‘کلیاں اور شگوفے‘

سارا

محفلین
کچھ مجازی خدا کے بارے میں

میرا دوست ‘ف‘ کہتا ہے کہ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ ‘‘اس دنیا کا سب سے پہلا مہذب جانور کون سا ہے؟ تو میں کہوں گا خاوند۔۔‘‘
میں نے پوچھا۔۔‘‘دوسرا مہذب جانور؟‘‘
جواب ملا۔۔‘‘دوسرا خاوند۔۔‘‘
گھر میں بیوی کا زیادہ تر وقت فرنیچر اور خاوند کو جاڑنے پونچھنے اور ان کو ان کے مقام پر رکھنے میں گزرتا ہے۔۔
خاوند اچھا عاشق بھی ہو سکتا ہے۔۔بشرطیکہ بیوی کو پتا نہ چلے۔۔بیوی خوبصورت نہ ہو تو خاوند دائیں بائیں دیکھنے لگتا ہے اور اگر خوبصورت ہو تو چاروں طرف دیکھنے لگتا ہے۔۔
‘‘ف‘‘ کہتا ہے۔۔‘‘میری بیوی تو روپے پیسے کو ہاتھ کا میل سمجھتی ہے۔۔‘‘
میں نے کہا۔۔‘‘اس میں پریشانی والی کون سی بات ہے؟‘‘
کہنے لگا۔۔‘‘پریشانی یہ ہے کہ وہ انتہائی صفائی پسند ہے۔۔‘‘
ابتدائی عمر میں بیوی ہو تو بندہ آدھا رہ جاتا ہے۔۔آخری عمر میں بیوی نہ ہو تو بندہ آدھا رہ جاتا ہے۔۔مرد دنیا میں دو بار یتیم ہوتا ہے۔۔ایک بار جب اس کی ماں فوت ہوتی ہے‘ دوسری بار اس وقت جب اس کے بچوں کی ماں فوت ہوتی ہے۔۔

(یونس بٹ کی کتاب‘‘شیطانیاں‘‘سے ماخوز)
 

سارا

محفلین
جنت و جہنم کا تخیل

‘‘غم اور مسرت دونوں جذبے ذاتی ہیں۔۔ہر شخص مختلف چیزوں میں خوشی ڈھونڈتا ہے۔۔اپنا اپنا ظرف ہے۔۔جیسے جنت و جہنم کا تخیل۔۔ایک بچے کے لیے بہشت کا تخیل کچھ اور ہو گا اور بوڑھے کے لیے کچھ۔۔دہقان کا نظریہ جہنم‘ فلسفی کے نظریے سے مختلف ہو گا اور پھر دل کی گہرائیوں کو کون پہنچ سکتا ہے۔۔مکمل قبضہ ہو جانے پر بھی زندگی کا ایک حصہ ایسا رہ جاتا ہے جس میں کسی کا دخل نہیں ہوتا۔۔وہاں کوئی قدم نہیں رکھ سکتا۔۔‘‘

(شفیق الرحمٰن‘پچھتاوے)
 

ماوراء

محفلین
چلو، شمشاد بھائی آ کر “پسندیدہ تحریریں“ میں منتقل کر دیں گے۔ اور ہمارے یہ پیغامات بھی دوسرے تھریڈ میں۔
 

سارا

محفلین
فراڈ

گداگروں کے متعلق یہ فرض کر لینا درست نہ ہوگا کہ سب ہی فراڈ ہوتے ہیں۔۔بعض کی مجبوریاں پیدائشی ہوتی ہیں۔۔ابھی کل ہی ایک معصوم لڑکا‘ معصوم صورت بنائے گلے میں تختی لٹکائے آیا۔۔تختی پر لکھا تھا کہ میں گونگا اور بہرہ ہوں۔۔
‘‘واہ مولا میری مدد کیجئے۔۔‘‘ہم نے ایک روپیہ دیا اور چمکار کر کہا۔۔
‘‘بر خوردار کب سے گونگے اور بہرے ہو؟ ‘‘
بولا۔۔‘‘جی پیدائشی ہوں۔۔‘‘

(ابن انشاء کی ‘‘خمار گندم‘‘ سے اقتباس)
 

تیلے شاہ

محفلین
بہت خوب سارا
میں آج کل زاویہ بہت زور شور سے پڑھ رہا ہوں
کیا وہاں سے کوئی اقتباس لکھ سکتا ہوں
پوچھ اس لیے رہا ہوں کے زاویہ پہلے ہی سے یہاں پر موجود ہے
 

سارا

محفلین
بلکل لکھ سکتے ہیں۔۔جہاں تک موجود ہونے کی بات ہے تو ہو سکتا ہے کہ وہ پیراگراف اس وقت اتنی توجہ سے نہ پڑھا ہو لیکن جب کوئی اس کی طرف توجہ دلائے تب زیادہ اچھا لگے۔۔۔
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ کتنے ہی لوگوں نے وہ نہ پڑھا ہو لیکن آپ کا پیراگراف پڑھ لیں۔۔اسلیے جلدی سے لکھ دیں۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ماوراء نے کہا:
چلو، شمشاد بھائی آ کر “پسندیدہ تحریریں“ میں منتقل کر دیں گے۔ اور ہمارے یہ پیغامات بھی دوسرے تھریڈ میں۔

ماوراء میں تو اس دھاگے کا ناظم نہیں ہوں، اعجاز بھائی ہیں یا پھر ناظم اعلٰی سے درخواست کرو۔
 

سارا

محفلین

شمشاد

لائبریرین
اب ضرور پڑھیے گا، اگرچہ اس میں ادھر ادھر کی باتیں بھی بہت لکھی گئی ہیں لیکن پھر بھی پڑھنے کے جو شوقین ہیں انہیں ضرور لطف آئے گا۔
 

سارہ خان

محفلین
عجیب بات

یہ ایک عجیب بات ہے کہ نیکی میں جتنی اکتاہٹ ہے ،بدی میں اتنی ہی رغبت ہے- عالم،عالم کو دیکھ کر،شاعر ،شاعر کو دیکھ کر ،سادھو، سادھو کو دیکھ کر جلتا ہے- ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا- مگر جواری ،جواری کو دیکھ کر ،شرابی ،شرابی کو دیکھ کر ، چور ،چور کو دیکھ کر ہمدردی جتاتا ہے-اور مدد کرتا ہے- ایک پنڈت جی اگر اندھیرے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑیں تو دوسرے پنڈت جی انہیں اٹھانے کے بجائے دو ٹھوکریں اور لگائیں گے تا کہ وہ پھر اٹھ ہی نہ سکیں - مگر ایک چور کو آفت میں دیکھ کر دوسرا چور اس کی آڑ لیتا ہے- بدی سے سب نفرت کرتے ہیں اس لئے بدوں کی باہمی محبت ہوتی ہے- نیکی کی ساری دنیا تعریف کرتی ہے اس لئے نیکوں میں مخالفت ہوتی ہے-
(پریم چند کے افسانے سے اقتباس
 

سارا

محفلین
ہم نے کھیل کھیلے
پانچویں جماعت کے سالانہ اسپورٹس کی دوڑ میں ہمارا اکیسواں نمبر آیا تھا۔۔دوڑ میں اتنے ہی بندے شریک ہوئے تھے۔۔کچھ فٹ بال سے بھی سر مارا۔۔آخری لمحوں تک یہ فیصلہ نہیں کر پاتے تھے کہ اس فٹ بال پر اپنا دایاں پاؤں ماریں یا بایاں زیادہ مناسب رہے گا؟
دودھ کے دانت ٹوٹنے سے پہلے ہی ہم خاصے دبیز شیشے کی عینک لگانے لگے تھے۔۔جو حضرات ضعفِ بصارت سے محروم ہوں‘ ان کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ اب ہم کھبی عینک اتار کر آئینہ دیکھتے ہیں تو بخدا اپنے کان نظر نہیں آتے۔۔کئی دفعہ عینک توڑنے کے بعد ہم نے اسے اتار دیا اور بت خوف و خطر کھیلنے لگے۔۔کھیلتے کیا تھے‘ ہو ایک سے مینڈھے کی طرح ٹکریں لیتے پھرتے تھے۔۔مخالف ٹیم میں پاپولر ہمیشہ اس لئے رہے کہ اپنی ہی ٹیم سے گیند چھینتے اور ان کو ہی فاؤل مارتے پھرتے تھے۔۔کھیل کے شروع میں ٹاس کیا جاتا۔۔جو کپتان ہار جاتا‘ وہ ہمیں اپنی ٹیم میں شامل کرنے کا پابند ہوتا۔۔

(مشتاق احمد یوسفی کی کتاب ‘‘زرگزشت سے اقتباس)
 
سارہ خان نے کہا:
عجیب بات

یہ ایک عجیب بات ہے کہ نیکی میں جتنی اکتاہٹ ہے ،بدی میں اتنی ہی رغبت ہے- عالم،عالم کو دیکھ کر،شاعر ،شاعر کو دیکھ کر ،سادھو، سادھو کو دیکھ کر جلتا ہے- ایک دوسرے کی صورت نہیں دیکھنا چاہتا- مگر جواری ،جواری کو دیکھ کر ،شرابی ،شرابی کو دیکھ کر ، چور ،چور کو دیکھ کر ہمدردی جتاتا ہے-اور مدد کرتا ہے- ایک پنڈت جی اگر اندھیرے میں ٹھوکر کھا کر گر پڑیں تو دوسرے پنڈت جی انہیں اٹھانے کے بجائے دو ٹھوکریں اور لگائیں گے تا کہ وہ پھر اٹھ ہی نہ سکیں - مگر ایک چور کو آفت میں دیکھ کر دوسرا چور اس کی آڑ لیتا ہے- بدی سے سب نفرت کرتے ہیں اس لئے بدوں کی باہمی محبت ہوتی ہے- نیکی کی ساری دنیا تعریف کرتی ہے اس لئے نیکوں میں مخالفت ہوتی ہے-
(پریم چند کے افسانے سے اقتباس


بہت عمدہ سارہ ، یہ اقتباس میرا بھی پسندیدہ ہے۔
 

جاویداقبال

محفلین
مسعودی کی ایک حکایت

السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

"مقدمہ ابن خلدون"
مسعودی کی ایک حکایت:
مسعودی پارسیوں کی تاریخ میں موبذان ہے۔جوبہرام بن بہرام کے زمانےمیں بانی مذہب تھا۔نقل کرتاہے۔ کہ موبذان الوکی زبان سے ایک کہانی سناکربادشاہ کواشاروں اشاروں میں ظلم وتعدی سے روکتاہے اوراسے اسکی بری عادتوں پرمتنبہ کرتاہے۔اوراسے خواب غفلت سے جگاتاہے۔واقعہ یہ ہے کہ ایک دن بادشاہ نے الوکی آوازسنی۔بولا۔موبذان!تم اس کی زبان سمجھتے ہو۔
موبذان: ہاں خوب سمجھتاہوں۔نرالومادین سے نکاح کرناچاہتاہے۔مادین کہتی ہے میں نکاح کے لئے تیارہوں بشرطیکہ تم مجھے بہرام کے زمانے کے بیس ویران گاؤں مہرمیں دو۔ نرکہتاہے مجھے یہ شرط منظورہے۔اگربہرام کی حکومت قائم رہی توبیس توبیس میں تجھے ایک ہزارویران گاؤں دے دوں گا۔(یہ خواب غفلت سے بیدارکرنے کابہترین و آسان طریقہ ہے)
یہ سن کربادشاہ چونک پڑتاہے اورموبذان کوتنہائی میں بلاکراس سے پوچھتاہے کہ اس سے تمہاراکیامقصدہے؟
موبذان عرض کرتاہے۔
عالیجاہ!ملک کی بقاشریعت کی پابندی اورحق تعالےکی اطاعت اوراس کے احکام بجالانے اورتبلیغ پرموقوف ہے۔اورشریعت کی بقابادشاہ پراوربادشاہ کی بقالوگوں پر،لوگوں کی بقامال پر،مال کی بقاآبادی پراورہرآبادی کی بقاانصاف پرہے۔انصاف ایک ترازوہے جواللہ نے اپنی مخلوق میں نصب فرمادی ہے۔اوراس کامنتظم بنادیاہے جوبادشاہ ہے۔عالیجاہ!آپ نے لوگوں سے اورانہیں آبادرکھنے والوں سے ان کی زمینیں چھین لیں حالانکہ انہی سے لگان وصول ہواکرتاتھااوراسی آمدنی سے خزانہ بھرارہتاتھا۔اورآپ نے یہ زمینیں ملازمین مقربین خاص،خدام واقارب واحباب کے نام کردیں انہوں نے زمینیں ویران چھوڑدیں۔اورویرانی کے خطرناک نتائج پرغورنہیں کیا۔اورنہ زمینوں کی اصلاحات پرتوجہ دی۔اوران سے شاہی تقرب کی وجہ سے لگان وصول کرنے میں بھی رواداری برتی گئی اورجن کسانوں کے پاس زمینیں رہ گئی تھیں لگان کی شرح بڑھاکران سے لگان وصول کیاگیا۔جوسراسرظلم تھااس ظلم سے زمینیں چھوڑچھاڑکرملک سے بھاگ کھڑے ہوئے اورایسے علاقوں میں جابسے جہاں انہوں نے بڑی بڑی دشواریوں کے بعدزمینیں حاصل کیں۔اس لئے آپ کے ملک کی آبادی کم ہوگئی زمینیں غیرمزروعہ پڑی رہ گئیں سرکاری آمدنی گھٹ گئی اورفوج ورعایاکے اخراجات میں کمی آنے کی وجہ سے رعایاالگ ہلاک ہوتی ۔یہ حال دیکھ کرملک کی طرف پڑوسی بادشاہوں نے للچائی ہوئی نگاہ ڈالی۔کیونکہ انہیں یقین تھاکہ اس ملک میں وہ موادہی نہیں جس پرملک کے ستون قائم ہواکرتے ہیں۔
بادشاہ موبذان کی نصیحتیں سن کراپنے ملک کی غوردپردلخت میں لگ جاتاہے اورخواص وخدام سے زمینیں چھین کرکاشت کاروں میں بانٹ دیتاہے اورسابق طریقہ بحال کردیتاہے۔کاشت کارزمینوں پرکاشت کرتے ہیں۔تمام علاقہ آبادہوکرلہلہااٹھتاہے۔ملک میں ارزانی ہوجاتی ہےمحصول کثرت سے وصول ہوجانے کی وجہ سے سرکاری خزانہ بھرجاتاہے۔فوجی طاقت مضبوط ہوجاتی ہے۔اوردشمنوں کی تمنائیں پامال ہوجاتی ہیں۔سرحدوں پرفوجیں تعنیات ہوجاتی ہیں۔اورسلطان اطمینان اوردل جمعی کے ساتھ اپنے کام سرانجام دینےاورمزے سے اس کے دن گذرنے لگتے ہیں۔ملک میں ایک قابل رشک انتظام قائم ہوجاتاہے۔آپ بھی اس حکایت کوسمجھ جائیے کہ ظلم سے آبادعلاقے ویران ہوجاتے ہیں۔اورویرانی کی تمام ذمہ داری حکومت پرعائد ہوتی ہے اوراس سے حکومت میں ابتری پھیلتے پھیلتے حکومت ہاتھوں سے نکل جاتی ہے۔


والسلام
جاویداقبال
 
Top