بسم اللہ الرحمن الرحیم
تمام اہل محفل کو فرداًفرداً السلامُ علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ۔
جناب طارق عزیز صاحب روایت کرتے ہیں کہ ریڈیو باکستان حیدرآباد کے ایک آفیسر (نام یاد نہیں رہا) کے پاس ایک ملازم نے شکایت کی کہ فلاں صاحب مجھے گالیاں دے رہے ہیں ۔ آفیسر صاحب نے اُس ملازم کو پیار سے سمجھایا تمہارا کیا جاتا ہے اپنا ہی
برا کرتا ہے تمہارے نام تو نیکیاں ہی لکھی جا رہی ہیں۔ دوبارہ پھر شکایت کی تو وہی کہا کہ تم کوئی جواب مت دو اور اُس کے لئے دعا کرو کہ اللہ تعالیٰ اسے ہدایت دے ۔تیسری دفعہ پھر وہی شکایت کی اور کہا کہ جناب نہ صرف وہ گالیاں دے رہا ہے بلکہ گالیوں
کی گرامر بھی غلط ہے۔ یہ سنتے ہی اُسی لمحہ اُس گالیاں دینے والے صاحب کو ملازمت سے برخواست کر دیا۔ اور کہا کہ سب کچھ برادشت کیا جاسکتا ہے لیکن اردو زبان کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کی جاسکتی۔
اللہ تعالیٰ آپ سب کیلئے آسانیاں پیدا کرے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عطا فرمائے۔
ا للہ حافظ و ناصر۔
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
میرے بھائی، آپ نے یہ ایک واقعہ بیان کیا ہے، آج تو انٹرنیٹ کا دور ہے۔۔۔ ہم پوری لائبریر ی یہاں کاپی کرکے پیسٹ کردیں گے جس میں ایسی ایسی حکایات ہوں گی کہ آپ سر پکڑ کر بیٹھ جائیں گے کہ میں کہاں آن پھنسا؟؟ اب کس حکایت کا جواب دوں اور کسے رد کروں۔۔ لہٰذا بہتر یہی ہے کہ آپ نشاندہی فرمائیں کہ یہ غزل شاعری نہیں ، بلکہ اردو میں ہی نہیں لکھی گئی، اس کی گرامر غلط ہے تو کہاں کہاں؟؟ عروض کے قواعد سمجھائیے ۔۔۔ صرف و نحو کا درس دیجئے۔۔۔ ہم آپ کے شاگرد بن جاتے ہیں، آپ استاد بن جائیے، دراصل بات یہ ہے کہ
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا کہ آپ کو اردو کا استعمال اس پوری غزل میں کہاں کہاں غلط لگا۔۔۔
آپ سے درخواست ہے کہ براہ کرم اس ابہام کو دور کیجئے۔۔۔ ۔ اس کے بعد ہی ہم کچھ کہہ سکیں گے ۔۔۔