‘کلیاں اور شگوفے‘

سارا

محفلین
شمشاد نے کہا:
حفیظ صاحب اپنے بقول ساتویں جماعت سے بھاگے ہوئے تھے۔ انگریزی جتنی سیکھی تھی زندگی اور انگریز بیوی سے سیکھی تھی۔ انگریزی ناول بہت پڑھتے تھے۔ سفر میں بھی انگریزی کتابیں ساتھ رہتی تھیں۔ انگریزی روانی سے بول نہیں سکتے تھے البتہ انگریزی میں روانی سے لڑ سکتے تھے۔ ہماری انگریزی کی چار سطریں نہیں چلنے دیتے، انگریزی میں لکھ نہیں سکتے مگر انگریزی میں اصلاح دے سکتے تھے۔ ان کی اصلاح لفظوں کی جنگ ہوتی تھی۔ ان کے نزدیک ایک وقت میں ایک لفظ ایک ہی مفہوم ادا کر سکتا تھا۔ اگر نہیں کر رہا تو لفظ کو کاٹ کر کہیں گے “ میری جان کوئی اور لفظ لاؤ۔۔۔ لفظ موجود ہے بس چُھپا ہوا ہے۔ ڈھونڈھو، ڈھونڈھو، بات بنی نہیں، تم تھک گئے ہو۔“

(سید ضمیر جعفری کی ڈائری سے)

:D :D
 

ماوراء

محفلین
لرزشِ زباں

لرزشِ زباں​


یوں تو زبان بہت سی چھوٹی سی اور گوشت پوست کی بنی ہوئی ہوتی ہے لیکن اس کے کام بہت بڑے ہوتے ہیں۔ دانتوں اور زبان کی آپس میں کچھ زیادہ اچھی دوستی نہیں ہے۔ زبان نے دانتوں سے کہا۔ “جب تم کوئی بد مزا چیز چباتے ہو تو مجھے ذائقہ برداشت کرنا پڑتا پے۔“ تو دانتوں نے جواب دیا۔ “اور جب تم ذرا سی غلط بولتی ہو تو گھونسے ہم پر برسائے جاتے ہیں۔“

زبان ایک ہونے کے باوجود بتیس پر حاوی ہے تو طے یہ پایا کہ زبان چھوٹی ہونے کے باوجود زبردست قوت کی حامل ہے۔ شخصیت کی پہچان اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہ زبان نہ کھولے۔ زبان کھولنے سے کچھ اس قسم کی بات ذہن میں آتی ہے، جیسے فریج کھولنا، کمرے کا دروازہ کھولنا وغیرہ وغیرہ۔

مستورات کی پہچان کرنا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہےکیونکہ آپ انہیں خاموش کروانے کی لاکھ کوشش کریں لیکن وہ اپنی پہچان کروا کر ہی رہیں گی۔ ان کی زبان ہر وقت نان اسٹاپ چلتی ہے۔ نہ جانے سوتے میں کس طرح رک جاتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر رات جیسی نعمت نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ اگر کبھی “مقابلہ زبان درازی“ کروایا جائے تو بلاشبہ خواتین پہلی تین پوزیشنز بلا مقابلہ حاصل کر لیں گی۔ خواتین کی زبان اتنی دراز ہوتی ہے کہ اکثر اوقات منہ سے باہر لٹک رہی ہوتی ہے۔ چوپایوں کی زبان باہر لٹک رہی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے گھاس کھانی ہوتی ہے۔ لمبی زبان کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ انسان گھاس کھا سکتا ہے اور گھاس کھانے کی وجہ سے عقل آتی ہے۔ چونکہ مرد حضرات گھاس نہیں کھاتے اس لئے ان میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔ اکثر لمبی زبان والے چوپایوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے، صرف اور صرف زبان کی وجہ سے۔ ذبح شدہ جانور کی زبان بھی سوا لاکھ کی ہوتی ہے۔ زبان نقشے بھی بنوانی ہے، اس کی ذرا سی جنبش سے چہرے کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ ویسے تو یہ کام بیوٹی پالرز بھی کر رہے ہیں لیکن زبان کے چھوڑے ہوئے اثرات عرصہ دراز تک چہرے پر رہتے ہیں۔

زبانیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ اردو، انگلش، فارسی و عربی وغیرہ۔ جب کسی دوسرے ملک جانا ہو تو سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہی درپیش آتا ہے۔ کیونکہ دونوں کی زبان ایک نہیں ہوتی، ایک ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ جب دو افراد ہوں گے تو زبانیں بھی دو ہوں گی۔ ہر شخص کے منہ میں اپنی زبان ہوتی ہے۔ جب دو زبانیں ہوں گی تو دشنام طرازیاں بھی ہوں گی لیکن اس کے باوجود چہرے کا نقشہ وہی رہے گا۔ ہماری قومی زبان اردو ہے لیکن اردو بولتے ہوئے ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں صرف فرنگی کی زبان پسند ہے اور اگر کوئی اردو بولے تو اس کی زبان پکڑ لی جاتی ہے اور جو زبانیں پکڑنے کے قابل نہیں ہوتیں، انہیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ کٹنے سے بچاؤ کے لیے زبان کو لگام دے دینا چاہیے۔ چند حضرات زبان سے پھر جاتے ہیں۔ “پھر جانا“ بالکل اسی طرح لگتا ہے، جس طرح پھر آنا، پھر کھانا، پھر پینا وغیرہ۔۔۔۔۔کوئی زبان سے پھر پھر جاتا ہے تو اسے پھر جانے دیجئے، اس لحاظ سے بچے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ بچے چونکہ کم بولتے ہیں، اس لئے معصوم کہلاتے ہیں۔ یہی بچے جب بڑے ہو کر زبان چلاتے ہیں تو بد تمیز اور نافرمان جیسے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔ خواتین ٹین ایج میں بیس و پچیس سال رہنا پسند کرتی ہیں تاکہ معصوم کہلائیں۔

کہا جاتا ہے کہ “پہلے تولو پھر بولو“ ارے صاحب! اب ہم ہر بات کہنے سے پہلے اپنا چہرہ ترازو کے پلڑے میں تو نہیں رکھ سکتے نا۔۔۔! اسی لئے تولے بغیر ہی بول دیتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ بول دیا ہے، وہ بہت بھاری ہے اور اس وزن کو زبان پر نہیں لانا چاہیے تھا۔ اب زبان پر جو کچھ آیا ہے، وہ زبان زدوعام تو ہو گا اور کیوں نہ ہو، یہ کوئی زبانی جمع خرچ تھوڑا ہی ہے، یہ تو وہ بات ہے جو تحت زبان ہی رہتی تو اچھا تھا لیکن کیا کیجئے اس زبان کا جو پھسلتی ہے تو پھر پھسلتی ہی چلی جاتی ہے۔

اللہ تعالٰی نے زبان میں ہڈی نہیں رکھی۔ یہ دیکھنے میں جس قدر نرم معلوم ہوتی ہے۔ اس کے افعال اسی قدر سخت ہیں۔ اس کی کاٹ تلوار سے بھی زیادہ ہے۔ تلوار کا زخم تو کبھی نہ کبھی بھر ہی جاتا ہے لیکن اس کا لگایا ہوا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ کوشش کیجئے گا آپ کی تلوار سے کوئی زخم نہ لگ جائے۔
 

سارا

محفلین
سلور جوبلی

مغرب ہم سے بہت آگے ہے بلکہ ہم نے اسے بہت آگے لگا رکھا ہے لیکن وہ شادی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لیے بڑا فروغ دے رہے ہیں۔۔ہالی وڈ میں تو شادی کی تصوریں پولو رائیڈ کیمرے سے کھینچتے ہیں تا کہ یہ نہ ہو جب تک جوڑے کی تصویریں دھل کر آئیں تب تک علیحدگی ہو چکی ہو۔۔پچھلے دنوں وہاں ایک اداکارہ نے شادی کی سلور جوبلی منائی۔۔بہت حیرانی ہوئی۔۔
پتا کیا کہ ‘‘کیا واقعی اس کی شادی کا یہ پچیسواں سال ہے ؟‘‘ جواب ملا۔۔
‘‘نہیں جناب ! یہ اس کی پچیسویں شادی مبارک ہے‘‘

ڈاکٹر یونس بٹ کی تصنیف ‘‘افراتفریح‘‘ سے اقتباس)
 

سارا

محفلین
لرزشِ زباں

ماوراء نے کہا:
لرزشِ زباں​


یوں تو زبان بہت سی چھوٹی سی اور گوشت پوست کی بنی ہوئی ہوتی ہے لیکن اس کے کام بہت بڑے ہوتے ہیں۔ دانتوں اور زبان کی آپس میں کچھ زیادہ اچھی دوستی نہیں ہے۔ زبان نے دانتوں سے کہا۔ “جب تم کوئی بد مزا چیز چباتے ہو تو مجھے ذائقہ برداشت کرنا پڑتا پے۔“ تو دانتوں نے جواب دیا۔ “اور جب تم ذرا سی غلط بولتی ہو تو گھونسے ہم پر برسائے جاتے ہیں۔“

زبان ایک ہونے کے باوجود بتیس پر حاوی ہے تو طے یہ پایا کہ زبان چھوٹی ہونے کے باوجود زبردست قوت کی حامل ہے۔ شخصیت کی پہچان اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہ زبان نہ کھولے۔ زبان کھولنے سے کچھ اس قسم کی بات ذہن میں آتی ہے، جیسے فریج کھولنا، کمرے کا دروازہ کھولنا وغیرہ وغیرہ۔

مستورات کی پہچان کرنا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہےکیونکہ آپ انہیں خاموش کروانے کی لاکھ کوشش کریں لیکن وہ اپنی پہچان کروا کر ہی رہیں گی۔ ان کی زبان ہر وقت نان اسٹاپ چلتی ہے۔ نہ جانے سوتے میں کس طرح رک جاتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر رات جیسی نعمت نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ اگر کبھی “مقابلہ زبان درازی“ کروایا جائے تو بلاشبہ خواتین پہلی تین پوزیشنز بلا مقابلہ حاصل کر لیں گی۔ خواتین کی زبان اتنی دراز ہوتی ہے کہ اکثر اوقات منہ سے باہر لٹک رہی ہوتی ہے۔ چوپایوں کی زبان باہر لٹک رہی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے گھاس کھانی ہوتی ہے۔ لمبی زبان کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ انسان گھاس کھا سکتا ہے اور گھاس کھانے کی وجہ سے عقل آتی ہے۔ چونکہ مرد حضرات گھاس نہیں کھاتے اس لئے ان میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔ اکثر لمبی زبان والے چوپایوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے، صرف اور صرف زبان کی وجہ سے۔ ذبح شدہ جانور کی زبان بھی سوا لاکھ کی ہوتی ہے۔ زبان نقشے بھی بنوانی ہے، اس کی ذرا سی جنبش سے چہرے کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ ویسے تو یہ کام بیوٹی پالرز بھی کر رہے ہیں لیکن زبان کے چھوڑے ہوئے اثرات عرصہ دراز تک چہرے پر رہتے ہیں۔

زبانیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ اردو، انگلش، فارسی و عربی وغیرہ۔ جب کسی دوسرے ملک جانا ہو تو سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہی درپیش آتا ہے۔ کیونکہ دونوں کی زبان ایک نہیں ہوتی، ایک ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ جب دو افراد ہوں گے تو زبانیں بھی دو ہوں گی۔ ہر شخص کے منہ میں اپنی زبان ہوتی ہے۔ جب دو زبانیں ہوں گی تو دشنام طرازیاں بھی ہوں گی لیکن اس کے باوجود چہرے کا نقشہ وہی رہے گا۔ ہماری قومی زبان اردو ہے لیکن اردو بولتے ہوئے ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں صرف فرنگی کی زبان پسند ہے اور اگر کوئی اردو بولے تو اس کی زبان پکڑ لی جاتی ہے اور جو زبانیں پکڑنے کے قابل نہیں ہوتیں، انہیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ کٹنے سے بچاؤ کے لیے زبان کو لگام دے دینا چاہیے۔ چند حضرات زبان سے پھر جاتے ہیں۔ “پھر جانا“ بالکل اسی طرح لگتا ہے، جس طرح پھر آنا، پھر کھانا، پھر پینا وغیرہ۔۔۔۔۔کوئی زبان سے پھر پھر جاتا ہے تو اسے پھر جانے دیجئے، اس لحاظ سے بچے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ بچے چونکہ کم بولتے ہیں، اس لئے معصوم کہلاتے ہیں۔ یہی بچے جب بڑے ہو کر زبان چلاتے ہیں تو بد تمیز اور نافرمان جیسے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔ خواتین ٹین ایج میں بیس و پچیس سال رہنا پسند کرتی ہیں تاکہ معصوم کہلائیں۔

کہا جاتا ہے کہ “پہلے تولو پھر بولو“ ارے صاحب! اب ہم ہر بات کہنے سے پہلے اپنا چہرہ ترازو کے پلڑے میں تو نہیں رکھ سکتے نا۔۔۔! اسی لئے تولے بغیر ہی بول دیتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ بول دیا ہے، وہ بہت بھاری ہے اور اس وزن کو زبان پر نہیں لانا چاہیے تھا۔ اب زبان پر جو کچھ آیا ہے، وہ زبان زدوعام تو ہو گا اور کیوں نہ ہو، یہ کوئی زبانی جمع خرچ تھوڑا ہی ہے، یہ تو وہ بات ہے جو تحت زبان ہی رہتی تو اچھا تھا لیکن کیا کیجئے اس زبان کا جو پھسلتی ہے تو پھر پھسلتی ہی چلی جاتی ہے۔

اللہ تعالٰی نے زبان میں ہڈی نہیں رکھی۔ یہ دیکھنے میں جس قدر نرم معلوم ہوتی ہے۔ اس کے افعال اسی قدر سخت ہیں۔ اس کی کاٹ تلوار سے بھی زیادہ ہے۔ تلوار کا زخم تو کبھی نہ کبھی بھر ہی جاتا ہے لیکن اس کا لگایا ہوا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ کوشش کیجئے گا آپ کی تلوار سے کوئی زخم نہ لگ جائے۔

زبردست۔۔۔ :D :p
 

جاویداقبال

محفلین
مدینہ منورہ ا‌فضل ہے کہ مکہ معظمہ

السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،

مدینہ منورہ ا‌فضل ہے کہ مکہ معظمہ

اس میں علماء میں اختلاف ہے۔امام مالک (رحمۃ اللہ) مدینہ کی فضیلت کے قائل ہیں۔کیونکہ ان کے نزدیک اس بارے میں ایک صحیح حدیث ہے کہ رفیع بن مخدج کابیان ہے کہ نبی اکرم (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایامدینہ مکہ سے بہترہے۔یہ حدیث مدینہ کی فضیلت میں دیگراحادیث کے ساتھ عبدالوھاب نے معونتہ میں نقل کی ہے جس سے بظاہرمدینہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔لیکن ابوحنیفہ(رحمۃ اللہ) اورشافعی(رحمۃ اللہ) مکہ کوافضل بتاتے ہیں۔(یہی صحیح بھی ہے کیونکہ اس میں بیت اللہ ہے جوروئے زمین پرسب سے افضل مقام ہے)بہرحال اگرمدینہ کا فضیلت میں پہلادرجہ نہیں تودوسرادرجہ توضرورہے۔دنیاکے گوشہ گوشہ کے لوگوں کے دل مدینہ سے وابستہ ہیں۔غورکیجئے کس طرح ان بڑی بڑی مسجدوں میں بتدریج برتری آئی۔دیکھئے ازل ہی سے ان پرحق تعالی کی نظرعنایت تھی۔کائنات عالم میں حق تعالی شانہ کی حکمت پرغورکیجئے کہ اس نے دینی اوردنیوی تمام کاموں میں کس طرح تدریجی ترتیب مستحکم قائم فرمائی ہے۔مذکورہ بالاتینوں مقدس مسجدوں کے علاوہ کسی اورمسجد کی خصوصی فضیلت ہمیں معلوم نہیں۔جزائرہندمیں سراندیپ میں مسجد آدم کی بھی فضیلت بتائی جاتی ہے۔لیکن اس کے بارے میں کوئی قابل بھروسہ اثرثابت نہیں۔پرانے زمانے میں اقوام عالم کی چندعبادت گاہیں تھیں۔جن کی عظمت وفضيلت کے وہ لوگ اپنے فاسدگمانوں میں قائل تھے۔ جیسے آتشکدہ فارس،ہیاکل یونان اورحجازمیں عربوں کے معبدجن کورحمت عالم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے لڑائیوں میں مسمارکرادیا(کیونکہ سب کفروشرک کے اڈے تھے)ان میں سے مسعودی نے چندمعبودوں کاذکربھی کیاہے مگروہ ہمارے موضوع سے خارج ہیں کیونکہ یہ سب خلاف شرع اورناقابل التفات ہیں کوئی اہم چیزہوتواس کاحال بھی بیان کیاجائے اگرکسی کوشوق ہوتوتواریخ کامطالعہ کرے۔
(ابن خلدون کامقدمہ سے اقتباس)

والسلام
جاویداقبال
 
لرزشِ زباں

ماوراء نے کہا:
لرزشِ زباں​


یوں تو زبان بہت سی چھوٹی سی اور گوشت پوست کی بنی ہوئی ہوتی ہے لیکن اس کے کام بہت بڑے ہوتے ہیں۔ دانتوں اور زبان کی آپس میں کچھ زیادہ اچھی دوستی نہیں ہے۔ زبان نے دانتوں سے کہا۔ “جب تم کوئی بد مزا چیز چباتے ہو تو مجھے ذائقہ برداشت کرنا پڑتا پے۔“ تو دانتوں نے جواب دیا۔ “اور جب تم ذرا سی غلط بولتی ہو تو گھونسے ہم پر برسائے جاتے ہیں۔“

زبان ایک ہونے کے باوجود بتیس پر حاوی ہے تو طے یہ پایا کہ زبان چھوٹی ہونے کے باوجود زبردست قوت کی حامل ہے۔ شخصیت کی پہچان اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہ زبان نہ کھولے۔ زبان کھولنے سے کچھ اس قسم کی بات ذہن میں آتی ہے، جیسے فریج کھولنا، کمرے کا دروازہ کھولنا وغیرہ وغیرہ۔

مستورات کی پہچان کرنا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہےکیونکہ آپ انہیں خاموش کروانے کی لاکھ کوشش کریں لیکن وہ اپنی پہچان کروا کر ہی رہیں گی۔ ان کی زبان ہر وقت نان اسٹاپ چلتی ہے۔ نہ جانے سوتے میں کس طرح رک جاتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر رات جیسی نعمت نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ اگر کبھی “مقابلہ زبان درازی“ کروایا جائے تو بلاشبہ خواتین پہلی تین پوزیشنز بلا مقابلہ حاصل کر لیں گی۔ خواتین کی زبان اتنی دراز ہوتی ہے کہ اکثر اوقات منہ سے باہر لٹک رہی ہوتی ہے۔ چوپایوں کی زبان باہر لٹک رہی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے گھاس کھانی ہوتی ہے۔ لمبی زبان کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ انسان گھاس کھا سکتا ہے اور گھاس کھانے کی وجہ سے عقل آتی ہے۔ چونکہ مرد حضرات گھاس نہیں کھاتے اس لئے ان میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔ اکثر لمبی زبان والے چوپایوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے، صرف اور صرف زبان کی وجہ سے۔ ذبح شدہ جانور کی زبان بھی سوا لاکھ کی ہوتی ہے۔ زبان نقشے بھی بنوانی ہے، اس کی ذرا سی جنبش سے چہرے کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ ویسے تو یہ کام بیوٹی پالرز بھی کر رہے ہیں لیکن زبان کے چھوڑے ہوئے اثرات عرصہ دراز تک چہرے پر رہتے ہیں۔

زبانیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ اردو، انگلش، فارسی و عربی وغیرہ۔ جب کسی دوسرے ملک جانا ہو تو سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہی درپیش آتا ہے۔ کیونکہ دونوں کی زبان ایک نہیں ہوتی، ایک ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ جب دو افراد ہوں گے تو زبانیں بھی دو ہوں گی۔ ہر شخص کے منہ میں اپنی زبان ہوتی ہے۔ جب دو زبانیں ہوں گی تو دشنام طرازیاں بھی ہوں گی لیکن اس کے باوجود چہرے کا نقشہ وہی رہے گا۔ ہماری قومی زبان اردو ہے لیکن اردو بولتے ہوئے ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں صرف فرنگی کی زبان پسند ہے اور اگر کوئی اردو بولے تو اس کی زبان پکڑ لی جاتی ہے اور جو زبانیں پکڑنے کے قابل نہیں ہوتیں، انہیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ کٹنے سے بچاؤ کے لیے زبان کو لگام دے دینا چاہیے۔ چند حضرات زبان سے پھر جاتے ہیں۔ “پھر جانا“ بالکل اسی طرح لگتا ہے، جس طرح پھر آنا، پھر کھانا، پھر پینا وغیرہ۔۔۔۔۔کوئی زبان سے پھر پھر جاتا ہے تو اسے پھر جانے دیجئے، اس لحاظ سے بچے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ بچے چونکہ کم بولتے ہیں، اس لئے معصوم کہلاتے ہیں۔ یہی بچے جب بڑے ہو کر زبان چلاتے ہیں تو بد تمیز اور نافرمان جیسے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔ خواتین ٹین ایج میں بیس و پچیس سال رہنا پسند کرتی ہیں تاکہ معصوم کہلائیں۔

کہا جاتا ہے کہ “پہلے تولو پھر بولو“ ارے صاحب! اب ہم ہر بات کہنے سے پہلے اپنا چہرہ ترازو کے پلڑے میں تو نہیں رکھ سکتے نا۔۔۔! اسی لئے تولے بغیر ہی بول دیتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ بول دیا ہے، وہ بہت بھاری ہے اور اس وزن کو زبان پر نہیں لانا چاہیے تھا۔ اب زبان پر جو کچھ آیا ہے، وہ زبان زدوعام تو ہو گا اور کیوں نہ ہو، یہ کوئی زبانی جمع خرچ تھوڑا ہی ہے، یہ تو وہ بات ہے جو تحت زبان ہی رہتی تو اچھا تھا لیکن کیا کیجئے اس زبان کا جو پھسلتی ہے تو پھر پھسلتی ہی چلی جاتی ہے۔

اللہ تعالٰی نے زبان میں ہڈی نہیں رکھی۔ یہ دیکھنے میں جس قدر نرم معلوم ہوتی ہے۔ اس کے افعال اسی قدر سخت ہیں۔ اس کی کاٹ تلوار سے بھی زیادہ ہے۔ تلوار کا زخم تو کبھی نہ کبھی بھر ہی جاتا ہے لیکن اس کا لگایا ہوا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ کوشش کیجئے گا آپ کی تلوار سے کوئی زخم نہ لگ جائے۔

زبردست ماورا ویسے یہ بھی لکھ دو کہ کس نے کہاں لکھا ہے تو لطف دوبالا ہو جائے
 

سارا

محفلین
غربت کی عظمت

میں سوچتا ہوں محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو دو جہانوں کے بادشاہ تھے۔۔ان کا چولہا ٹھنڈا کیوں رہتا تھا؟ وہ چٹائی پر کیوں سوتے تھے؟ اور ایک کچے مکان میں کیوں رہتے تھے۔۔کھانے کے لیے ان کے چنگیر میں صرف دو کھجوریں ہوتی تھیں۔۔کھانے لگتے تو دروازہ بجتا۔۔
‘‘میں بھوکا ہوں‘‘ اور وہ ایک کھجور سائل کو دے دیتے اور خود ایک ہی کھا لیتے۔۔میں سوچتا ہوں آپ جو دو عالم کے بادشاہ تھے انہوں نے کیوں غربت کو منتخب کیا؟
کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نعوذ باللہ کم فہم‘ کم عقل یا کم علم تھے؟ پھر؟ اگر وہ عقلِ کل تھے تو ہمیں ماننا پڑے گا کہ غربت میں کوئی بڑی عظمت ہے۔۔ورنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی غربت منتخب نہ کرتے۔۔عمامیت میں کوئی بڑی خوبی ہے ورنہ عمومیت کی زندگی بسر نہ کرتے۔۔عام لوگوں جیسا لباس استعمال نہ کرتے۔۔بوریا نشین نہ ہوتے اور ایک عام سے کچے مکان میں رہائش نہ رکھتے۔۔

(ممتاز مفتی کی کتان تلاش سے اقتباس)
 

سارا

محفلین
شوہر کی زندگی

اسکول میں ماسٹروں سے مرعوب ہونا ہمارے نزدیک ہمیشہ ذلت کی بات تھی۔۔البتہ ذرا ہیڈ ماسٹر کے گھنٹے میں تھوڑی دیر کے لیے دم سادھے بیٹھنا پڑتا تھا مگر اب تو یہ حال ہے۔۔گویا ہیڈ ماسٹر صاحب سے ہی شادی کر لی ہے۔۔کیا مجال ہے کہ بیگم صاحبہ کے ہوتے ہوئے ہم اپنے پیدائشی حق یعنی آزادی سے بھی کوئی فائدہ اٹھا سکیں۔۔صبح دیر سے سو کر اٹھیں تو منحوس‘ منہ ہاتھ دھوئے بغیر چائے پی لیں تو اچھوت‘ دفتر دیر سے جانے کا ارادہ کریں تو کام چور نوالہ حاضر۔۔۔جاڑے کا زمانہ اگر بغیر غسل سے ٹالنا چاہیں تو افیونی‘ تاش کھیلیں تو جواری‘ شطرنج سے دل بہلائیں تو نحوست کے ذمہ دار ‘ باہر گھومنے جائیں تو آوارہ‘ رات کو دیر سے گھر آئیں تو اعلا درجے کے بدمعاش‘ پتنگ اڑانے کا ارادہ کریں تو لوفر اور اگر کچھ بھی نہ کریں یعنی خاموش بیٹھ کر اونگھیں یا منہ اٹھائے محض بیٹھے رہیں تو بے وقوف۔۔۔
اب آپ ہی بتائیں یہ زندگی ایک شوہر کی زندگی ہے یا کالے پانی کی سزا پانے والے کسی مجرم کی زندگی‘ مگر جیسی بھی زندگی ہے بہرحال اب اسی طرح اس کو بسر کرنا ہے‘ اس لیے کہ بیگم صاحبہ کا ساتھ کوئی ایک دو دن کا نہیں زندگی بھر کا ساتھ ہے اور زندگی ایک بڑی مدت کا نام ہے کہ اس کا تصور کرتے ہوئے بھی اختلاج ہونے لگتا ہے۔۔

(شوکت تھانوی ‘‘خطبی‘‘)
 

سارا

محفلین
جوک در جوک

ہم تاریخ کے لاجواب طالب علم رہے ہیں۔۔جب بھی کوئی سوال پوچھا جاتا ہمارا جواب ‘‘لا‘‘ میں ہوتا۔۔
ایک ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ مچھر کی وجہ سے ملیریا ہو جاتا ہے اور ملیریا کے باعث پڑھائی میں میرا سال ضائع ہو گیا تھا۔۔پوچھا۔۔
کیا آپ کو امتحان کے دنوں میں ملیریا ہو گیا تھا ؟ ‘‘
کہا ‘‘نہیں‘ امتحان میں پروفیسر نے مجھ سے ملیریے کے بارے میں سوال پوچھے تھے۔۔‘‘
دوائی کھانے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ پھر مریض مرض سے نہیں مرتا‘ مشاہرہ میں بھی ہمیں ‘درد‘ پسند ہے جی ہاں خواجہ میر درد پسند ہے۔۔موسیقی کا درد سے بڑا رشتہ ہے۔۔مہدی حسن گا رہے ہوں تو واقع لگتا ہے کہ انہیں درد ہو رہا ہے۔۔وہ سر چھیڑتے ہوئے یوں منہ سے اشارہ کرتے ہیں کہ بندے ادھر ادھر دیکھنے لگتے ہیں کہ یہ کسے چھیڑ رہے ہیں؟ درد کے ہول سیل ڈیلر عطا اللہ عیسٰی خیلوی ہیں۔۔ایک تقریب میں انہوں نے ایسا دردناک گانا گایا کہ کئی ڈاکٹرز سیٹوں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔۔کہتے ہیں دور کے ڈھول سہانے لگتے ہیں خاص کر اس وقت جب وہ اتنی دور ضرور ہوں کہ ان کی آواز سنائی نہ دے۔۔

(ڈاکٹر یونس بٹ کی ‘جوک در جوک‘ سے انتخاب)
 

سارہ خان

محفلین
دلائل


جارج برنارڈ شا ایک سیاسی جلسے سے خطاب کر رہے تھے ۔ سٹیج پر گنجائش سے زیادہ لوگ چڑھ جانے کی وجہ سے سٹیج لرز رہا تھا۔ جارج برنارڈشا بلند آواز میں پورے جوش اور ولولے سے تقریر کررہے تھے کہ اچانک کڑاک کی آواز کے ساتھ سٹیج ٹوٹ گیا اور جارج برنارڈشا دھڑام سے نیچے گر گئے

اپنے حواس قائم رکھتے ہوئے سکون سے اٹھے اور مسکراتے ہوئے بولے

“حاضرین ! آپ نے میرے دلائل کا وزن ملاحظہ فرمایا ؟ “


اقتباس “انجمن بیزارانِ سیاست“ ڈاکٹر یونس بٹ


 

سارہ خان

محفلین
عدم ایک بہت بڑے شاعر تھے۔ تقسیم سے قبل وہ انڈیا کے نامور شعراء میں تھے۔
لیکن وہ بہت ہی بھاری بھرکم تھے۔ بہت فربہ جسم تھے۔ ایک دفعہ کسی مجلس میں ان کے آمنا سامنا کسی اور شاعر (غالباً میر سے) ہو گیا تو ان کے نہ پہچاننے پر عدم اپنا تعارف کروانے کے لیے کہنے لگے۔
حضرت مجھے پہچانا نہیں ؟ میں ہوں عدم ۔۔ ؟
دوسرے صاحب حیرت سے ان کے بھاری بھرکم جثے کو دیکھتے ہوئے بولے ۔
“ اچھا ؟ اگر آپ عدم ہیں تو وجود کا عالم کیا ہوگا ؟“
 
Top