امجد میانداد
محفلین
السلام علیکم!
آگے جو کچھ لکھا ہے میرا خیال ہے بے پناہ قربانیاں دے کر وطن حاصل کرنے والوں اور بنا قربانی دیے بھی فخر سے پاکستانی کہلانے والے کسی بھی پاکستانی کو ان باتوں سے اختلاف نہیں ہو گا۔
اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اپنے بڑوں سے پاکستان آنے کی تاریخ پوچھ لینے کے بعد اپنے اعتراض کے ساتھ تاریخ بھی لکھ کر بات کریں۔
ایک بات جو سبھی دل رکھنے والوں کو دکھ دیتی ہے جب آپ کسی کو بہت اپنا سمجھیں اس کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کریں اور پتہ چلے آپ جو بھی کرتے چلے آئے وہ کسی خاطر نہیں اور بیچ کی دیوار ہے کہ ہٹتی ہی نہیں۔ اور وہ بات بات پہ آپ کو بیگانہ ہونے کا طعنہ دے۔ غیر ہونے پہ ملامت کرے۔
میں نے بہت سوچا کہ نہ لکھوں، کہ میں نے کیا دیکھا، کیا سنا، کیا محسوس کیا۔ پر اب رہا نہیں جاتا کیوں کہ الزام اب گہرا ہوتا جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں حضرت آدم جنت سے نکالے گئے تھے مہاجر ہوئے، انبیاء کی اکثریت نے ہجرت کی، حضورﷺ نے ہجرت کی۔سبھی انسان مہاجر ہیں کیوں کہ جہاں وہ آج ہیں وہاں ان کے اجدادکسی ایک پیڑی سے نہیں بھی تھے۔
اللہ میری حیات بھی میرے وطن کی شان پہ قربان کرے جب یہ وطن بنا تو ہجرت ہوئی اور بہت بڑے پیمانے پر ہوئی۔ مجھ سے زیادہ بہت لوگ یہاں جانتے ہوں گے کہ سب سے زیادہ ہجرت کون سے صوبے میں ہوئی۔ لیکن پنجاب کے علاوہ سرحد سندھ اور بلوچستان میں بھی لوگ ہجرت کر کے گئے ۔یقین جانیں میں ہزارہ میں کچھ ماہ رہا تو مجھے پتہ چلا کے ہجرت کر کے آنے والوں کی تو بہت بڑی آبادی ہے۔ کوئی الگ سے شناخت نہیں وہاں کی ہی زباں، رشتے لیے دیے ہوئے اور سب باہم ایک مٹھی۔
اور یہی حال مجھے پنجاب میں نظر آیا باتوں باتوں میں تذکرہ چل پڑے تو چل پڑے ۔ پر سب ایک ہیں۔
دونوں طرف کے لوگوں کا جوش ، ولولہ اور ایک دوسرے کے لیے محبت دیدنی تھی۔
اور ہوں بھی کیوں نہ ایک آخر اس وطن کے لیے گھر بار چھوڑا پُرکھوں کی نشانیاں چھوڑیں۔ زمین املاک اور رشتے ناطے اور عزت شان سب چھوڑ آئے تو اب یہاں سے بیگانہ پن کیسا۔ اس مٹی پہ اپنوں کا خون قربان کیا ہے تو تھوڑے سے رسم و رواج، اور لہجے میں تبدیلی کیا بھاری، اب جب یہی وطن سب کچھ ہے تو رشتہ ناطے میں کیا اجنبیت۔
لیکن ایسا کراچی اور حیدر آباد میں نہیں۔۔۔۔۔۔
کیوں نہیں؟
کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں کو پاکستان سے اپنا پن کیوں نہیں ملا یا انہیں کیوں نہیں محسوس ہوا؟
مٹی کا بابا اپنے سینے میں پیوست گرم خون سے بھرے دھک دھک کرتے ایک لوتھڑے کے ہاتھوں بہت پریشان تھا کہ ایسا کیوں؟
صرف کراچی اور حیدر آباد میں ہی کیوں؟؟
مٹی کا بابا سوچتا بہت تھا۔۔ بہت سوچتا تھا۔۔
گھر میں کوئی اور ہمنوا نہ ہونے کی وجہ سے بچپن سے جوانی تعلیم و تربیت اور نونہال کی چھاؤں میں گزری تو مٹی کا بابا حکیم محمد سعید صا حب کی نصیحتوں اور نونہال کی سبق آموز کہانیوں کا ہیرو بننے کی کوشش کرنے لگا ۔
مٹی کا بابا مٹی سے مٹی ہوا، یہ راز کھلا کہ کتاب کی اور نصیحت کی باتوں پہ عمل کرنا تو انگاروں پہ چلنے سے زیادہ مشکل کام ہے بہت دکھ کا سفر ہے پر مزہ اپنا تھا اس سفر میں۔ سو چلتا گیا۔
تو بات ہو رہی تھی کراچی اور حیدر آباد کی۔۔
جب تہہ میں جانے کی کوشش کی تو بہت سی گتھیاں الجھ گئیں۔
کچھ باتیں تھیں جن کے سوال پوچھے تو جواب بھی ملے۔
پوچھنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ کچھ سال پہلے تک اخباروں میں اشتہار کچھ ایسے ہوتے تھے
دکن کے معزز گھرانے کی لڑکی کے لیے معزز دکنی خاندان کے لڑکوں کے رشتے مطلوب ہیں۔
یا
ایک باعزت لکھنؤ کے گھرانے کے انجینئز نوجوان کے لیے ہم پلہ رشتہ درکار ہے۔
اسی طرح دلی اور حیدر آبادی گھرانوں کا بھی ذکر کر کے رشتے مانگے جاتے تھے مٹی کا بابا حیران یوں تھا کہ کیوں آخر ساٹھ سال سے اس وطن میں رہنے کے باوجود اور اپنی تیسری پیڑھی یہاں بیتانے کے باوجود کیا یہ گھرانے یہاں کا کوئی معزز حوالہ پیدا کرنے میں ناکام رہے یہاں وہاں کی محبت اب بھی بھاری ہے یہاں پہ، تو کیا دل سے نہیں اپنایا گیا اس وطن کو؟
-------
لوگ جب ملتے دیکھے تو کچھ ایسے جملے سنے ارے بھئی حیدرآبادی (انڈیا کا) ہو کیا؟
یا
بہاری لہجہ لگ رہا ہے تمھارا تو۔
دلی چھوٹی پر حرکتیں نہیں گئیں تم سالوں کی۔۔۔۔۔۔۔
---------
دوسروں سے کچھ کہنے سننے کے بجائے انہی سے پوچھا جن سے سوال تھا۔ اور بہت ساری باتوں کا جو نچوڑ نکلا وہ کچھ اس طرح سے سامنے آیا :
قیام پاکستان کے وقت ہجرت کے بعد جب یہاں صحیح سلامت پہنچ جانے والوں کے حالات کی خبریں انڈیا پہنچیں کہ کس طرح فلاں محلے والوں کو بنیئوں کی چھوڑی ہوئی حویلی مل گئی۔ فلاں گھر والوں کو مقامیوں نے ایسا کاروبار لگوا دیا
یہ
اور
وہ وغیرہ وغیرہ۔۔
ہر دور کے موقع پرستوں کی طرح اس وقت بھی کچھ موقع پرست تھے جو ہجرت کے وقت تو نہ آئے لیکن بعد میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے کاروباری سوچ لیکر صرف کراچی اور آس پاس کا رخ کیا۔کیوں کہ کراچی کی بندرگاہ کی وجہ سے اہمیت اور شہرت مسلم تھی۔ اب اس سے وابستگی پاکستان سے وابستگی سے زیادہ ضروری ٹھہرائی جانے لگی۔
اس سوچ کے لوگ اپنی بقا کی خاطرآپس میں ایک ہو کر اکٹھے رہنے لگے اور اپنی الگ شناخت کے ساتھ اور پاکستانیوں سے دوری میں ہی عافیت سمجھی۔ ان کے بقول وہ ایک اجلے ماضی اور عظیم روایات کے پاسدار تھے اور پاکستان کے مقامی کہاں دلی اور لکھنؤ کی خاک کو پہنچیں انہیں کیا پتہ عزت، رہن سہن اور رکھ رکھاؤ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو ہماری اور ہمارے اجداد کی میراث ہے۔
آپس میں ہی رشتے ہوئے اور نتیجتاَ یہ اپنے آس پاس بسنے والے قدیم مقامی لوگوں کو بھی اپنا ہمنوا نہ بنا سکے۔ جن میں ، کاٹھیا وار میمن، بوہری، کچھی، بلوچ اور سندھی لوگ تھے۔ یہ سب سے الگ ہی رہے۔
ظاہر ہے باقی تمام طرفوں سے بھی ان کو نظر انداز ہی کیا جاتا رہا۔ اور ایسے میں بھلا فائدہ کیسے ہو سکتا ہے کسی بھی کام میں۔
زمانہ بدل گیا اور کچھ پڑھے لکھے دماغ بھی آ گئے جو دو اور دو چار کے علاوہ دور کی بھی سوچ رکھتے تھے تو کُھلا کہ صاحب یہ کیا ہو گیا؟ اتنا خرابہ؟ اتنا گھاٹا،ایسا سلوک۔
تو بھائی لوگ تیورا گئے اور ہر اس عنصر اور اس کام کے ہم رکاب ہو گئے جہاں سےکچھ بھی فائدہ ملنے کی توقع ہوئی اور کوئی ساتھ ملنے کا آسرا ہوا۔ جب ہتھیانے والوں کے ہتھے چڑھے تو انہوں نے بھی خوب استعمال کیا اور پھر کیا تھا بھری ہوا کو اپنا قد سمجھ بیٹھے اور پھُس۔۔۔۔۔
جب غبارے سے ہوا نکلی تو نئے تیوروں سے اٹھے اور اب کے پتہ چلا کے سب سے بڑا خرابہ پاکستانیوں سے خود کو الگ تھلگ کرنا تھا۔ اور پھر متحد ہونے کا خیال آیا اور متحدہ ہوتے ہی اپنے صفوں میں تازہ خون تو شامل کرنا تھا بس شروع ہو گئے شروعات کی بھی تو پھر سے غلط کے بجائے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر محبت سے اپنوں کے اور باقی پاکستانیوں کے دل جیتتے پھر سے بغض اگلنا شروع اور پھر سے صرف اپنوں کا ووٹ حاصل کرنے کی خاطر پاکستانی فوبیا۔
غالب چچا کا شعر یاد آ گیا ۔
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار ۔۔۔۔یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
آگے جو کچھ لکھا ہے میرا خیال ہے بے پناہ قربانیاں دے کر وطن حاصل کرنے والوں اور بنا قربانی دیے بھی فخر سے پاکستانی کہلانے والے کسی بھی پاکستانی کو ان باتوں سے اختلاف نہیں ہو گا۔
اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اپنے بڑوں سے پاکستان آنے کی تاریخ پوچھ لینے کے بعد اپنے اعتراض کے ساتھ تاریخ بھی لکھ کر بات کریں۔
ایک بات جو سبھی دل رکھنے والوں کو دکھ دیتی ہے جب آپ کسی کو بہت اپنا سمجھیں اس کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کریں اور پتہ چلے آپ جو بھی کرتے چلے آئے وہ کسی خاطر نہیں اور بیچ کی دیوار ہے کہ ہٹتی ہی نہیں۔ اور وہ بات بات پہ آپ کو بیگانہ ہونے کا طعنہ دے۔ غیر ہونے پہ ملامت کرے۔
میں نے بہت سوچا کہ نہ لکھوں، کہ میں نے کیا دیکھا، کیا سنا، کیا محسوس کیا۔ پر اب رہا نہیں جاتا کیوں کہ الزام اب گہرا ہوتا جاتا ہے۔
میں سمجھتا ہوں حضرت آدم جنت سے نکالے گئے تھے مہاجر ہوئے، انبیاء کی اکثریت نے ہجرت کی، حضورﷺ نے ہجرت کی۔سبھی انسان مہاجر ہیں کیوں کہ جہاں وہ آج ہیں وہاں ان کے اجدادکسی ایک پیڑی سے نہیں بھی تھے۔
اللہ میری حیات بھی میرے وطن کی شان پہ قربان کرے جب یہ وطن بنا تو ہجرت ہوئی اور بہت بڑے پیمانے پر ہوئی۔ مجھ سے زیادہ بہت لوگ یہاں جانتے ہوں گے کہ سب سے زیادہ ہجرت کون سے صوبے میں ہوئی۔ لیکن پنجاب کے علاوہ سرحد سندھ اور بلوچستان میں بھی لوگ ہجرت کر کے گئے ۔یقین جانیں میں ہزارہ میں کچھ ماہ رہا تو مجھے پتہ چلا کے ہجرت کر کے آنے والوں کی تو بہت بڑی آبادی ہے۔ کوئی الگ سے شناخت نہیں وہاں کی ہی زباں، رشتے لیے دیے ہوئے اور سب باہم ایک مٹھی۔
اور یہی حال مجھے پنجاب میں نظر آیا باتوں باتوں میں تذکرہ چل پڑے تو چل پڑے ۔ پر سب ایک ہیں۔
دونوں طرف کے لوگوں کا جوش ، ولولہ اور ایک دوسرے کے لیے محبت دیدنی تھی۔
اور ہوں بھی کیوں نہ ایک آخر اس وطن کے لیے گھر بار چھوڑا پُرکھوں کی نشانیاں چھوڑیں۔ زمین املاک اور رشتے ناطے اور عزت شان سب چھوڑ آئے تو اب یہاں سے بیگانہ پن کیسا۔ اس مٹی پہ اپنوں کا خون قربان کیا ہے تو تھوڑے سے رسم و رواج، اور لہجے میں تبدیلی کیا بھاری، اب جب یہی وطن سب کچھ ہے تو رشتہ ناطے میں کیا اجنبیت۔
لیکن ایسا کراچی اور حیدر آباد میں نہیں۔۔۔۔۔۔
کیوں نہیں؟
کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں کو پاکستان سے اپنا پن کیوں نہیں ملا یا انہیں کیوں نہیں محسوس ہوا؟
مٹی کا بابا اپنے سینے میں پیوست گرم خون سے بھرے دھک دھک کرتے ایک لوتھڑے کے ہاتھوں بہت پریشان تھا کہ ایسا کیوں؟
صرف کراچی اور حیدر آباد میں ہی کیوں؟؟
مٹی کا بابا سوچتا بہت تھا۔۔ بہت سوچتا تھا۔۔
گھر میں کوئی اور ہمنوا نہ ہونے کی وجہ سے بچپن سے جوانی تعلیم و تربیت اور نونہال کی چھاؤں میں گزری تو مٹی کا بابا حکیم محمد سعید صا حب کی نصیحتوں اور نونہال کی سبق آموز کہانیوں کا ہیرو بننے کی کوشش کرنے لگا ۔
مٹی کا بابا مٹی سے مٹی ہوا، یہ راز کھلا کہ کتاب کی اور نصیحت کی باتوں پہ عمل کرنا تو انگاروں پہ چلنے سے زیادہ مشکل کام ہے بہت دکھ کا سفر ہے پر مزہ اپنا تھا اس سفر میں۔ سو چلتا گیا۔
تو بات ہو رہی تھی کراچی اور حیدر آباد کی۔۔
جب تہہ میں جانے کی کوشش کی تو بہت سی گتھیاں الجھ گئیں۔
کچھ باتیں تھیں جن کے سوال پوچھے تو جواب بھی ملے۔
پوچھنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ کچھ سال پہلے تک اخباروں میں اشتہار کچھ ایسے ہوتے تھے
دکن کے معزز گھرانے کی لڑکی کے لیے معزز دکنی خاندان کے لڑکوں کے رشتے مطلوب ہیں۔
یا
ایک باعزت لکھنؤ کے گھرانے کے انجینئز نوجوان کے لیے ہم پلہ رشتہ درکار ہے۔
اسی طرح دلی اور حیدر آبادی گھرانوں کا بھی ذکر کر کے رشتے مانگے جاتے تھے مٹی کا بابا حیران یوں تھا کہ کیوں آخر ساٹھ سال سے اس وطن میں رہنے کے باوجود اور اپنی تیسری پیڑھی یہاں بیتانے کے باوجود کیا یہ گھرانے یہاں کا کوئی معزز حوالہ پیدا کرنے میں ناکام رہے یہاں وہاں کی محبت اب بھی بھاری ہے یہاں پہ، تو کیا دل سے نہیں اپنایا گیا اس وطن کو؟
-------
لوگ جب ملتے دیکھے تو کچھ ایسے جملے سنے ارے بھئی حیدرآبادی (انڈیا کا) ہو کیا؟
یا
بہاری لہجہ لگ رہا ہے تمھارا تو۔
دلی چھوٹی پر حرکتیں نہیں گئیں تم سالوں کی۔۔۔۔۔۔۔
---------
دوسروں سے کچھ کہنے سننے کے بجائے انہی سے پوچھا جن سے سوال تھا۔ اور بہت ساری باتوں کا جو نچوڑ نکلا وہ کچھ اس طرح سے سامنے آیا :
قیام پاکستان کے وقت ہجرت کے بعد جب یہاں صحیح سلامت پہنچ جانے والوں کے حالات کی خبریں انڈیا پہنچیں کہ کس طرح فلاں محلے والوں کو بنیئوں کی چھوڑی ہوئی حویلی مل گئی۔ فلاں گھر والوں کو مقامیوں نے ایسا کاروبار لگوا دیا
یہ
اور
وہ وغیرہ وغیرہ۔۔
ہر دور کے موقع پرستوں کی طرح اس وقت بھی کچھ موقع پرست تھے جو ہجرت کے وقت تو نہ آئے لیکن بعد میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے کاروباری سوچ لیکر صرف کراچی اور آس پاس کا رخ کیا۔کیوں کہ کراچی کی بندرگاہ کی وجہ سے اہمیت اور شہرت مسلم تھی۔ اب اس سے وابستگی پاکستان سے وابستگی سے زیادہ ضروری ٹھہرائی جانے لگی۔
اس سوچ کے لوگ اپنی بقا کی خاطرآپس میں ایک ہو کر اکٹھے رہنے لگے اور اپنی الگ شناخت کے ساتھ اور پاکستانیوں سے دوری میں ہی عافیت سمجھی۔ ان کے بقول وہ ایک اجلے ماضی اور عظیم روایات کے پاسدار تھے اور پاکستان کے مقامی کہاں دلی اور لکھنؤ کی خاک کو پہنچیں انہیں کیا پتہ عزت، رہن سہن اور رکھ رکھاؤ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو ہماری اور ہمارے اجداد کی میراث ہے۔
آپس میں ہی رشتے ہوئے اور نتیجتاَ یہ اپنے آس پاس بسنے والے قدیم مقامی لوگوں کو بھی اپنا ہمنوا نہ بنا سکے۔ جن میں ، کاٹھیا وار میمن، بوہری، کچھی، بلوچ اور سندھی لوگ تھے۔ یہ سب سے الگ ہی رہے۔
ظاہر ہے باقی تمام طرفوں سے بھی ان کو نظر انداز ہی کیا جاتا رہا۔ اور ایسے میں بھلا فائدہ کیسے ہو سکتا ہے کسی بھی کام میں۔
زمانہ بدل گیا اور کچھ پڑھے لکھے دماغ بھی آ گئے جو دو اور دو چار کے علاوہ دور کی بھی سوچ رکھتے تھے تو کُھلا کہ صاحب یہ کیا ہو گیا؟ اتنا خرابہ؟ اتنا گھاٹا،ایسا سلوک۔
تو بھائی لوگ تیورا گئے اور ہر اس عنصر اور اس کام کے ہم رکاب ہو گئے جہاں سےکچھ بھی فائدہ ملنے کی توقع ہوئی اور کوئی ساتھ ملنے کا آسرا ہوا۔ جب ہتھیانے والوں کے ہتھے چڑھے تو انہوں نے بھی خوب استعمال کیا اور پھر کیا تھا بھری ہوا کو اپنا قد سمجھ بیٹھے اور پھُس۔۔۔۔۔
جب غبارے سے ہوا نکلی تو نئے تیوروں سے اٹھے اور اب کے پتہ چلا کے سب سے بڑا خرابہ پاکستانیوں سے خود کو الگ تھلگ کرنا تھا۔ اور پھر متحد ہونے کا خیال آیا اور متحدہ ہوتے ہی اپنے صفوں میں تازہ خون تو شامل کرنا تھا بس شروع ہو گئے شروعات کی بھی تو پھر سے غلط کے بجائے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر محبت سے اپنوں کے اور باقی پاکستانیوں کے دل جیتتے پھر سے بغض اگلنا شروع اور پھر سے صرف اپنوں کا ووٹ حاصل کرنے کی خاطر پاکستانی فوبیا۔
غالب چچا کا شعر یاد آ گیا ۔
ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار ۔۔۔۔یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے