ججز کیخلاف ریفرنس: وکلاء کا ملک بھر میں 14 جون کو ہڑتال کا اعلان
پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز نے وزیرقانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کی مذمت کی گئی اور مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا: وائس چیئرمین پاکستان بار — فوٹو: فائل
اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بعد ملک بھر کی صوبائی بار کونسلز نے ججز کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے موقع پر 14 جون کو ہڑتال کا اعلان کردیا۔
سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر پاکستان بار کونسل اور چاروں صوبائی بار کونسلز کا اہم اجلاس سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہوا۔
اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا اور کئی اہم فیصلے بھی کیے گئے۔
ملک کی تمام صوبائی بار کونسلز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس کے 14 جون کو سماعت کے موقع پر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔
پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ کا اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مطالبہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کےخلاف ریفرنس واپس لیا جائے۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کے اجلاس میں وزیرقانون سینیٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کی مذمت کی گئی اور دونوں سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل اور وزیرقانون دونوں قاضی فائزعیسیٰ کےخلاف ریفرنس کا حصہ ہیں، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کےخلاف ریفرنس عدلیہ کی آزادی کی نفی ہے۔
امجد شاہ کے مطابق ہمارا احتجاج اور تحریک کا کسی ادارے یا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، قانون کےدائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بہت سارے زیر التواء ریفرنس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن تعجب ہے حکومت اتنے کمزور ریفرنس پر کیوں بضد ہے، عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے پہلے بھی جدوجہد کی اور اب بھی کریں گے۔
چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حافظ ادریس کے مطابق ایف بی آر کی طرف سے جج صاحبان کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا بلکہ یہ ریفرنس آرٹیکل 10 اے کی بھی خلاف ورزی ہے۔
خیال رہے کہ سپریم کورٹ بار پہلے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس پر احتجاجی دھرنے کا اعلان کرچکی ہے۔
ججز کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔
حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔
لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔
صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔
وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہو چکے ہیں۔
اس معاملے پر سینیٹ میں ججز کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے پر ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے۔
دوسری جانب ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن میں صدارتی ریفرنس کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے ارکان پارلیمنٹ سے ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔
جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اس ضمن میں صدر مملکت کو دو خط لکھ چکے ہیں جس میں انھوں نے ریفرنس کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔