البتہ میں یہاں ٹھوس تاریخی ثبوت پیش کردیتا ہوں آپ ہی کی کتابوں سے کہ انگریز کن کی پشت پناہی کررہا تھا۔
رسالہ’ طوفان‘ کے ایڈیٹر نے بعض حقائق جمع کئے اور نتیجہ نکالا کہ
’’ انگریزوں نے بڑی ہوشیاری اور چالاکی کے ساتھ تحریکِ نجدیّت کا پودا( یعنی اہلِ حدیث جسے وہابی تحریک یا تحریکِ نجدیّت بھی کہتے ہیں۔ ناقل) ہندوستان میں کاشت کیا اور پھر اسے اپنے ہاتھ سے ہی پروان چڑھایا۔‘‘( طوفان۔ ۷ نومبر ۱۹۶۲ء)
مرزائے قادِیان اور انگریزی گورنمنٹ
فضيلۃ الشیخ حافظ صلاح الدین یوسف لاہور
بشکریہ :ختم نبوت نمبر دعوت اھل حدیث حیدرآباد
http://www.islamiyat.tk/mazameen/Qadyaniyat/Mirza-Qadyan-Or-Angrezi-Govt.htm
جب سے مرزائیوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا گیا ہے کہ "وہ عقل ونقل کی رُو سے اُمت مسلمہ سے الگ ایک غیر اسلامی فرقہ ہیں اور اس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی انگریزوں کے آلۂ کار تھے" اُس وقت سے مرزائی حلقوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور وہ مختلف طریقوں سے اس فیصلے کے تاثرات کو روکنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کے بعض اہل قلم نے اپنی جماعت کو اس طرح مطمئن کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ایک ابتلا ءہے، جس سے اہل اﷲ کو دوچار ہونا ہی پڑتا ہے۔
ایک ردعمل کی صورت میں آیا ہے کہ مسلمانوں کی بعض جماعتوں اور بعض افراد کے وہ خیالات پیش کیے جارہے ہیں، جن میں انہوں نے انگریز گورنمنٹ کی ''مذہبی رواداری'' پر ان کا شکریہ اور ان سے وفاداری کا اظہار کیا ہے۔ چنانچہ ان کے اہل قلم کی طرف سے شیعہ سنی اور اہلحدیث سے متعلق بعض اس قسم کے حوالے پیش کیے جارہے ہیں۔ نیز بعض علمائے اہلحدیث کی وہ تحریریں پیش کی گئی ہیں، جس میں مذہبی آزادی پر گورنمنٹ کا شکریہ ادا کیا گیا ہے۔ نیز جماعت اہلحدیث کیلئے ''وہابی'' کے لفظ کے استعمال کی قانونی ممانعت پر اس کیلئے تشکر کے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے۔مزید یہ کہ ان اہل قلم کا کہنا ہے کہ اگر یہ حضرات انگریز سے وفاداری کے اظہار کے باوجود انگریز کے آلۂ کار نہیں تو مرزا قادیانی کو اس قسم کے خیالات کی بنا پر انگریزوں کا آلۂ کار کیونکر کہا جاسکتا ہے؟ اس لئے ہم اس فرق اور نوعیت کو واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں، جو انگریزوں سے متعلق مرزا قادیانی اور مسلمانوں کے بعض علماء کے طرزِ عمل میں ہے۔
اس سلسلے میں سب سے پہلے اس فرق پر غور انتہائی ضروری ہے، جو مرزا قادیانی اور دیگر علماء کے جذباتِ وفاداری میں پایا جاتا ہے۔ علمائے اسلام میں سے جن حضرات نے انگریزوں سے وفاداری کا اظہار کیا، تو اس کی وجہ خود ان کے بقول یہ تھی کہ اس حکومت کے زیر سایہ مذہبی آزادی پوری طرح حاصل ہے۔ نیز یہ کہ مسلمانوں کے پاس قوت وطاقت اور اسباب ووسائل بھی نہیں، جن کے ذریعے وہ جنگ کرکے اسے دیس نکالا دے سکیں۔
اس لئے ایسے حالات میں وہ حکومتِ وقت سے بغاوت کے جواز کا فتویٰ صادر نہیں کرتے تھے اور ان حالات میں گورنمنٹ انگریزی سے وفاداری کو انسب سمجھتے تھے۔ تاہم یہ قطعی ہے کہ کسی بھی مسلمان عالم نے جہاد کو سرے سے منسوخ اور حرام قرار نہیں دیا اور نہ آخری زمانے میں آنے والے حضرت مہدی کو "خونی مہدی" ہی کہا۔ اس کے برعکس مرزا قادیانی نے نہ صرف یہ کہ پوری بلند آہنگی سے اس طرح انگریز کی حمایت کا صُور پھونکا، جس سے اس شبہ کو تقویت پہنچتی ہے کہ یہ صاحب انگریزوں کے اشارہ ابرو پر ہی دعوائے نبوت پر ''مجبور'' ہوئے، بلکہ خود بدولت کو ''مہدویت'' کے منصب پر فائز کرنے کیلئے مسلمانوں کے عقیدہ ''آمد مہدی موعود'' کو ختم کرنے کی سعیٔ ناکام کرتے ہوئے سيدنا مہدی کو ''خونی مہدی'' کا نام دیا۔
بہرحال اس سلسلے میں چند گزارشات پیشِ خدمت ہیں؛
اولاً خود مرزا قادیانی نے اپنے آپ کو انگریز کا ''خود کاشتہ پودا'' تسلیم کیا ہے۔ (تبلیغ رسالت ج7ص19) اور خود کو گورنمنٹ کی خیرخواہی اور تائید میں یگانہ، بینظیر وبے مثیل اور انگریز گورنمنٹ کیلئے بطور تعویذ اور پناہ (قلعہ) قرار دیا ہے۔ (نور الحق حصہ اول ص34۔33) اور خود اپنے اور اپنی جماعت کیلئے سلطنتِ برطانیہ کو اپنی جائے پناہ تسلیم کیا۔ (تریاق القلوب، ص62)۔
ثانیًا : اپنا مقصد بعثت ہی مرزا قادیانی نے خلقِ خدا کی اصلاح کی بجائے انگریز کی تائید واعانت بتایا ہے۔ ''اس نے مجھے اپنے قدیم وعدے کے موافق آسمان سے بھیجا، تاکہ میں حضور ملکہ معظمہ ۔(وکٹوریہ) کے نیک اور بابرکت مقاصد کی اعانت میں مشغول ہوں، اس (اﷲ) نے مجھے بے انتہا برکتوں کے ساتھ چھوا اور اپنا مسیح بنایا، تاکہ وہ ملکہ معظمہ (وکٹوریہ) کے پاک اغراض کو خود آسمان سے مدد دے۔" (ستارہ قیصرہ ص10)۔
''اے ملکہ معظمہ قیصرۂ ہند! خدا تجھے اقبال اور خوشی کے ساتھ عمر میں برکت دے۔ تیرا عہدِ حکومت کیا ہی مبارک ہے کہ آسمان سے خدا کا ہاتھ تیرے مقاصد کی تائید کر رہا ہے، تیری ہمدردی رعایہ نیک نیتی کی راہوں کو فرشتے صاف کر رہے ہیں… تیری ہی پاک نیتوں کی تحریک سے خدا نے مجھے بھیجا ہے۔'' (ستارہ قیصرہ ص:15)۔
ثالثاً :گورنمنٹ انگلشیہ کو خدا کی نعمت، عظیم الشان رحمت اور آسمانی برکت کہا اور انگریز گورنمنٹ کے شکر کو خدا کا شکر اور اس کے چھوڑنے کو خدا کا چھوڑنا قرار دیا۔ (شہادت القرآن ص:86)۔
رابعًا : اپنا مذہب ہی آسمان پر خدا کی اور زمین پر حکومتِ برطانیہ کی اطاعت اور اس سے سرکشی کو خدا ورسول کی سرکشی قرار دیا۔ (شہادت القرآن ص:86)۔
خامسًا : انگریز گورنمنٹ کی حمایت ووفاداری میں پچاس ہزار کے قریب کتابیں، رسائل اور اشتہار تالیف وطبع کیے۔ (ستارہ قیصرہ ص70)۔
انگریز سے متعلق مرزا صاحب کا یہ تحریری ذخیرہ اگر جمع کیا جائے تو اس سے پچاس الماریاں بھر سکتی ہیں۔ (تریاق القلوب ص:25)۔
سادسًا سب سے بڑھ کر انگریز کے خلاف جہاد کو نہ صرف انتہائی پُرزور الفاظ میں حرام اور منسوخ قرار دیا، بلکہ انگریز کے خلاف دل میں جذبۂ بغاوت یا دشمنی رکھنے والوں کو احمق، سخت نادان، سخت جاہل، نافهم مُاّف، دشن خدا، منکر نبی، شریر، بدذات، حرامی، بدکار، نالائق، ظالم، چور، قزاق اور اسی قسم کے بیہودہ خطابات سے نوازا۔
سابعًا : اس دور میں جہاں کہیں بھی انگریزوں اور مسلمانوں میں تصادم ہوا، اُمت مرزائیہ نے وہاں اپنے ''نبی'' کی تعلیمات کے مطابق مسلمانوں کی تائید وحمایت کی بجائے انگریزوں کی تائید کی، ان کے لئے فتح ونر ت کی دعائیں مانگیں اور مسلمانوں کی شکست اور انگریزوں کی کامیابی پر جشنِ فتح منایا۔ مثلاً :1914ء کی جنگ عظیم اول میں ترکوں کو جو شکست ہوئی اور بعض عرب علاقے ترکیہ کی اسلامی خلافت سے انگریزوں نے الگ کردیے، اس پر اُمت مرزائیہ کا تبصرہ ملاحظہ ہو:
"حضرت مسیح موعود فرماتے ہیں… کہ گورنمنٹ میری تلوار ہے، پھر ہم احمدیوں کو اس فتح (فتح بغداد) پر کیوں خوشی نہ ہو۔ عراق عرب ہو یا شام، ہم ہر جگہ اپنی تلوار کی چمک دیکھنا چاہتے ہیں… دراصل اس کے محرک خدا تعالیٰ کے دو فرشتے تھے، جن کو گورنمنٹ کی مدد کیلئے خدا نے اتارا تھا۔'' (الفضل 7 ستمبر ٫191
۔
اس سے کچھ عرصہ پہلے روس نے اسلامی ترکیہ پر حملہ کرکے بعض علاقے ہتھیا لئے تھے۔ اس پر مرزائیوں کا ردِعمل ملاحظہ ہو:
۔"تازہ خبروں سے معلوم ہوتا ہے کہ روسی برابر ترکی کے علاقے میں گھستے چلے جاتے ہیں… اﷲ تعالیٰ ظالم نہیں، اس کا فیصلہ درست اور راست ہے اور ہم اس کے فیصلے پر رضامند ہیں۔'' (الفضل 10 نومبر ٫1914)
۔27 نومبر 1918ء کو ترکوں کی مکمل شکست پر قادیان میں زبردست چراغاں کیا گیا اور جشن منایا گیا۔ اس پر الفضل نے لکھا؛
۔"یہ پُر لطف اور مسرت انگیز نظارہ بہت مؤثر اور خوشنما تھا اور اس سے احمدیہ پبلک کی اس عقیدت پر خوب روشنی پڑتی ہے، جو اسے گورنمنٹ برطانیہ سے ہے۔'' (الفضل 3 دسمبر ٫1918
ثامنًا : مرزا قادیانی نے انگریزوں کی مخبری کا بھی کام کیا اور انہوں نے اپنی جماعت کی مدد سے ایسے ''نافہم مسلمانوں'' کی ایک فہرست مع نام وپتہ مرتب کرکے گورنمنٹ کو پیش کی، جو ہندوستان کو دار الحرب سمجھتے تھے۔" (تبلیغ رسالت ج5 ص11)۔
ان وجوہ ہشت گونہ کی بنا پر مرزا قادیانی کی حکومت برطانیہ کی تائید وحمایت اور مسلمانوں کے بعض علماء کرام کی وفاداری اور شکریے میں جو زمین آسمان کا فرق ہے، اسے بادنیٰ تامل سمجھا جاسکتا ہے۔ دونوں کے طرز عمل کو یکساں باور کراکے مرزا قادیانی کی انگریز پرستی پر پردہ نہیں ڈالا جاسکتا۔ دونوں کے درمیان الفاظ کی دروبست سے لے کر مفہوم و معنیٰ تک میں جو فرق ہے، وہ اتنا عظیم ہے کہ اسے دس بیس حوالے کیا، اس انداز کے سینکڑوں حوالے بھی ختم نہیں کرسکتے۔
جماعت اہلحدیث پر انگریز کی وفاداری کے الزام کی حقیقت؛
پھر ''اشاعة السنة'' کے بعض حوالوں کو بنیاد بنا کر خاص طور پر جماعت اہلحدیث پر انگریز کی وفاداری کا الزام تو بہت ہی عجیب ہے۔ اگر کہ مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی نے ایسے خیالات کا اظہار فرمایا ہے، تو ابھی قابلِ غور بات یہ ہے کہ کیا اہلحدیث صرف مولانا بٹالوی کی ذات ہے کہ انفرادی طور پر ان کے ایسے خیالات کو پوری جماعت اہلحدیث پر چسپاں کردیا جائے؟ وہ جماعت کے صرف ایک فرد تھے، جو فی الواقع دوسرے بعض علمائے اسلام کی طرح بعض وجوہات کی بناء پر انگریز حکومت کو بہتر سمجھتےتھے، لیکن کیا اس تاریخی حقیقت سے انکار ممکن ہے کہ ان کے علاوہ علمائے اہلحدیث کی اکثریت انگریز کے خلاف مصروفِ جہاد رہی! کیا علمائے صادق پور اہلحدیث نہیں تھے، جنہوں نے سید احمد شہید اور شاہ اسمٰعیل شہید کی شہادت کے بعد ان کی تحریکِ جہاد کو پورے عزم وحوصلہ سے آگے بڑھایا! کیا یہ واقعہ نہیں کہ 1857ء کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد جس جماعت کے افراد سب سے زیادہ انگریزی مظالم کا شکار بنے، وہ اسی جماعت کے افراد تھے۔
صرف 1863ء سے لے کر 1870ء تک کے سات سالہ مختصر عرصے میں اس جماعت کے سرکردہ افراد کے خلاف پانچ عظیم مقدمات قائم کیے گئے۔ انبالہ (1864ء) پٹنہ میں دو مرتبہ (1865ء اور 1870ء) مالدہ (1870ء) راج محل (1870ء) ان مقدمات میں جماعت کے امراء وعلماء کو تختۂ دار پر کھینچا گیا۔ اس کے علاوہ کالے پانی اور ضبطیٔ جائدماد کی انہیں سزائیں دی گئیں۔ جل کے تاریک زندانوں کو اس جماعت کے دیوانوں نے آباد کیا اور ان مجاہدین کی سرگرمیوں نے انگریز کو بوکھلا کر رکھ دیا، جن کو ”وہابی“ کہا جاتا تھا، یہ وہابی کون تھے؟ ہنڑ کی کتاب پڑھئے تو معلوم ہوگا کہ وہ اسی جماعت کے افراد تھے۔ بہرحال چند افراد کے سوا اہلحدیث کی اکثریت از اول تا آخر انگریز سے برسرِ پیکار رہی ہے۔ اس انداز کی انگریز کی کاسہ لسیک ہم نے کبھی نہیں کی، جو آنجہانی مرزا قاديانی کا شعار، بلکہ مذہب رہی ہے۔
غور وفکر کا ایک اور زاویہ؛
پھر اس بحث کا یہ پہلو بھی قابلِ غور وفکر ہے کہ مرزا صاحب نبوت کے دعویدار تھے، جبکہ مسلمان علماء دعوائے نبوت کو کفر سمجھتے ہیں۔ بعض علماء کی انگریز سے وفاداری اور اس کا شکریہ اور مرزا قادیانی کے برٹش گورنمنٹ کی حمایت کو جزوِ ایمان بنانے کے مابین جو عظیم فرق ہے (جس کی ہم نشاندہی کر آئے ہیں) اس کو تھوڑی دیر کیلئے نظرانداز کردیا جائے، تب بھی یہ بات سوچنے والی ہے کہ غیر نبی افراد کے قدم ڈگمگا سکتے ہیں، ان پر مداہنت آسکتی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ بعض موقع پر وہ اس عزیمت واستقامت کا ثبوت پیش نہ کرسکیں، جو کفر کے مقابلہ میں ضروری ہے اور غیر نبی افراد کیلئے بعض صورتوں میں ایسی رخصتوں پر عمل کی اجازت بھی ہے، لیکن انبیاء علیہم السلام نے کبھی ایسی مداہنت روا نہیں رکھی، نہ انہیں اس کی اجازت دی جاتی ہے۔ کفر کے خلاف وہ ایک برہنہ تلوار اور اس راہ کی صعوبتوں کیلئے وہ کوہِ استقامت وعزیمت ہوتے ہیں، وہ کبھی قوم کو درسِ غلامی نہیں دیتے۔
لیکن مرزا قادیانی پتہ نہیں ''نبوت'' کی کون سی قسم سے سرفراز ہوئے تھے کہ انہوں نے کفر سے مقابلے کی بجائے اس کی اطاعت کو فرض اور جزوِ ایمان قرار دیا۔ قوم کو انگریز کی غلامی سے آزاد کرانے کی بجائے قوم میں خوئے غلامی کو پختہ تر کیا اور اپنے خدا سے انگریز کافر سے نجات کی دعا کی بجائے اس کی فتح ونصرت اور اس کے بقاء واستحکام کی دعا مانگتے رہے۔ فیا للعجب۔ کیا انسانی تاریخ میں اس کردار کا کوئی نبی یا مجدّد پیش کیا جاسکتاہے؟ یہی وہ نکتہ ہے، جو اس بات کو صاف کردیتا ہے کہ مرزا قادیانی اُس اﷲ کے فرستادہ نہیں تھے، جو کفر سے مقابلہ کا حکم دیتا ہے، بلکہ اُس برطانوی ڈپلومیسی کی پیداوار تھے، جس کا مقصد مسلمانوں میں افتراق وانتشار پیدا کرنا تھا۔
بنا بریں مرزائیوں کا اس مقام پر اپنے نبی کو بچانے کیلئے ایسے حوالے پیش کرنا، جن میں انگریز سے وفاداری کا اظہار کیا گیا ہے، بالکل بے محل ہے۔ محض انگریز سے وفاداری اور عدم وفاداری حق وباطل کی علامت نہیں، نہ اس نقطۂ نظر سے کبھی حق وباطل کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حضرات شیعہ بحیثیت مجموعی انگریز کے وفادار رہے ہیں، جس کا اظہار خود انہوں نے اپنی کتاب میں کیا ہے، لیکن ان کے محض اس کردار کو بنیاد بنا کر کبھی ان کے متعلق نہیں کہا گیا کہ وہ اس بنا پر غلط ہیں۔ البتہ ایک نبی کے حق یا باطل ہونے کیلئے فیصلہ کن چیز یہ ہے کہ اس نے اپنی زندگی میں کفر کی تائید کی یا اس کے خلاف عَلَم بغاوت بلند کیا؟ قوم کو کفر کی غلامی سے آزاد کرانے کی کوشش کی یا اسے غلامی کی آہنی زنجیریں بدستور پہنے رہنے پر رضامند کیا۔ اس اعتبار سے بلاشبہ مرزائے قادیان کا کوئی کردار نبوت تو کجا، اصلاح وتجدید کے مقام سے بھی فر وتر ہے کیونکہ کسی مصلح ومجدد اور کسی بڑے لیڈر نے بھی قوم کو درسِ غلامی نہیں دیا مرزا قادیانی بھی ایک عام آدمی ہوتے تو ان کے طرز عمل سےاعراض کرلینا ممکن تھا،
لیکن انہوں نے اپنے متعلق نبوت وتجدید کا جو دعویٰ کیا ہے اور ان کے پیروکار جس طرح ان کی اس حیثیت ومجددیت (معاذ اﷲ) کو منوانے پر مُصر ہیں، اس کے پیش نظر اس کردار کو کہ ساری عمر انگریز کی حمایت میں ہی گزار دی، نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ ان کا یہ کردار ہی ان کے جھوٹا ہونے کیلئے ایک واضح دلیل ہے۔
افراد سے بڑی بڑی غلطیاں ہوسکتی ہیں۔ جن صلحاء کی تحریریں ''الفرقان'' میں شائع کی گئی ہیں، ان سے تعلق رکھنے والی جماعتیں اسے اپنے افراد کی غلطیاں کہہ کر بھی ٹال سکتی ہیں۔ ان کا یہ اعتراف ان کے مسلک پر اثر انداز نہیں ہوسکتا۔ لیکن کیا مرزائی حضرات اپنے نبی کے اس کردار کو غلط کہنے کی جرأت کرسکتے ہیں؟ اور کیا ایسا کرنے کی صورت میں نبوت کا قصر زمین بوس نہیں ہوجاتا؟