یہ ہے منکرینِ حدیث کی شناختی علامات !!

باذوق

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
منکرِ حدیث کو منکرِ حدیث کیوں کہا جاتا ہے ؟ منکرین حدیث کی شناختی علامات کیا ہیں ؟
محترم عطاءاللہ ڈیروی کے ایک مفید مضمون سے ردّ و بدل اور شکریہ کے ساتھ استفادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ من گھڑت کہانیاں جو آپ یہاں‌ لکھ مارتے ہیں اپنا اور باقی سب کا وقت برباد کرتے ہیں۔

اگر ان کہانیوں کی کوئی حقیقت ہے تو لائیے ، اصل مصنف کی کتاب۔ یا پھر صرف 1200 یا 1000 سال پرانی ہی کوئی کتاب دکھا دیجئے۔ کیوں آپ ان لوگوں‌کی طرف من گھڑت کہانیاں منسوب کرتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں ان میں سے بیشتر کہانیاں پچھلی چند صدیوں میں گھڑی گئی ہیں؟

اگر کوئی اصل کتب ہوتیں تو آج ان کا انٹرنیٹ پر جمعہ بازار لگا ہوتا۔ سب بھائی بند ان کے حوالے دے رہے ہوتے۔ کم از کم کسی اصل کتاب کی موجودگہ کی تصدیق تو کرلیا کریں۔ ان سنی سنائی کہانیوں‌کی ترویج سے پہلے۔ ذرا غور سے دیکھئے یہ تمام مصنف صدیوں بعد آئے اور ان کی اصل کتب بھی دستیاب نہیں ہیں ، پھر آپ اتنے وثوق سے یہ من گھڑت کہانیاں کیسے پیش کرتے ہیں۔ عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہوئے آپ کوئی پچھتاوا محسوس نہیں کرتے؟
درج بالا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ پھر یہ بھی دیکھئے کہ صاحبِ اقتباس آج کل اپنی باتوں میں صرف "قرآن" نہیں کہتے بلکہ "قرآن و سنت" کہتے ہیں!
ماشاءاللہ سے اردو محفل میں اتنی نامی گرامی باشعور و عقلمند ہستیاں بیٹھی ہیں ۔۔۔ اب کیا کسی میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ ذرا سا ہمت کر کے پوچھ لیں کہ :
محبی محترم ! جن روایات یا جن کتابوں کی صداقت کے آپ انکاری ہیں تو ذرا ہم کو بھی بتائیں کہ وہ "سنت" پھر کہاں ملے گی جس کا نام آپ "قرآن و سنت" کی ترکیب کے سہارے لیتے ہیں؟؟
کوئی نہ کوئی کتاب میں تو وہ سنت درج ہوگی ، پھر وہ کتاب آخر ہے کہاں؟
کیونکہ احادیث کی ساری ہی معتبر کتب مثلاً (جن کا ذکر اسی تھریڈ میں کیا گیا ہے ، جس سے درج بالا اقتباس اٹھایا گیا ہے) ۔۔۔۔ :
صحیحین ، سنن اربعہ ، مشکوٰة ، مصنف ابی شیبہ ، بیھقی وغیرہ ۔۔۔۔
تو آپ جناب کو "پچھلی چند صدیوں میں گھڑی گئی" نظر آتی ہیں۔
پھر سنت کی وہ کتاب یا کتب ہیں کہاں جس سے آپ محترم "سنت" کو اخذ کرتے ہیں؟؟

اور تو اور ۔۔۔ مزے کی ایک بات مزید پڑھئے، فرمایا جاتا ہے :
۔۔۔ دلیل کا جواب جب دلیل کی بجائے کچھ اور ہو تو معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے
حضرات !!
کون سی دلیل ؟؟ کہاں کی دلیل ؟؟
ساری امتِ مسلمہ کے نزدیک (قرآن کے بعد) صحیح احادیث اور کتبِ احادیث ہی دلیل ہیں تو ہم ان کی دلیل نہیں دیں گے تو کیا ٹونی اور بش کے اقوالِ زریں پیش فرمائیں؟؟
کمال کی بات کرتے ہیں جنابِ عالی !!

کارل مارکس کی "داس کپیٹل" یا شکسپئر کی "رومیو جولیٹ" سے کوئی اقتباس آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو کیا وہاں بھی آپ یہی فرمائیں گے کہ :
بطورِ ثبوت اصل کتاب پیش فرمائیے جو مصنف کے اپنے ہاتھوں لکھی گئی ہو!

بتائیے ایسا اعتراض کرنے والے کو کیا کہا جائے؟ یہ بچکانہ اعتراض ہے یا عاقلانہ؟؟
جب ہم میں سے ہر کسی کو یقین ہے کہ "داس کپیٹل" یقیناً کارل مارکس نے لکھا ہے اور "رومیو جولیٹ" شیکسپئر کی تحریر کردہ ہے تو اس بات پر کیوں یقین نہیں ہے کہ امام بخاری نے "صحیح بخاری" تالیف کی یا امام مسلم نے "صحیح مسلم" یا امام ترمذی نے "جامع ترمذی" وغیرہ وغیرہ ؟؟
اپنے اسلاف پر تو ایسا شک و شبہ اور غیروں پر اتنا اعتماد ۔۔۔۔ ؟؟
کوئی تو بتائے کہ یہ کون سے رحجان کی آبیاری کی جا رہی ہے ؟؟؟

عالمی کلیہ تو یہ ہے کہ :
کسی بھی چیز کواس کی اصل حیثیت میں تسلیم نہ کرنا ہی درحقیقت اس چیز کا انکار ہوتا ہے !
مثلاً : ایک شخص اپنی اولاد کو اپنی اولاد ماننے کو تیار نہ ہو بلکہ بھانجا ، بھتیجا یا اور کوئی بھی رشتہ جو آپ منوانا چاہیں، ماننے کو تیار ہو تو کیا اس شخص کو اپنی اولاد کا منکر نہیں کہا جائے گا ؟؟
اسی طرح جب منکرین حدیث ان احادیث کی کتابوں کوحدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے ماننے کو تیار نہیں ہیں تو انہیں منکرحدیث نہیں تو اور کیا کہا جائے گا ؟؟!!

قرآن کریم بنیادی طور پر عقیدہ اوراسلام کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے والی کتاب ہے اسی لئے احکامات سے متعلق آیت اکثر و بیشتر مجمل ہیں جن پرعمل کرنے کےلئے کسی نہ کسی درجہ میں احادیث نبویہ کی جانب رجوع کرنا از بس ضروری ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب انکار حدیث میںمبتلا افراد کو "منکرین احادیث" کے لقب سے پکار جائے تو وہ اکثر وبیشتر برا مان جاتے ہیں کیونکہ روزمرہ کے معمولات میں بے شمار ایسے معاملات آتے ہیں جہاں وہ بھی احادیث پرعمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو مجبورپاتے ہیں چناچہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں "منکر حدیث" نہ کہا جائے بلکہ سیرت طیبہ کا محافظ یا ناموس رسالت کی حفاظت کرنے والا کہا جائے۔

ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔
منکرین حدیث کی "شناختی علامات" کو واضح طور پر بیان کردیا جائے تاکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی سبب انکار حدیث کے جراثیم سے متاثر ہوا ہے اپنا محاسبہ خود کرلے اور اس گمراہی سے تائب ہوجائے ۔۔۔۔
اور
عوام الناس منکرین حدیث کو ان کی شناختی علامات کے ذریعہ پہچان کر ان کے بچھائے ہوئے خوبصورت جال میں گرفتار ہونے سے محفوظ رہ سکیں !!

اس سلسلہ میں سب سے پہلی علامت :
۔۔۔ وہی ہے جس کا کچھ تذکرہ سطوربالا میں بھی کیا گیا ہے یعنی ناموس قرآن یا ناموس رسالت کی دہائی دے کر کسی صحیح حدیث کوتسلیم کرنے سے انکار کرنا۔

معلوم ہونا چاہیے کہ اصولِ حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جو قرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہو قابل ردّ ہے۔
اوریہ اصول منکرین حدیث کا بنایا ہوا نہیں بلکہ محدثین کا بنایا ہوا ہے اور محدثین کا زہد و تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے
یعنی آج جوصحیح احادیث منکرین حدیث کو قرآن یا شان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کا صحیح قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یا شان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم وفراست سے بعید ہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں
ورنہ احادیث کی تخریج اور تشریح کا کام جو تقریباً ہر صدی میں جاری رہا ہے اس میں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاً صحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ، علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ، شرح صحیح بخاری للقسطلانی اور شرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طورپر قابل ذکرہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے یا شان رسالت کے خلاف ہے بلکہ ایسی کوئی حدیث اگر نظر بھی آئی تو صرف منکرین حدیث کو اس دور میں نظر آئی جنہیں حدیث ، اصول حدیث اور رواۃ حدیث کی حروف ابجد بھی معلوم نہیں ہے!!

منکرین حدیث کی دوسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
قرآن کے مفسربننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ، رواۃ حدیث کی اقسام اور محدثین کی اصطلاحات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کو احادیث کے قبول و رد کا معیار بناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال قطعی غلط اور بے بنیاد اور لغو اس لیے بھی ہے کہ اس طرح تو علم اسماء رجال کی ہزاروں کتب بیکار و غیر ضروری قرار پا جاتی ہیں۔

منکرین حدیث کی تیسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث کے ذخیروں اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جوکسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو یہ حضرات صحیح حدیث کوچھوڑ کر بے سند تاریخی روایت کو اختیار کر لینے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ جس کی ایک واضح مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر والے دھاگے میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کسی T.O. صاحب کی تحقیق کے ذریعے تاریخ و سیرت کی کتب کے بےسند حوالہ جات کو صحیح احادیث کے مقابلے میں پیش کیا جا رہا ہے۔

منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں

ایسے ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنا بڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کو پیش کیا کہ یہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے ، تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں
اور
محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کا زہد و تقویٰ اورعلمیت مسلمہ تھی
مزید برآں جن لوگوں نے احادیث کو "ظنی" کہا ہے ان لوگوں کی مراد اس سے وہ ظن نہیں جو منکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد "حق الیقین" سے کم تر درجہ کا یقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاً :
سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ٭
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ٭

( سورة البقرة : 2 ، آیت : 45-46 )
اﷲ سے مدد طلب کرو صبراورنماز کے ذریعہ اور بے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگران لوگوں پر نہیں جو اﷲ سے ڈرتے ہیں ، ( اﷲ سے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو اﷲ سے ملاقات اور اس کی طرف لوٹ جانے کا ظن رکھتے ہیں

صاف ظاہرہے کہ یہاں "ظن" سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور اﷲ سے ملاقات پر یقین رکھنا اسلام کاایک لازمی جزو ہے
پس سورۃ نجم کی آیت میں مذکور ظن کواحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لاگو کرنا محض دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ دین اسلام میں بہت سے امور ایسے ہیں جن کا فیصلہ محض ظن کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے مثلاً چوری ، زنا اور قتل وغیرہ کے مقدمہ میں اکثراوقات فیصلہ اشخاص کی گواہی پر ہی کیا جاتا ہے اور گواہی کا ظنی ہونا اظہرمن الشمس ہے
پھران مقدمات میں گواہ کے جھوٹے ہونے کا امکان بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے اس کے باوجود جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ سب کے لئے قابل قبول ہوتا ہے اور نافذ العمل سمجھا جاتا ہے
جبکہ رواۃ حدیث کا جھوٹے ہونے امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ محدثین نے اس سلسلہ میں جو محکم اصول بنائے ہیں اور رواۃ حدیث کے حالات و کردار کی جس اندازمیں چھان پھٹک کی ہے اس سے سب واقف ہیں پس معلوم ہوا کہ اصولی طورپر احکامات اورمعاملات کے ضمن میں ظن حق کو ثابت اورغالب کرنے کےلئے قابل قبول اورمفید ہے یعنی احادیث کو اگر ظنی کہا بھی جائے تب بھی احادیث امور دین میں دلیل و حجت ہیں۔

منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ :

(۔۔۔۔ جاری ہے)
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایمان سے کافی عرصے سے ایسے کسی پوسٹ کا انتظار تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

باذوق

محفلین
منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ دین کے معاملات میں عقل کو استعمال کرنے پر بہت زیادہ زور دیتے ہیں
اورعلمائے دین کوعقل نہ استعمال کرنے کا طعنہ دیتے ہیں
بلکہ یہاں تک کہتے ہیں کہ : یہ علماء چونکہ عقل استعمال نہیں کرتے اس لئے اہل علم میں شمار کرنے کے لائق بھی نہیں ہیں
ثبوت کے طورپر غلام احمد پرویز صاحب کا یہ فتویٰ ملاحظہ فرمایئے وہ لکھتے ہیں کہ:
بحوالہ : قرآنی فیصلے ص:506
کسی چیز کے حفظ کرنے میں عقل و فکر کو کچھ واسطہ نہیں ہوتا اس لئے حفظ کرنے کوعلم نہیں کہا جا سکتا، ہمارے علماء کرام کی بعینہ یہی حالت ہے کہ انھوں نے قدیم زمانے کی کتابوں کواس طرح حفظ کیا ہوتا ہے کہ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مسئلہ کے متعلق فلاں کتاب میں کیا لکھا ہے، فلاں امام نے کیا کہا ہے ، فلاں مفسر کا کیا قول ہے ، فلاں محدث کا کیا ارشاد ہے اور جو کچھ انہیں ان کتابوں میں لکھا ملتا ہے وہ اسے حرفاً حرفاً نقل کر دیتے ہیں اس میں اپنی عقل و فکر کو قطعاً دخل نہیں دینے دیتے اس لئے ہم انہیں علمائے دین کہنے کے بجائے Catalogur یعنی حوالہ جات کی فہرست کہتے ہیں اورعلامہ اقبال کے بقول :
' فقیہ شہر قارون ہے لغت ہائے حجازی کا '
قرآن نے اس کو 'حمل اسفار' یعنی کتابیں اٹھائے پھرنے سے تعبیر کیا ہے یہ اپنے محدود دائرے میں معلومات کے حافظ ہوتے ہیں عالم نہیں ہوتے

منکرین حدیث دینی معاملات میں عقل کے استعمال کے لئے دلیل کے طور پر قرآن کی متعدد آیات کو پیش کرتے ہیں جس کے باعث ہر وہ شخص جو اپنے آپ کو عقلمند کہلوائے جانے کا خواہش مند ہوتا ہے منکرین حدیث کے پھیلائے ہوئے اس جال میں با آسانی پھنس جاتا ہے اس لئے یہ ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ اس مقام پر منکرین حدیث کی اس فریب کاری کا پردہ بھی چاک کر دیا جائے
تاکہ معلوم ہو جائے کہ
  1. قرآن نے عقل کا استعمال کس ضمن میں کرنے کا حکم دیا ہے
  2. اور کہاں ہرمسلمان عقل کے بجائے اﷲ اور اس کے رسول کے حکم کا پابند ہے ؟

اولاً : عقل کا استعمال کرنے کی دعوت قرآن میں سب سے زیادہ ان مقامات پر ہے جہاں اﷲ تبارک و تعالیٰ کائنات میں پھیلی ہوئی بے شمار نشانیوں کے ذریعہ انسان کی توجہ توحید باری تعالیٰ کی جانب مبذول کرانا چاہتا ہے مثلاً سورۃ شعراء میں ارشاد ربانی ہے کہ :
[ARABIC]قَالَ رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَمَا بَيْنَهُمَا إِن كُنتُمْ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
اﷲ مشرق و مغرب اور جو کچھ ان کے درمیان ہے ان سب کا رب ہے ،کیا تم عقل نہیںرکھتے۔
( سورة الشعرآء : 26 ، آیت : 28 )
یہاں اﷲ تعالیٰ نے اپنی ربوبیت کو اپنی وحدانیت پر دلیل بنایا کہ جب ساری کائنات کا پالنے والا اﷲ ہے تو پھر جو لوگ عبادت میں اﷲ کے ساتھ کسی دوسرے کو شریک کرتے ہیں وہ سراسر عقل کے خلاف کام کرتے ہیں
اور سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ :
[ARABIC]إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ وَالْفُلْكِ الَّتِي تَجْرِي فِي الْبَحْرِ بِمَا يَنفَعُ النَّاسَ وَمَا أَنزَلَ اللّهُ مِنَ السَّمَاءِ مِن مَّاءٍ فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا وَبَثَّ فِيهَا مِن كُلِّ دَآبَّةٍ وَتَصْرِيفِ الرِّيَاحِ وَالسَّحَابِ الْمُسَخِّرِ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالأَرْضِ لَآيَاتٍ لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ[/ARABIC]
بے شک آسمانوں اورزمین کی تخلیق میں، رات اور دن کے فرق میں، کشتی جو سمندر میں لوگوں کے نفع کے واسطے چلتی ہے،اﷲ تعالیٰ کا آسمان سے پانی نازل کرنا جو مردہ زمین کو زندہ کر دیتا ہے ،ہر قسم کے جانوروں کا زمین میں پھیلا دینا، ہواؤں کا چلانا اور بادلوں کا آسمان و زمین کے درمیان معلق کر دینا ، یہ سب نشانیان ہیں ان لوگوں کے لئے جو عقل رکھتے ہیں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 164 )
یہاں کائنات کے نظام کا محکم ہونا اﷲ تعالیٰ کی ربوبیت و وحدانیت پر بطور دلیل لایا گیا ہے تاکہ معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والے افراد بھی ایک اور اکیلا رب اور معبود صرف اﷲ تعالیٰ کو تسلیم کر سکیں، اسی طرح اوربھی بہت سی آیات ہیں۔
اس کے علاوہ عقل استعمال کرنے کا حکم گذشتہ اقوام کے حالات و واقعات سے سبق حاصل کرنے کے لئے بھی دیا گیا ہے مثلاً
سورۃ یوسف میں ارشاد ربانی ہے کہ:
[ARABIC]وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ إِلاَّ رِجَالاً نُّوحِي إِلَيْهِم مِّنْ أَهْلِ الْقُرَى أَفَلَمْ يَسِيرُواْ فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُواْ كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَدَارُ الْآخِرَةِ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ اتَّقَواْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم )ہم نے آپ سے پہلے بھی جونبی بھیجے وہ سب مرد تھے جن پرہم نے ان کی بستی والوں کے درمیان میں ہی وحی کی تھی،کیایہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں کہ ان پچھلوں کاانجام اپنی آنکھوںسے دیکھیں اور آخرت کاگھربہترہے ان لوگوں کےلئے جو تقویٰ اختیارکرتے ہیں،کیا تم لوگ عقل نہیں رکھتے
( سورة يوسف : 12 ، آیت : 109 )
یہاں ان لوگوں کوعقل کااستعمال کرنے کاحکم دیاگیاجو گذشتہ انبیاء کرام کی امتوں کاحشر دیکھ کربھی انجان بنے ہوئے تھے

اسی طرح عقل کااستعمال کرنے کامشورہ قرآن نے ان لوگوں کو بھی دیاہے ہے جواﷲ تعالیٰ کے احکامات اور بنیادی اخلاقیات کی پامالی پرکمربستہ ہیں اورسمجھتے ہیں کہ برائی کاانجام برا نہیں ہوتا
مثلاً سورۃ الانعام میں اﷲ تعالیٰ نے ارشادفرمایا کہ :
[ARABIC]قُلْ تَعَالَوْاْ أَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّكُمْ عَلَيْكُمْ أَلاَّ تُشْرِكُواْ بِهِ شَيْئًا وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَلاَ تَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم مِّنْ إمْلاَقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ وَلاَ تَقْرَبُواْ الْفَوَاحِشَ مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَمَا بَطَنَ وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللّهُ إِلاَّ بِالْحَقِّ ذَلِكُمْ وَصَّاكُمْ بِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کہہ دیجئے آؤمیںبتاؤں کہ تمہارے رب نے تم پر کیاحرام کیاہے ،یہ کہ اﷲ کے ساتھ کسی کوبھی شریک کرنا،والدین کے ساتھ احسان کرتے رہو،اولاد کومفلسی کے خوف سے قتل نہ کرو ہم انہیں بھی رزق دیتے ہیں اورتمہیں بھی،فحش کے قریب بھی مت جاؤخواہ وہ کھلاہو یا چھپاہواورکسی ایسی جان کو ناحق قتل نہ کرو جسے اﷲنے حرام کیاہویہ اﷲ تعالیٰ کی جانب سے تمہیں وصیت ہے شاید کہ تم عقل سے کام لو
( سورة الانعام : 6 ، آیت : 151 )
یہاں تمام ایسی بنیادی اخلاقیات کاحکم دیاجارہاہے جو اس قبل دیگر تمام شریعتوں او ر مذاہب میں بھی موجود رہیں تھیں اوران احکامات سے اعراض اورخلاف ورزی ہمیشہ سے فساد فی الارض کاباعث رہی تھی اس لئے ان احکامات کی اہمیت و افادیت کوسمجھنے کی غرض سے یہاں عقل و فہم انسانی کودعوت دی جارہی ہےتاکہ مسلمان ان احکامات کی پابندی کواپنے اوپرکوئی بوجھ نہ سمجھیں

اسی طرح بنیادی اخلاقیات کے خلاف ایک چیزقول و فعل کا تضاد بھی ہے ،اسکے متعلق قرآن کریم میں اﷲ تعالیٰ نے فرمایاکہ:
[ARABIC]أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنْ۔تُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
کیاتم دوسروں کانیکی کاحکم دیتے ہواورخو د اپنے آپ کوبھول جاتے ہوحالانکہ تم تو کتاب بھی پڑھتے ہوپس کیاتم عقل نہیں رکھتے
[ARABIC]( سورة البقرة : 2 ، آیت : 44 )[/ARABIC]
یعنی کسی غلط عمل کی کوئی تاویل یاتوجیح کرکے انسان اپنے آپ کودھوکانہ دے بلکہ عقل کے تقاضے کوسامنے رکھتے ہوئے جس نیکی کاحکم دوسروں کودے رہاہے خود بھی اس پر عمل کرنے کی کوشش کرے

اسی طرح ہروہ بات جو خلاف واقعہ اور زمان ومکان کے اعتبار سے محال ہواس پر اصرار کرنے والوں کوبھی قرآن نے عقل کے استعمال کامشورہ دیاہے
مثلاًسورۃ آل عمرآن میں ارشاد ہواکہ:
[ARABIC]يَا أَهْلَ الْكِتَابِ لِمَ تُحَآجُّونَ فِي إِبْرَاهِيمَ وَمَا أُنزِلَتِ التَّورَاةُ وَالْإِنجِيلُ إِلاَّ مِن بَعْدِهِ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ[/ARABIC]
اے اہل کتاب ابراھیم علیہ السلام کے(مذہب کے) بارے میں تم کیوں جھگڑتے ہوحالانکہ توریت اورانجیل توان کے بعد نازل ہوئیں ہیں کیاتم عقل نہیں رکھتے
( سورة آل عمران : 3 ، آیت : 65 )

یہاں اﷲ تعالیٰ یہود و نصاریٰ کے اس تنازع کے تذکرہ کررہاہے جس میں دونوں فریق یہ دعویٰ کرتے تھے کہ ابراھیم علیہ السلام ان کے مذہب پر تھے حالانکہ یہودیت اورعیسائیت جن آسمانی کتابوں کے بعد قائم ہوئی وہ ابراھیم علیہ السلام کے بعد ہیں اسلئے ایسی بات محض بے عقلی کے سوا کچھ نہیں
اس لئے قرآن اسکی مذمت کررہاہے
یعنی
عقل کو استعمال کرنے کی دعوت قرآن کی تشریح یا احکامات و حدود اﷲ سے متعلق آیات کے ضمن میں پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں ہے
بلکہ اسکی تشریح اﷲتعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال ، افعال واعمال کے ذریعہ خود فرمائی ہے
جس کی دلیل قرآن کی یہ آیت ہے فرمایا:
[ARABIC]فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ
ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ[/ARABIC]
جب ہم پڑھائیں تو ہمارے پڑھانےکے بعد پڑھو ، پھراسکی تشریح بھی ہمارے ذمہ ہے
( سورة القيامة : 75 ، آیت : 18-19 )

اس لئے وہ لوگ جو قرآن کی تشریح عقل ، فلسفہ اور منطق کے ذریعہ کرناچاہتے ہیں وہ بلامبالغہ ایک بڑی گمراہی پر ہیں

البتہ سورۃ بقرۃ کی ایک آیت ہے جہاں کسی کواس قسم کااشکال ہوسکتاہے اس آیت کے الفاظ یہ ہیں:
[ARABIC]يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيهِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُهُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِهِمَا وَيَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَ قُلِ الْعَفْوَ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّهُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ[/ARABIC]
یہ لو گ جوئے اورشراب کے بارے میں سوال کرتے ہیں ، کہہ دیجئے یہ بڑے گناہ ہیں اوراس میں لوگوں کوکچھ منفعت بھی ہے لیکن ان کاگناہ انکے نفع سے کہیں بڑھ کر ہے اوروہ لوگ پوچھتے ہیں کہ وہ (اﷲ کی راہ میں ) کیاخرچ کریں، کہہ دیجئے کہ وہ سب جوتمہاری ضرورت سے زائد ہے ،اس طرح ہم اپنی آیات کوکھول کربیان کردیتے ہیں تاکہ یہ لوگ غور وفکر کریں
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 219 )

یہاں اس آیت میں اﷲ تبارک وتعالیٰ نے شراب اور جوئے کے ممانعت کی حکمت بیان کی ہے اوراس کے بالمقابل صدقہ کاحکم دیا ہے تاکہ لوگ ان معاملات میں تھوڑے اورظاہر ی فائدے کونہ دیکھیں بلکہ اس کے گناہ اور نقصان کومدنظر رکھیں جو نفع کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے اوراس کے بعد غور فکر کی دعوت اس لئے دی گئی ہے تاکہ لوگ دین کے باقی احکامات پر بھی یہ یقین رکھتے ہوئے عمل کریں کہ ان سب احکامات کی کوئی نہ کوئی وجہ اورحکمت ضرور ہے اگرچہ ہم جانتے نہ ہوں
اور اس جانب اشارہ بھی ہے کہ جولوگ ان احکامات پرغور فکرکریں گے ان کواس میں سے بعض احکامات کی حکمت معلوم بھی ہوجائے گی لیکن اصل بات یہ ہے کہ ان احکامات پرعمل کرناسب کے لئے فرض ہے مگر انکی حکمت کو جاننا ہر ایک پر فرض نہیں کیونکہ یہاں لفظ "لعلکم" استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں شاید کہ تم ، امید ہے کہ تم یا توقع ہے کہ تم غوروفکرکرو گے ۔

لیکن منکرین حدیث کے سرخیل پرویز صاحب نے صرف اسی کوعلم قرار دیتے ہوئے ان تمام علماء کرام کو جاہل اورکتابیں ڈھونے والا گدھا قرار دیا ہے جوتمام کتابوں کو بالائے طاق رکھ کر صرف عقل کی مدد سے قرآن کی تشریح نہیں کرتے حالانکہ لفظ ''علم '' کے معنی ہی'' جاننا '' ہیں
اورعلامہ کامطلب ہے بہت زیادہ جاننے والا
یعنی عالم دین اسی شخص کوکہاجائےگاجوقرآن کی کسی آیت یا کسی حدیث کے بارے میں گذشتہ اہل علم کے اقوال کوجانتاہوکیونکہ صراط مستقیم مشروط ہے ان لوگوں اقوال ،افعال و اعمال کے استفادہ سے جن پراﷲ تعالیٰ کاانعام ہوا اور جو قرآن کریم کے حوالے سے انبیاء ، صدیقین ،شہداء اورصالحین ہیں ۔

اگر بقول پرویز صاحب ہدایت اورعلمیت مشروط ہے عقل سے تو پھر قرآن میں فلسفی ، مفکر ، مدبراورعلم منطق کے ماہرافراد کے راستےکوصراط مستقیم ہوناچاہیے تھاجبکہ ایسانہیں ہے اس سے معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات صرف حدیث کے منکر نہیں بلکہ علوم اورحصول علم کے طریقوں کے بھی منکرہیں !!

ورنہ پرویز صاحب علماء کرام کے متعلق حوالہ جات کی فہرست اورمحض حافظ جیسے الفاظ استعمال کرکے اہل علم سے بدظن نہ کرتے !
اوراب اس کانتیجہ یہ ہے کہ منکرین حدیث کے پیروکارحضرات اپنے گھر میں کبھی کوئی قرآن کی تفسیر یا حدیث کی کتاب یااس کی شرح نہیں رکھتے ۔۔۔۔۔۔۔
انجام کار جو پرویز صاحب نے کہا پرویز صاحب کی روحانی اولاد بھی آج وہی کہہ رہی ہے
اور جس کے حوالے یہیں جا بجا دیکھے جا سکتے ہیں کہ کس طرح اپنے ہی دینِ حنیف کے علماء کرام کو مولوی / ملا کہہ کر اپنی عقل کو برتر اور علماء کو پستی کا شکار بتایا جا رہا ہے !!

اپنی عقلی برتری کی تصدیق یا تردید کا کوئی بھی ذریعہ جناب پرویز اور ان کے متبعین کے پاس نہیں ہے اس طرح بے علمی کے ساتھ یہ لوگ خود بھی گمراہ ہو رہے ہیں اوردوسروں کو بھی گمراہ کر رہے ہیں۔

منکرین حدیث کی ایک چھٹی شناختی علامت بھی ہے :
جو صرف ان لوگوں میں پائی جاتی ہے جوانکار حدیث کے ضمن میں انتہاء درجہ پرنہیں بلکہ انکار و اقرار کی درمیانی کیفیت پر ہیں
ایسے لوگ محدثین کے وضع کردہ اصولوں سے ناواقفیت کے باعث بعض احادیث یا بعض احادیث کی اقسام کومانتے ہیں اوربعض کونہیں ماننے

مثلاً بعض حضرات اپنے آپ کومنکرحدیث تسلیم نہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
اطیعواﷲ سے مراد اﷲ کے احکام کی پابندی کرنااور اطیعوا لرسول سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۃ حسنہ اوراحادیث پرعمل ہے ، لہذا جہاں قال اﷲ تعالیٰ کا لفظ آئے وہ قرآنی آیت ہوگی اور جہاں قال الرسول صلی اللہ علیہ وسلم آئے وہ حدیث نبوی ہوگی

ان صاحبان نے قرآنی آیت اورحدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی جو تعریف کی ہے وہ قطعی طورپر نامکمل اورغلط ہے کیونکہ تمام اہل علم کے نزدیک حدیث صرف قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نہیں بلکہ حدیث ، اقوال کے علاوہ اعمال و افعال اورتقریرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی کہاجاتاہے
یہاں تقریر سے مراد وہ افعال واعمال ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے صحابہ کرام سے سرزد ہوئے اوراﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر تنبیہ نہیں کی بلکہ ان کوبرقرار رکھا مزید برآں صحابہ کرام کے اقول و اعمال کوبھی حدیث کہا جاتا ہے اوراس کے لئے حدیث موقوف کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے
اسی طرح ہروہ بات جو قال اﷲ تعالیٰ سے شروع ہوتی ہے ہمیشہ قرآنی آیت نہیں ہوتی بلکہ احادیث میں بھی قال اﷲ تعالیٰ کے الفاظ اکثر آتے ہیں اورمحدثین کی اصطلاح میں ایسی حدیث کو "حدیث قدسی" کہاجاتا ہے۔
پس معلو م ہوا کہ منکرین حدیث کی ایک اہم شناختی علامت یہ بھی ہے کہ یہ لوگ علم حدیث کے ضمن میں محدثین کی وضع کردہ بیشتر اصطلاحات سے ناواقف ہوتے ہیں۔

(تمام شد)
 
منکر الحدیث کی اہک اور اہم علامت ۔ وہ رسول اکرم کی احادیث کو جھٹلاتا ہے۔ ان کے لئے صرف اپنے فرقہ کے استادوں‌کو یاد احادیث قابل قبول ہوتی ہیں۔ دوسرے گروہ کے پاس جو احادیث ہیں وہ قابل قبول نہیں ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر ایک شخص کو شیعہ حضرات کے پاس موجود احادیث قابل قبول نہیں ۔ وہ ان کو جھٹلاتا ہے۔ صرف وہ احادیث اس کو قابل قبول ہوتی ہیں جن سے اس کے مطلب کی بات نکلتی ہو۔

منکر الحدیث ، منکر القرآن بھی ہوتا ہے۔ اگر اس کو قرآن کی کوئی آیت ان کے استادوں کی استادی سے گھڑی ہوئی حدیثوں‌کی مخالفت کرتی ہے تو وہ اس من گھڑت حدیث کو قرآن کی روشنی سے باطل قرار دینے والے کو منکر الحدیث کا طعنہ دیتا ہے ، تاکہ خود بچا رہے۔ ایک شخص کو جب بھی اس کے استادوں‌ کی استادی کا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی قرآن و سنت کی روشنی میں‌پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کو یہ آیات فوراً‌ اس کی اپنی بنائی ہوئی احادیث کا انکار نظر آتے ہیں۔ اور وہ فوراً‌ ان آیات کی تکفیر اپنی من گھڑت روایات سے کرتا ہے۔

ایک شخص ، غلامی کا قائل ہے۔ کم عمر اور نابلغ لڑکیوں کی شادی کا قائل ہے۔ یہ فرد د واحد کی حکومت کا قائل ہے۔ کمزور کا حق غصب کرنے کا قائل ہے اور مجبوروں کا تعلیم سے محروم رکھنے کا قائل ہے ، تشدد اور نفرت سے بھرپور روایات کا قائل ہے۔ یتیموں کا مال غصب کرنے کا قائل ہے۔ اپنے نظریات سے اختلاف کو واجب قتل سمجھتا ہے۔ اسلام ، سلامتی کا دوسرا نام ہے اور یہ دنیا میں‌ امن کی جگہ فساد کا قائل ہے۔ اپنے فرقے کی برتری کا قائل ہے، دوسروں کو حقارت سے دیکھنے کا قائل ہے۔ پھر مزا یہ ہے کہ ایسی واہیات اور اہانت رسول سے بھرپور باتوں کو رسول اکرم سے منسوب کرتا ہے۔ نظریاتی اختلاف کی سزا موت قرار دیتا ہے اور شدت پسندی کا قائل ہے۔ ہر وہ شخص‌جو کسی طور اس کے نظریات کو قرآن کی روشنی سے پرکھ کر دکھا تا ہے وہ اس کو منکر الحدیث قرار دیتا ہے۔

اس نے دعوی کیا کہ طریقہ نماز کتب روایات میں ہے۔ جب اس سے حوالہ مانگا جاتا ہے تو غائب ہوجاتا ہے۔ اس کی بیان کردہ روایات جب قرآن کی روشنی سے ثابت نہیں ہوتی ہیں تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی جگہ اپنے استادوں کی پرستش کرتا ہے۔ یہ شخصیت پرستی کا قائل ہے ۔ یہ اس کی تحاریر سے نمایاں ہے۔ یہ وہی سوالات کرتا ہے جو یہودیوں کے استادوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام سے کئے تھے۔

ایک شخص ایک اسرائیلیات سے پر منکر الحدیث ہے اور تمام منکر الحدیث حساب کتاب سے دور بھاگتے ہیں۔ اس کے لئے صرف اپنی روایات قابل قبول ہیں کسی دوسرے کی حوالہ دی ہوئی احادیث قابل قبول نہیں ہوتی ہیں۔ بلکہ صرف وہ احادیث قابل قبول ہوتی ہیں جو ان کے استادوں کو یاد ہوں اور کہیں لکھی ہوئی نہ ہوں۔ اگر اس کے پاس یہ کتب کہیں‌موجود ہیں تو سامنے کیوں‌نہیں‌لاتا بھائی؟۔ سنت رسول اور قرآن کسی شیکسپیر کی کتب نہیں یہ تو وہ کتب ہیں جن سے اسلام کا قانونی نظام بنتا ہے۔ سنت رسول سنت جاریہ ہے اور قرآن کی حفاظت کا ذمہ اللہ تعالٰی نے خود لیا ہے۔ جو لوگ اس میں‌اپنی اسرائیلیات گھسیڑنا چاہتے ہیں اس کام میں 1150 سال سے مصروف ہیں اور الحمد للہ یہ دشمنان اسلام آج بھی ناکام ہیں۔ ان لوگوں کا یہ دھندہ ہے کہ بدی اور پر اہانت اصولوں کو رسول اللہ سے منسوب کریں - لیکن جب قرآن ایسے اصول کو دودھ کا دودھ پانی کا پانی کردیتا ہے تو ان کو منکر الحدیث کا الزام یاد آتا ہے۔

ایسے لوگوں کی یہ حرکتیں‌ اسلام سے پہلے سے جاری ہیں ۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں‌نے حدیث‌عیسٰی علیہ السلام لکھی اور حدیث موسٰی علیہ السلام لکھی ، اور اللہ کے پیغام کو ان حدیثوں‌سے اس طرح مجروح‌کیا کہ اللہ تعالی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا ۔ قرآن و سنت ایک عالمگیر پر امن نظام کی تشکیل کرتے ہیں جبکہ ان اسرائیلیات سے بھرپور لوگوں کا کام فساد ، نفرت، تشدد برپا کرنا ہے۔

ایک شخص نے آج تک جو روایات پیش کی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ ۔ مجبور عورت کو لونڈی بنا کر حرم میں داخل کرلو، کمزور مرد کو غلام بنالو۔ نظریاتی اختلافات پر قتل کردو۔ شوریٰ سے حکومت نہیں قائم کرو بلکہ فرد واحد کی حکومت قائم کرو۔ نابالغ لڑکی یعنی بچوں سے شادی کرلو۔ بناء‌ وجہ قتل کردو اور اس کا بہانہ اہانت رسول بنادو ۔ نفرت اور تشدد کو ہوا دو۔ فرقہ واریت یعنی جھگڑالو گروپس کا جھنڈا بلند رکو ۔ جہاد کو اسلامی فلاحی ریاست کا دفاع قرار نہیں دیتا بلکہ "نظریاتی اختلاف کی سزا موت"‌ قرار دیتا ہے۔ ان قابل شرم امور کو یہ رسول اللہ کی سنت قرآر دیتا ہے، اپنی من گھڑت روایات سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے ، جب اسکو قران کی روشنی میں ان من گھڑت روایات کو پرکھنےکو کہا جائے تو یہ لوگوں کو نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج کی مستند اور قابل قبول روایات میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ منکر الحدیث کی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

ثبوت ان باتوں‌کا یہ ہے کہ کسی بھی بندے کو قرآن پڑھا دو، اس کو انہی کتب روایات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و اعمال صاف نظر آجائیں‌ گے اور من گھڑت رویات الگ۔
دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ۔
لیکن ہر منکر الحدیث اور منکر القرآن کسی کو بھی قرآن پڑھانے کا قائل نہیں ہے۔ منکر الحدیث اور منکر القرآن ہے جو رسول کی مستند احادیث کا انکار کرتا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق ان کے اعمال و اقوال کو قرآن کی روشنی نہیں دیکھتا بلکہ اس اس کوشش میں مصروف رہتا ہے کہ کسی طور ساری کی ساری کتب روایات پر مسلمان کا ایمان دلوا دے ۔ وہ یہ منکر الحدیث اور منکر القرآن یہ بھول جاتا ہے ۔ کہ قرآن کے علاوہ کوئی کتاب عرصہ 250 سال تک موجود ہی نہیں تھی اور ان کتب پر ایمان لانے کا حکم نہ تو اللہ نے دیا اور نا ہی رسول اللہ نے دیا۔ تو کس منہہ سے اپنی بنائی ہوئی کتب پر پورا کا پورا ایمان لانے کا کہتے ہے؟

ایسے لوگ کتب روایات پر کامل ایمان رکھتے ہیں اور پھر بھی کہتے ہیں کہ ان کتب پر ایمان نہیں رکھتے ہیں‌- جی - یہ لوگ کنفیوژ ہیں خود ان کتب پر ایمان نہیں‌رکھتے اور دوسروں کو کہتے ہیں کہ ان کتب پر کامل ایمان رکھو۔

احمد رضا خان بریلوی کا یہ بیان دیکھئے ۔ کیا احمد رضا خان بریلوی بھی منکر الحدیث تھے؟

سوال نمبر12:مسلمانوں کے یہاں سب سے اول درجہ کی کتاب صحیح بخاری پھر صحیح مسلم ہے یا نہیں؟
جواب:بخاری و مسلم بھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ڈھائی سو برس بعد تصنیف ہوئیں۔مسلمانوں کے بہت سے فرقے انہیں مانتے ہی نہیں اور اس کے سبب وہ اسلام سے خارج نہ ہوئے۔ماننے والوں میں بہت سے لوگ کسی خاص کتاب کو سب سے اول درجہ کی نہیں کہتے۔اس کی مدار صحت سند پر رکھتے ہیں۔بعض جو ترتیب رکھتے ہیں وہ مختلف ہیں۔مشرقی صحیح بخاری کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی صحیح مسلم کو۔
اور حق یہ ہے کہ جو کچھ بخاری یا مسلم اپنی تصنیف میں لکھ گئے سب کو بے تحقیق مان لینا ان کی بری تقلید ہے جس پر وہابی غیر مقلدین جمع ہوئے ہیں حالانکہ تقلید کو حرام کہتے ہیں۔انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔

ایک انٹرویو میں‌ مولانا شاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن سے سوالات کئے گئے ۔کتاب کا نام اظہار الحق الجلی
۔۔۔۔

میرا خیال ہے کہ احمد رضا خان بریلوی کے جواب نمبر 12 سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کتب روایات کی کیا دینی یا شرعی حیثیت ہے۔ یہ متن دوبارہ لکھ رہا ہوں:

سوال نمبر12:مسلمانوں کے یہاں سب سے اول درجہ کی کتاب صحیح بخاری پھر صحیح مسلم ہے یا نہیں؟
جواب: (‌احمد رضا خاں)‌ :بخاری و مسلم بھی نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ڈھائی سو برس بعد تصنیف ہوئیں۔مسلمانوں کے بہت سے فرقے انہیں مانتے ہی نہیں اور اس کے سبب وہ اسلام سے خارج نہ ہوئے۔ماننے والوں میں بہت سے لوگ کسی خاص کتاب کو سب سے اول درجہ کی نہیں کہتے۔اس کی مدار صحت سند پر رکھتے ہیں۔بعض جو ترتیب رکھتے ہیں وہ مختلف ہیں۔مشرقی صحیح بخاری کو ترجیح دیتے ہیں اور مغربی صحیح مسلم کو۔
اور حق یہ ہے کہ جو کچھ بخاری یا مسلم اپنی تصنیف میں لکھ گئے سب کو بے تحقیق مان لینا ان کی بری تقلید ہے جس پر وہابی غیر مقلدین جمع ہوئے ہیں حالانکہ تقلید کو حرام کہتے ہیں۔انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔

مکمل کتب روایات پر ایمان مثل قرآن ایک خاص فرقہ کا نعرہ ہے جو منکر الحدیث اور منکر القرآن دونوں‌ہیں ۔ جو لوگوں کو منطقی وغیر منظقی دلائل سے مجبور کرتے ہیں کہ تمام کتب موجودہ روایات کو من و عن قبول کیا جائے، کسی وقل کو استعمال نہ کیا جائے اور ان پر ایمان مثل قرآن رکھا جائے۔ باوجود کافی ریسرچ کے مجھے کوئی عالم ایسا نہیں ملا جو یہ دعوی کرتا ہو۔ لیکن یہ منکر الحدیث اور منکر القرآن لوگ یہی دعوی کرتے ہیں کہ " کسی بھی روایت کو جھٹلایا نہیں جاسکتا " جب ان سے ریفرنس مانگا جاتا ہے کہ جناب کس عالم، پیشوا، امام یا پیغمبر نے حکم دیا تھا کہ " ان کتب روایات پر ایمان مثل القرآن "‌ رکھئے تو یہ اس ریفرنس کے فراہم کرنے کا وعدہ کرکے غائب ہوجاتے ہیں۔

بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔

ہم تمام روایات کو چاہے وہ کسی بھی کتاب میں ہوں، اسی نکتہ سے دیکھیں گے۔ مکمل من و عن کتب پر ایمان اس ایک مخصوص فرقہ کو مبارک ہو ۔ انہیں خدا اور رسول یاد نہیں آتے۔خدا اور رسول نے کہاں فرمایا ہے کہ کہ جو کچھ بخاری یا مسلم میں ہے سب صحیح ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالاء‌ حدیث رسول ایک شخص کو کیوں قبول نہیں‌ہے ؟ وہ اس کے معانی کیوں توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ اصول محدثین کا بنایا ہوا ہے۔ صاحبو یہ اصول خود صاحب القڑآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا ہے۔ لیکن ایک شخص اس اصول کو اپنے استادوں سے منسوب کرتا ہے اور رسول اکرم کی تکفیر کرتا ہے۔ اس لئے کہ وہ ایک منکر الحدیث ہے جس کا مشن ہی مسلمانوں‌ کو راہ راست سے بھٹکا کر ، قرآن و سنت سے ہٹا کر ان گنت کتب پر معصوم لوگوں کا یقین دلانا ہے ۔ ایسا کام شیطان کا بھٹکایا ہوا ہی کرسکتا ہے۔

منکر الحدیث کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ کبھی بھی کسی روایت کو قرآن سے نہیں‌پرکھے گا۔ اور کسی بھی ایسا کرنے والے کو منکر الحدیث قرار دینے کی کوشش کرے گا۔ تاکہ لوگ قرآن و سنت سے دور رہیں اور اس گروہ کی روایات پر یقین کرتے رہیں۔

منکر الحدیث اور منکر القرآن کی سب سے بڑی نشانی یہ ہے کہ وہ کہتا ہے کہ
1۔ قران مکمل نہیں ہے۔ کہ اللہ تعالی نے بہت سی مزید وحی نازل کی تھیں جو کہ قرآن میں‌درج ہونے سے رہ گئی تھیں، وہ کہتا ہےکہ یہ وحی 250 سال بعد ان کے نبیوں نے ڈھونڈھ ڈھونڈھ کر جمع کیں اور پھر یہ وحی ان کی کتب روایات کی شکل میں سامنے آئی تھیں۔ اس طرح منکر الحدیث اور منکر القرآن اللہ تعالی کو (نعوذ باللہ)‌ جھوٹا ثابت کرتا ہے کہ اللہ تعالی کا یہ دعوی غلط ہے کہ اس نے اس دین کو رسول اللہ کی زندگی میں ہی مکمل کردیاتھا۔ اور یہی منکر الحدیث یہ بھی قرارد دیتاہے کہ اللہ تعالی اپنے کلام کی حفاظت کرنے میں‌ناکام رہا ، اس لیے بہت ساری وحی 250 سال تک کھوئی رہی جس کو ان لوگوں کے نبیوں‌ نے مکمل کیا۔ لیکن ان سے بھی وہ اصل کتب کھو گئیں۔

2۔ منکر الحدیث و منکر القرآن کہتا ہے کہ نعوذ‌باللہ نبی اکرم کو جو وحی عطا ہوئی وہ تمام کی تمام وحی رسول اکرم قرآن میں شامل کرنے میں ناکام رہے ۔ لہذا یہ تمام وحی 250 سال بعد ان کے نبیوں‌نے جمع کی جو کی ان کی کتب رویات کی شکل میں آج تو موجود ہے لیکن اس کی اصل کتب بغداد میں تاتاریوں کے ہاتھوں ‌جل گئی۔ اس طرح یہ ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ نعوذ‌باللہ جھوٹے ہیں اور ان کا یہ دعوی غلط ہے کہ انہوں نے تمام کی تمام آیات قرآن میں لکھوادی تھیں۔ اس طرح یہ اللہ تعالی کو بھی جھوٹا ثابت کرتے ہیں کہ وہ نہ قرآن کی حفاظت کرسکا اور نہ ہی اصل کتب کی حفاظت کرسکا۔ نعوذ باللہ۔ بہت چالاکی سے یہ ان سب روایات کو رسول اللہ سے منسوب کردیتے ہیں ۔ یہ اس مذہب کے پیرو کار ہیں‌جو کہ شیطان نے بہکانے اور قرآن سے دور رکھنے کے لیے بنایا ہے۔

ہدایت دینے والی صرف خدا کی ذات ہے۔ اس کا پیغام، قران ہی اس قابل ہے کہ اس سے ہدایت حاصل کی جائے۔ یہی وہ کتاب ہے جو رسول اللہ نے پیش کی اور کسی دوسری کتاب پر ایمان رکھنے کا حکم نہیں دیا۔ لہذا قرآن پڑھئے۔ اللہ تعالی گواہی دیتے ہٰیں کہ یہ ایک شفاف اور آسان کتاب ہے۔ اور ہدایت کا سرچشمہ ہے۔ اور اس کتاب کا واحد مقصد اسلام یعنی سلامتی یعنی دنیا کو امن و آشتی و سلامتی کا گہوارا بنانا ہے۔ قرآن کے پڑھنے والے بہت جلد اس کے مخالف کام کرنے والوں کو پہچان جاتے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
اقتباس از " مراسلہ بالا " فاروق سرور خان
بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔


جناب ِ والا فاروق سرور خان صاحب
آداب و سلامِ مسنون
ایک بات کی وضاحت درکار تھی،
آپ نےمذکورہ بالا حدیث کا یہ ترجمہ کہاں پڑھ لیا کہ
"جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔ "
جو موافق ہو قبول کرلو ۔۔۔ جناب موافق و ناموافق کا یہاں کیا عمل اور پھر دوسری بات کہ "
اور اس کے علاوہ ہو تو اس کو ضائع کردیں " ذرا یہ تو کہیئے کہ یہاں لفظ "ضائع کرنا" عربی کی اس عبارت میں کس لفظ کا ترجمہ ہے۔۔۔

قبلہ ترجمہ من و عن ہوتا ۔۔۔ یہ عبارت جو آپ نے تحریر فرمائی ہے مترجم نے اپنی استعدادِ علمی کے مطابق حاشیہ تحریر فرمایا ہے۔۔

قبلہ اب ذرا یہ تو طے ہوجائے کہ "موافق" کیا ہے ؟
۔۔۔ واقعہ معراج کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ۔۔۔ موافق
بو جہل کا ذکر قرآن میں نہ ملے ، احادیث میں ملے ( تو کیا اس کردار کو " ضائع " خیال کرکے حذف کردیا جائے ؟؟)
بو بکر و عمر عثمان و علی کا ذکر بدرجہ اولیٰ قرآن میں نہ ملے ، احادیث کی کتب میں ملے۔۔۔" ضائع " ۔۔۔؟؟؟
واقعہ کربلا قرآن میں نہ ملے (صحابہ و تابعین کی) کی کتب میں ملے ۔۔۔ ضائع کردیا جائے۔۔؟؟
نماز کا حکم قرآن میں ۔۔۔۔ طریقہ احادیث میں ۔۔۔ ضائع کردیا جائے ؟؟؟


فاروق صاحب کیا کیا ضائع کیجئے گا۔۔۔ ؟؟
امید ہے آپ اس طرف کی غور کیجئے گا ۔۔۔۔

پیارے صاحب !
رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث یہ بھی موجود ہے کہ :
" میری" بات" اگر قرآن کے حکم سے متصادم ہو ۔۔۔ تو قرآن کو تھام لو ۔۔ "
یہ حدیث سر آنکھوں پر ۔۔۔ اس کے لوازمات پر بات کی جائے تو جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک عمل یا کوئی ایک
بات یہاں پیش کیجئے جو قرآن کے حکم اور متن کے متصادم ہو۔۔۔۔ ؟؟ لاکھ سر پٹک لیجئے نہیں ملے گی۔۔۔۔۔
یہ بات بھی ہمارے سمجھانے کیلئے ہے۔۔۔ کہ قرآن میں قادرِ مطلق ہمیں حکم دیتا ہے ۔۔ " جو( چیز/بات) تمہیں یہ (رسول) دیں ، لے لو !
اور جس سے منع فرمائیں باز رہو "

امید ہے آپ میرے اٹھائے نکات پر سیر حاصل جواز اور جوابات عطا کیجئے گا ۔۔۔ باقی گفتگو آپ کے مراسلے کے بعد۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق پڑھنے ، حق سمجھنے ، حق پر عمل کرنے اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے (اٰمین)

سگِ مدینہ
م۔م۔مغل
 

باذوق

محفلین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
باذوق کو شیعہ حضرات کے پاس موجود احادیث قابل قبول نہیں ۔ وہ ان کو جھٹلاتا ہے۔ صرف وہ احادیث اس کو قابل قبول ہوتی ہیں جن سے اس کے مطلب کی بات نکلتی ہو۔

باذوق کو جب بھی اس کے استادوں‌ کی استادی کا دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی قرآن و سنت کی روشنی میں‌پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کو یہ آیات فوراً‌ اس کی اپنی بنائی ہوئی احادیث کا انکار نظر آتے ہیں۔ اور وہ فوراً‌ ان آیات کی تکفیر اپنی من گھڑت روایات سے کرتا ہے۔

باذوق، غلامی کا قائل ہے۔ کم عمر اور نابلغ لڑکیوں کی شادی کا قائل ہے۔ یہ فرد د واحد کی حکومت کا قائل ہے۔ کمزور کا حق غصب کرنے کا قائل ہے اور مجبوروں کا تعلیم سے محروم رکھنے کا قائل ہے ، تشدد اور نفرت سے بھرپور روایات کا قائل ہے۔ یتیموں کا مال غصب کرنے کا قائل ہے۔ اپنے نظریات سے اختلاف کو واجب قتل سمجھتا ہے۔ اسلام ، سلامتی کا دوسرا نام ہے اور یہ دنیا میں‌ امن کی جگہ فساد کا قائل ہے۔ اپنے فرقے کی برتری کا قائل ہے، دوسروں کو حقارت سے دیکھنے کا قائل ہے۔ پھر مزا یہ ہے کہ ایسی واہیات اور اہانت رسول سے بھرپور باتوں کو رسول اکرم سے منسوب کرتا ہے۔ نظریاتی اختلاف کی سزا موت قرار دیتا ہے اور شدت پسندی کا قائل ہے۔ ہر وہ شخص‌جو کسی طور اس کے نظریات کو قرآن کی روشنی سے پرکھ کر دکھا تا ہے وہ اس کو منکر الحدیث قرار دیتا ہے۔

اس نے دعوی کیا کہ طریقہ نماز کتب روایات میں ہے۔ جب اس سے حوالہ مانگا جاتا ہے تو غائب ہوجاتا ہے۔ اس کی بیان کردہ روایات جب قرآن کی روشنی سے ثابت نہیں ہوتی ہیں تو بھاگ کھڑا ہوتا ہے۔ یہ اللہ کی جگہ اپنے استادوں کی پرستش کرتا ہے۔
یہ شخصیت پرستی کا قائل ہے ۔ یہ اس کی تحاریر سے نمایاں ہے۔
یہ وہی سوالات کرتا ہے جو یہودیوں کے استادوں نے حضرت عیسٰی علیہ السلام سے کئے تھے۔

باذوق ایک اسرائیلیات سے پر منکر الحدیث ہے
اگر اس کے پاس یہ کتب کہیں‌موجود ہیں تو سامنے کیوں‌نہیں‌لاتا بھائی؟۔

باذوق نے آج تک جو روایات پیش کی ہیں ان کا لب لباب یہ ہے کہ ۔ مجبور عورت کو لونڈی بنا کر حرم میں داخل کرلو، کمزور مرد کو غلام بنالو۔ نظریاتی اختلافات پر قتل کردو۔ شوریٰ سے حکومت نہیں قائم کرو بلکہ فرد واحد کی حکومت قائم کرو۔ نابالغ لڑکی یعنی بچوں سے شادی کرلو۔ بناء‌ وجہ قتل کردو اور اس کا بہانہ اہانت رسول بنادو ۔ نفرت اور تشدد کو ہوا دو۔ فرقہ واریت یعنی جھگڑالو گروپس کا جھنڈا بلند رکو ۔ جہاد کو اسلامی فلاحی ریاست کا دفاع قرار نہیں دیتا بلکہ "نظریاتی اختلاف کی سزا موت"‌ قرار دیتا ہے۔
ان قابل شرم امور کو یہ رسول اللہ کی سنت قرآر دیتا ہے، اپنی من گھڑت روایات سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کرتا ہے ، جب اسکو قران کی روشنی میں ان من گھڑت روایات کو پرکھنےکو کہا جائے تو یہ لوگوں کو نماز ، روزہ ، زکوۃ اور حج کی مستند اور قابل قبول روایات میں الجھانے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ منکر الحدیث کی بہت بڑی نشانیوں میں سے ایک ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ مندرجہ بالاء‌ حدیث رسول باذوق کو کیوں قبول نہیں‌ہے ؟ وہ اس کے معانی کیوں توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے؟ وہ کہتا ہے کہ یہ اصول محدثین کا بنایا ہوا ہے۔
صاحبو یہ اصول خود صاحب القڑآن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بنایا ہوا ہے۔ لہکن باذوق اس اصول کو اپنے استادوں سے منسوب کرتا ہے اور رسول اکرم کی تکفیر کرتا ہے۔
اس لئے کہ وہ ایک منکر الحدیث ہے جس کا مشن ہی مسلمانوں‌ کو راہ راست سے بھٹکا کر ، قرآن و سنت سے ہٹا کر ان گنت کتب پر معصوم لوگوں کا یقین دلانا ہے ۔ ایسا کام شیطان کا بھٹکایا ہوا ہی کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم !!
محبی محترم فاروق سرور خان صاحب۔
آپ کا تازہ ترین مراسلہ نظرنواز ہوا جس کو میں نے یہاں بھی محفوظ کر دیا ہے تاکہ بعد میں تفصیل سے جواب دے سکوں۔

فی الحال تو میں نے درج بالا اقتباس میں آپ کے "نفیس" قلم سے ادا ہوئے وہ دیدہ زیب فقرے شامل کر دئے ہیں جسے پڑھ کر میرے دوستوں کو شائد ہنسی آ رہی ہو لیکن مجھے تو بہرحال صاحبِ قلم پر اس لئے رحم آ رہا ہے کہ میں " الدین نصیحۃ " پر ایقان رکھتا ہوں اور آپ اور دیگر مسلمان بھائیوں کی خیرخواہی کا اپنا مشن حسبِ توفیقِ اللہ جاری ہی رکھوں گا ، ان شاءاللہ !

فی الحال مزید یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
مجھے یہاں اردو محفل کے ایک ناظمِ خاص کا ایک مراسلہ بڑی شدت سے یاد آ رہا ہے ۔۔۔۔ نجانے کیوں ؟
لیجئے ملاحظہ فرمائیں :
محترم باذوق صاحب

جو بھی بات ہو دلیل سے ہو تو دوسرے کو قائل کرنا آسان ہوتا ہے۔
آپ بھی اس محفل کے اتنے ہی محترم رکن ہیں جتنے کہ الف نظامی صاحب، فاروق سرور صاحب یا میں ہوں۔ ناظمین کسی کے طرفدار نہیں۔

ایسا کوئی بھی پیغام جو کسی کی ذات کے لیے دلازاری کا باعث ہو وہ قطعی قابل قبول نہیں ہے۔ اور اس بات کو آپ بھی مانیں گے کہ مخاطب کو ادب کے دائرے میں رہ کر بات کرنا چاہیے کہ مہذب لوگوں کی یہی نشانی ہے۔

اس بات کی آپ بھی گواہی دیں گے کہ فاروق صاحب نے کبھی بھی کسی بھی رکن کو بدتمیزی سے مخاطب نہیں کیا ۔۔۔۔
میں بصدِ احترام ناظمِ خاص صاحب سے دریافت کرنا چاہوں گا کہ ۔۔۔۔
جو زبان راقم الحروف کے خلاف ، درج بالا اقتباس میں محبی محترم فاروق صاحب نے استعمال کی ہے ، اسے غالباَ اردو محفل پر " تمیز سے خطاب" کرنے والی زبان کے طور پر یاد کیا جاتا ہے ؟؟؟؟!!

علاوہ ازیں ۔۔۔۔
اردو محفل کے ناظمین اور ایڈمن محترمین کو باذوق کا چیلنج ہے کہ ۔۔۔۔۔۔
اردو محفل پر باذوق کے کسی بھی مراسلے کا کوئی ایک ایسا فقرہ تلاش کر کے بتا دیں جس میں باذوق نے کسی رکن یا کسی فرد کا باقاعدہ نام لے کر تو تکار والا لہجہ یا تہذیب سے گری ہوئی زبان استعمال کی ہو !!
 

باذوق

محفلین
محترم ناظمین خاص اور ایڈمن محترمین سے درخواست ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔
جب لائیبریری ٹیم کے ایک "خاص" ممبر کو ایسی "نفیس" زبان کے استعمال کی اجازت مل سکتی ہے تو میرے دوست کارتوس خان پر سے بھی بین ہٹایا جانا چاہئے ، تاکہ ایسی ہی "نفیس" زبان میں ہمارے محبی محترم کو جواب دینے کا انہیں حق مل سکے۔ کیا میں‌ امید رکھوں کہ کارتوس خان پر سے بین ہٹا دیا جائے گا؟
اگر نہیں تو پھر فاروق صاحب کی باتوں کا جواب یہاں بھی آرام سے دیا جا سکتا ہے۔
 
ایک لفظ بھی تو تکار کا نہیں۔ جن الفاظ کا حوالہ دیا ہے وہ ایک شخص کے قلم سے ہی نکلے ہیں۔ جو شخص رسول اللہ پر الزام رکھتا ہو کہ رسول اکرم وحی کو مکمل طور پر قرآن میں داخل نہیں کرسکے۔ جو رسول اکرم کی حدیث کا دوبارہ سے انکار کرتا ہو۔ جو اللہ پر بہتان باندھتا ہو کہ قرآن کو محفوظ نہیں رکھ سکا۔ جو اللہ پر بہتان رکھتا ہو کہ اس کی وحی کو قران کے مکمل ہوجانے کے بعد ، اس کے اپنے نبیوں نے مکمل کیا۔ جو لڑکیوں کو تعلیم دینے سے صاف انکار کرتا ہو۔ جس کی راہ ظلم اور تشدد کی ہو اور اس کو میرے نبی سے منسوب کرتا ہو۔ جو گھما پھرا کر مسلمانوں کو قران کے علاوہ دوسری کتب ماننے کے لئے کہتا ہو۔ جو یہ دعوٰی کرتا ہو کہ تمام علماء‌ ان کتب روایات پر کامل ایمان رکھتے تھے۔ اور پھر اسکو جب کم از کم ایک مشہور عالم کا حوالہ دے دیا جائے تو اس کو میرے الفاظ میں ہتک اور دل آزاری ہی نظر آئے گی۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ جن باتوں کا میں نے حوالہ دیا ان میں سے آدھی باتیں تو اسی دھاگہ میں لکھی ہیں۔ یہ لوگ تشدد نفرت، نظریاتی اختلاف پر قتل یا کردار کشی کے قائل ہیں۔ اور اس کو سنت نبوی سے منسوب کرتے ہیں۔ ان کو سمجھانے کی کوشش جب قران سے حوالہ دے کر کی جاتی ہے تو یہ لوگوں کو بہکاتے ہیں، حوالہ دینے والے کو منکر الحدیث قرار دیتے ہیں اور مکاری سے ہنستے ہیں۔ اور جب ان کے قصور گنوائے جاتے ہیں تو شکوہ کرنا شروع ہوجاتے ہیں۔ اصولوں پر بحث چھوڑ کر کردار کشی کی مہم جس شخص نے شروع کی اس کو جواب کے لئے تیار رہنا چاہئے۔

بجائے اس کے کے رسول اللہ کے اپنے الفاظ مان لئے جائیں۔ یہاں‌بھی باز نہیں آتے ہیںاور رسول اکرم کی تکفیر جاری رکھی جاتی ہے، کچھ بس نہ چلتا تو ترجمہ کو بھونڈا قرار دینے کا سہارا لیاجاتا ہے تاکہ لوگوں کے دل میں شک پیدا ہو۔ مصر ہیں کہ جی یہ ترجمہ غلط ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ کس کی عربی " مظبوط" ہے سعودی عرب کے مفتی بن باز کی یا اس ترجمہ کو گھمانے پھرانے والے کی ؟ اس کا ترجمہ کم از کم دو عدد پڑھے لکھے افراد نے کیا ہے۔ جو کہ خود بھی عرب ہیں۔ ثبوت کے لئے دیکھئے بن باز کا یہ خط۔

http://www.openburhan.net/dastoor/hadith.pdf

بن باز 11 اپریل 1999 کو رسول اکرم کی اس حدیث کا حوالہ پوری حدیث لکھ کر دیتا ہے :‌ جس کا ترجمہ حامد علی المری من الریاض اور دکتور فیصل علی خالد، الھفوف نے کیا ہے۔
What is our Shelter "Quran"
Begin your book with the following Hadith of Rasool Allah(PBUH).
Whenever a hadith is presented to you in my name, verify it in th elight of the Quran, if it agrees with the Quran accept it if it is in conflict, discard it.​

جو شخص بھی قرآن کے مکمل نہ ہونے کا یقین رکھتا ہے۔ جو شخص بھی یہ الزام رکھتا ہے کہ رسول اکرم قران میں‌مکمل وحی داخل کرنے سے قاصر تھے۔ اور باقی وحی بعد میں لکھی گئی۔ جو شخص یہ یقین رکھتا ہے کہ اللہ کا کلام، رسول اکرم کے بعد کے نبیوں نے جمع کیا اور پھر اصل کتب بغداد میں ضائع ہوگئیں۔ ایسے منکر الحدیث، منکر القرآن ، منکر رسالت اور شاتم رسول کے لئے میرے دل میں کوئی عزت نہیں۔ اس کا اظہار کرنے میں مجھے کوئی عار نہیں۔ ایسے شخص کو میں صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ تمہارے نزدیک نظریاتی اختلاف کی سزا موت ہے لیکن اللہ تعالی اور اس کے نبی کے اصولوں کے مطابق،
لکم دینکم ولی دین۔
 

پپو

محفلین
اقتباس از " مراسلہ بالا " فاروق سرور خان
بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔


جناب ِ والا فاروق سرور خان صاحب
آداب و سلامِ مسنون
ایک بات کی وضاحت درکار تھی،
آپ نےمذکورہ بالا حدیث کا یہ ترجمہ کہاں پڑھ لیا کہ
"جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔ "
جو موافق ہو قبول کرلو ۔۔۔ جناب موافق و ناموافق کا یہاں کیا عمل اور پھر دوسری بات کہ "
اور اس کے علاوہ ہو تو اس کو ضائع کردیں " ذرا یہ تو کہیئے کہ یہاں لفظ "ضائع کرنا" عربی کی اس عبارت میں کس لفظ کا ترجمہ ہے۔۔۔

قبلہ ترجمہ من و عن ہوتا ۔۔۔ یہ عبارت جو آپ نے تحریر فرمائی ہے مترجم نے اپنی استعدادِ علمی کے مطابق حاشیہ تحریر فرمایا ہے۔۔

قبلہ اب ذرا یہ تو طے ہوجائے کہ "موافق" کیا ہے ؟
۔۔۔ واقعہ معراج کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ۔۔۔ موافق
بو جہل کا ذکر قرآن میں نہ ملے ، احادیث میں ملے ( تو کیا اس کردار کو " ضائع " خیال کرکے حذف کردیا جائے ؟؟)
بو بکر و عمر عثمان و علی کا ذکر بدرجہ اولیٰ قرآن میں نہ ملے ، احادیث کی کتب میں ملے۔۔۔" ضائع " ۔۔۔؟؟؟
واقعہ کربلا قرآن میں نہ ملے (صحابہ و تابعین کی) کی کتب میں ملے ۔۔۔ ضائع کردیا جائے۔۔؟؟
نماز کا حکم قرآن میں ۔۔۔۔ طریقہ احادیث میں ۔۔۔ ضائع کردیا جائے ؟؟؟


فاروق صاحب کیا کیا ضائع کیجئے گا۔۔۔ ؟؟
امید ہے آپ اس طرف کی غور کیجئے گا ۔۔۔۔

پیارے صاحب !
رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث یہ بھی موجود ہے کہ :
" میری" بات" اگر قرآن کے حکم سے متصادم ہو ۔۔۔ تو قرآن کو تھام لو ۔۔ "
یہ حدیث سر آنکھوں پر ۔۔۔ اس کے لوازمات پر بات کی جائے تو جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک عمل یا کوئی ایک
بات یہاں پیش کیجئے جو قرآن کے حکم اور متن کے متصادم ہو۔۔۔۔ ؟؟ لاکھ سر پٹک لیجئے نہیں ملے گی۔۔۔۔۔
یہ بات بھی ہمارے سمجھانے کیلئے ہے۔۔۔ کہ قرآن میں قادرِ مطلق ہمیں حکم دیتا ہے ۔۔ " جو( چیز/بات) تمہیں یہ (رسول) دیں ، لے لو !
اور جس سے منع فرمائیں باز رہو "

امید ہے آپ میرے اٹھائے نکات پر سیر حاصل جواز اور جوابات عطا کیجئے گا ۔۔۔ باقی گفتگو آپ کے مراسلے کے بعد۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق پڑھنے ، حق سمجھنے ، حق پر عمل کرنے اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے (اٰمین)

سگِ مدینہ
م۔م۔مغل
جناب م م مغل صاحب
انتہائی احترام کے ساتھ میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں
امید ہے آپ میرے بھائی بند ہیں اگر غور کریں گے تو بات کی اصل سمجھ میں آ جائے گی یہاں یعنی اس گفتگو میں بلکہ اس دھاگہ پر یہ میری پہلی پوسٹ ہے پہلے میں صرف اسے کبھی کبھار دیکھتا ضرور رہا ہوں
آپ نے کہا آپ لاکھ کوشش کریں آپ کو کچھ متصادم نہیں ملے گا میرے بھائی تصادم ادھر کہاں ڈھونڈتے ہو ادھر دیکھو کون کہتا ہے احدیث مبارکہ کو ضائع کر دو ہم تو امتی ہیں اس سوہنے کے دیوانے ہیں ہم تو آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی قدموں کی مٹی کو سرمہ بنانے والے ہیں آپ صل اللہ علیہ والہ وسلم کے قول کو کیسے ضائع کر سکتے ہیں بات تو صرف اتنی ہے کیا یہ قول رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم ہے بھی کہ نہیں
اب میں بتا تا ہوں تصادم کہاں ہو رہا ہے جتنے بھی فرقے اس امت کے بن گئے اس کی وجہ کبھی جاننے کی کوشش کریں سب فرقوں کے پاس اپنی مستند کتابیں ہیں احدیث شریفہ کی ایک فرقہ دوسرے کی کتابوں کو یا ان میں درج احدیث کو ضیف قرار دے کر عملا انکار کرتا ہے زبانی طور پر مانتا ہے عملی طور انکار کرتا ہے
فرق اگر لفظوں کا نہیں ہے تو وہ ایک دوسرے کی احدیث کے منکر ہی تو ہیں تبھی تو حالت یہ ہے ایک دوسرے کے خلاف کفر کے فتوے تک جارہی کر رکھے ہیں اور اگر کوئی اور آکر اصلاح کی کوشش کرتا ہے تو انکا رحدیث جیسے القابات سے نوازا جاتا ہے ورنہ مجھے بتائیں‌ تمام فرقوں میں‌اس قدر اختلاف کیوں ہے بھائی میرے اگر ہم آج بھی اس علم اور شعور کے دور میں ایک نہ ہوسکے اور ہمارے درمیان اختلافی امور کو زیر بحث نہ لایا گیا تو ہم اپنی شناخت کھو دیں گے یہاں‌کسی کو گن پوائنٹ پر کوئی بات نہیں منوائی جاسکتی صرف عقلی دلائل سے ہی قائل کیا جا سکتا ہے معجزات کی دینا اب وجود میں آرہی ہے یہاں روز ایک معجزہ ہو رہا ہے مگر ہم ہیں کہ حقیقت کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہو رہے
اور آپ کہتے ہیں تصادم کہاں ہے بھئی درخت تو پھل سے جانا جاتا ہے اور ہم کیا نقشہ پیش کر رہے ہیں
بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے
مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے
 

arifkarim

معطل
یہ ہے آج کل کے مسلمانوں کا اتحاد۔ باتیں جہاد کرنے کی ہیں اور عمل کھائے ہوئے درخت کی طرح کھوکلے۔ سب جانتے ہیں کہ ایسی مذہبی بحثوں‌کا کائی نتیجہ نہیں نکلتا، مگر اسکے باوجود فرقہ وارانہ پوسٹس یہاں‌مسلسل ہو رہی ہیں!
 
عارف۔ یہ صاحب اصولوں‌پر بات چھوڑ کر کردار کشی پر اترآنے اور پھر قرآن میں وحی کے مکمل طور پر نہ پائے جانے کا دعوی کرتے ہیں، رسول اللہ کو بہانے بہانے سے جھوٹا قرار دینے کا یہ طریقہ ایک مخصوس فرقہ کہ طریقہ ہے، جس سے میں پہلے سے واقف ہوں۔ جو لوگ رسول اللہ کو اس طرح جھٹلائیں کہ وہ مکمل وحی قرآن میں نہیں لکھوا سکے ، وہ رسول اللہ پر بہتان باندھتے ہیں۔ اور اللہ کو وحی کی حفاظت سے قاصر قرار دیتے ہیں۔ آپ یہ باتیں‌باذوق کے بیان میں‌پڑھ سکتے ہیں۔ یہ وجہ ہے میرے اس شخص کو الگ کرکے اور واضح‌طور پر سامنے لانے کی۔
ایسا نہیں ہے کہ مجھے غصہ آگیا ہے ۔ کوئی بھی ایسا شاتم رسول کو جو لکھ کر رسول اکرم کو جھٹلاتا ہو، کہ وہ وحی کو مکمل طریقے سے قرآن میں‌ لکھوا نہیں سکے اور اللہ وحی کی حفاظت نہیں کرسکا۔ میں‌کسی طور قابل عزت نہیں سمجھتا۔

کسی اصول کے بارے میں ‌پر بحث قابل عزت طریقے سے ہوسکتی ہے لیکن قرآن پر حملہ، رسول اللہ کی اہانت ، میری دانست میں کسی طور بھی کسی نرمی کا حقدار نہیں۔ اس لئے اس شخص کے ارادوں کو واضح طور پر سامنے کردیا ہے ۔

والسلام
 
اقتباس از " مراسلہ بالا " فاروق سرور خان
بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔


جناب ِ والا فاروق سرور خان صاحب
آداب و سلامِ مسنون
ایک بات کی وضاحت درکار تھی،
آپ نےمذکورہ بالا حدیث کا یہ ترجمہ کہاں پڑھ لیا کہ
"جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔ "
جو موافق ہو قبول کرلو ۔۔۔ جناب موافق و ناموافق کا یہاں کیا عمل اور پھر دوسری بات کہ "
اور اس کے علاوہ ہو تو اس کو ضائع کردیں " ذرا یہ تو کہیئے کہ یہاں لفظ "ضائع کرنا" عربی کی اس عبارت میں کس لفظ کا ترجمہ ہے۔۔۔

تذروہ کا ترجمہ Discard it کیا گیا ہے۔ آپ کے لئے اصل تحریر فراہم کی ہے ۔ میں نے اپنے مطابق اس عبارت کا ممکنہ ترجمہ اردو میں فراہم کیا ہے۔ آپ اس میں کسی ترمیم کے حق میں‌ہیں کہ اس سے مفہوم درست نہیں بنتا تو درست مفہوم فراہم کردیجئے۔ کوشش ہوگی کہ ایک قابل قبول مفہوم فراہم کیا جائے

قبلہ ترجمہ من و عن ہوتا ۔۔۔ یہ عبارت جو آپ نے تحریر فرمائی ہے مترجم نے اپنی استعدادِ علمی کے مطابق حاشیہ تحریر فرمایا ہے۔۔

آپ کا فرمایا ہوا یہ اصول درست ہے۔ لیکن استعداد علمی کا حاشیہ کسی دوسرے معنوں میں کس طور لیا جاسکتا ہے جب کہ بیان کرنے والا اور اس کا مترجم ایک مانا ہوا عالم ہے۔ مکمل عبارت یہاں‌ہے۔ جیسا کہ آپ سے عرض‌کیا کہ ایک بہتر ترجمہ فراہم کردیجئے۔
http://www.openburhan.net/dastoor/hadith.pdf


قبلہ اب ذرا یہ تو طے ہوجائے کہ "موافق" کیا ہے ؟
۔۔۔ واقعہ معراج کا ذکر قرآن میں بھی ہے اور احادیث میں بھی ۔۔۔ موافق
بو جہل کا ذکر قرآن میں نہ ملے ، احادیث میں ملے ( تو کیا اس کردار کو " ضائع " خیال کرکے حذف کردیا جائے ؟؟)
بو بکر و عمر عثمان و علی کا ذکر بدرجہ اولیٰ قرآن میں نہ ملے ، احادیث کی کتب میں ملے۔۔۔" ضائع " ۔۔۔؟؟؟
واقعہ کربلا قرآن میں نہ ملے (صحابہ و تابعین کی) کی کتب میں ملے ۔۔۔ ضائع کردیا جائے۔۔؟؟
نماز کا حکم قرآن میں ۔۔۔۔ طریقہ احادیث میں ۔۔۔ ضائع کردیا جائے ؟؟؟

برادر من ۔ طریقہ نماز اور نماز ادا کرنے کی ایک مکمل روایت کتب رویات سے فراہم کردیجئے تاکہ تمام فرقہ ایک ہی طریقہ سے نماز ادا کرسکیں، آپ کوعرض کر چکا ہوں کہ اس بحث کو نماز روزہ زکواۃ اور حج میں الجھائیے۔ ان روایات اور مستند حدیشوں پر میرا اور آپ کا کیا اختلاف ہے؟ جن باتوں‌پر اختلاف لکھا ہے ان پر غور فرمائیے۔ نیچے پھر لکھ رہا ہوں‌ کہ وہ امور کیا ہیں۔
فاروق صاحب کیا کیا ضائع کیجئے گا۔۔۔ ؟؟
امید ہے آپ اس طرف کی غور کیجئے گا ۔۔۔۔

جو کچھ قرآن سے موافق نہ ہوگا وہ اللہ کا فرمان نہیں ، اور کسی بھی اجتماعی قانون سازی یا اصول سازی کے لئے رسول اللہ کی درج کی ہوئی حدیث کی روشنی میں غیر موزوں‌ہے۔

پیارے صاحب !
رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کی حدیث یہ بھی موجود ہے کہ :
" میری" بات" اگر قرآن کے حکم سے متصادم ہو ۔۔۔ تو قرآن کو تھام لو ۔۔ "
یہ حدیث سر آنکھوں پر ۔۔۔ اس کے لوازمات پر بات کی جائے تو جناب رسول اللہ صل اللہ علیہ والہ وسلم کا ایک عمل یا کوئی ایک
بات یہاں پیش کیجئے جو قرآن کے حکم اور متن کے متصادم ہو۔۔۔۔ ؟؟ لاکھ سر پٹک لیجئے نہیں ملے گی۔۔۔۔۔
یہ بات بھی ہمارے سمجھانے کیلئے ہے۔۔۔ کہ قرآن میں قادرِ مطلق ہمیں حکم دیتا ہے ۔۔ " جو( چیز/بات) تمہیں یہ (رسول) دیں ، لے لو !
اور جس سے منع فرمائیں باز رہو "

آپ سے ان باتوں پر کوئی اختلاف نہیں۔ نہ آپ کی میری اس مد میں کوئی بات ہوئی اور نہ ہی میں نے آُ سے یا کسی سے اس مد میں کوئی اختلاف کیا۔ باذوق کی جن ضدوں پر میرا اعتراض ہے وہ نیچے لکھے ہیں ۔ آپ کو اگر ان میں سے کسی بات پر اختلاف ہے تو فرمائیے۔ جان کر خوشی ہوگی۔
امید ہے آپ میرے اٹھائے نکات پر سیر حاصل جواز اور جوابات عطا کیجئے گا ۔۔۔ باقی گفتگو آپ کے مراسلے کے بعد۔

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق پڑھنے ، حق سمجھنے ، حق پر عمل کرنے اور حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے (اٰمین)

آمین ثم آمین
سگِ مدینہ
م۔م۔مغل

برادر من مغل صاحب۔ سلام مسنون۔ یہی سوالات باذوق کے بھی تھے، ان کو کسی دوسرے پیرائے اور انداز میں جواب دیا ہے۔ ان کا مقصد الگ ہے لہذا ان کا جواب آپ کے جواب سے الگ ہے۔ آپ کے کچھ سوالات کے جواب میں نے لال رنگ سے دے دئے ہیں۔ انداز اور سوچ باعزت ہے۔ جن امور پر کوئی اختلاف نہیں ان پر بحث کی ضرورت نہیں سمجھتا۔

جن نکات پر بحث ہے وہ باذوق کے یہ یہ دعوٰی ہیں، جن کو ہ رسول اکرم سے منسوب کرتا ہے۔۔ ان میں سے ہر امر کو باذوق کسی نہ کسی مقام پر کہہ چکا ہے اور رسول اکرم سے منسوب کر چکا ہے۔
1۔ وحی مکمل طور پر قران میں داخل نہیں ہوسکی۔ رسول نعوذ باللہ جھوٹے ہیں
2۔ نعوذ باللہ اللہ قرآن کی حفاظت نہیں کرسکا۔ بیشتر وحی 250 سال بعد بقایا "نبیوں" نے کتب روایات کی شکل میں‌ محفوظ‌کی۔ - نعوذ‌باللہ اللہ جھوٹا ہے کہ دین کی تکمیل خظبۃ‌الوداع پر کردی تھی لیکن بھول گیا کہ بہت کچھ تو قرآن میں محفوظ ہی نہیں ہے۔
3۔ اللہ وحی کی ان کتب روایات کی حفاظت نہ کرسکا۔ وہ بغداد میں تاتاریوں کے ہاتھوں‌جل گئیں۔ لہذا اصل موجود نہیں ہیں ۔
4۔ کتب روایات پر کامل ایمان رکھنا ہے۔ اس کا ہر لفظ‌وحی ہے۔ ایک لفظ بھی نہیں‌بدلا۔ تعداد ، متن، ترتیب، اسناد سب محفوظ ہیں۔
5۔ کوئی عالم ایسا نہیں جو ان کتب روایات پر کامل ایمان نہ رکھتا ہو۔
6۔ اسلام کا مقصد امن و آشتی و سلامتی نہیں بلکہ اللہ کے نام پر قتال ہے۔
7۔ عورتوں کی تعلیم رسول اکرم نے منع فرمائی ہے۔
8۔ فرقہ بندی اللہ کی رحمت ہے۔
9۔ نظریاتی اختلاف کی سزا موت ہے۔ اہانت رسول کا الزام لگا کر کسی کو بھی قتل کیا جاسکتا ہے بنا مقدمہ
10۔ مجبور ملازمہ عورتوں کو غلام بنانا اور ان سے جنسی تعلق رکھنا جائز ہے۔
11۔ کم عمر نابالغ‌لڑکیوں سے شادی جائز ہے۔ یہ شخص سر پیر کا زور لگاتا ہے۔
12۔ مجبور و بیکس افراد مرد و عورت کو غلام بنانا جائز ہے۔
13۔ حکومت فرد واھد کی ہونی چاہئیے جس کا انتخاب علماء‌یعنی مولوی کریں۔
14۔ مولویوں‌کے علاوہ باقی سب جاہل ہیں۔ لہذا حق حکومت سے محروم ہیں۔
15۔ قرآن کی بیشتر آیات متروک ہیں۔
16۔ تمام علماء کا کتب روایات پر کامل ایمان ہے۔
17۔ ان کتب روایات کا ایک نقطہ بھی نہیں‌بدلا ہے۔
18۔ ان تمام کتب روایات پر مکمل ایمان لانا ضروری ہے۔ کسی بھی روایت کو قرآن کی روشنی میں دیکھنا غلط ہے۔

یہ ایک چھوٹی لسٹ ہے۔ بڑی لسٹ کی ضرورت ہوئی تو پیش کروں‌گا، جس کسی کو ان میں سے کسی بھی اصول پر اختلاف ہو وہ بتائیے۔ جن امور پر اختلاف نہیں ہے، جو قرآن سے ثابت ہیں، جیسے عبادات، نماز، روزہ ، حج، زکوٰۃ‌۔ ان رویات کو اس بحث کا حصہ بنانا کیوں‌ضروری ہے؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
السلام علیکم،
میری گزارش ہے کہ باذوق کو اپنی بات مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔ اور کسی کو ان سے اختلاف ہے تو ان کا نام لے کر ذاتیات پر اترے بغیر اس کا جواب دیا جائے۔
آپ سب صاحب علم لوگ ہیں، اور ہم آپ سے کچھ سیکھنے کی ہی توقع رکھتے ہیں۔ مجھے غیر ضروری طور پر انتظامی اختیارات کا استعمال پسند نہیں ہے لیکن ایسے موقعوں پر صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے۔
میں اس تھریڈ‌ سے کچھ پوسٹس کو حذف کر دوں گا تاکہ باذوق اپنی بات آگے بڑھا سکیں۔
 
دوستو اور صاحبو - سلام مسنوں ۔ میری ایک بہت ہی معمولی سی شرط ہے ۔ وہ یہ کہ اگر یہ صاحب ، یہ دو کام کرلیں تو میں‌اپنے تمام پیغامات کو دوبار ایڈٹ کرکے ان سے ڈایریکٹ خطاب ختم کردوں گا۔ اور اپنے تمام کے تمام سخت الفاط واپس لینے کے لئے تیار ہوں

یہ ماما جائے کہ :
1۔ قرآن مکمل ہے، تمام کی تمام وحی جو نازل ہوئی وہ اس میں موجود ہے۔ رسول اکرم نے اپنا پیغام اور مشن مکمل کیا تھا، ہر آیت جو نازل ہوئی قرآن میں باہتمام لکھوائی اور وحی قرآن کے علاوہ کسی دوسری کتاب میں موجود نہیں‌ہے۔
2۔ ان کا تمام متن مقصد کسی واضح اصول پر بحث کرتا ہے - ناکہ کسی بھی شخص سے نظریاتی اختلاف ہونے پر اس کو منکر الحدیث قرار دیناا اور کردار کشی کرنا ہے۔

یہ دو کام ہونے کی صورت میں‌میرا وعدہ ہے کہ وہ تمام ممکنہ جرائم جو ان دو باتوں سے جنم لیتے ہیں میں اپنے اس دھاگہ میں درج پیغامات سے مٹا کر ، ہمیشہ کی طرح قابل عزت انداز میں اصولوں‌پر بات چیت کروں‌گا۔
 

باذوق

محفلین
السلام علیکم،
میری گزارش ہے کہ باذوق کو اپنی بات مکمل کرنے کا موقع دیا جائے۔ اور کسی کو ان سے اختلاف ہے تو ان کا نام لے کر ذاتیات پر اترے بغیر اس کا جواب دیا جائے۔
آپ سب صاحب علم لوگ ہیں، اور ہم آپ سے کچھ سیکھنے کی ہی توقع رکھتے ہیں۔ مجھے غیر ضروری طور پر انتظامی اختیارات کا استعمال پسند نہیں ہے لیکن ایسے موقعوں پر صورتحال کو کنٹرول کرنے کے لیے کچھ کرنا پڑتا ہے۔
میں اس تھریڈ‌ سے کچھ پوسٹس کو حذف کر دوں گا تاکہ باذوق اپنی بات آگے بڑھا سکیں۔
وعلیکم السلام
آپ کا ایسا کہنا آپ کی بالغ نظری اور وسیع الذہنی کی نشانی ہے کہ " نام لے کر ذاتیات پر اترے بغیر اختلاف کا اظہار کیا جا سکتا ہے"
غالباً آپ کی اس ہدایت پر ہی محبی فاروق سرور خان نے اپنی پوسٹس سے میرا نام ہٹا دیا ہے۔ ورنہ میں نے محفل کے شکایت سیکشن میں احتجاجی تحریر لگانے کے بارے میں سوچ رکھا تھا۔
اگر آپ کا ماننا ہے کہ یہاں سب صاحبِ علم لوگ ہیں تو پھر اس تھریڈ سے کسی بھی پوسٹ کو حذف مت کیجئے گا ، مہربانی ہوگی۔
الحمدللہ میں فاروق سرور خان صاحب کے ایک ایک فقرے کا مہذبانہ جواب دینے کی استطاعت رکھتا ہوں اور یقیناً دوں گا۔ دیر سویر ہو سکتی ہے جو میری بیشمار مصروفیات کا عین تقاضا بھی ہے !
 

arifkarim

معطل
وعلیکم السلام
آپ کا ایسا کہنا آپ کی بالغ نظری اور وسیع الذہنی کی نشانی ہے کہ " نام لے کر ذاتیات پر اترے بغیر اختلاف کا اظہار کیا جا سکتا ہے"
غالباً آپ کی اس ہدایت پر ہی محبی فاروق سرور خان نے اپنی پوسٹس سے میرا نام ہٹا دیا ہے۔ ورنہ میں نے محفل کے شکایت سیکشن میں احتجاجی تحریر لگانے کے بارے میں سوچ رکھا تھا۔
اگر آپ کا ماننا ہے کہ یہاں سب صاحبِ علم لوگ ہیں تو پھر اس تھریڈ سے کسی بھی پوسٹ کو حذف مت کیجئے گا ، مہربانی ہوگی۔
الحمدللہ میں فاروق سرور خان صاحب کے ایک ایک فقرے کا مہذبانہ جواب دینے کی استطاعت رکھتا ہوں اور یقیناً دوں گا۔ دیر سویر ہو سکتی ہے جو میری بیشمار مصروفیات کا عین تقاضا بھی ہے !

پہلے بھی اسی طرح کے بحث و مباحثہ کی وجہ سے بعض دوسرے بہت ضروری پراجیکٹس رک گئے تھے۔ جب ہم مسلمان اتنے فرقوں میں بٹے ہیں تو پھر یہ اسلامی سیکشن بنانے کا مقصد ہی کیا ہے؟۔ شیعے سنیوں کو برداشت نہیں کرتے۔ سنی وہابیوں کو نہیں کرتے۔ اہل حدیث ایک طرف، سپہ صحابہ ایک طرف،۔۔۔ کیا ہم سب اس مختصر سی زندگی کو اسی طرح اسلام میں اختلافی مسائل پر لڑتے مرتے گزار دیں گے یا اسلامی تعلیمات پر عمل بھی کریں گے؟
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔


جی فاروق صاحب اس کا ریفرنس اگر مل جائے ؟
 

arifkarim

معطل
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔


یہی تو لڑائی ہے بھائی جان: کونسی حدیث قرآن کے مطابق ہے، اسکا فیصلہ کونسا اسلامی فرقہ کرے گا؟ کیونکہ کوئی بھی فرقہ دوسرے فرقے کے عقائد سے 100 فیصد متفق نہیں!
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم
بنیادی امر یہ ہی کہ رسول اللہ کا فرمان ہے کہ
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
"اذا روی عنی حدیث فاعر ضوہ علی کتاب اللہ فان وافق فاقبلوہ و الا تذروہ "
ترجمہ: جب بھی کوئی حدیث آپ کو پیش کی جائے، میری (رسول صلعم) طرف سے، تو اس کی تصدیق قران کی روشنی (ضو علی کتاب اللہ) میں کرلیں۔ جو یقینی طور پر قرآن سے موافق ہو قبول کرلو اور اس کو علاوہ ہو تو اس کو ضایع کردیں۔


جی فاروق صاحب اس کا ریفرنس اگر مل جائے ؟
فی الحال یہ ریفرنس موجود ہے۔ بذات خود پڑھی ہے، لیکن آن لائن ریفرنس نہیں ہے ڈھونڈھتا ہوں۔ کتاب میں بھی دیکھنا پڑے گا۔ اس صفحہ پر بن باز اور دو مزید مسلمانوں کے دستخط ہیں۔ اس کا مطلب ہےکہ میرے علاوہ تین مزید اشخاص بھی چیک کرچکے ہیں۔
http://www.openburhan.net/dastoor/hadith.pdf

اسی مضمون سے ملتی جلتی ایک حدیث انگریزی میں‌
http://www.usc.edu/dept/MSA/fundamentals/hadithsunnah/muslim/042.smt.html#042.7147

اسی مضمون سے ملتی جلتی حدیث عربی میں۔
[ARABIC] ‏حدثنا ‏ ‏هداب بن خالد الأزدي ‏ ‏حدثنا ‏ ‏همام ‏ ‏عن ‏ ‏زيد بن أسلم ‏ ‏عن ‏ ‏عطاء بن يسار ‏ ‏عن ‏ ‏أبي سعيد الخدري ‏
‏أن رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏قال ‏ ‏لا تكتبوا عني ومن كتب عني غير القرآن فليمحه وحدثوا عني ولا حرج ومن كذب علي ‏ ‏قال ‏ ‏همام ‏ ‏أحسبه قال متعمدا ‏ ‏فليتبوأ ‏ ‏مقعده من النار[/ARABIC]
http://hadith.al-islam.com/Display/Display.asp?Doc=1&Rec=6851
مزید اس سے ملتی جلتی احادیث کے لئے دیکھئے۔
1۔ اصول الحنیفیہ۔ الصحیح من السیرت النبی۔ جلد -1 صفحہ 30
2۔ صحیح مسلم جلد -1 سفحہ 211، حدیث نمبر 594۔ مکتبہ عدنان، بیروت، 1967

مثال:
درج ذیل روایت کو دیکھئے۔ میں‌اس کو نہ صحیح کہنے کی جراءت کررہا ہوں نہ ہی ضعیف۔ بس سوال ہے آپ سب سے۔ کہ اس روایت کا قرآن سے ریفرنس کیا کوئی دے سکتا ہے؟‌ اور مزید یہ کہ خلافت ختم ہوئے زمانہ گذر گیا لیکن کیا خلافت ختم ہونے سے پہلے ، قریش سے بارہ خلیفہ گذرے ہیں؟ ان کے نام کیا تھے، کوئی صاحب لسٹ فراہم کردی تو عنایت ہوگی۔
http://hadith.al-islam.com/bayan/display.asp?Lang=eng&ID=1060

Jabir bin Samurah, may Allah be pleased with him, reported:
I joined the company of the Holy Prophet (may peace be upon him) with my father and I heard him say: This Caliphate will not end until there have been twelve Caliphs among them. Then he (the Holy Prophet) said something that I could not follow. I said to my father: What did he say? He said: He has said: All of them will be from the Quraish.
Hadith number in Sahih Muslim [Arabic only]: 3393

عربی کا لنک
http://hadith.al-islam.com/Display/...c=-1&SID=-1&pos=&CurRecPos=&dsd=&ST=&Tag=&SP=

اس مثال کا یہ مقصد ہے کہ روایات کی کتب میں مجھے کیا مسئلہ نظر آتا ہے۔ وہ یہ کہ ہماری کتب صرف ہم کو ہی پیاری نہیں رہی ہیں بلکہ بایر کے لوگ بھی ان کتب پر اپنا ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں۔
 

مغزل

محفلین
وہ یہ کہ ہماری کتب صرف ہم کو ہی پیاری نہیں رہی ہیں بلکہ بایر کے لوگ بھی ان کتب پر اپنا ہاتھ صاف کرتے رہے ہیں۔


[FONT="Urdu_Umad_Nastaliq"]فاروق صاحب۔۔
واہ واہ کیا جملہ استعمال کیا ہے ۔۔۔ واہ واہ سبحان اللہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی غیر مسلم شاعر نے کہا تھا ۔۔۔ مسلم کا محمد پہ اجارہ تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ رحمتِ عالم ہے ، تمھارا تو نہیں ہے۔۔۔۔۔۔۔۔
[/FONT]
 
Top