نبیل
تکنیکی معاون
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے ساتھ تعاون کرنے کے الزام میں ملک بھر سے متعدد افراد کو حراست میں لے کر ان سے تفتیش کی جا رہی ہے۔
ان پاکستانی اور امریکی شہریوں کے خلاف عملی کارروائی کا آغاز دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کارروائی کے بعد سے شروع کیا گیا ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں مدد دینے والوں میں پاکستانی فوج کے ایک میجر بھی شامل تھے جو اب پاکستانی فوج کی تحویل میں ہیں۔
تاہم پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر بریگیڈئیر عظمت عباس نے پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کی اس ضمن میں گرفتاری کی تردید کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ’کوئی پاکستانی فوجی زیر حراست نہیں ہے لیکن بعض افراد کو ہم نے تفتیش کی غرض سے تحویل میں لے رکھا ہے جن کے بارے میں ہمیں شبہ ہے کہ یہ لوگ امریکی انٹیلیجنس اداروں کے لیے کام کرتے تھے۔‘
نیو یارک ٹائمز نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے پاکستان میں گزشتہ ہفتے پاکستانی فوجی اور انٹیلیجنس سربراہ کے ساتھ ملاقات میں پاکستان میں سی آئی اے ایجنٹس کی گرفتاری پر اعتراض کیا ہے۔
ان پاکستانی اور امریکی شہریوں کے خلاف عملی کارروائی کا آغاز دو مئی کو ایبٹ آباد میں امریکی فوجی کارروائی کے بعد سے شروع کیا گیا ہے۔
امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز کے مطابق القاعدہ کے سربراہ اسامہ بن لادن کی ہلاکت میں مدد دینے والوں میں پاکستانی فوج کے ایک میجر بھی شامل تھے جو اب پاکستانی فوج کی تحویل میں ہیں۔
تاہم پاکستانی فوج کے محکمہ تعلقات عامہ کے ڈائریکٹر بریگیڈئیر عظمت عباس نے پاکستانی فوج سے تعلق رکھنے والے کسی بھی شخص کی اس ضمن میں گرفتاری کی تردید کرتے ہوئے بی بی سی کو بتایا ’کوئی پاکستانی فوجی زیر حراست نہیں ہے لیکن بعض افراد کو ہم نے تفتیش کی غرض سے تحویل میں لے رکھا ہے جن کے بارے میں ہمیں شبہ ہے کہ یہ لوگ امریکی انٹیلیجنس اداروں کے لیے کام کرتے تھے۔‘
نیو یارک ٹائمز نے یہ بھی کہا ہے کہ امریکی سی آئی اے کے سربراہ لیون پنیٹا نے پاکستان میں گزشتہ ہفتے پاکستانی فوجی اور انٹیلیجنس سربراہ کے ساتھ ملاقات میں پاکستان میں سی آئی اے ایجنٹس کی گرفتاری پر اعتراض کیا ہے۔
مزید پڑھیں: بی بی سی اردو ڈاٹ کام