یہ ماجرا کیا ہے؟

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
السلام علیکم!

آگے جو کچھ لکھا ہے میرا خیال ہے بے پناہ قربانیاں دے کر وطن حاصل کرنے والوں اور بنا قربانی دیے بھی فخر سے پاکستانی کہلانے والے کسی بھی پاکستانی کو ان باتوں سے اختلاف نہیں ہو گا۔

اور اگر کسی کو اعتراض ہے تو وہ اپنے بڑوں سے پاکستان آنے کی تاریخ پوچھ لینے کے بعد اپنے اعتراض کے ساتھ تاریخ بھی لکھ کر بات کریں۔

ایک بات جو سبھی دل رکھنے والوں کو دکھ دیتی ہے جب آپ کسی کو بہت اپنا سمجھیں اس کا ہر طرح سے خیال رکھنے کی کوشش کریں اور پتہ چلے آپ جو بھی کرتے چلے آئے وہ کسی خاطر نہیں اور بیچ کی دیوار ہے کہ ہٹتی ہی نہیں۔ اور وہ بات بات پہ آپ کو بیگانہ ہونے کا طعنہ دے۔ غیر ہونے پہ ملامت کرے۔

میں نے بہت سوچا کہ نہ لکھوں، کہ میں نے کیا دیکھا، کیا سنا، کیا محسوس کیا۔ پر اب رہا نہیں جاتا کیوں کہ الزام اب گہرا ہوتا جاتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں حضرت آدم جنت سے نکالے گئے تھے مہاجر ہوئے، انبیاء کی اکثریت نے ہجرت کی، حضورﷺ نے ہجرت کی۔سبھی انسان مہاجر ہیں کیوں کہ جہاں وہ آج ہیں وہاں ان کے اجدادکسی ایک پیڑی سے نہیں بھی تھے۔

اللہ میری حیات بھی میرے وطن کی شان پہ قربان کرے جب یہ وطن بنا تو ہجرت ہوئی اور بہت بڑے پیمانے پر ہوئی۔ مجھ سے زیادہ بہت لوگ یہاں جانتے ہوں گے کہ سب سے زیادہ ہجرت کون سے صوبے میں ہوئی۔ لیکن پنجاب کے علاوہ سرحد سندھ اور بلوچستان میں بھی لوگ ہجرت کر کے گئے ۔یقین جانیں میں ہزارہ میں کچھ ماہ رہا تو مجھے پتہ چلا کے ہجرت کر کے آنے والوں کی تو بہت بڑی آبادی ہے۔ کوئی الگ سے شناخت نہیں وہاں کی ہی زباں، رشتے لیے دیے ہوئے اور سب باہم ایک مٹھی۔
اور یہی حال مجھے پنجاب میں نظر آیا باتوں باتوں میں تذکرہ چل پڑے تو چل پڑے ۔ پر سب ایک ہیں۔
دونوں طرف کے لوگوں کا جوش ، ولولہ اور ایک دوسرے کے لیے محبت دیدنی تھی۔
اور ہوں بھی کیوں نہ ایک آخر اس وطن کے لیے گھر بار چھوڑا پُرکھوں کی نشانیاں چھوڑیں۔ زمین املاک اور رشتے ناطے اور عزت شان سب چھوڑ آئے تو اب یہاں سے بیگانہ پن کیسا۔ اس مٹی پہ اپنوں کا خون قربان کیا ہے تو تھوڑے سے رسم و رواج، اور لہجے میں تبدیلی کیا بھاری، اب جب یہی وطن سب کچھ ہے تو رشتہ ناطے میں کیا اجنبیت۔

لیکن ایسا کراچی اور حیدر آباد میں نہیں۔۔۔۔۔۔
کیوں نہیں؟
کراچی میں ہجرت کر کے آنے والوں کو پاکستان سے اپنا پن کیوں نہیں ملا یا انہیں کیوں نہیں محسوس ہوا؟
مٹی کا بابا اپنے سینے میں پیوست گرم خون سے بھرے دھک دھک کرتے ایک لوتھڑے کے ہاتھوں بہت پریشان تھا کہ ایسا کیوں؟
صرف کراچی اور حیدر آباد میں ہی کیوں؟؟

مٹی کا بابا سوچتا بہت تھا۔۔ بہت سوچتا تھا۔۔

گھر میں کوئی اور ہمنوا نہ ہونے کی وجہ سے بچپن سے جوانی تعلیم و تربیت اور نونہال کی چھاؤں میں گزری تو مٹی کا بابا حکیم محمد سعید صا حب کی نصیحتوں اور نونہال کی سبق آموز کہانیوں کا ہیرو بننے کی کوشش کرنے لگا ۔
مٹی کا بابا مٹی سے مٹی ہوا، یہ راز کھلا کہ کتاب کی اور نصیحت کی باتوں پہ عمل کرنا تو انگاروں پہ چلنے سے زیادہ مشکل کام ہے بہت دکھ کا سفر ہے پر مزہ اپنا تھا اس سفر میں۔ سو چلتا گیا۔

تو بات ہو رہی تھی کراچی اور حیدر آباد کی۔۔

جب تہہ میں جانے کی کوشش کی تو بہت سی گتھیاں الجھ گئیں۔
کچھ باتیں تھیں جن کے سوال پوچھے تو جواب بھی ملے۔

پوچھنا تھا کہ کیا وجہ ہے کہ کچھ سال پہلے تک اخباروں میں اشتہار کچھ ایسے ہوتے تھے
دکن کے معزز گھرانے کی لڑکی کے لیے معزز دکنی خاندان کے لڑکوں کے رشتے مطلوب ہیں۔
یا
ایک باعزت لکھنؤ کے گھرانے کے انجینئز نوجوان کے لیے ہم پلہ رشتہ درکار ہے۔
اسی طرح دلی اور حیدر آبادی گھرانوں کا بھی ذکر کر کے رشتے مانگے جاتے تھے مٹی کا بابا حیران یوں تھا کہ کیوں آخر ساٹھ سال سے اس وطن میں رہنے کے باوجود اور اپنی تیسری پیڑھی یہاں بیتانے کے باوجود کیا یہ گھرانے یہاں کا کوئی معزز حوالہ پیدا کرنے میں ناکام رہے یہاں وہاں کی محبت اب بھی بھاری ہے یہاں پہ، تو کیا دل سے نہیں اپنایا گیا اس وطن کو؟
-------
لوگ جب ملتے دیکھے تو کچھ ایسے جملے سنے ارے بھئی حیدرآبادی (انڈیا کا) ہو کیا؟
یا
بہاری لہجہ لگ رہا ہے تمھارا تو۔

دلی چھوٹی پر حرکتیں نہیں گئیں تم سالوں کی۔۔۔۔۔۔۔
---------

دوسروں سے کچھ کہنے سننے کے بجائے انہی سے پوچھا جن سے سوال تھا۔ اور بہت ساری باتوں کا جو نچوڑ نکلا وہ کچھ اس طرح سے سامنے آیا :

قیام پاکستان کے وقت ہجرت کے بعد جب یہاں صحیح سلامت پہنچ جانے والوں کے حالات کی خبریں انڈیا پہنچیں کہ کس طرح فلاں محلے والوں کو بنیئوں کی چھوڑی ہوئی حویلی مل گئی۔ فلاں گھر والوں کو مقامیوں نے ایسا کاروبار لگوا دیا
یہ

اور

وہ وغیرہ وغیرہ۔۔

ہر دور کے موقع پرستوں کی طرح اس وقت بھی کچھ موقع پرست تھے جو ہجرت کے وقت تو نہ آئے لیکن بعد میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے کاروباری سوچ لیکر صرف کراچی اور آس پاس کا رخ کیا۔کیوں کہ کراچی کی بندرگاہ کی وجہ سے اہمیت اور شہرت مسلم تھی۔ اب اس سے وابستگی پاکستان سے وابستگی سے زیادہ ضروری ٹھہرائی جانے لگی۔

اس سوچ کے لوگ اپنی بقا کی خاطرآپس میں ایک ہو کر اکٹھے رہنے لگے اور اپنی الگ شناخت کے ساتھ اور پاکستانیوں سے دوری میں ہی عافیت سمجھی۔ ان کے بقول وہ ایک اجلے ماضی اور عظیم روایات کے پاسدار تھے اور پاکستان کے مقامی کہاں دلی اور لکھنؤ کی خاک کو پہنچیں انہیں کیا پتہ عزت، رہن سہن اور رکھ رکھاؤ کیا ہوتا ہے۔ یہ تو ہماری اور ہمارے اجداد کی میراث ہے۔

آپس میں ہی رشتے ہوئے اور نتیجتاَ یہ اپنے آس پاس بسنے والے قدیم مقامی لوگوں کو بھی اپنا ہمنوا نہ بنا سکے۔ جن میں ، کاٹھیا وار میمن، بوہری، کچھی، بلوچ اور سندھی لوگ تھے۔ یہ سب سے الگ ہی رہے۔
ظاہر ہے باقی تمام طرفوں سے بھی ان کو نظر انداز ہی کیا جاتا رہا۔ اور ایسے میں بھلا فائدہ کیسے ہو سکتا ہے کسی بھی کام میں۔

زمانہ بدل گیا اور کچھ پڑھے لکھے دماغ بھی آ گئے جو دو اور دو چار کے علاوہ دور کی بھی سوچ رکھتے تھے تو کُھلا کہ صاحب یہ کیا ہو گیا؟ اتنا خرابہ؟ اتنا گھاٹا،ایسا سلوک۔

تو بھائی لوگ تیورا گئے اور ہر اس عنصر اور اس کام کے ہم رکاب ہو گئے جہاں سےکچھ بھی فائدہ ملنے کی توقع ہوئی اور کوئی ساتھ ملنے کا آسرا ہوا۔ جب ہتھیانے والوں کے ہتھے چڑھے تو انہوں نے بھی خوب استعمال کیا اور پھر کیا تھا بھری ہوا کو اپنا قد سمجھ بیٹھے اور پھُس۔۔۔۔۔
جب غبارے سے ہوا نکلی تو نئے تیوروں سے اٹھے اور اب کے پتہ چلا کے سب سے بڑا خرابہ پاکستانیوں سے خود کو الگ تھلگ کرنا تھا۔ اور پھر متحد ہونے کا خیال آیا اور متحدہ ہوتے ہی اپنے صفوں میں تازہ خون تو شامل کرنا تھا بس شروع ہو گئے شروعات کی بھی تو پھر سے غلط کے بجائے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر محبت سے اپنوں کے اور باقی پاکستانیوں کے دل جیتتے پھر سے بغض اگلنا شروع اور پھر سے صرف اپنوں کا ووٹ حاصل کرنے کی خاطر پاکستانی فوبیا۔

غالب چچا کا شعر یاد آ گیا ۔

ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار ۔۔۔۔یا الہٰی یہ ماجرا کیا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
امجد بھائی بہت اچھا لکھا ہے۔

اس میں عوام کا کوئی قصور نہیں۔ پاکستانی عوام میں بہت محبت تھی، بہت خلوص تھا، بہت پیار تھا۔ پھر کچھ مفاد پرستوں کو یہ بات پسند نہ آئی اور انہوں نے ذاتی مفاد کی خاطر لوگوں کو مہاجروں اور مقامیوں میں تقسیم کر دیا، لسانی گروپوں میں تقسیم کر دیا کہ تم پنجابی ہو، تم سندھی ہو بلوچی ہو پٹھان ہو وغیرہ وغیرہ۔ نہیں ہو تو پاکستانی نہیں ہو۔ اور اب یہ چیز عوام کی ذہنوں میں اتنی پختہ ہو چکی ہے کہ نکالے نہیں نکل سکتی۔
 

کاشفی

محفلین
بہت ہی تعصب پسند تحریر ہے۔۔سارا ملبہ مہاجروں پر ڈال دیا گیا ۔۔اور ساتھ ساتھ بہتان بازی بھی کی گئی ۔۔

امجد نے لکھا ۔۔۔۔۔ ہر دور کے موقع پرستوں کی طرح اس وقت بھی کچھ موقع پرست تھے جو ہجرت کے وقت تو نہ آئے لیکن بعد میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے کاروباری سوچ لیکر صرف کراچی اور آس پاس کا رخ کیا۔کیوں کہ کراچی کی بندرگاہ کی وجہ سے اہمیت اور شہرت مسلم تھی۔ اب اس سے وابستگی پاکستان سے وابستگی سے زیادہ ضروری ٹھہرائی جانے لگی۔

اس کا کیا مطلب ہے جناب! کوئی ثبوت۔۔ کون کون سے کاروباری سوچ والوں نے اس طرح کی حرکتیں کی ہیں۔۔ذرا وضاحت فرمائیں گیں۔۔
 

نایاب

لائبریرین
لیاقت علی خاں کا قتل ہو یا کہ محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی شکست ۔
پاکستان سے اتحاد واتفاق روٹھ گیا ۔
کسی اک معطون کرنا مناسب نہیں ۔
اللہ تعالی ہم سب میں اتحاد و اتفاق کا جذبہ پیدا فرمائے آمین
 

زرقا مفتی

محفلین
اس دھاگے کے ابتدائی مراسلے کی کچھ باتوں سے مجھے بھی اتفاق ہے۔ پنجاب میں بھی ہندوستان سے ہجرت کرکے آنے والے خاندان آباد ہیں۔ لاہور میں ہندوؤں کے چھوڑے ہوئے محلے مہاجر خاندانوں نے ہی آباد کئے ہیں۔ مگر یہاں رہنے والے سب پاکستانی ہیں۔ ان خاندانوں نے اپنے بچوں کی شادیاں پنجابی خاندانوں میں کیں ہیں۔ اور کسی قسم کا تفرقہ یا تنازعہ نہیں۔ تعلیم یا نوکری کے حوالے سے بھی کوئی امتیاز نہیں۔ کراچی حیدرآباد میں ایسا کیوں ہے؟
ہجرت کے بعد بہت سے مفاد پرست عناصر نے جعلی کلیموں کے کاروبار کئے مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جو آج تک اپنا جائز حق نہیں پا سکے۔ مہاجر بھی انسان ہیں ان میں بھی ہر قسم کے لوگ موجود ہیں۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ تمام مفاد پرست ایک ہی جگہ اکٹھے ہو گئے۔ ضیاء الحق نے بھٹو خاندان کی مقبولیت کم کرنے کے لئے مہاجروں کو سیاسی پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ اور ان کی قیادت نے اپنی شناخت یا اقتدار میں اپنا حصہ برقرار رکھنے کے لئے جائز نا جائز حربے اختیار کئے پھر پی پی پی نے اپنے ہر دور میں مہاجروں کی سیاسی قوت کم کرنے کے لئے آپریشن کئے لڑائیاں شروع کیں۔ زرداری صاحب نے پٹھانوں ، بلوچوں اور سندھیوں کو ان کے خلاف مسلحہ کیا ۔ سیاست یا اقتدار کی جنگ میں روازانہ لاشیں گرتی ہیں مگر ہم مفاد پرستوں کی سیاست سے کنارہ کشی اختیار نہیں کرتے
 

ساجد

محفلین
مراسلات میں سے بعض معترضہ الفاظ نکال دئیے گئے ہیں۔ ابھی بھی کسی رکن کو اعتراض ہو تو براہِ کرم ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے رپورٹ کا بٹن دبائیں محض ادلے کے بدلے کے لئے اس بٹن کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کریں۔
 

کاشفی

محفلین
ارباب اختیار کو چاہیئے کہ وہ لڑی کا عنوان چینج کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی پیش کرے کہ لڑی کو بنانے والے نے کس تعصب کا مظاہرہ کیا ہے۔۔۔ اور پہلے کیا لکھا تھا ۔۔اور کیوں لکھا تھا۔۔اس کی جواب طلبی ہونی چاہیئے۔۔۔
اس طرح بغیر کسی وجوع کے چینج کرنے کا مطلب یہ ہوا کہ انصاف کے تقاضے کی پروا کیئے بغیر اس کے جرم پر پردہ پوشی ہورہی ہے۔۔۔
 

محمداحمد

لائبریرین
کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کو بہ یک جنبشِ قلم مفاد پرست قرار دے کر کیا چاہ رہے ہیں امجد بھائی آپ؟ اس سے تو آپ وہ سب باتیں سچ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جن کے بارے میں کاشفی بھائی ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں اور ہماری طرف سے کبھی بھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی باوجود اس کے کہ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمیں عزیز ہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
یہ تو اب لڑی بنانے والا ہی بہتر بتا سکتا ہے۔ ارباب اختیار کوئی ممتحن ہیں نہیں کہ نتائج اخذ کر کے اراکین محفل کو صفائی دیتے رہیں۔
 

شمشاد

لائبریرین
احمد بھائی آپ کا پیغام بیچ میں آ گیا۔ میں نے اس سے پہلے کاشفی کا پیغام پڑھ کر مراسلہ لکھا تھا۔
 

کاشفی

محفلین
کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کو بہ یک جنبشِ قلم مفاد پرست قرار دے کر کیا چاہ رہے ہیں امجد بھائی آپ؟ اس سے تو آپ وہ سب باتیں سچ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں جن کے بارے میں کاشفی بھائی ایک عرصے سے کہہ رہے ہیں اور ہماری طرف سے کبھی بھی ان کی حوصلہ افزائی نہیں کی گئی باوجود اس کے کہ وہ ہمارے بھائی ہیں اور ہمیں عزیز ہیں۔
میں نے پہلے جو بھی باتیں کی ہیں وہ اسی سوچ رکھنے والوں کی وجہ سے کی ہیں۔۔۔
اور میں کافی جگہ اعتراف بھی کرچکا ہوں کہ میں نے بہت کچھ غلط بھی لکھا ہے۔۔اس میں شک نہیں۔
لیکن وہ سب باتیں اسی سوچ رکھنے والوں اور اس کی تائید کرنے والوں کی وجہ سے ہوتی ہیں۔
اب آپ بتائیے کہ اس پیغام کی لڑی کا عنوان تھا یہ مہاجرا کیا ہے؟ اب اس سے مجھ جیسا بندہ کیا نتیجہ نکالے گا۔۔یہ تعصب پر مبنی لڑی ہے کہ محبت پر مبنی لڑی ہے۔۔
میں نے کتنی لڑیاں بنائی ہیں کسی بھی تعصب کی بنیاد پر۔۔ آپ نے جو میرا نام لکھ کر مجھے ڈیگریڈ کرنا شروع کردیا۔۔۔ دس از ناٹ فیئر۔۔ میں نے کون سے غلط بات لکھی ہے جس کی امجد صاحب سچ ثابت کررہے ہیں۔۔

اس کا ملبہ بھی مجھ پر ڈال دیا ۔۔۔میں نے جو کچھ بھی لکھا وہ کسی بات کے ردِعمل میں لکھا جیسا کسی نے لکھا ویسا ہی میں نے لکھا۔ میں آپ سے متفق نہیں ہوں۔۔۔
 

زرقا مفتی

محفلین
ایک اور تفرقہ ڈالنے والی پوسٹ :applause:
احمد بھائی اختلافِ رائے کا تو ہر کسی کو حق ہے۔ خاموشی سے بہتر ہے کہ ہم اپنے تحفظات پر صحت مند تبادلہ خیال کریں اور جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر دلائل سننا اور جوابی دلائل دینا سیکھیں ۔ بات کرنے سے ہی معاملہ سلجھتا ہے یا اختلاف دور ہوتا ہے ۔ خاموشی اور بے حسی میں تھوڑا سا ہی فرق ہوتا ہے۔
بس اختلاف رائے کے اظہار کو مہذب پیرائے میں ہونا چاہیئے ۔
 

عسکری

معطل
تم کیا جانو رے سجنواااااااااااااااااااااااا:grin:

جو مزہ پاکستانیت میں ہے نا دیسی میں ہے نا ولایتی میں ہے کتنا سکون ہے ہمیں اس کورکھ دھندے سے دور رہ کر بتا نہین سکتے :)
 

محمداحمد

لائبریرین
احمد بھائی اختلافِ رائے کا تو ہر کسی کو حق ہے۔ خاموشی سے بہتر ہے کہ ہم اپنے تحفظات پر صحت مند تبادلہ خیال کریں اور جذباتیت کو ایک طرف رکھ کر دلائل سننا اور جوابی دلائل دینا سیکھیں ۔ بات کرنے سے ہی معاملہ سلجھتا ہے یا اختلاف دور ہوتا ہے ۔ خاموشی اور بے حسی میں تھوڑا سا ہی فرق ہوتا ہے۔
بس اختلاف رائے کے اظہار کو مہذب پیرائے میں ہونا چاہیئے ۔

پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اختلافِ رائے والی پوسٹ نہیں ہے بلکہ ایک خاص طبقے کے لئے ایک فردِ واحد کا نظریہ ہے۔ کیا کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کو "مفاد پرست" کہہ دینا "اختلافِ رائے" ہے۔

میں ہمیشہ لسانی اور صوبائی تعصبات سے بالاتر ہوکر پاکستان (متحد پاکستان) کی بات کرتا ہوں اور اس طرح کی بحث میں پڑ کر نفرتوں کو پروان چڑھانا مجھے ہرگز پسند نہیں ہے۔ ایسی مباحثے کبھی بھی معاملات سلجھانے کا کام نہیں کر سکتے بلکہ اس سے اختلافات اور رنجشیں ہی جنم لیتی ہیں۔

بس اختلاف رائے کے اظہار کو مہذب پیرائے میں ہونا چاہیئے ۔

مہذب پیرائے کی اگر بات کی جائے تب بھی اس تحریر پر تو بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات بھی حیرت کی ہے کہ موڈریشن کے ذمرے میں ہونے کے باوجود یہ تحریر اپنی اصل حالت میں شائع ہوئی۔ شاید کاشفی بھائی اعتراض نہ کرتے تو اس میں وہ تبدیلیاں بھی نہیں آتی جو بعد میں کی گئیں۔

وہ کونسی چیز ہے جو ہم سب کو پاکستانی بننے سے روکتی ہے اور مثبت سرگرمیوں کے بجائے صوبائی اور لسانی طبقات میں بٹ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے پر مجبور کرتی ہے۔
 
پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ اختلافِ رائے والی پوسٹ نہیں ہے بلکہ ایک خاص طبقے کے لئے ایک فردِ واحد کا نظریہ ہے۔ کیا کراچی اور حیدرآباد کے لوگوں کو "مفاد پرست" کہہ دینا "اختلافِ رائے" ہے۔

میں ہمیشہ لسانی اور صوبائی تعصبات سے بالاتر ہوکر پاکستان (متحد پاکستان) کی بات کرتا ہوں اور اس طرح کی بحث میں پڑ کر نفرتوں کو پروان چڑھانا مجھے ہرگز پسند نہیں ہے۔ ایسی مباحثے کبھی بھی معاملات سلجھانے کا کام نہیں کر سکتے بلکہ اس سے اختلافات اور رنجشیں ہی جنم لیتی ہیں۔



مہذب پیرائے کی اگر بات کی جائے تب بھی اس تحریر پر تو بات نہیں کی جا سکتی۔ یہ بات بھی حیرت کی ہے کہ موڈریشن کے ذمرے میں ہونے کے باوجود یہ تحریر اپنی اصل حالت میں شائع ہوئی۔ شاید کاشفی بھائی اعتراض نہ کرتے تو اس میں وہ تبدیلیاں بھی نہیں آتی جو بعد میں کی گئیں۔

وہ کونسی چیز ہے جو ہم سب کو پاکستانی بننے سے روکتی ہے اور مثبت سرگرمیوں کے بجائے صوبائی اور لسانی طبقات میں بٹ کر ایک دوسرے پر کیچڑ اُچھالنے پر مجبور کرتی ہے۔
احمد بھائی آج میں بھی بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوگیا ہوں۔۔۔
کاشفی بھائی کا شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔۔
اور متعصب لوگوں سے کہنا چاہوں گا کہ ہمیں جوابی کاروائی کے لیے مجبور نہ کیا جائے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top