محب علوی
مدیر
آج جنگ میں عظیم سرور کا یہ کالم ڈنمارک کے بارے میں چھپا ہے جو اسی طرح کی آزادی اظہار رائے ہے جس پر اس وقت ڈنمارک کو اصرار ہے
غالباً 1983ء کی بات ہے میں شکاگو جا رہا تھا۔ اس مرتبہ سستا ٹکٹ اسکینڈے نیویا کی ایئر لائن کا تھا مجھے لندن رک کر شکاگو روانہ ہونا تھا۔ کراچی سے جہاز نے اسلام آباد کا رخ کیا اور پھر پورے افغانستان پر پرواز کرتا ہوا تاشقند کے اوپر سے گزرا۔ میری نشست کھڑکی پر تھی میں نے دیکھا کہ افغانستان میں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ 35ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے کہیں کہیں کوئی چھوٹا سا گاؤں نظر آتا تھا اس وقت سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں اتاری ہوئی تھیں واپس آ کر میں نے دوستوں سے کہا روس افغانستان میں کچھ بھی نہ کر سکے گا بس پہاڑوں سے سر ٹکرا کر واپس لوٹ جائے گا۔ لندن جاتے ہوئے ایک گھنٹے کا پڑاؤ ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن کے ہوائی اڈے پر تھا۔ لندن میں 10دن قیام کے بعد شکاگو کے لئے روانہ ہوا تو ایک بار پھر کوپن ہیگن آنا ہوا۔ اس مرتبہ ایئرلائن نے ایک دن کے لئے ہوٹل میں ٹھہرایا یہ ہوٹل سچا فائیو اسٹار ہوٹل تھا۔ اس کے کمرے میں دنیا بھر کی آرام و خوبصورت کتابچہ ”ڈنمارک میں رہنے کے آداب“ رکھا تھا۔ یہ کتابچہ انگریزی، ڈینش، فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں تھا جو ڈنمارک کے محکمہ سیاحت کی طرف سے شائع ہوا تھا۔ یہ کتابچہ بہت دلچسپ تھا اس میں ایک باب میں بہت سی ہدایات تھیں۔ کہا گیا تھا اگر آپ ڈنمارک کے قیام کے دوران میں کسی ڈینش کے گھر مہمان بن کر جائیں تو وہاں آپ کو ان باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ (1) جب آپ کو کوئی ڈینش شخص اپنے گھر بلائے اور وہاں آپ دیکھیں کہ کوئی خاتون گھر داری کے کام میں مصروف ہے تو اپنے میزبان سے یہ مت پوچھیں کہ آپ کی شادی کو کتنا عرصہ ہوگیا؟ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بغیر شادی کے رہ رہے ہوں۔ آپ کے اس سوال سے ان کے دل کو صدمہ پہنچے گا۔ (2) آپ اگر خاتون خانہ سے بات کریں تو ان کو مسز فلاں کہہ کر نہ مخاطب کریں امکان اس بات کا ہو سکتا ہے کہ وہ ان صاحب کیساتھ ویسے ہی رہ رہی ہوں۔ آپکی اس بات سے ان خاتون کو دکھ ہوگا اور آپ اس طرح بداخلاقی کے مرتکب ہوں گے۔ (3) اگر آپ اپنے میزبان کے گھر میں کسی بچے کو دیکھیں تو اس بچے کی ذہانت یا شکل و صورت کی تعریف کرتے ہوئے اپنے میزبان سے یہ نہ کہیں کہ آپ کا بچہ بہت خوبصورت ہے یا ذہین ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بچہ اس میزبان کا بچہ نہ ہو بلکہ خاتون خانہ کا بچہ ہو۔ اس طرح ایک جانب آپ کے میزبان کو دلی دکھ پہنچے گا اور ہو سکتا ہے معصوم بچے کو بھی صدمہ ہو۔ اس لئے اس سلسلے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیں۔ (4) آپ کسی دفتر میں کسی خاتون سے ملیں تو ان سے یہ مت پوچھئے کہ آپ کے شوہر کیا کام کرتے ہیں؟ یا آپ کے شوہر کا نام کیا ہے؟ ہو سکتا ہے وہ خاتون کسی کے بھی ساتھ ایسے ہی رہ رہی ہوں آپ کے سوال کی صورت میں ان کو دکھ پہنچ سکتا ہے۔ (5) اگر آپ کسی بزنس کے سلسلے میں کسی ڈینش سے ملیں اور وہ آپ کو کھانے وغیرہ پر مدعو کر لے تو گفتگو میں احتیاط سے کام لیں۔ کسی سے یہ مت پوچھیں کہ کیا آپ کے والد حیات ہیں؟ ہو سکتا ہے اس کو معلوم ہی نہ ہو کہ اس کا والد کون تھا اس صورت میں زندگی اور موت کی معلومات کیسے ہو سکتی ہیں؟ آپ یہ سوال کر کے اپنے میزبان کو ذہنی اور دلی صدمہ پہنچانے کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ (6) کسی بھی ڈینش خاتون کو خط لکھتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ مسز تحریر نہ کریں کیونکہ اکثر خواتین مسز ہوئے بغیر مسز ہوتی ہیں آپ کے ان کو مسز لکھنے سے ان کو انتہائی صدمہ ہوگا اور وہ دکھی ہو جائیں گی۔ ”ہدایت نامہ سیاح ڈنمارک“ پڑھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ الٰہی یہ کیسا ملک ہے؟ اس ملک کے بارے میں جب یہ سنتے تھے کہ یہ سیکس فری ملک ہے تو اس قسم کا کوئی خیال کبھی نہ آیا تھا کہ معاشرے میں اکثریت ہر اخلاقی بندھن سے آزاد ہوگی پھر یہ خیال آیا کہ یہ لوگ جو کسی سوشل معاہدے کے بغیر میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں کیا انسان کہلانے کے مستحق ہیں؟ جانوروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسی آزادی ان کے ہاں ہوتی ہے لیکن پھر جانور ایسے معاملات میں نہ حساس ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کو کسی بات پر دلی صدمہ یا دکھ ہوتا ہے۔ ڈنمارک کے 17اخباروں نے جو خاکے شائع کئے ہیں تو ان کے بارے میں وہ اخبار دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ اظہار رائے کی آزادی ہے اس صورت میں انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی کو دلی اور روحانی صدمہ پہنچتا ہے ڈنمارک کی حکومت بھی اپنے اخبار والوں کو اظہار کا حق دیتے ہوئے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی کہ اس سے دنیا کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچے گی بس انہیں اپنے جانوروں جیسی زندگی گزارنے والے لوگوں کے جذبات کا اتنا خیال ہے کہ ہر سیاح کو ”آداب ڈنمارک“ سکھاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے ہمیں انفرادی طور پر ڈنمارک کے سفارت خانے اور حکومت کو خط لکھ کر یہ بتانا چاہئے کہ ہم ان اخبار کے مالکان، صحافیوں اور خاکے بنانے والوں پر مقدمے دائر کرنا چاہتے ہیں اور ان مقدموں کے لئے ہمیں ان تمام لوگوں کی ولدیت کی ضرورت ہوگی۔ برائے مہربانی ان لوگوں کی ولدیت فراہم کی جائے۔ دوسری صورت میں ہم ان کے نام کے ساتھ ”ولد نامعلوم“ لکھیں گے یا نام کے ساتھ انگریزی کا حرف "b" یا اردو کا حرف ”ح“ لکھ دیں گے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں ڈنمارک کے سفارت خانے اور حکومت ان خطوں کے کیا جواب دیتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے جن لوگوں نے یہ خاکے شائع کئے ہیں یہ سب لوگ اسی قبیل کے فرزند ہوں گے جن کے جذبات کے بارے میں ڈنمارک کا محکمہ سیاحت، ہدایت نامہ شائع کر کے ہوٹلوں اور دفتروں میں سیاحوں کے لئے رکھتا ہے۔
غالباً 1983ء کی بات ہے میں شکاگو جا رہا تھا۔ اس مرتبہ سستا ٹکٹ اسکینڈے نیویا کی ایئر لائن کا تھا مجھے لندن رک کر شکاگو روانہ ہونا تھا۔ کراچی سے جہاز نے اسلام آباد کا رخ کیا اور پھر پورے افغانستان پر پرواز کرتا ہوا تاشقند کے اوپر سے گزرا۔ میری نشست کھڑکی پر تھی میں نے دیکھا کہ افغانستان میں پہاڑ ہی پہاڑ ہیں۔ 35ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے کہیں کہیں کوئی چھوٹا سا گاؤں نظر آتا تھا اس وقت سوویت یونین نے اپنی فوجیں افغانستان میں اتاری ہوئی تھیں واپس آ کر میں نے دوستوں سے کہا روس افغانستان میں کچھ بھی نہ کر سکے گا بس پہاڑوں سے سر ٹکرا کر واپس لوٹ جائے گا۔ لندن جاتے ہوئے ایک گھنٹے کا پڑاؤ ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن کے ہوائی اڈے پر تھا۔ لندن میں 10دن قیام کے بعد شکاگو کے لئے روانہ ہوا تو ایک بار پھر کوپن ہیگن آنا ہوا۔ اس مرتبہ ایئرلائن نے ایک دن کے لئے ہوٹل میں ٹھہرایا یہ ہوٹل سچا فائیو اسٹار ہوٹل تھا۔ اس کے کمرے میں دنیا بھر کی آرام و خوبصورت کتابچہ ”ڈنمارک میں رہنے کے آداب“ رکھا تھا۔ یہ کتابچہ انگریزی، ڈینش، فرانسیسی اور جرمن زبانوں میں تھا جو ڈنمارک کے محکمہ سیاحت کی طرف سے شائع ہوا تھا۔ یہ کتابچہ بہت دلچسپ تھا اس میں ایک باب میں بہت سی ہدایات تھیں۔ کہا گیا تھا اگر آپ ڈنمارک کے قیام کے دوران میں کسی ڈینش کے گھر مہمان بن کر جائیں تو وہاں آپ کو ان باتوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ (1) جب آپ کو کوئی ڈینش شخص اپنے گھر بلائے اور وہاں آپ دیکھیں کہ کوئی خاتون گھر داری کے کام میں مصروف ہے تو اپنے میزبان سے یہ مت پوچھیں کہ آپ کی شادی کو کتنا عرصہ ہوگیا؟ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بغیر شادی کے رہ رہے ہوں۔ آپ کے اس سوال سے ان کے دل کو صدمہ پہنچے گا۔ (2) آپ اگر خاتون خانہ سے بات کریں تو ان کو مسز فلاں کہہ کر نہ مخاطب کریں امکان اس بات کا ہو سکتا ہے کہ وہ ان صاحب کیساتھ ویسے ہی رہ رہی ہوں۔ آپکی اس بات سے ان خاتون کو دکھ ہوگا اور آپ اس طرح بداخلاقی کے مرتکب ہوں گے۔ (3) اگر آپ اپنے میزبان کے گھر میں کسی بچے کو دیکھیں تو اس بچے کی ذہانت یا شکل و صورت کی تعریف کرتے ہوئے اپنے میزبان سے یہ نہ کہیں کہ آپ کا بچہ بہت خوبصورت ہے یا ذہین ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ بچہ اس میزبان کا بچہ نہ ہو بلکہ خاتون خانہ کا بچہ ہو۔ اس طرح ایک جانب آپ کے میزبان کو دلی دکھ پہنچے گا اور ہو سکتا ہے معصوم بچے کو بھی صدمہ ہو۔ اس لئے اس سلسلے میں حد درجہ احتیاط سے کام لیں۔ (4) آپ کسی دفتر میں کسی خاتون سے ملیں تو ان سے یہ مت پوچھئے کہ آپ کے شوہر کیا کام کرتے ہیں؟ یا آپ کے شوہر کا نام کیا ہے؟ ہو سکتا ہے وہ خاتون کسی کے بھی ساتھ ایسے ہی رہ رہی ہوں آپ کے سوال کی صورت میں ان کو دکھ پہنچ سکتا ہے۔ (5) اگر آپ کسی بزنس کے سلسلے میں کسی ڈینش سے ملیں اور وہ آپ کو کھانے وغیرہ پر مدعو کر لے تو گفتگو میں احتیاط سے کام لیں۔ کسی سے یہ مت پوچھیں کہ کیا آپ کے والد حیات ہیں؟ ہو سکتا ہے اس کو معلوم ہی نہ ہو کہ اس کا والد کون تھا اس صورت میں زندگی اور موت کی معلومات کیسے ہو سکتی ہیں؟ آپ یہ سوال کر کے اپنے میزبان کو ذہنی اور دلی صدمہ پہنچانے کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔ (6) کسی بھی ڈینش خاتون کو خط لکھتے ہوئے ان کے نام کے ساتھ مسز تحریر نہ کریں کیونکہ اکثر خواتین مسز ہوئے بغیر مسز ہوتی ہیں آپ کے ان کو مسز لکھنے سے ان کو انتہائی صدمہ ہوگا اور وہ دکھی ہو جائیں گی۔ ”ہدایت نامہ سیاح ڈنمارک“ پڑھ کر میرے اوسان خطا ہوگئے۔ الٰہی یہ کیسا ملک ہے؟ اس ملک کے بارے میں جب یہ سنتے تھے کہ یہ سیکس فری ملک ہے تو اس قسم کا کوئی خیال کبھی نہ آیا تھا کہ معاشرے میں اکثریت ہر اخلاقی بندھن سے آزاد ہوگی پھر یہ خیال آیا کہ یہ لوگ جو کسی سوشل معاہدے کے بغیر میاں بیوی کی حیثیت سے رہ رہے ہیں کیا انسان کہلانے کے مستحق ہیں؟ جانوروں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ایسی آزادی ان کے ہاں ہوتی ہے لیکن پھر جانور ایسے معاملات میں نہ حساس ہوتے ہیں اور نہ ہی ان کو کسی بات پر دلی صدمہ یا دکھ ہوتا ہے۔ ڈنمارک کے 17اخباروں نے جو خاکے شائع کئے ہیں تو ان کے بارے میں وہ اخبار دلیل یہ دیتے ہیں کہ یہ اظہار رائے کی آزادی ہے اس صورت میں انہیں اس بات کی پروا نہیں کہ اس سے دنیا کی ڈیڑھ ارب آبادی کو دلی اور روحانی صدمہ پہنچتا ہے ڈنمارک کی حکومت بھی اپنے اخبار والوں کو اظہار کا حق دیتے ہوئے اس بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتی کہ اس سے دنیا کے مسلمانوں کے جذبات و احساسات کو ٹھیس پہنچے گی بس انہیں اپنے جانوروں جیسی زندگی گزارنے والے لوگوں کے جذبات کا اتنا خیال ہے کہ ہر سیاح کو ”آداب ڈنمارک“ سکھاتے ہیں۔ ہمارا خیال ہے ہمیں انفرادی طور پر ڈنمارک کے سفارت خانے اور حکومت کو خط لکھ کر یہ بتانا چاہئے کہ ہم ان اخبار کے مالکان، صحافیوں اور خاکے بنانے والوں پر مقدمے دائر کرنا چاہتے ہیں اور ان مقدموں کے لئے ہمیں ان تمام لوگوں کی ولدیت کی ضرورت ہوگی۔ برائے مہربانی ان لوگوں کی ولدیت فراہم کی جائے۔ دوسری صورت میں ہم ان کے نام کے ساتھ ”ولد نامعلوم“ لکھیں گے یا نام کے ساتھ انگریزی کا حرف "b" یا اردو کا حرف ”ح“ لکھ دیں گے۔ پھر ہم دیکھتے ہیں ڈنمارک کے سفارت خانے اور حکومت ان خطوں کے کیا جواب دیتے ہیں۔ ہمیں یقین ہے جن لوگوں نے یہ خاکے شائع کئے ہیں یہ سب لوگ اسی قبیل کے فرزند ہوں گے جن کے جذبات کے بارے میں ڈنمارک کا محکمہ سیاحت، ہدایت نامہ شائع کر کے ہوٹلوں اور دفتروں میں سیاحوں کے لئے رکھتا ہے۔