’سینیئر ججوں کے خلاف ریفرنس‘: ایڈیشنل اٹارنی جنرل مستعفی

جان

محفلین
کیا ان کو معلوم ہے کہ دال میں کچھ کالا ہے؟ اور ان اثاثوں کی تحقیق پر وہ خود پکڑے جائیں گے؟
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وہ ٹھیک ہے اور آرام سے بیٹھی ہے تو اپوزیشن کے احتجاج کو اتنا سنجیدہ کیوں لے رہی ہے؟ اور عرض یہ ہے کہ پوری دال ہی کالی ہے جو آپ اپنے منہ سے کہہ رہے ہیں!
غلامی تو جسٹس فائز عیسی شریف خاندان کی کر رہا ہے:
× پہلے شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر ملز کرپشن کیس ٹیکنیکل بنیادوں پر بند کیا
SC rejects NAB appeal to reopen Hudaibiya reference - Pakistan - DAWN.COM
× پھر سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کا لکھا ہوا پاناما کرپشن کیس کے فیصلہ پر اعتراض اٹھایا
Surprise over SC judge remarks on Sharif verdict - Newspaper - DAWN.COM
× اور پھر آخر میں فیض آباد دھرنا کیس میں عسکری اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا
10 major takeaways from SC's Faizabad sit-in judgement - Pakistan - DAWN.COM

جس طرح ن لیگی سابقہ چیف جسٹس ثاقب نثار کو تحریک انصاف کا سپورٹر کہتے تھے۔ یہی الزام جسٹس فائز عیسی کے فیصلے پڑھ کر ان کے ن لیگ یا شریف خاندان کے حمایتی ہونے پر لگایا جا سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
اگر حکومت سمجھتی ہے کہ وہ ٹھیک ہے اور آرام سے بیٹھی ہے تو اپوزیشن کے احتجاج کو اتنا سنجیدہ کیوں لے رہی ہے؟
بالکل سنجیدہ نہیں لے رہے۔ یہ 2007 یا 2009نہیں جب نواز شریف کی ایک کال پر پورا ملک سڑکوں پر نکل آیا تھا۔ پاکستان بدل چکا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ن لیگ کا ججز کے خلاف ریفرنسز پر پارلیمنٹ میں احتجاج کا فیصلہ
ویب ڈیسک جمع۔ء 31 مئ 2019
1687147-pmln-1559285200-414-640x480.jpg

ریفرنسز کے خلاف احتجاج کا ہر آپشن استعمال کریں گے، مسلم لیگ (ن) فوٹو:فائل

اسلام آباد: مسلم لیگ (ن) نے ججز کے خلاف حوکمتی ریفرنسز پر پارلیمنٹ میں احتجاج کا فیصلہ کیا ہے۔

پارلیمنٹ میں قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں شاہد خاقان عباسی اور راجہ ظفر الحق کی زیر صدارت پاکستان مسلم لیگ ن کے مشترکہ پارلیمانی ایڈوائزری گروپ کا اجلاس ہوا۔ ایاز صادق، رانا تنویر، مریم اورنگزیب، مشاہد اللہ خان، راناثناءاللہ اور دیگر رہنماؤں نے اجلاس میں شرکت کی۔

شرکا نے عدلیہ پر حکومت کی جانب سے جج صاحبان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر تفصیلی غور کیا۔ ن لیگ نے ججز کے خلاف ریفرنسز پر شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے پارلیمنٹ کے اندر احتجاج کا فیصلہ کیا۔

ایاز صادق نے کہا کہ ن لیگ نے اصولی موقف اپنانے کا فیصلہ کیا ہے، ریفرنسز کے خلاف احتجاج کا ہر آپشن استعمال کریں گے، ریفرنس عدلیہ پر قدغن لگانے کے مترادف ہے اور عدلیہ پر کسی کو حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
پیمرا نے اس کیس کی رپورٹنگ پر مکمل پابندی لگا کر شریف خاندان کے خلاف حدیبیہ پیپر مل کرپشن کیس کی یاد تازہ کر دی۔ جب اسی جسٹس فائز عیسی نے حدیبیہ کیس کی میڈیا میں تشہیر پر پابندی لگا دی تھی۔ جو بویا وہی کاٹا
No live shows on Hudaibiya, rules SC
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز عیسٰی کے خلاف دستاویز ایف بی آر کی جانب سے بھیجے جانے کا انکشاف
ویب ڈیسک 45 منٹ پہلے
1688753-fbrx-1559395148-808-640x480.jpg

ایف بی آر نے ججز کے خلاف دستاویز غور کے لیے وزارت قانون کو بھجوائیں، ذرائع۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: ایف بی آر نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں اور ڈیکلیئریشن میں مبینہ سقم کی نشاندہی کی۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے اثاثوں اور ڈیکلیئریشن میں مبینہ سقم کی نشاندہی ایف بی آر نے کی، جب کہ سندھ ہائیکورٹ کے سینئر جج کے کے آغا کے اثاثوں اور ڈیکلیئریشن کی دستاویز بھی ایف بی آر کی جانب سے وزارت قانون کو بھجوائی گئیں۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے ججز کے خلاف دستاویز غور کے لیے وزارت قانون کو بھجوائیں، اور وزارت قانون نے جانچ پڑتال کے بعد فائل صدر مملکت کو بھجوا دی، صدر مملکت نے وزارت قا نون کی جانب سے بھجی گئی فائل کاروائی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بھیجی۔

سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنسز کا ابتدائی جائزہ لینے کے بعد اٹارنی جنرل کو نوٹس بھیجا، سپریم جوڈیشل کونسل 14 جون کو اٹارنی جنرل کا موقف سنے گی۔

واضح رہے کہ وزارت قانون و انصاف کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ فروغ نسیم کو ریفرنس بھجوانے کا ماسٹر مائنڈ قرار دینا درست نہیں، ججز کے خلاف شکایت ایف بی آر اور ایسٹ ریکوری یونٹ نے کی تھی، وزارت قانون کے پاس ججز کے اثاثوں کا جائزہ لینے کا کوئی طریقہ نہیں اور وہ موصول ہونے والی شکایات پر کام کرنے کی پابند ہے۔
 
آخری تدوین:

جاسم محمد

محفلین
ذرائع کا کہنا ہے کہ ایف بی آر نے ججز کے خلاف دستاویز غور کے لیے وزارت قانون کو بھجوائیں، اور وزارت قانون نے جانچ پڑتال کے بعد فائل صدر مملکت کو بھجوا دی، صدر مملکت نے وزارت قا نون کی جانب سے بھجی گئی فائل کاروائی کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل بھیجی۔
سپریم جوڈیشل کونسل نے ریفرنسز کا ابتدائی جائزہ لینے کے بعد اٹارنی جنرل کو نوٹس بھیجا، سپریم جوڈیشل کونسل 14 جون کو اٹارنی جنرل کا موقف سنے گی۔
جمہوریت پسند ، لیگی اور جیالے اس ساری قانونی کاروائی میں اپنی محبوب فوج پر تنقید کا بہانہ دریافت کریں۔ تمام جوابات کے نمبر مساوی ہیں۔
 

جاسم محمد

محفلین
ججز کے اثاثے لندن نوٹری میں درج، ہائی کمیشن نے تصدیق کر دی
Last Updated On 02 June,2019 11:28 pm
494441_28271516.jpg

اسلام آباد: (دنیا نیوز) ججز سے متعلق معاملہ وزارت قانون کا دائرہ اختیار، ایسٹ ریکوری یونٹ کو تین ججز کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق شکایات ملیں، یونٹ نے چھان بین کرکے معلومات وزارت قانون کو بھیجیں۔

وزارت قانون اور ایسٹ ریکوری یونٹ کا مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ قانون کے مطابق ججز سے متعلق معاملہ وزارت قانون کے دائر اختیار میں آتا ہے، بیرون ملک اثاثوں کی اطلاع ملنے پر ایسٹ ریکوری یونٹ کاروائی کا پابند ہے۔

مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ کو 3 ججز صاحبان کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق شکایات ملیں تھیں۔ معلومات ملنے پر ایسٹ ریکوری یونٹ نے چھان بین کی۔ ججز کے اثاثے لندن نوٹری میں درج ہیں جس کی ہائی کمیشن نے تصدیق کی۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزارت قانون نے ججز کے اثاثوں کی چھان بین کا کہا اور ہدایت کی کہ ججز کی بیرون ملک اثاثوں کی مکمل تفصیلات چاہیے۔

اعلامیے کے مطابق ایسٹ ریکوری یونٹ نے ججوں کے بیرون ملک اثاثوں سے متعلق معلومات وزارت قانون کو بھیجیں۔ بیرون ملک اثاثوں کے دو ریفرنسز سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے۔

ذرائع کے مطابق مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ایسٹ ریکوری یونٹ نے ایف بی آر، نیب اور ایف آئی اے کے ساتھ مل کر معلومات اکٹھی کیں۔

وزارت قانون اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستانیوں کے بیرون ملک اثاثوں کی نشاندہی کے لیے میکنزم کی ضرورت تھی۔ ایسٹ ریکوری یونٹ بیرون ملک اثاثوں کی نشاندہی کے لیے قائم کیا گیا۔ ایسٹ ریکوری یونٹ کا اقدام قانونی طور پر درست ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
Amanullah-Kunrani.jpg

ججز ریفرنس پر عدالتوں کو تالے لگا دیں گے

‏پاکستان میں اعلی عدلیہ کے ججوں کے خلاف ریفرنس پر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 14 جون کو حکومت کو سخت احتجاج کے بارے میں خبردار کیا ہے۔

‏سپریم کورٹ کے باہر پریس کانفرنس کرتے ہوئے بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے کہاچہے کہ قاضی فائزعیسیٰ جیسے جج کو قربان نہیں ہونےدیں گے۔

‏ان کا کہنا تھا کہ فائز عیسیٰ کیلئے تمام وکلا سینہ سپر ہوچکے ہیں۔ ”‏اب عدالتوں کو تالے لگائیں جائیں گے۔“

‏بار کے صدر نے کہا کہ حکومت 14جون کو آنسوگیس نہیں بلکہ ایمبولینس منگوائے، ‏ہم مرنے کیلئے آئیں گے۔

سپریم کورٹ بار کے صدر نے کہا کہ ریفرنس پر بات کرنے سے روکنے کی پیمرا کی پابندیوں کی مزمت کرتا ہوں۔ ”عدلیہ کو انسانی حقوق پر نوٹس لینا چاہیے کہ پیمرا نے پابندیاں کیوں لگائی۔“

امان اللہ کنرانی نے کہا کہ ریاست اکبر بگٹی کے زخم کو ابهی تک چاٹ رہی ہے۔ اب کی بار پهر بلوچستان کے جج کے ساته ناروا سلوک ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس قاضی فائز عیسی کو ناکردہ گناہوں کی سزا نہ دی جائے۔ ”آئینی شقوں کے مجرم اعلی عدلیہ میں دندناتے پهر رہے ہیں۔ بتائیں قضی فائز عیسی کون سی شق کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔“

ان کا کہنا تھا کہ اگر کوڈ آف کنڈیکٹ کی بات کریں تو ایک بهی جج یہاں نہیں رہے گا۔ ”جب آپ سیاست دانوں کو آرٹیکل 62 اور 63 پر نا اہل کر دیتے ہیں۔ اسی طرح ججوں کو اپنے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔ ججوں کے خلاف بهی فیصلہ کرنے کے لیے کوئی تیسرا ہونا چاہیے۔“

”پارلیمنٹ کے پاس اختیار ہونا چاہیے کہ وہ ججز کے بارے میں فیصلہ کریں۔ ہم قاضی فائز عیسی کو آپ کے سامنے شکار ہونے کے لیے نہیں چهوڑیں گے۔ اکائونٹیبلٹی کے خلاف نہیں ہیں امتیازی سلوک کے خلاف ہیں۔“

ہم چیف جسٹس سمیت تمام ججز کا احترام کرتے ہیں۔

بار کے صدر نے کہا کہ اب روایتی احتجاج نہیں ہوگا۔ اس بار احتجاج عدالتوں کے اندر ہو گا۔ ”ہم عدالتوں کو تالے لگائیں گے۔ اب مجرم سڑکوں پر گسیٹے جائیں گے۔ ہم عدالت کے اندر آگ لگائیں گے سڑکوں پر نہیں جائیں گے۔“

کنرانی نے کہا کہ وہ کوئی معافی نہیں مانگیں گے اور توہین عدالت کریں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس نے جسٹس قاضی فائز عیسی پر سیاست کی وہ ہماری لاشوں پر سیاست کرے۔ ہم اسلام کے کمزور پیمانے پر زبان سے نہیں بلکہ اعلی پیمانے پر جائیں گے اور ہاتھ سے روکیں گے۔
 

جاسم محمد

محفلین
قطری خط پارٹ 2
حلف کی پاسداری کرتے ہوئے آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا: جسٹس قاضی کا صدر کو خط
200694_1867529_updates.jpg

— فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے صدر مملکت کو ایک اور خط لکھا ہے جو پانچ صفحات پر مشتمل ہے۔

خط میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ 'جناب صدر اس سے پہلے کہ کونسل مجھے نوٹس بھیجتی میرا جواب آتا لیکن میرے خلاف میڈیا پر کردار کشی کی مہم شروع کر دی گئی ہے، کیا شکایت کے مخصوص حصے میڈیا میں لیک کرنا حلف کی خلاف ورزی نہیں؟'

انہوں نے لکھا کہ کیا میڈیا میں مخصوص دستاویزات لیک کرنا مذموم مقاصد کی نشاندہی نہیں کرتا؟ وزیر قانون، وزارت اطلاعات کے سینئر ارکان اور حکومتی ارکان ریفرنس کے مخصوص دستاویزات پھیلا رہے ہیں، جناب صدر حکومتی ارکان میڈیا میں ریفرنس سے متعلق گفتگو کر رہے ہیں اور اسے میرے خلاف احتساب کا شکنجہ قرار دے رہے ہیں۔

خط میں ان کا کہنا تھا کہ 'جناب صدر کیا یہ مناسب رویہ ہے، کیا یہ آئین سے مطابقت رکھتا ہے؟ صدر، وزیر اعظم، وفاقی وزراء اور ججز عہدہ سنبھالنے سے پہلے آئین پاکستان کا حلف لیتے ہیں، مخصوص مواد پھیلا کر اور گفتگو کرکے حلف کی خلاف ورزی کے مرتکب نہیں ہو رہے؟'

خط میں انہوں نے مزید کہا کہ 'جناب صدر میڈیا میں رپورٹ ہوا کہ آپ نے میرے خلاف شکایت بطور ریفرنس کونسل کو بھجوائی، رپورٹ ہوا کہ شکایت وزیر اعظم کی ایڈوائس پر بھجوائی گئی لیکن مجھے ابھی تک ریفرنس کی نقل فراہم نہیں کی گئی'۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے خط میں لکھا کہ میں صرف یہ تصور ہی کرسکتا ہوں کہ الزام لندن کی تین جائیدادوں کے بارے ہے، یہ جائیدادیں میرے، بیوی اور بچوں کے نام پر ہیں، جناب صدر میں رضا کارانہ طور پر جائیداد کی تفصیلات ظاہر کر رہا ہوں، ریفرنس میں کہا گیا کہ یہ بچوں کی جائیداد ہے تو میں کیسے مس کنڈکٹ کا مرتکب ہوا؟ سیکشن 116 کسی طرح بھی سزا کی شق نہیں، سیکشن 116(3)کسی بھی غلطی کو درست کرنے کی اجازت دیتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'جناب صدر مجھے اور میرے خاندان کو آدھا سچ بتا کر بدنیتی کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے، حکومتی ارکان کا یہ طرز عمل میرے اور میرے اہل خانہ کے لیے پریشان کن ہے، میرے بچے تعلیم مکمل کرنے کے بعد ایک عرصے سے لندن میں مقیم اور وکالت کے شعبہ میں کام کر رہے ہیں، جائیدادیں بچوں کی اور ان کی ملکیت ہیں'۔

جسٹس قاضی فائز عیسٰی کے مطابق جائیدادوں کو کسی بھی طرح چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی، یہ جائیدادیں کسی ٹرسٹ یا کسی آف شور کمپنی کی ملکیت نہیں، قانون کے تحت مجھ پر اپنے مالی معاملات کی تفصیلات ظاہر کرنے کی پابندی نہیں لیکن میں رضا کارانہ طور پر یہ ظاہر کر رہا ہوں۔

انہوں نے خط میں مزید لکھا ہے کہ رضاکارانہ اس لیے ظاہر کررہا ہوں کہ میری سالمیت پر شک و شبہ پیدا کیا جا رہا ہے، میں پاکستان کے ٹیکس قوانین پر مکمل طور پر عمل کرتا ہوں، ان جائیدادوں سے متعلق مجھے کبھی کوئی نوٹس موصول نہیں ہوا اور نہ ہی میری بیوی اور بچوں کو کبھی نوٹس موصول ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ میں جب سے عملی طور پر پیشہ میں آیا تمام ٹیکس ریٹرن داخل کیے، تمام قسم کے ٹیکس ادا کیے اور مجھ پر کوئی حکومتی ٹیکس واجب الا ادا نہیں ہے لہٰذا میرے خلاف جس نے بھی ریفرنس داخل کیا اسے پہلے میرے مالی معاملات کو اچھی طرح چھان بین کر لینا چاہیے تھا۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے بزرگوں نے قائداعظم کے ساتھ شانہ بشانہ آزادی کی جنگ لڑی، بزرگوں کی عزت اور توقیر سے بڑی کوئی چیز نہیں اور میں اپنے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے آئین کا تحفظ اور دفاع کروں گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ججز کیخلاف ریفرنس کا معاملہ: کوئی قانون سے بالاتر نہیں، وزیراعظم
f625e0835b3a3bc4940c05121fa818f7_1.jpg

اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان نے ججز کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر وفاقی کابینہ کے اجلاس میں اس عزم کا اعادہ کیا ہے کہ کوئی بھی قانون سے بالاتر نہیں ہے۔

وزیراعظم عمران خان کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں کئی اہم فیصلے کیے گئے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیراعظم کی معاون خصوصی برائے اطلاعات فردوس عاشق اعوان نے اجلاس کے فیصلوں پر بریفنگ دی۔

ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم کی سعودی عرب میں تقریر دھواں دار تھی اور وفاقی کابینہ نے وزیراعظم کو او آئی سی میں تقریر پر داد دی، ہر پالیسی میں پاکستان کا مفاد مد نظر رکھاجا رہاہے، وزیراعظم کی سرپرستی میں اسلام کا اصل چہرہ دنیا کو دکھایا جائے گا۔

’وفاقی کابینہ کو سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے ریفرنس سے آگاہ کیا گیا‘
فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ ججز کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجے گئے ریفرنس سے وفاقی کابینہ کو آگاہ کیا گیا اور جن حقائق پر ریفرنس بھیجے گئے، اس پر وفاقی کابینہ کو بریفنگ دی گئی، اس موقع پر وزیراعظم نے عزم کا اعادہ کیا کہ قانون سے بالاتر کوئی نہیں۔

فردوس عاشق اعوان نے بتایا کہ ایسٹس ریکوری یونٹ کو ملی شکایت کو وزارت قانون کو بھجوایاگیا، وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر کو شکایات موصول ہوئیں، لینڈ رجسٹری برطانیہ نے شکایت کی توثیق کی اور نوٹری پبلک کی مہریں لگیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سپریم جوڈیشل کونسل کو ریفرنس پر فیصلہ کرنا ہے، جو کہ حکومت کا ماتحت ادارہ نہیں ہے بلکہ غیرجانبدار فورم ہے، سپریم جوڈیشل کونسل عدلیہ سے متعلق شکایات پر فیصلہ کرنے والا فورم ہے، عدلیہ کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل ہی دیکھ رہی ہے تو یہ عدلیہ پر حملہ کیسے ہے؟

انہوں نے کہا کہ سپریم جوڈیشل کونسل جو فیصلہ کرے حکومت کو تسلیم ہوگا، عمران خان عدلیہ کو آزاد اورخودمختار بنانے کیلئے اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کام کرنا چاہتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن مگر مچھ کے آنسو بہارہی تھی، لندن کے صحت افزاء مقام سے مذمت کی جا رہی تھی اور کابینہ نے لندن جیسے صحت افزاء مقام سے عدلیہ بحالی کی باتیں کرنے والوں کی مذمت کی ہے، ہم نے بھٹو کے دیے آئین سے ہی یہ راستہ نکالا ہے اور پاکستان کا ہر شہری قانون کے تابع ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
جسٹس فائز عیسیٰ نے صدر کو خط کیوں لکھے؟
06/06/2019 عامر فاروق



جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس اور اس میں لگائے گئے الزامات کا بودا پن اتنا واضح ہے کہ صف اول کے آئینی ماہرین ان خامیوں کی وضاحت نہ بھی کر رہے ہوں تو بھی قانونی موشگافیوں سے ناواقف لیکن عقل سلیم رکھنے والا ایک عام شہری بھی ان تضادات کا باآسانی اندازہ لگا سکتا ہے۔

اس ادراک کے لئے قانون کے پیشے سے نہیں، کامن سینس سے تعلق درکار ہے۔ بظاہر بدنیتی پر مبنی اس ریفرنس پر سیاسی اور قانونی حلقوں سے آنے والے ردعمل سے مدعی یعنی حکمران بے چین ہو گئے ہیں۔

حکمرانوں کی پریشانی اور تضادات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ پیمرا کے ذریعے اس ریفرنس پر بات نہ کرنے کی ہدایت جاری کروانے والی حکومت کی مشیر اطلاعات خود پریس کانفرنس میں اسی پر بات کرتی نظر ائییں۔ “احتساب کے شکنجے” کے حوالے دیئے گئے اور مقدمہ فیصل ہونے سے پہلے ایک تاثر بنانے کی کوشش کی گئی۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی سماعت کے لئے چودہ جون کی تاریخ مقرر ہو چکی ہے۔ پہلی سماعت سے بھی قبل میڈیا کے ساتھ اس حوالے سے “حکومتی عزم” شیئر کرنے کے لئے مشیر اطلاعات کی بے صبری اور بے چینی کی خاطر خواہ وضاحت پیش نہیں کی گئی۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خطوط کا سامنے آنا ان کے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ یہ خطوط ان کی بے چینی ظاہر کرتے ہیں یا بالفاظ اپنے تئیں حفظ ماتقدم قسم کا اقدام ہیں وغیرہ وغیرہ۔ سوشل میڈیا کی غیر رسمی زبان اور مزاج کے مطابق کچھ سوشل میڈیا یوزر اسے چور کی داڑھی کا محاوراتی تنکا قرار دے رہے ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ یہ تاثر خاصا سطحی ہے اور درست نہیں۔

جسٹس فائز عیسیٰ کے خطوط کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک فرد کی جانب سے سربراہ ریاست کو لکھے گئے ہیں۔ وہ فرد یعنی جسٹس فائز سوشل میڈیا استعمال نہیں کرتے جس کے ذریعے مبینہ طور پر یہ خطوط عوامی رسائی میں آئے ہیں۔ اس بات کو ثابت کرنا عملا ممکن نہیں کہ پبلک تک یہ خطوط کیسے پہنچے۔ سمارٹ فونز کی بدولت آج ایسی دستاویزات کی سیکیورٹی اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہو چکی ہے۔

کیونکہ جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس سربراہ مملکت کی طرف سے دائر کیا گیا لہذا ان کی طرف سے پہلا خط لکھ کر اس کی تصدیق کرنا اور کاپی مانگنا بالکل جائز اور قانونی طور پر درست فعل تھا۔ اور اس پہلے خط کی اکنالجمنٹ یعنی رسید نہ ملنے، ریفرنس کی کاپی سرکاری طور پر نہ ملنے اور اسی دوران حکومتی ارکان کی جانب سے کردار کشی کی مہم چلانے پر دوسرا خط بھی برمحل اور ضروری تھا۔

خوش قسمتی سے جسٹس فائز کی شہرت ہرگز ایسی نہیں جو دو سابق چیف جسٹس صاحبان افتخار چوہدری اور ثاقب نثار کا طرہ امتیاز تھی۔ مؤخر الذکر دونوں سابق چیف جسٹس عدالتی، قانونی اور اخلاقی روایات کے برعکس خود نمائی، جاہ پسندی اور سائلین سے امتیازی سلوک کے لئے جانے جاتے تھے۔

ثاقب نثار صاحب کا شوق خود نمائی تو اس مریضانہ حد تک بڑھ گیا کہ میڈیا کو دیکھتے ہی آپے سے باہر ہو جاتے اور برتن پھینکنا اور چیخنا چلانا شروع کر دیتے۔ برتن پھینکنے کا مظاہرہ انہوں نے دماغی امرض کے ہسپتال میں کیا۔ سندھ کی ایک ماتحر عدالت مین جج کا موبائل فون اٹھا کر پٹخ دیا۔ لگتا تھا موصوف کے ذہن میں کوئی نفسیاتی گرہ تھی جس کا عوامی اظہار اچھا خاصا تماشہ کھڑا کر دیتا۔

ان ناقابل تقلید مثالوں کے برعکس جسٹس فائز کی ایسی ویڈیوز موجود ہیں جن میں وہ عدلیہ کی چند کلاسیکی روایات کی پیروی کرتے میڈیا سے بات کرنے سے گریزاں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ایسے قانون دان کو قانونی اور اخلاقی نکات پر کارنر کرنا اگر ناممکن نہیں تو انتہائی مشکل ضرور ہے۔ اس معاملے میں دلچسپی رکھنے والے دوستوں کو شاید یاد ہو کہ ایسی ایک ناکام کوشش پہلے بھی کی جا چکی ہے۔ اس میں بھی مبینہ سہولت کار مذکورہ بالا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہی تھے۔

تو پھر اس گناہ بے لذت کا فائدہ؟ اس سوال کے ممکنہ طور پر دو جوابات ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ عمومی جواب کہ ہر کوئی اپنے حصے کے جوتے اور پیاز کھا کر ہی سیکھتا ہے تو یہ حکومت بھی شاید یہی تجربہ دہرانے جا رہی ہے۔ دوسرا جواب تاہم زیادہ قرین قیاس ہے۔

حکومت کو مستقبل کے عدالتی منظر نامے میں جسٹس فائز عیسیٰ اپنے ایجنڈے کی تکمیل میں ایک رکاوٹ کی صورت نظر آتے ہیں۔ جسٹس فائز کے تحریر کردہ حالیہ فیصلے اور ان کا اپنی ذمہ داریوں کے حوالے سے مؤقف جس کا صدر کے نام خط میں بھی ذکر کیا گیا ہے، ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک کسی فرد یا ادارے سے زیادہ مقدم منصبی ذمہ داریاں اور آئینی تقاضے ہیں۔ اس سوچ کا حامل غیر لچکدار مزاج کا فرد مخصوص ایجنڈے رکھنے والوں کے لئے ناقابل قبول ہوتا ہے۔

حکومت کو ایسا لگتا ہے کہ وہ اس کمزور ریفرنس کے ذریعے جسٹس فائز عیسیٰ کو عدالت عظمٰی سے ہٹوانے میں کامیاب نہ بھی ہو پائی تو بھی اس ریفرنس میں پارٹی ہونے کی وجہ سے مستقبل میں وہ حکومت یا موجودہ حکمرانوں کے خلاف کسی بھی بنچ کا حصہ بننے سے اجتناب کریں گے۔ اس طرح جسٹس فائز عیسیٰ کو برخواست کروانے میں ناکامی کے باوجود حکومت کو خاصی حد تک مطلوبہ مقاصد حاصل ہو جائیں گے۔ یعنی حکومت کے لئے ہر دو صورتوں میں یہ ریفرنس ون ون (win win) نتائج پیدا کرے گا۔

ہمارا خیال ہے حکومت غلط سوچ رہی ہے۔ اس عمل کے دوران حکومت بڑی حد تک اخلاقی اور سیاسی سرمائے سے محروم ہو جائے گی۔ یہ جنس ویسے بھی موجودہ انتظام کے پاس وافر تو کیا مطلوبہ مقدار میں بھی دستیاب نہیں۔ اور جس وقت ملک کو پریشان کن معاشی مسائل درپیش ہوں گے تو سیاسی و اخلاقی سرمائے کا خسارہ ناقابل تلافی نقصان کا سبب بن سکتا ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
سپریم کورٹ بار کا جسٹس قاضی فائز کیخلاف ریفرنس کی سماعت کے موقع پر احتجاج کا اعلان
200832_8692945_updates.jpg

جسٹس قاضی فائز کے خلاف 14 جون کو سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس کی سماعت ہو گی۔ فوٹو: فائل
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے موقع پر بھرپور احتجاج کا اعلان کر دیا۔

صدر سپریم کورٹ بار امان اللہ کنرانی کا کہنا ہے کہ جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے موقع پر ان سے اظہار یکجہتی کے لیے 14 جون کو سپریم کورٹ کے سامنے دھرنا دیا جائے گا۔

امان اللہ کنرانی نے کہا کہ یہ دھرنا اس وقت تک جاری رہے گا جب تک جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس واپس نہیں لیا جاتا۔

وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔

صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہو چکے ہیں۔

اس معاملے پر سینیٹ میں ججز کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے پر ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے۔

دوسری جانب ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن میں صدارتی ریفرنس کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے اور پاکستان بار کونسل نے اسی معاملے پر اہم ہنگامی اجلاس بھی 8 اور 9 جون کو طلب کر رکھا ہے۔

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے ارکان پارلیمنٹ سے ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اس ضمن میں صدر مملکت کو ایک خط بھی لکھا جس میں انھوں نے ریفرنس کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
 

جاسم محمد

محفلین
ججز کیخلاف ریفرنس: وکلاء کا ملک بھر میں 14 جون کو ہڑتال کا اعلان
200872_1212252_updates.jpg

پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز نے وزیرقانون فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کی مذمت کی گئی اور مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا: وائس چیئرمین پاکستان بار — فوٹو: فائل

اسلام آباد: سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بعد ملک بھر کی صوبائی بار کونسلز نے ججز کے خلاف ریفرنس کی سماعت کے موقع پر 14 جون کو ہڑتال کا اعلان کردیا۔

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس کے کے آغا کے خلاف ریفرنس کے معاملے پر پاکستان بار کونسل اور چاروں صوبائی بار کونسلز کا اہم اجلاس سپریم کورٹ بلڈنگ میں ہوا۔

اجلاس میں آئندہ کے لائحہ عمل پر تبادلہ خیال کیا گیا اور کئی اہم فیصلے بھی کیے گئے۔

ملک کی تمام صوبائی بار کونسلز نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ریفرنس کے 14 جون کو سماعت کے موقع پر ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔

پاکستان بارکونسل کے وائس چیئرمین امجد شاہ کا اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں مطالبہ کیا کہ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کےخلاف ریفرنس واپس لیا جائے۔

انہوں نے بتایا کہ پاکستان بار کونسل اور صوبائی بار کونسلز کے اجلاس میں وزیرقانون سینیٹر فروغ نسیم اور اٹارنی جنرل انور منصور خان کی مذمت کی گئی اور دونوں سے مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اٹارنی جنرل اور وزیرقانون دونوں قاضی فائزعیسیٰ کےخلاف ریفرنس کا حصہ ہیں، جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کےخلاف ریفرنس عدلیہ کی آزادی کی نفی ہے۔

امجد شاہ کے مطابق ہمارا احتجاج اور تحریک کا کسی ادارے یا کسی سیاسی جماعت سے کوئی تعلق نہیں، قانون کےدائرہ کار میں رہتے ہوئے احتجاج کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ بہت سارے زیر التواء ریفرنس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا لیکن تعجب ہے حکومت اتنے کمزور ریفرنس پر کیوں بضد ہے، عدلیہ کی آزادی اور قانون کی حکمرانی کے لیے پہلے بھی جدوجہد کی اور اب بھی کریں گے۔

چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی حافظ ادریس کے مطابق ایف بی آر کی طرف سے جج صاحبان کو کوئی نوٹس نہیں دیا گیا بلکہ یہ ریفرنس آرٹیکل 10 اے کی بھی خلاف ورزی ہے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ بار پہلے ہی جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف حکومتی ریفرنس پر احتجاجی دھرنے کا اعلان کرچکی ہے۔

ججز کے خلاف ریفرنس کا پس منظر
وفاقی حکومت نے سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ہائی کورٹ کے 2 ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کر رکھے ہیں۔

حکومتی ذرائع کے مطابق ان ججز میں لاہور ہائیکورٹ اور سندھ ہائیکورٹ کے ایک، ایک جج بھی شامل تھے۔

لاہور ہائیکورٹ کے سابق جج فرخ عرفان چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل میں کارروائی کے دوران استعفیٰ دے چکے ہیں اس لیے ان کا نام ریفرنس سے نکال دیا گیا ہے۔

صدارتی ریفرنسز پر سماعت کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل کا اجلاس 14 جون کو طلب کر لیا گیا ہے اور اس حوالے سے اٹارنی جنرل آف پاکستان اور دیگر فریقین کو نوٹسز بھی جاری کیے جا چکے ہیں۔

وفاقی حکومت کی جانب ججز کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنے کے معاملے پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل زاہد فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً مستعفی ہو چکے ہیں۔

اس معاملے پر سینیٹ میں ججز کے خلاف حکومت کی جانب سے ریفرنس بھیجنے پر ججز کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد بھی منظور کی جا چکی ہے۔

دوسری جانب ملک بھر کی بار ایسوسی ایشن میں صدارتی ریفرنس کے خلاف غصہ پایا جاتا ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر امان اللہ کنرانی نے ارکان پارلیمنٹ سے ججز کے خلاف ریفرنس بھیجنے پر صدر مملکت عارف علوی کے مواخذے کا مطالبہ کیا ہے۔

جسٹس قاضی فائزعیسیٰ نے اس ضمن میں صدر مملکت کو دو خط لکھ چکے ہیں جس میں انھوں نے ریفرنس کی نقل فراہم کرنے کی درخواست کی ہے۔
 
Top