۔۔۔ ۔۔ کتب کا مطالعہ ؟!

نبیل

تکنیکی معاون
میں دستخط کی تدوین مدتوں بعد ہی کرتا ہوں، لیں اڑا دیے ہیں میں نے دستخط۔ :(

طالوت: یہ صرف چند واقعات ہی ہیں جن کی وجہ سے میری شہرت کچھ ڈراؤنی ہو گئی ہے ورنہ ہم دل کے برے نہیں ہیں۔ :)
 

نبیل

تکنیکی معاون
اچھا تو یہ گُل کھلائے جارہے ہیں یہاں کہ‌ آیا گُل کھلائے جائیں یا نہ :tongue:
جی، اگر مجھے درست یاد پڑتا ہے تو باذوق نے شادی سے قبل سیکس کی معلومات حاصل کرنے کے بارے میں پوسٹ کیا تھا کہ اس کا موزوں طریقہ کیا ہونا چاہیے اور ناپختہ ذہنوں کےلیے یہ معلومات کس انداز میں پیش کی جانی چاہییں۔ اور کم از کم میری رائے میں اس موضوع پر شائستگی سے بات کرنے میں کوئی ہرج نہیں ہونا چاہیے۔ بہرحال ایسا کچھ پبلک کے مزاج کو دیکھ کر ہی کیا جا سکتا ہے۔
 

طالوت

محفلین
اچھا تو یہ گُل کھلائے جارہے ہیں یہاں کہ‌ آیا گُل کھلائے جائیں یا نہ :tongue:
دیکھیئے اب یہ گل کھلتا بھی ہے کہ "حسرت ان غنچوں پہ جو بن کھلے مرجھا گئے"
میں دستخط کی تدوین مدتوں بعد ہی کرتا ہوں، لیں اڑا دیے ہیں میں نے دستخط۔ :(
طالوت: یہ صرف چند واقعات ہی ہیں جن کی وجہ سے میری شہرت کچھ ڈراؤنی ہو گئی ہے ورنہ ہم دل کے برے نہیں ہیں۔ :)

اور وہ چند واقعات کون سے ہیں :raisedeyebrow:
میری رائے تو موجود ہے جو خاصی اچھی ہے :cowboy:
وسلام
 

نبیل

تکنیکی معاون
معلوم نہیں کیوں آپ لوگ اصل موضوع پر بات کرنے سے کنی کترا رہے ہیں۔ باذوق بھی شرمیلی دلہن کی طرح ہی بات کر رہے ہیں۔

چلیں میں بات شروع کرتا ہوں۔
میرا سوال یہ ہے کہ جب بچے بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں اور ان کے جسم میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو ماں باپ کو کس طریقے سے انہیں ان تبدیلیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہییں؟ اسی سے متعلقہ ایک اور سوال یہ ہے کہ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی صورت میں نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کے کیا غلطیاں کرنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
تم آئی ڈی بدل کر انہیں خط لکھو جن کے بیٹے کو پڑھنا آ گیا ہے۔ :)
آخر ایسی کونسی بات ہے جو اصل آئی ڈی سے نہیں پوسٹ کی جا سکتی؟
 

طالوت

محفلین
میرا سوال یہ ہے کہ جب بچے بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں اور ان کے جسم میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو ماں باپ کو کس طریقے سے انہیں ان تبدیلیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہییں؟ اسی سے متعلقہ ایک اور سوال یہ ہے کہ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی صورت میں نوعمر لڑکوں اور لڑکیوں کے کیا غلطیاں کرنے کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں؟

اس سوال کا مکمل جواب دینا تو میرے لیے ممکن نہیں ہو گا ۔۔ اپنا تجربہ بیان کر دیتاہوں ۔۔ بلوغت کی عمر کو پہنچے تو گھر یا خاندان میں سے کسی نے بھی کسی کی معلومات بہم نہیں پہنچائیں ۔۔ تمام تر معلومات دوستوں اور مختلف کتب سے پہنچیں ۔۔ ظاہر ہے یہ مکمل طور پر درست نہ تھیں اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ ہوا البتہ برائی کی ترغیب ضرور ملی ۔۔ ہم چار بھائی ہیں ، اور میں سب سے بڑا مجھ چھوٹا بھائی مجھ سے قریبا 6 برس چھوٹا ہے ۔۔ یوں جب وہ 16 برس کا ہوا (اگرچہ ہمارے ملک میں بلوغت کی عمر شاید 11 سے 14 برس ہے) تو میں نے اسے بٹھا کر کھلے لفظوں میں دوستوں کی طرح تمام باتوں سے آگاہ کیا ۔۔ اب وہ ماشاءاللہ 20 برس کا ہے اور اچھی عادات و صحت کا مالک ہے ۔۔ اسی طرح اس سے چھوٹے کو جو بھی بہت کچھ بتایا جس کی عمر اب 17 برس ہے ۔۔ جبکہ اس سے چھوٹا 13 برس کا ہے اور اس سے میری سب سے زیادہ دوستی ہے اب کے جاؤں گا تو انشاءاللہ اس سے بھی مناسب الفاظ میں بات کروں گا ۔۔ اس معاملے میں میری تکنیک یہ رہی کہ پہلے ان کو بلوغت اور اس کے بعد ہونے والی تبدیلیوں سے آگاہ کیا ، اس کے بعد اکثر لڑکے کسی نہ کسی حد تک بری عادتوں میں ملوث ہو جاتے ہیں ان سے آگاہ کیا ، ان کی مصروفیات کا جائزہ لیا اور سب کو تعلیم و تفریح کے علاوہ سخت جان کھیل کی طرف متوجہ کیا ۔۔ اب فون پر کتب پڑھنے کی ترغیب دیتا ہوں ، ٹیلیویژن پر کار آمد پروگرامز کی ترغیب دیتا ہوں ۔۔۔ کارآمد سائٹس کا اتا پتا دینا ؤغیرہ وغیرہ ۔۔
آپ حضرات بتائیے کہ اس سلسلے میں مجھے اور کیا کچھ کرنا چاہیے ۔۔
وسلام
 

زیک

مسافر
میرا سوال یہ ہے کہ جب بچے بلوغت کی عمر کو پہنچتے ہیں اور ان کے جسم میں تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں تو ماں باپ کو کس طریقے سے انہیں ان تبدیلیوں کے بارے میں معلومات فراہم کرنی چاہییں؟

یہاں محفل پر کافی لوگ پاکستان سے باہر رہتے ہیں۔ پاکستان میں تو سکولوں میں سیکس ایجوکیشن کا کوئ ذکر نہیں ہوتا اور سعودیہ سے بھی مجھے ایسی کوئ امید نہیں۔ کیا ہندوستان، عرب امارات وغیرہ میں سکولوں میں سیکس ایجوکیشن دی جاتی ہے؟

یورپ میں سیکس ایجوکیشن کا کیا طریقہ کار ہے؟ سنا ہے بہت سے مسلمان والدین اپنے بچوں کو ان کلاسوں سے دور رکھتے ہیں؟ کیا یہ صحیح طرزِ عمل ہے؟ کیا ایسے لوگ اس تعلیم کا کوئ متبادل فراہم کرتے ہیں؟
 

باذوق

محفلین
کچھ "تمہید" کے طور پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی زبان کے ایک مقولہ کا اردو ترجمہ کچھ یوں بنتا ہے کہ :
جنسی موضوع پر آزادی کے ساتھ اظہارِ خیال کا خطرہ ، خاموشی کی سازش سے عظیم تر نہیں ۔۔۔ !

جنس (سیکس) انسانی زندگی کی ایک ناگزیر اور اہم حقیقت ہے، اسے ہوّا سمجھنا ایک فاش غلطی ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے معاشرے میں آج تک اسے وہ مقام حاصل نہ ہو سکا جو اس کا حق تھا ، وہ اہمیت نہ مل سکی جو اسے ملنی چاہئے تھی۔
درحقیقت جنس کا راز ، زندگی اور افزائش نسل کا راز ہے جسے صحت مند طریقے سے سمجھنے اور معلومات حاصل کرنے میں ہماری فلاح و بہبود مضمر ہے۔
نیٹ کی تیز رفتار زندگی کے باوجود آج بھی صحت مند اور مفید جنسی معلومات کے دروازے بند ہیں, خصوصاً ہماری زبان اردو میں۔ جو کچھ انگلیوں کی ٹپ پر گوگلنگ سے سامنے آتا ہے وہ مہذب و مفید معلومات نہیں بلکہ بیشتر اوقات فحاشی کی ترغیب پر مشتمل مواد ہوتا ہے۔ دوسری طرف ۔۔۔۔ والدین خاموش ، اسکول اور کالج کے اساتذہ چپ ، مذہبی پیشوائیان منہ بند کئے ہوئے ۔۔۔۔
لے دے کے کوئی ہمت بھی کرتا ہے تو وہ بھی صرف بےتکلف دوستوں کی محفل میں سرگوشی کی حد تک۔ اور یہ کون "دوست" ہیں؟ وہ خود بھی اس گھٹے ہوئے ماحول کے تربیت یافتہ ہیں جو "جنس" کا واضح ، صحت مند اور اَپ ڈیٹیڈ تصور نہیں رکھتے بلکہ صدیوں سے چلے آ رہے غلط تصورات ، نظریات اور توہمات کو "جنسی علم" سمجھتے رہے ہیں۔
اور بڑے مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب نونہالانِ قوم پڑھ کر جوان ہوتے ہیں تو ان سے یہ توقع رکھی جاتی ہے کہ اسکول اور کالج کے امتحانات کی طرح ازدواجی زندگی میں بھی کامیابی کا ثبوت دیں گے۔

اگر انسانوں کو اپنے جبلی تقاضوں اور فطری خواہشات کی تکمیل کے لیے علم و فن کی ضرورت پڑتی ہے تو کیا زندگی کے دیگر تقاضوں کی طرح جنس بھی ایک تقاضا نہیں ہے؟ کیا اس تقاضے کی موثر تکمیل کے لیے علم کی ضرورت نہیں ہے؟ کیا انسان اور حیوان میں کوئی فرق نہیں کہ ہم اس معاملے میں علم کی ضرورت کو نظرانداز کر دیں کہ افزائش نسل میں تو جانور بھی مصروف ہیں اور وہ اس کا کوئی علم حاصل نہیں کیا کرتے!

ازدواجی زندگی میں داخل ہونے سے قبل جنسی تبدیلیوں/تقاضوں کو مذہب و تہذیب کے دائرے میں رہ کر سمجھنا/برتنا اور اس علم کے سہارے ازدواجی زندگی میں داخل ہونے کے بعد ان تقاضوں کی دو طرفہ خوشگوار تکمیل کی راہیں ہموار کرنا بلاشبہ ایک فن ہے ، ایک آرٹ ہے اور یہ جوہر ہر شخص میں موجود ہے لیکن اسے بروئے کار لانا یا نہ لانا ہر فرد کا اپنا ذاتی فعل ہے۔

ہمارے سماج نے جنسی مسائل سے متعلق نئی نسل میں صحیح شعور پیدا کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ، جس پر نوجوان نسل کی شخصیت کی تعمیر کا انحصار ہے۔ جنسی جبلت کو اتنی اہمیت بھی نہیں دی گئی جس کی عقلِ سلیم متقاضی ہے بلکہ اسے غیرفطری میلان سمجھ کر دبایا گیا یا پھر موسمی چیز سمجھ کر سرپرستوں / والدین نے نوجوانوں کو اس "موسمی چیز" کے چکھنے سے باز رکھا۔
نتیجہ ؟
ظاہر ہے کہ ان کوتاہیوں/نادانیوں کے سبب سلگتے شباب بھڑک اٹھے اور دہکتی جوانیاں اپنی ہی آگ میں جل کر ڈھیر ہو گئیں اور خاکستر میں بسی کچھ چنگاریاں نفسی امراض کے چنگل میں دم توڑ رہی ہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ ایک دم سے سب کو جنسی مسائل کا بخار کیوں چڑھ گیا ؟؟؟؟حالانکہ اس ضمن میں اپنی نئی نسل کو علم فراہم کرنے کا سہرا جن ممالک کہ سر ہے جنسی بے راہ روی بھی انہی ممالک میں سب سے زیادہ ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
آبی بھائی چھری چاقو ایک مفید چیز بھی اور نقصان دہ بھی ہے۔ یہ تو اس کے استعمال پر منحصر ہے کہ کوئی اس سے سبزی کاٹے یا کسی کا گلا کاٹ لے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
آبی، مجھے آپ سے بہتر گفتگو کی توقع تھی۔
مغربی ممالک میں جنسی تعلیم کے اغراض و مقاصد جو بھی ہیں، ہم اسے آئیڈیالائز نہیں کرنا چاہ رہے۔ سوال صرف یہی تھا کہ کس طرح اس کے بارے میں احسن طریقے سے معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں تاکہ بالغ ہونے والے بچوں کو محض ان کے ماحول پر انحصار کرنے کے لیے نا چھوڑ دیا جائے۔ بہرحال نظر تو یہی آ رہا ہے کہ باقی دوست اس موضوع پر گفتگو کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
آبی بھائی چھری چاقو ایک مفید چیز بھی اور نقصان دہ بھی ہے۔ یہ تو اس کے استعمال پر منحصر ہے کہ کوئی اس سے سبزی کاٹے یا کسی کا گلا کاٹ لے۔


آبی، مجھے آپ سے بہتر گفتگو کی توقع تھی۔
مغربی ممالک میں جنسی تعلیم کے اغراض و مقاصد جو بھی ہیں، ہم اسے آئیڈیالائز نہیں کرنا چاہ رہے۔ سوال صرف یہی تھا کہ کس طرح اس کے بارے میں احسن طریقے سے معلومات فراہم کی جا سکتی ہیں تاکہ بالغ ہونے والے بچوں کو محض ان کے ماحول پر انحصار کرنے کے لیے نا چھوڑ دیا جائے۔ بہرحال نظر تو یہی آ رہا ہے کہ باقی دوست اس موضوع پر گفتگو کرنے سے گریز کر رہے ہیں۔

معذرت گر میری گفتگو سے آپکو کوفت اٹھانا پڑی مگر میرا نقطہ یہ تھا کہ جب احباب بھی اس موضوع سے عدم دلچسپی کا اظہار کرچکے ہیں اور زمینی حقائق بھی یہی ہیں کہ جن ممالک میں جنسی مسائل پر باقاعدہ تعلیم کا رواج ہے وہاں بھی باوجود اس کہ کوئی مثبت تبدیلی رونما نہیں تو پھر آپ احباب دیگر تمام ضروری معاشرتی مسائل کو چھوڑ کر فقط اسی مسئلہ کہ کیوں در پے ہیں کیا یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی کا سب سے سنگین مسئلہ بن چکا ہے؟
باقی شمشاد بھائی آپ کہ لیے فقط اتنا ہی کہ علم کی افادیت سے میں ہرگز انکاری نہیں ہوں ۔

اس
 

شمشاد

لائبریرین
ایسی بات تو نہیں ہے آبی بھائی کہ احباب دیگر تمام ضروری معاشرتی مسائل کو چھوڑ کر فقط اسی مسئلہ کہ کے در پے ہیں، بلکہ اور مسائیل بھی ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔

یہ بالکل صحیح ہے کہ یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی کا اگر سب سے سنگین نہیں تو کم سنگین بھی نہیں۔ اور اس میں انٹرنیٹ اور موبائیل فون کا بہت بڑا حصہ ہے۔
 

باذوق

محفلین
مجھے تو یہ سمجھ نہیں آتی کہ یہ ایک دم سے سب کو جنسی مسائل کا بخار کیوں چڑھ گیا ؟؟؟؟حالانکہ اس ضمن میں اپنی نئی نسل کو علم فراہم کرنے کا سہرا جن ممالک کہ سر ہے جنسی بے راہ روی بھی انہی ممالک میں سب سے زیادہ ہے ۔
بھائی ! بات کے شروع کرنے یا نہ کرنے کے معاملے کو ہی لے کر ذرا سی گفتگو کیا ہوئی کہ آپ نے بخار میں مبتلا ہونے کا سرٹیفیکٹ جاری کر ڈالا۔ پہلے ہی احباب ہیبت کھائے ہوئے ہیں ، اب آپ کے جاری کردہ سرٹیفیکٹ کے بعد کون ایسی منفی 10 ڈگری سنٹی گریڈ میں باہر نکلنے کی ہمت کرے گا؟؟
جن ممالک کی آپ بات کر رہے ہیں ، ظاہر ہے اس قسم کا علم ہم فراہم نہیں کر سکتے کہ ہمارے قدموں میں مذہب اور مشرقی تہذیب و ثقافت کی زنجیریں بھی پڑی ہیں۔
اور ایک صحابی کا وہ قول تو شائد آپ کے بھی علم میں ہوگا جس کا مفہوم کچھ اس طرح ہے کہ ہمارے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) نے ہم کو انسانی زندگی کے ہر مسئلہ کا علم دیا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اس علم کے کچھ حساس اور نازک حصوں کی ترسیل کہاں ، کیسے اور کس تک ہوگی؟
اسی سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے بات شروع کی گئی ہے۔
اب کیا سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے گفتگو کا شروع کرنا ہی معیوب قرار پائے گا؟
 
Top