باذوق
محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ !
منکرِ حدیث کو منکرِ حدیث کیوں کہا جاتا ہے ؟ منکرین حدیث کی شناختی علامات کیا ہیں ؟
محترم عطاءاللہ ڈیروی کے ایک مفید مضمون سے ردّ و بدل اور شکریہ کے ساتھ استفادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماشاءاللہ سے اردو محفل میں اتنی نامی گرامی باشعور و عقلمند ہستیاں بیٹھی ہیں ۔۔۔ اب کیا کسی میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ ذرا سا ہمت کر کے پوچھ لیں کہ :
محبی محترم ! جن روایات یا جن کتابوں کی صداقت کے آپ انکاری ہیں تو ذرا ہم کو بھی بتائیں کہ وہ "سنت" پھر کہاں ملے گی جس کا نام آپ "قرآن و سنت" کی ترکیب کے سہارے لیتے ہیں؟؟
کوئی نہ کوئی کتاب میں تو وہ سنت درج ہوگی ، پھر وہ کتاب آخر ہے کہاں؟
کیونکہ احادیث کی ساری ہی معتبر کتب مثلاً (جن کا ذکر اسی تھریڈ میں کیا گیا ہے ، جس سے درج بالا اقتباس اٹھایا گیا ہے) ۔۔۔۔ :
صحیحین ، سنن اربعہ ، مشکوٰة ، مصنف ابی شیبہ ، بیھقی وغیرہ ۔۔۔۔
تو آپ جناب کو "پچھلی چند صدیوں میں گھڑی گئی" نظر آتی ہیں۔
پھر سنت کی وہ کتاب یا کتب ہیں کہاں جس سے آپ محترم "سنت" کو اخذ کرتے ہیں؟؟
اور تو اور ۔۔۔ مزے کی ایک بات مزید پڑھئے، فرمایا جاتا ہے :
کون سی دلیل ؟؟ کہاں کی دلیل ؟؟
ساری امتِ مسلمہ کے نزدیک (قرآن کے بعد) صحیح احادیث اور کتبِ احادیث ہی دلیل ہیں تو ہم ان کی دلیل نہیں دیں گے تو کیا ٹونی اور بش کے اقوالِ زریں پیش فرمائیں؟؟
کمال کی بات کرتے ہیں جنابِ عالی !!
کارل مارکس کی "داس کپیٹل" یا شکسپئر کی "رومیو جولیٹ" سے کوئی اقتباس آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو کیا وہاں بھی آپ یہی فرمائیں گے کہ :
بطورِ ثبوت اصل کتاب پیش فرمائیے جو مصنف کے اپنے ہاتھوں لکھی گئی ہو!
بتائیے ایسا اعتراض کرنے والے کو کیا کہا جائے؟ یہ بچکانہ اعتراض ہے یا عاقلانہ؟؟
جب ہم میں سے ہر کسی کو یقین ہے کہ "داس کپیٹل" یقیناً کارل مارکس نے لکھا ہے اور "رومیو جولیٹ" شیکسپئر کی تحریر کردہ ہے تو اس بات پر کیوں یقین نہیں ہے کہ امام بخاری نے "صحیح بخاری" تالیف کی یا امام مسلم نے "صحیح مسلم" یا امام ترمذی نے "جامع ترمذی" وغیرہ وغیرہ ؟؟
اپنے اسلاف پر تو ایسا شک و شبہ اور غیروں پر اتنا اعتماد ۔۔۔۔ ؟؟
کوئی تو بتائے کہ یہ کون سے رحجان کی آبیاری کی جا رہی ہے ؟؟؟
عالمی کلیہ تو یہ ہے کہ :
کسی بھی چیز کواس کی اصل حیثیت میں تسلیم نہ کرنا ہی درحقیقت اس چیز کا انکار ہوتا ہے !
مثلاً : ایک شخص اپنی اولاد کو اپنی اولاد ماننے کو تیار نہ ہو بلکہ بھانجا ، بھتیجا یا اور کوئی بھی رشتہ جو آپ منوانا چاہیں، ماننے کو تیار ہو تو کیا اس شخص کو اپنی اولاد کا منکر نہیں کہا جائے گا ؟؟
اسی طرح جب منکرین حدیث ان احادیث کی کتابوں کوحدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے ماننے کو تیار نہیں ہیں تو انہیں منکرحدیث نہیں تو اور کیا کہا جائے گا ؟؟!!
قرآن کریم بنیادی طور پر عقیدہ اوراسلام کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے والی کتاب ہے اسی لئے احکامات سے متعلق آیت اکثر و بیشتر مجمل ہیں جن پرعمل کرنے کےلئے کسی نہ کسی درجہ میں احادیث نبویہ کی جانب رجوع کرنا از بس ضروری ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب انکار حدیث میںمبتلا افراد کو "منکرین احادیث" کے لقب سے پکار جائے تو وہ اکثر وبیشتر برا مان جاتے ہیں کیونکہ روزمرہ کے معمولات میں بے شمار ایسے معاملات آتے ہیں جہاں وہ بھی احادیث پرعمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو مجبورپاتے ہیں چناچہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں "منکر حدیث" نہ کہا جائے بلکہ سیرت طیبہ کا محافظ یا ناموس رسالت کی حفاظت کرنے والا کہا جائے۔
ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔
منکرین حدیث کی "شناختی علامات" کو واضح طور پر بیان کردیا جائے تاکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی سبب انکار حدیث کے جراثیم سے متاثر ہوا ہے اپنا محاسبہ خود کرلے اور اس گمراہی سے تائب ہوجائے ۔۔۔۔
اور
عوام الناس منکرین حدیث کو ان کی شناختی علامات کے ذریعہ پہچان کر ان کے بچھائے ہوئے خوبصورت جال میں گرفتار ہونے سے محفوظ رہ سکیں !!
اس سلسلہ میں سب سے پہلی علامت :
۔۔۔ وہی ہے جس کا کچھ تذکرہ سطوربالا میں بھی کیا گیا ہے یعنی ناموس قرآن یا ناموس رسالت کی دہائی دے کر کسی صحیح حدیث کوتسلیم کرنے سے انکار کرنا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ اصولِ حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جو قرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہو قابل ردّ ہے۔
اوریہ اصول منکرین حدیث کا بنایا ہوا نہیں بلکہ محدثین کا بنایا ہوا ہے اور محدثین کا زہد و تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے
یعنی آج جوصحیح احادیث منکرین حدیث کو قرآن یا شان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کا صحیح قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یا شان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم وفراست سے بعید ہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں
ورنہ احادیث کی تخریج اور تشریح کا کام جو تقریباً ہر صدی میں جاری رہا ہے اس میں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاً صحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ، علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ، شرح صحیح بخاری للقسطلانی اور شرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طورپر قابل ذکرہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے یا شان رسالت کے خلاف ہے بلکہ ایسی کوئی حدیث اگر نظر بھی آئی تو صرف منکرین حدیث کو اس دور میں نظر آئی جنہیں حدیث ، اصول حدیث اور رواۃ حدیث کی حروف ابجد بھی معلوم نہیں ہے!!
منکرین حدیث کی دوسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
قرآن کے مفسربننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ، رواۃ حدیث کی اقسام اور محدثین کی اصطلاحات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کو احادیث کے قبول و رد کا معیار بناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال قطعی غلط اور بے بنیاد اور لغو اس لیے بھی ہے کہ اس طرح تو علم اسماء رجال کی ہزاروں کتب بیکار و غیر ضروری قرار پا جاتی ہیں۔
منکرین حدیث کی تیسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث کے ذخیروں اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جوکسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو یہ حضرات صحیح حدیث کوچھوڑ کر بے سند تاریخی روایت کو اختیار کر لینے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ جس کی ایک واضح مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر والے دھاگے میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کسی T.O. صاحب کی تحقیق کے ذریعے تاریخ و سیرت کی کتب کے بےسند حوالہ جات کو صحیح احادیث کے مقابلے میں پیش کیا جا رہا ہے۔
منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں
ایسے ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنا بڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کو پیش کیا کہ یہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے ، تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں
اور
محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کا زہد و تقویٰ اورعلمیت مسلمہ تھی
مزید برآں جن لوگوں نے احادیث کو "ظنی" کہا ہے ان لوگوں کی مراد اس سے وہ ظن نہیں جو منکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد "حق الیقین" سے کم تر درجہ کا یقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاً :
سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ٭
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ٭
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 45-46 )
اﷲ سے مدد طلب کرو صبراورنماز کے ذریعہ اور بے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگران لوگوں پر نہیں جو اﷲ سے ڈرتے ہیں ، ( اﷲ سے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو اﷲ سے ملاقات اور اس کی طرف لوٹ جانے کا ظن رکھتے ہیں
صاف ظاہرہے کہ یہاں "ظن" سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور اﷲ سے ملاقات پر یقین رکھنا اسلام کاایک لازمی جزو ہے
پس سورۃ نجم کی آیت میں مذکور ظن کواحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لاگو کرنا محض دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ دین اسلام میں بہت سے امور ایسے ہیں جن کا فیصلہ محض ظن کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے مثلاً چوری ، زنا اور قتل وغیرہ کے مقدمہ میں اکثراوقات فیصلہ اشخاص کی گواہی پر ہی کیا جاتا ہے اور گواہی کا ظنی ہونا اظہرمن الشمس ہے
پھران مقدمات میں گواہ کے جھوٹے ہونے کا امکان بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے اس کے باوجود جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ سب کے لئے قابل قبول ہوتا ہے اور نافذ العمل سمجھا جاتا ہے
جبکہ رواۃ حدیث کا جھوٹے ہونے امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ محدثین نے اس سلسلہ میں جو محکم اصول بنائے ہیں اور رواۃ حدیث کے حالات و کردار کی جس اندازمیں چھان پھٹک کی ہے اس سے سب واقف ہیں پس معلوم ہوا کہ اصولی طورپر احکامات اورمعاملات کے ضمن میں ظن حق کو ثابت اورغالب کرنے کےلئے قابل قبول اورمفید ہے یعنی احادیث کو اگر ظنی کہا بھی جائے تب بھی احادیث امور دین میں دلیل و حجت ہیں۔
منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ :
(۔۔۔۔ جاری ہے)
منکرِ حدیث کو منکرِ حدیث کیوں کہا جاتا ہے ؟ منکرین حدیث کی شناختی علامات کیا ہیں ؟
محترم عطاءاللہ ڈیروی کے ایک مفید مضمون سے ردّ و بدل اور شکریہ کے ساتھ استفادہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درج بالا اقتباس ملاحظہ فرمائیں۔ پھر یہ بھی دیکھئے کہ صاحبِ اقتباس آج کل اپنی باتوں میں صرف "قرآن" نہیں کہتے بلکہ "قرآن و سنت" کہتے ہیں!۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ من گھڑت کہانیاں جو آپ یہاں لکھ مارتے ہیں اپنا اور باقی سب کا وقت برباد کرتے ہیں۔
اگر ان کہانیوں کی کوئی حقیقت ہے تو لائیے ، اصل مصنف کی کتاب۔ یا پھر صرف 1200 یا 1000 سال پرانی ہی کوئی کتاب دکھا دیجئے۔ کیوں آپ ان لوگوںکی طرف من گھڑت کہانیاں منسوب کرتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں ان میں سے بیشتر کہانیاں پچھلی چند صدیوں میں گھڑی گئی ہیں؟
اگر کوئی اصل کتب ہوتیں تو آج ان کا انٹرنیٹ پر جمعہ بازار لگا ہوتا۔ سب بھائی بند ان کے حوالے دے رہے ہوتے۔ کم از کم کسی اصل کتاب کی موجودگہ کی تصدیق تو کرلیا کریں۔ ان سنی سنائی کہانیوںکی ترویج سے پہلے۔ ذرا غور سے دیکھئے یہ تمام مصنف صدیوں بعد آئے اور ان کی اصل کتب بھی دستیاب نہیں ہیں ، پھر آپ اتنے وثوق سے یہ من گھڑت کہانیاں کیسے پیش کرتے ہیں۔ عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہوئے آپ کوئی پچھتاوا محسوس نہیں کرتے؟
ماشاءاللہ سے اردو محفل میں اتنی نامی گرامی باشعور و عقلمند ہستیاں بیٹھی ہیں ۔۔۔ اب کیا کسی میں اتنی بھی ہمت نہیں ہے کہ ذرا سا ہمت کر کے پوچھ لیں کہ :
محبی محترم ! جن روایات یا جن کتابوں کی صداقت کے آپ انکاری ہیں تو ذرا ہم کو بھی بتائیں کہ وہ "سنت" پھر کہاں ملے گی جس کا نام آپ "قرآن و سنت" کی ترکیب کے سہارے لیتے ہیں؟؟
کوئی نہ کوئی کتاب میں تو وہ سنت درج ہوگی ، پھر وہ کتاب آخر ہے کہاں؟
کیونکہ احادیث کی ساری ہی معتبر کتب مثلاً (جن کا ذکر اسی تھریڈ میں کیا گیا ہے ، جس سے درج بالا اقتباس اٹھایا گیا ہے) ۔۔۔۔ :
صحیحین ، سنن اربعہ ، مشکوٰة ، مصنف ابی شیبہ ، بیھقی وغیرہ ۔۔۔۔
تو آپ جناب کو "پچھلی چند صدیوں میں گھڑی گئی" نظر آتی ہیں۔
پھر سنت کی وہ کتاب یا کتب ہیں کہاں جس سے آپ محترم "سنت" کو اخذ کرتے ہیں؟؟
اور تو اور ۔۔۔ مزے کی ایک بات مزید پڑھئے، فرمایا جاتا ہے :
حضرات !!۔۔۔ دلیل کا جواب جب دلیل کی بجائے کچھ اور ہو تو معاملہ ہی ختم ہو جاتا ہے
کون سی دلیل ؟؟ کہاں کی دلیل ؟؟
ساری امتِ مسلمہ کے نزدیک (قرآن کے بعد) صحیح احادیث اور کتبِ احادیث ہی دلیل ہیں تو ہم ان کی دلیل نہیں دیں گے تو کیا ٹونی اور بش کے اقوالِ زریں پیش فرمائیں؟؟
کمال کی بات کرتے ہیں جنابِ عالی !!
کارل مارکس کی "داس کپیٹل" یا شکسپئر کی "رومیو جولیٹ" سے کوئی اقتباس آپ کے سامنے پیش کیا جائے تو کیا وہاں بھی آپ یہی فرمائیں گے کہ :
بطورِ ثبوت اصل کتاب پیش فرمائیے جو مصنف کے اپنے ہاتھوں لکھی گئی ہو!
بتائیے ایسا اعتراض کرنے والے کو کیا کہا جائے؟ یہ بچکانہ اعتراض ہے یا عاقلانہ؟؟
جب ہم میں سے ہر کسی کو یقین ہے کہ "داس کپیٹل" یقیناً کارل مارکس نے لکھا ہے اور "رومیو جولیٹ" شیکسپئر کی تحریر کردہ ہے تو اس بات پر کیوں یقین نہیں ہے کہ امام بخاری نے "صحیح بخاری" تالیف کی یا امام مسلم نے "صحیح مسلم" یا امام ترمذی نے "جامع ترمذی" وغیرہ وغیرہ ؟؟
اپنے اسلاف پر تو ایسا شک و شبہ اور غیروں پر اتنا اعتماد ۔۔۔۔ ؟؟
کوئی تو بتائے کہ یہ کون سے رحجان کی آبیاری کی جا رہی ہے ؟؟؟
عالمی کلیہ تو یہ ہے کہ :
کسی بھی چیز کواس کی اصل حیثیت میں تسلیم نہ کرنا ہی درحقیقت اس چیز کا انکار ہوتا ہے !
مثلاً : ایک شخص اپنی اولاد کو اپنی اولاد ماننے کو تیار نہ ہو بلکہ بھانجا ، بھتیجا یا اور کوئی بھی رشتہ جو آپ منوانا چاہیں، ماننے کو تیار ہو تو کیا اس شخص کو اپنی اولاد کا منکر نہیں کہا جائے گا ؟؟
اسی طرح جب منکرین حدیث ان احادیث کی کتابوں کوحدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت سے ماننے کو تیار نہیں ہیں تو انہیں منکرحدیث نہیں تو اور کیا کہا جائے گا ؟؟!!
قرآن کریم بنیادی طور پر عقیدہ اوراسلام کے بنیادی اصولوں کو بیان کرنے والی کتاب ہے اسی لئے احکامات سے متعلق آیت اکثر و بیشتر مجمل ہیں جن پرعمل کرنے کےلئے کسی نہ کسی درجہ میں احادیث نبویہ کی جانب رجوع کرنا از بس ضروری ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب انکار حدیث میںمبتلا افراد کو "منکرین احادیث" کے لقب سے پکار جائے تو وہ اکثر وبیشتر برا مان جاتے ہیں کیونکہ روزمرہ کے معمولات میں بے شمار ایسے معاملات آتے ہیں جہاں وہ بھی احادیث پرعمل کرنے کے لئے اپنے آپ کو مجبورپاتے ہیں چناچہ وہ چاہتے ہیں کہ انھیں "منکر حدیث" نہ کہا جائے بلکہ سیرت طیبہ کا محافظ یا ناموس رسالت کی حفاظت کرنے والا کہا جائے۔
ضروری سمجھا جا رہا ہے کہ ۔۔۔۔
منکرین حدیث کی "شناختی علامات" کو واضح طور پر بیان کردیا جائے تاکہ ہر وہ شخص جو کسی بھی سبب انکار حدیث کے جراثیم سے متاثر ہوا ہے اپنا محاسبہ خود کرلے اور اس گمراہی سے تائب ہوجائے ۔۔۔۔
اور
عوام الناس منکرین حدیث کو ان کی شناختی علامات کے ذریعہ پہچان کر ان کے بچھائے ہوئے خوبصورت جال میں گرفتار ہونے سے محفوظ رہ سکیں !!
اس سلسلہ میں سب سے پہلی علامت :
۔۔۔ وہی ہے جس کا کچھ تذکرہ سطوربالا میں بھی کیا گیا ہے یعنی ناموس قرآن یا ناموس رسالت کی دہائی دے کر کسی صحیح حدیث کوتسلیم کرنے سے انکار کرنا۔
معلوم ہونا چاہیے کہ اصولِ حدیث کے مطابق کوئی بھی حدیث جو قرآن کے خلاف یا نبی کی شان کے خلاف ہو قابل ردّ ہے۔
اوریہ اصول منکرین حدیث کا بنایا ہوا نہیں بلکہ محدثین کا بنایا ہوا ہے اور محدثین کا زہد و تقویٰ اورعلمیت ایک مسلمہ حقیقت ہے
یعنی آج جوصحیح احادیث منکرین حدیث کو قرآن یا شان رسالت کے منافی نظر آتی ہیں محدثین کی تحقیق میں ان حدیث کا صحیح قرار پانا اس بات کی دلیل ہے کہ وہ احادیث قرآن یا شان رسالت کے منافی نہیں بلکہ منکرین حدیث کے فہم وفراست سے بعید ہونے کے باعث انہیں اس طرح نظر آتی ہیں
ورنہ احادیث کی تخریج اور تشریح کا کام جو تقریباً ہر صدی میں جاری رہا ہے اس میں ان احادیث کی نشاندہی ضرور کردی جاتی مثلاً صحیح بخاری کی اب تک بہت سی شرحیں لکھی جا چکی ہیں جن میں حافظ ابن حجر عسقلانی کی شرح فتح الباری ، علامہ عینی کی شرح عمدہ القاری ، شرح صحیح بخاری للقسطلانی اور شرح صحیح بخاری للکرمانی خاص طورپر قابل ذکرہیں لیکن ان شارحین میں سے کسی نے بھی کبھی نہیں کہا کہ صحیح بخاری کی فلاں حدیث قرآن کے خلاف ہے یا شان رسالت کے خلاف ہے بلکہ ایسی کوئی حدیث اگر نظر بھی آئی تو صرف منکرین حدیث کو اس دور میں نظر آئی جنہیں حدیث ، اصول حدیث اور رواۃ حدیث کی حروف ابجد بھی معلوم نہیں ہے!!
منکرین حدیث کی دوسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
قرآن کے مفسربننے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ انھیں احادیث کے درجات ، رواۃ حدیث کی اقسام اور محدثین کی اصطلاحات کا قطعی کوئی علم نہیں ہوتا یعنی یہ لوگ محض اپنی عقل کو احادیث کے قبول و رد کا معیار بناتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین نے بھی اسی طرح محض اپنی عقل کی بنیاد پر احادیث کو صحیح اور ضعیف قرار دیا ہے حالانکہ یہ خیال قطعی غلط اور بے بنیاد اور لغو اس لیے بھی ہے کہ اس طرح تو علم اسماء رجال کی ہزاروں کتب بیکار و غیر ضروری قرار پا جاتی ہیں۔
منکرین حدیث کی تیسری شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث کے ذخیروں اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی فرق نہیں سمجھتے بلکہ اکثر اوقات اگر اپنے مطلب کی کوئی بات تاریخ کی کسی کتاب میں مل جائے جوکسی صحیح حدیث کے خلاف ہو تو یہ حضرات صحیح حدیث کوچھوڑ کر بے سند تاریخی روایت کو اختیار کر لینے میں کوئی مضائقہ اور کوئی حرج نہیں سمجھتے۔ جس کی ایک واضح مثال حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نکاح کی عمر والے دھاگے میں دیکھی جا سکتی ہے جہاں کسی T.O. صاحب کی تحقیق کے ذریعے تاریخ و سیرت کی کتب کے بےسند حوالہ جات کو صحیح احادیث کے مقابلے میں پیش کیا جا رہا ہے۔
منکرین حدیث کی چوتھی شناختی علامت یہ ہے کہ :
یہ لوگ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی کی ایک قسم تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہیں اور حصول علم کا ایک یقینی ذریعہ تسلیم کرنے کے بجائے احادیث کی کتابوں کو محض ظن اور گمان پر مشتمل مواد تصور کرتے ہیں
ایسے ظن کو احادیث نبوی پر محمول کرنا بڑی بھاری غلطی ہے کیونکہ محدثین نے جن اہل علم سے یہ احادیث سنیں انھوں نے اس دعویٰ کے ساتھ ان احادیث کو پیش کیا کہ یہ احادیث انھوں نے خود اپنے کانوں تابعین سے ، تابعین نے اپنے کانوں سے صحابہ کرام سے اور صحابہ کرام نے اپنے کانوں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہیں
اور
محدثین کرام نے احادیث بھی صرف ان لوگوں کی قبول کیں جن کا زہد و تقویٰ اورعلمیت مسلمہ تھی
مزید برآں جن لوگوں نے احادیث کو "ظنی" کہا ہے ان لوگوں کی مراد اس سے وہ ظن نہیں جو منکرین حدیث باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ اس سے مراد "حق الیقین" سے کم تر درجہ کا یقین ہے کیونکہ ظن کا لفظ بعض اوقات یقین کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے جس کی مثال قرآن میں بھی موجود ہے مثلاً :
سورۃ بقرۃ میں اﷲ تعالیٰ کاارشاد ہے کہ :
وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ٭
الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُوا رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ٭
( سورة البقرة : 2 ، آیت : 45-46 )
اﷲ سے مدد طلب کرو صبراورنماز کے ذریعہ اور بے شک (نماز ) بڑی بھاری چیز ہے مگران لوگوں پر نہیں جو اﷲ سے ڈرتے ہیں ، ( اﷲ سے ڈرنے والے لوگ ) وہ ہیں جو اﷲ سے ملاقات اور اس کی طرف لوٹ جانے کا ظن رکھتے ہیں
صاف ظاہرہے کہ یہاں "ظن" سے مراد ایمان و یقین ہے کیونکہ آخرت اور اﷲ سے ملاقات پر یقین رکھنا اسلام کاایک لازمی جزو ہے
پس سورۃ نجم کی آیت میں مذکور ظن کواحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر لاگو کرنا محض دجل و فریب کے سوا کچھ نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ دین اسلام میں بہت سے امور ایسے ہیں جن کا فیصلہ محض ظن کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے مثلاً چوری ، زنا اور قتل وغیرہ کے مقدمہ میں اکثراوقات فیصلہ اشخاص کی گواہی پر ہی کیا جاتا ہے اور گواہی کا ظنی ہونا اظہرمن الشمس ہے
پھران مقدمات میں گواہ کے جھوٹے ہونے کا امکان بھی ہمیشہ موجود رہتا ہے اس کے باوجود جو فیصلہ کیا جاتا ہے وہ سب کے لئے قابل قبول ہوتا ہے اور نافذ العمل سمجھا جاتا ہے
جبکہ رواۃ حدیث کا جھوٹے ہونے امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ محدثین نے اس سلسلہ میں جو محکم اصول بنائے ہیں اور رواۃ حدیث کے حالات و کردار کی جس اندازمیں چھان پھٹک کی ہے اس سے سب واقف ہیں پس معلوم ہوا کہ اصولی طورپر احکامات اورمعاملات کے ضمن میں ظن حق کو ثابت اورغالب کرنے کےلئے قابل قبول اورمفید ہے یعنی احادیث کو اگر ظنی کہا بھی جائے تب بھی احادیث امور دین میں دلیل و حجت ہیں۔
منکرین حدیث کی پانچویں شناختی علامت یہ ہے کہ :
(۔۔۔۔ جاری ہے)