شبہ سا رہتا ہے یہ زندگی ہے بھی کہ نہیں
کوئی تھا بھی کہ نہیں تھا،کوئی ہے بھی کہ نہیں
دل نے خود پہلی محبت کو سبوتاژ کیا
دوسری کے لیے اور دوسری ہے بھی کہ نہیں
 

سیما علی

لائبریرین
شب بخیر کہنے کا وقت آ گیا۔ اب ہم چلتے ہیں کوے تنہائی میں۔ خدا سب کو سلامت رکھے!
سیما کا بھی یہی خیال ہے کیونکہ صاحب بہادر جاگ گئے تو کسی کی خیر نہیں۔۔۔۔ اردو محفل کی شان میں قصیدے ہمیں سننا پڑیں گے
 
شہر میں چاند رات ہے اور گلی کے وَسط مِیں ایک فقیر ، اک صدا ، ایک خدا ، اور ایک مَیں
زیادہ تو نہیں مگر کچھ کچھ لڑکھڑائی سی لگتی ہے لڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ کچھ نہیں بہت زیادہ اثرات معلوم ہوتے ہیں قمرکی باتوں میں شاعری کے ۔اچھا ہے پاسبانِ عقل۔۔۔۔ دل کے ہمراہ رہے مگر کبھی کبھی شعر بھی ہوجائے توتصدیق ہوجاتی ہے کہ دل خودکفیل ہے اور آیندہ بھی خود انحصاری، اِ س سے اچھے اچھے شعرنہ سہی من موہنی باتیں تو کہلواتی ہی رہیگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
 
آخری تدوین:

سیما علی

لائبریرین
زیادہ تو نہیں مگر کچھ کچھ لڑکھڑائی سی لگتی ہے لڑی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ کچھ نہیں بہت زیادہ اثرات معلوم ہوتے ہیں قمرکی باتوں میں شاعری کے ۔اچھا ہے پاسبانِ عقل۔۔۔۔ دل کے ہمراہ رہے مگر کبھی کبھی شعر بھی ہوجائے توتصدیق ہوجاتی ہے کہ دل خودکفیل ہے اور آیندہ بھی خود انحصاری، اِ س سے اچھے اچھے شعرنہ سہی من موہنی باتیں تو کہلواتی ہی رہیگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ‌ ر‌ ڑ ز ژ س ش ص
ض ط‌ ظ ع غ ف ق ک گ ل م ن و ہ ھ ء ی ے
ی۔ ہ۔ و ۔۔ نئی لڑی نمبر ۔20
ڑے شکیل بھیا لڑکھڑاتی بار بار پر یہ چاند میاں عید کا چاند ہیں بس سکھاتے ہیں اُنکو پھر بھول جاتے بس ہم اس میں ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ یہ بھولے بھٹکے آجاتے ہیں ۔۔۔
 

سیما علی

لائبریرین
آخری تدوین:
ڑے شکیل بھیا لڑکھڑاتی بار بار پر یہ چاند میاں عید کا چاند ہیں بس سکھاتے ہیں اُنکو پھر بھول جاتے بس ہم اس میں ہی خوش ہو جاتے ہیں کہ یہ بھولے بھٹکے آجاتے ہیں ۔۔۔
داد تو چاند میاں کا اِس لیے بھی حق ہے کہ اب آپ کا لب و لہجہ آپ کے بیانیے کے مطابق، بیانیہ ادب کے مطابق، ادب مزاج سے ہم آہنگ اور یہ سب لڑی کی ڈیمانڈ کے مطابق ہوگیا ہے یعنی ہنستے آؤ ہنستے جاؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔​
 
آخری تدوین:
جب ثمرین سِوائے چائے سازی کے کچھ اور نہیں کرتی تھی /کرسکتی تھی ،اُس زمانے کو یاد کرتی ہے تو اب بھی اُس پر ایک جھرجھری سی طاری ہوجاتی ہے ۔حالانکہ جیسے تیسے ہی سہی دسویں تک تو پڑھ لکھ گئی تھی مگر گھر کے کام کاج نے اُسےکتاب سے دُور ، لکھنے پڑھنے سے محروم اور جو پڑھا اُس پر غور کرنے کا رستہ مسدود کر رکھا تھا۔ایک دن مولوی عبدالحق کی تصویر کے سامنے کھڑی کہہ رہی تھی:’’بابا! میں نے بھی آسماں پہ یہ قدم جھوم کے رکھنا چاہاتھا مگرپیروں تلے کی زمین کھسکتی سی لگی ،تو کیا کرتی پڑھنا لکھنا موقوف کیا اور چائے پر چائے بناتی چلی گئی ۔ وہ تو بھلا ہو ڈنمارک والی آپا کا اُنھوں نے اجازہ اور اجارہ دیا کہ بی بی کبھی کبھی دھنک پر چہل قدمی کرلیا کرو مگر سب کو چائے پلاکر ۔۔تب کتاب سے ٹوٹا ہوایہ تعلق، قلم کاغذ سے منقطع رشتہ اور غوروفکر کا سلسلہ دوبارہ قائم ہوا ہے۔۔۔۔‘‘​
 
آخری تدوین:
ثناء گورکھ پوری میرے دوست تھے۔ محمد ثنا ء اللہ نام تھا اور گورکھ پور اُن کی جنم بھومی تھی۔ محبت کرنیوالے آدمی تھے ۔ اُن کے چہرے پر فیض احمد فؔیض اورحمایت علی شاعؔرکی طرح ایک خوبصورت مسکراہٹ نقش سی ہوکر رہ گئی تھی۔شعر بہت اچھے کہتے تھے اور باوجود اِس کے کہ لوگ پڑھنے پڑھانے سے ہاتھ اُٹھا چکے ہیں اُن کے مسلسل تین شعری مجموعے شایع ہوئے۔پہلا’’دُھند میں آفتاب‘‘دوسرا’’دشتِ تہِ آب ‘‘اور پھر اِن دونوں کو ملا کر ’’آواز‘‘اُن کا آخری مجموعہ ٔ کلام تھا۔​
 
ٹیگور کی ایک نظم کبھی پڑھی تھی ۔ اِس وقت یاد آرہی ہے ، وہی لکھتا ہوں:’’ڈوبتے ہوئے سُورج نے نخوت سے زمین کی طرف دیکھا اورکہا :’’ہے کوئی جو میرے بعد میری جگہ لے؟‘‘ ننھے ٹمٹماتے دیے نے کہا:’’میں کوشش کروں گا!‘‘​
 
Top