لرزشِ زباں
یوں تو زبان بہت سی چھوٹی سی اور گوشت پوست کی بنی ہوئی ہوتی ہے لیکن اس کے کام بہت بڑے ہوتے ہیں۔ دانتوں اور زبان کی آپس میں کچھ زیادہ اچھی دوستی نہیں ہے۔ زبان نے دانتوں سے کہا۔ “جب تم کوئی بد مزا چیز چباتے ہو تو مجھے ذائقہ برداشت کرنا پڑتا پے۔“ تو دانتوں نے جواب دیا۔ “اور جب تم ذرا سی غلط بولتی ہو تو گھونسے ہم پر برسائے جاتے ہیں۔“
زبان ایک ہونے کے باوجود بتیس پر حاوی ہے تو طے یہ پایا کہ زبان چھوٹی ہونے کے باوجود زبردست قوت کی حامل ہے۔ شخصیت کی پہچان اس وقت تک نہیں ہوتی جب تک کہ وہ زبان نہ کھولے۔ زبان کھولنے سے کچھ اس قسم کی بات ذہن میں آتی ہے، جیسے فریج کھولنا، کمرے کا دروازہ کھولنا وغیرہ وغیرہ۔
مستورات کی پہچان کرنا کوئی خاص مشکل کام نہیں ہےکیونکہ آپ انہیں خاموش کروانے کی لاکھ کوشش کریں لیکن وہ اپنی پہچان کروا کر ہی رہیں گی۔ ان کی زبان ہر وقت نان اسٹاپ چلتی ہے۔ نہ جانے سوتے میں کس طرح رک جاتی ہے۔ ذرا سوچئے کہ اگر رات جیسی نعمت نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟ اگر کبھی “مقابلہ زبان درازی“ کروایا جائے تو بلاشبہ خواتین پہلی تین پوزیشنز بلا مقابلہ حاصل کر لیں گی۔ خواتین کی زبان اتنی دراز ہوتی ہے کہ اکثر اوقات منہ سے باہر لٹک رہی ہوتی ہے۔ چوپایوں کی زبان باہر لٹک رہی ہوتی ہے کیونکہ انہوں نے گھاس کھانی ہوتی ہے۔ لمبی زبان کا ایک فائدہ تو یہ ہے کہ انسان گھاس کھا سکتا ہے اور گھاس کھانے کی وجہ سے عقل آتی ہے۔ چونکہ مرد حضرات گھاس نہیں کھاتے اس لئے ان میں عقل کی کمی ہوتی ہے۔ اکثر لمبی زبان والے چوپایوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے، صرف اور صرف زبان کی وجہ سے۔ ذبح شدہ جانور کی زبان بھی سوا لاکھ کی ہوتی ہے۔ زبان نقشے بھی بنوانی ہے، اس کی ذرا سی جنبش سے چہرے کا نقشہ ہی بدل جاتا ہے۔ ویسے تو یہ کام بیوٹی پالرز بھی کر رہے ہیں لیکن زبان کے چھوڑے ہوئے اثرات عرصہ دراز تک چہرے پر رہتے ہیں۔
زبانیں مختلف قسم کی ہوتی ہیں۔ اردو، انگلش، فارسی و عربی وغیرہ۔ جب کسی دوسرے ملک جانا ہو تو سب سے بڑا مسئلہ زبان کا ہی درپیش آتا ہے۔ کیونکہ دونوں کی زبان ایک نہیں ہوتی، ایک ہو بھی کیسے سکتی ہے؟ جب دو افراد ہوں گے تو زبانیں بھی دو ہوں گی۔ ہر شخص کے منہ میں اپنی زبان ہوتی ہے۔ جب دو زبانیں ہوں گی تو دشنام طرازیاں بھی ہوں گی لیکن اس کے باوجود چہرے کا نقشہ وہی رہے گا۔ ہماری قومی زبان اردو ہے لیکن اردو بولتے ہوئے ہماری زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں۔ ہمیں صرف فرنگی کی زبان پسند ہے اور اگر کوئی اردو بولے تو اس کی زبان پکڑ لی جاتی ہے اور جو زبانیں پکڑنے کے قابل نہیں ہوتیں، انہیں کاٹ دیا جاتا ہے۔ کٹنے سے بچاؤ کے لیے زبان کو لگام دے دینا چاہیے۔ چند حضرات زبان سے پھر جاتے ہیں۔ “پھر جانا“ بالکل اسی طرح لگتا ہے، جس طرح پھر آنا، پھر کھانا، پھر پینا وغیرہ۔۔۔۔۔کوئی زبان سے پھر پھر جاتا ہے تو اسے پھر جانے دیجئے، اس لحاظ سے بچے بہت اچھے ہوتے ہیں۔ بچے چونکہ کم بولتے ہیں، اس لئے معصوم کہلاتے ہیں۔ یہی بچے جب بڑے ہو کر زبان چلاتے ہیں تو بد تمیز اور نافرمان جیسے القابات سے نوازے جاتے ہیں۔ خواتین ٹین ایج میں بیس و پچیس سال رہنا پسند کرتی ہیں تاکہ معصوم کہلائیں۔
کہا جاتا ہے کہ “پہلے تولو پھر بولو“ ارے صاحب! اب ہم ہر بات کہنے سے پہلے اپنا چہرہ ترازو کے پلڑے میں تو نہیں رکھ سکتے نا۔۔۔! اسی لئے تولے بغیر ہی بول دیتے ہیں۔ بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ جو کچھ بول دیا ہے، وہ بہت بھاری ہے اور اس وزن کو زبان پر نہیں لانا چاہیے تھا۔ اب زبان پر جو کچھ آیا ہے، وہ زبان زدوعام تو ہو گا اور کیوں نہ ہو، یہ کوئی زبانی جمع خرچ تھوڑا ہی ہے، یہ تو وہ بات ہے جو تحت زبان ہی رہتی تو اچھا تھا لیکن کیا کیجئے اس زبان کا جو پھسلتی ہے تو پھر پھسلتی ہی چلی جاتی ہے۔
اللہ تعالٰی نے زبان میں ہڈی نہیں رکھی۔ یہ دیکھنے میں جس قدر نرم معلوم ہوتی ہے۔ اس کے افعال اسی قدر سخت ہیں۔ اس کی کاٹ تلوار سے بھی زیادہ ہے۔ تلوار کا زخم تو کبھی نہ کبھی بھر ہی جاتا ہے لیکن اس کا لگایا ہوا زخم کبھی نہیں بھرتا۔ کوشش کیجئے گا آپ کی تلوار سے کوئی زخم نہ لگ جائے۔