بھجا لگا آیا جے
اکرمے نے ںھیر جیہا نھیر اج پایا اے
 

سیما علی

لائبریرین
وارث بھائی! آپ نے صحیح فرمایا۔ بدلتے ادوار کے ساتھ ماں کے اظہار محبت کا انداز تو بدل سکتا ہے مگراس کا جذبہ محبت نہیں۔ ماں ہر دور میں پیکر عظمت و ہمت اور اپنی اولاد کے لیے سرتاپا ممتا کے جذبے سے سرشار رہی ہے۔ ماں کے پیار کے اظہار کی بات ہوتی ہے تو ہمیشہ میرے ذہن میں جناب انور مسعود صاحب کی لکھی ہوئی پنجابی نظم امبڑی ابھر آتی ہے جس میں ماں کے جذبہ محبت کو بہترین طریقے سے اجاگر کیا گیا ہے۔

ما سٹر: اَج بڑی دیر نال آیاں ایں بشیریا!
ایہ تیرا پنڈ اے تے نال ای سکول اے
جائں گا توُں میرے کولوں ہڈیاں بھناں کے
آیاں ایں تُو اَج دوونویں ٹلیاں گھسا کے

بشیرا: منشی جی میری اِک گل پہلں سُن لو
اکرمے نے نھیر جیہا نھیراَج پایا جے
مائی نوں ایہ ماردا اے تے بڑا ڈاہڈا ماردائے
اَج ایس بھیڑکے نے حد پئ مکائی اے
اوہنوں مارمار کے مدھانی بھَن سُٹی سوُ
بندے کٹھے ہوے نیں تے اوتھوں پج گیائے
چُک کے کتاباں تے سکوُل ول نسیائے

مائی ایہدی منشی جی گھر ساڈے آئی سی
مُونہہ اُتے نیل سن سُجا ھویا ہتھ سی
اکھاں وچ اتھرو تے بُلاں وچ رَت سی

کہن لگی سوہنیا وے پتر بشیریا
میرا اک کم وی توں کریں اج ہیریا
روٹی میرے اکرمے دی لئ جا مدرسے
اَج فیر ٹُر گیا اے میرے نال رُس کے

گھیؤ وچ گُنّھ کے پراؤنٹھے اوس پکاے نیں
ریجھ نال رِنھیاں سُوآنڈیاں دا حلوہ
پونے وچ بَنھ کے تے میرے ہتھ وچ دَتی سُو
ایہو گل آکھدی سی مُڑ مُڑ منشی جی
چھیتی نال جائیں بیبا’دیریاں نہ لائیں بیبا

اوہدیاں تے لُو سدیاں ہون گیاں آندراں
بھکھا بھانا اج او سکولے ٹُر گیااے
روٹی اوہنے دتی اے میں بھجا لگا آیا جے
اکرمے نے ںھیر جیہا نھیر اج پایا اے

کاش میں اتنی پیاری زبان کو اسکے اصلی میں سمجھ پاتی جتنی سمجھ ہائی ہوں لکھتی ہوں سر تصیح ضرور کیجیے گا؀

ماسٹر: آج بڑی دیر سے تم آئے ہو بشیر
قریب تیرا گاؤں ہے اور ساتھ اس کے سکول ہے
جاؤ گے اب مجھ سے تم ہڈیاں تڑوا کے
آئے ہو اب تم دونوں پیریڈ بھی گزار کے

بشیر: منشی جی میری اِک بات پہلے سن لیں
اکرم نے اندھیر سا اندھیر آج مچایا ہے
ماں کو یہ مارتا ہے اور بہت مارتا ہے
آج یہ پھلانگ گیا حدیں سب ساری
ماں کو مار مار کے بلونی توڑ دی ہے
لوگ اکٹھے ہوئے ہیں اور فرار وہاں سے ہوا ہے
بستہ اٹھا کر یہ سکول کی طرف بھاگا ہے

ماں اس کی منشی جی گھر ہمارے آئی تھی
منہ پہ نیل پڑے تھے اور ہاتھ سوجا ہوا تھا
آنکھوں میں تھے آنسو اور سوجا ہوا ہاتھ تھا

کہنے لگی پیارے او بیٹے میرے بشیر
کام آج میرا ایک کرنا ہے رے ہیریا (ہیرا)
روٹی میرے اکرم کی تو لے جا مدرسے
آج پھر چلا گیا مجھ سے وہ پھر روٹھ کے

گوندھ کر گھی میں پراٹھے اس نے پکائے ہیں
پیار سے بنایا ہے انڈوں کا ساتھ حلوہ
سب یہ چیزیں باندھ کر میرے حوالے کی ہیں
یہی بات کہتی تھی وہ بار بار منشی جی
جلدی سے جانا بیٹا دیر سے نہ جانا بیٹا

اس کی تو آنتیں بھی بھوک سے بلکتی ہوں گی
بغیر کچھ کھائے پیے وہ سکول چلا گیا ہے
روٹی اس نے دی ہے میں بھاگا چلا آیا ہوں
اکرمے نے اندھیر سا اندھیر آج مچایا ہے
 
کاش میں اتنی پیاری زبان کو اسکے اصلی میں سمجھ پاتی جتنی سمجھ ہائی ہوں لکھتی ہوں سر تصیح ضرور کیجیے گا؀

ماسٹر: آج بڑی دیر سے تم آئے ہو بشیر
قریب تیرا گاؤں ہے اور ساتھ اس کے سکول ہے
جاؤ گے اب مجھ سے تم ہڈیاں تڑوا کے
آئے ہو اب تم دونوں پیریڈ بھی گزار کے

بشیر: منشی جی میری اِک بات پہلے سن لیں
اکرم نے اندھیر سا اندھیر آج مچایا ہے
ماں کو یہ مارتا ہے اور بہت مارتا ہے
آج یہ پھلانگ گیا حدیں سب ساری
ماں کو مار مار کے بلونی توڑ دی ہے
لوگ اکٹھے ہوئے ہیں اور فرار وہاں سے ہوا ہے
بستہ اٹھا کر یہ سکول کی طرف بھاگا ہے

ماں اس کی منشی جی گھر ہمارے آئی تھی
منہ پہ نیل پڑے تھے اور ہاتھ سوجا ہوا تھا
آنکھوں میں تھے آنسو اور سوجا ہوا ہاتھ تھا

کہنے لگی پیارے او بیٹے میرے بشیر
کام آج میرا ایک کرنا ہے رے ہیریا (ہیرا)
روٹی میرے اکرم کی تو لے جا مدرسے
آج پھر چلا گیا مجھ سے وہ پھر روٹھ کے

گوندھ کر گھی میں پراٹھے اس نے پکائے ہیں
پیار سے بنایا ہے انڈوں کا ساتھ حلوہ
سب یہ چیزیں باندھ کر میرے حوالے کی ہیں
یہی بات کہتی تھی وہ بار بار منشی جی
جلدی سے جانا بیٹا دیر سے نہ جانا بیٹا

اس کی تو آنتیں بھی بھوک سے بلکتی ہوں گی
بغیر کچھ کھائے پیے وہ سکول چلا گیا ہے
روٹی اس نے دی ہے میں بھاگا چلا آیا ہوں
اکرمے نے اندھیر سا اندھیر آج مچایا ہے
صرف آدھا مصرعہ آپ کو سمجھ نہیں آ پایا، باقی آپ نے زبردست ترجمہ کیا ہے۔ ماشا اللہ۔
اکھاں وچ اتھرو تے بُلاں وچ رَت سی
آنکھوں میں آنسو تھے اور ہونٹوں پر خون تھا۔
۔۔۔
اس میں بھی مجھے گمان ہے کہ آپ نے اس سے پہلے والی سطر کا دوبارہ ترجمہ کر دیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
صرف آدھا مصرعہ آپ کو سمجھ نہیں آ پایا، باقی آپ نے زبردست ترجمہ کیا ہے۔ ماشا اللہ۔

آنکھوں میں آنسو تھے اور ہونٹوں پر خون تھا۔
۔۔۔
اس میں بھی مجھے گمان ہے کہ آپ نے اس سے پہلے والی سطر کا دوبارہ ترجمہ کر دیا ہے۔
جی ٹھیک کہا آپ نے مجھے آپکی مادری زبان بہت اچھی لگتی ہے ۔ خاص کر لوک گیتو ں میں بہت مٹھاس ہے ۔جزاک اللہ۔
بہت ساری دعائیں ۔
 
Top