یہ رائے میں نے کئی برس پہلے اردو کی گرامر کی کتاب میں پڑھی تھی ۔ "اردو زبان کی وہ بات جسے اہل زبان درست سمجھیں یا جو عوام میں رائج ہوجائے اور عوام درست سمجھیں، وہ درست ہے" ۔یہ تو عوامی اور جمہوری رائے لگتی ہے ۔
یہ رائے میں نے کئی برس پہلے اردو کی گرامر کی کتاب میں پڑھی تھی ۔ "اردو زبان کی وہ بات جسے اہل زبان درست سمجھیں یا جو عوام میں رائج ہوجائے اور عوام درست سمجھیں، وہ درست ہے" ۔یہ تو عوامی اور جمہوری رائے لگتی ہے ۔
اس میں شرط اہلِ زبان کی ہے وہ بھی اولین شرط۔ عوام میں تو بہت کچھ رائج ہے، مثال کے طور پر پنجاب کی کم و بیش دس کروڑ عوام، گرم کو گَرَم، برف کو بَرَف، وزن کو وَزَن، سُرخ کو سُرَخ وغیرہ بولتے ہیں اور یہی ان میں رائج ہے لیکن اب یہ نہ تو درست ہے اور نہ ہی معیار۔یہ رائے میں نے کئی برس پہلے اردو کی گرامر کی کتاب میں پڑھی تھی ۔ "اردو زبان کی وہ بات جسے اہل زبان درست سمجھیں یا جو عوام میں رائج ہوجائے اور عوام درست سمجھیں، وہ درست ہے" ۔
عوامی کتب بھی نایاب نہیں۔ آج کل۔یہ رائے میں نے کئی برس پہلے اردو کی گرامر کی کتاب میں پڑھی تھی ۔ "اردو زبان کی وہ بات جسے اہل زبان درست سمجھیں یا جو عوام میں رائج ہوجائے اور عوام درست سمجھیں، وہ درست ہے" ۔
میں نے جو پڑھا تھا اس کے مطابق جسے اہل زبان درست کہیں وہ بھی درست ہے اور جو عوام میں رائج ہو جائے وہ بھی درست ہے (عوام میں رائج ہوجانے پر اہل زبان کی منظور کی شرط نہیں)اس میں شرط اہلِ زبان کی ہے وہ بھی اولین شرط۔ عوام میں تو بہت کچھ رائج ہے، مثال کے طور پر پنجاب کی کم و بیش دس کروڑ عوام، گرم کو گَرَم، برف کو بَرَف، وزن کو وَزَن، سُرخ کو سُرَخ وغیرہ بولتے ہیں اور یہی ان میں رائج ہے لیکن اب یہ نہ تو درست ہے اور نہ ہی معیار۔
جی جو غلط بات عام اور رائج ہو جائے اس کو مان لیا جاتا ہے اور اس کو فصیح کو درجہ دے دیا جاتا ہے اور اسے غلط العام کہا جاتا ہے یعنی 'غلط العام فصیح'۔ لیکن غلط العوام بہرحال غلط ہے۔ راحیل صاحب نے جس بات کی تائید کی ہو گی اور یقینی طور پر صحیح ہی کی ہوگی وہ یہی غلط العام ہو گی غلط العوام نہیں۔میں نے جو پڑھا تھا اس کے مطابق جسے اہل زبان درست کہیں وہ بھی درست ہے اور جو عوام میں رائج ہو جائے وہ بھی درست ہے (عوام میں رائج ہوجانے پر اہل زبان کی منظور کی شرط نہیں)
۔ اگر عوام میں رائج ہونے والے زبان کے نئے انداز کو درست تسلیم نہ کیا جائے تو پھر زبان کا ارتقاء ناممکن ہوجائے گا۔ پھر یہ ہوسکتا ہے کہ پہلے انداز کو ہی صحیح ماننے والے آہستہ آہستہ کم ہوجائیں اور رفتہ رفتہ تنہا رہ جائیں ۔میری اس رائے کی تصدیق راحیل فاروق بھائی بھی کر چکے ہیں ۔
دس بارہ ماہ کےبعد نماز عید آتی ہے تو زائد تکبیرات کی ادائیگی کا طریقہ کار بھول جانا کوئی خاص بات نہیں۔
بات یہ ہے کہ ارتقا ہر تبدیلی کے قبول کانام نہیں ہو سکتی ۔ کیوں کہ اگر ایسا ہو تو ان معیارات کی کوئی حثییت نہیں رہ جاتی جودر اصل ارتقائی منزل طے کر کے مستحکم و مقبول ہوتے ہیں ، سو ہر تبدیلی کے لیے ایک قدرتی مزاحمت بھی اسی ارتقاء کا لازمی جزو ہوتی ہے یوں ہر کس و ناکس کو اختیار نہیں ملتا کہ "تبدیلی" کا نعرہ لگائے اوراسی لیےمحض وہ تبدیلیاں مقبول ہوتی ہیں جو زبان اور اس کو مزاج کے موافق ہوتی ہیں ۔ وارث بھائی نے جو مثالیں دی ہیں وہ اسی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ اختلافات بھی ہوتے ہیں البتہ کسی اختلاف کی گنجائش کا درجہ عوامی قبول عام کی سطح پر متعین نہیں ہوتا ۔اگر عوام میں رائج ہونے والے زبان کے نئے انداز کو درست تسلیم نہ کیا جائے تو پھر زبان کا ارتقاء ناممکن ہوجائے گا
نماز میں غلطیاں تو خادم اعلیٰ نے بھی کی ہیں۔ اسکا یہ مطلب نہیں کہ ان سے اس بنیاد پر کئی سالہ حکمرانی چھین لی جائے۔ یہ پاکستانی سیاست کو اسلامیانے کی ایک مضحکہ خیز کوشش ہے۔ اور قانون ختم نبوت اسکی ایک بنیادی کڑی ہے۔ اسلامی جمہوریہ کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اسکا ہر حکمران کٹر مسلمان ہو۔جہاں تک سراج الحق و فضل الرحمن کی بات ہے تو ان سے یقینا سہو ہوا ہے (کیونکہ وہ نماز پڑھنا جانتے ہیں) جو شرعا معاف بھی ہے اور قابل گرفت نہیں، البتہ عمران، سابق وزیر داخلہ اور زرداری کی غلطیوں سے ظاہر ہے کہ ان کو یہ دینی کام آتے ہی نہیں، افسوس کا مقام یہ ہے کہ یہ لوگ "اسلامی" جمہوریہ پاکستان کے حکمران بننے کے خواہش مند ہیں۔