’طالبان کے تحت وانا میں امن‘ بی بی سی رپورٹ

باسم

محفلین
’طالبان کے تحت وانا میں امن

پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے بازار میں طالبان کا دفتر قائم ہے جس کے سامنے انہوں نے ناکہ لگا رکھا ہے، وہاں موجود مسلح طالبان بازار میں داخل ہونے والی ہرگاڑی پر نظر رکھتے ہیں۔
علاقے کے لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے طالبان کے دفتر سے رجوع کرتے ہیں جہاں پر فریقین سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مسئلے کو قبائلی روایات کے ذریعہ حل کرواناچاہتے ہیں یا شریعت کے تحت۔ یہ ہے آج کا وانا جہاں ایک سال قبل یعنی پندرہ اپریل دوہزار سات کو طالبان اور حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا۔

معاہدے سے پہلے وانا میں مقامی طالبان سربراہ مولوی نذیر کی سربراہی میں وزیر قبیلے نے سکیورٹی فورسز کی معاونت سے وہاں موجود ازبک جنگجؤوں کیخلاف آپریشن کیا تھا، جس کے بعد حکومت طالبان امن معاہدہ عمل میں آیا۔

میں جب وانا پہنچا تو کافی تگ و دو کے بعد مولوی نذیر سے ملاقات ہوئی۔ مگر انہوں نے ایف سی آر کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا اور میرے سوالات کے جواب میں الٹا مجھ سے پوچھا: ’آپ اس سے قبل بھی وانا آئے تھے کیا آپ نے کبھی بھی اس طرح کھلم کھلا گھومنے پھرنے کا تصور کیا تھا۔ اب اگر آپ پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈہ جانا چاہیں تو وہاں بڑے آرام سے آ جاسکتے ہیں۔‘

امن و امان
آپ اس سے قبل بھی وانا آئے تھے کیا آپ نے کبھی بھی اس طرح کھلم کھلا گھومنے پھرنے کا تصور کیا تھا۔ اب اگر آپ پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈہ جانا چاہیں تو وہاں بڑے آرام سے آ جاسکتے ہیں


مولوی نذیر

وانا اور آس پاس کے علاقوں میں مکمل طور پر امن ہے۔ ایک قبائلی مشر ملک محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب سے طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے یہاں پر قتل، اغواء اور دیگر چھوٹے موٹے جرائم کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔

ان کے بقول کئی کئی مہینوں تک بند رہنے والے تمام راستے کھل گئے ہیں جبکہ تاجر اور زمیندار بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔

تاہم طالبان کے علاوہ مقامی لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے سابق ایم این اے مولانا نور محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد علاقے میں سو فیصد امن لوٹ آیا ہے مگر مبینہ امریکی حملوں سے امن کے اس عمل کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔‘

ان کے بقول’نومنتخب مرکزی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کر رکھا ہے اس سے قبل وہ امریکہ پر یہ بات واضح کردیں کہ آئندہ ہونے والے معاہدے کے بعد اگرسرحد پار سے میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر خطے میں دیرپا امن لانا ممکن نہیں ہوگا۔‘

ایک سرکاری اہلکار کے مطابق وانا بازار میں ٹریفک کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے اور ٹریفک اصولوں کی خلاف ورزی پر دو ہزار تک جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ صرف طالبان اور سرکاری اہلکاروں کو اپنے گاڑی کے شیشے سیاہ رکھنے کی اجازت ہے۔

امریکہ کی وجہ سے امن و امان برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے: مولانا نور محمد

قتل اور اغواء کی وارداتوں کو روکنا، قیمتوں کا کنٹرول اورافغانستان کو آٹے کی سمگلنگ کی روک تھام کی ذمہ داری بھی طالبان نے لے رکھی ہے۔ اہلکار کے مطابق طالبان کی تقریباً اٹھائیس گاڑیاں دن رات علاقے کا گشت کرتی ہیں اور اس دوران ہر مشکوک شخص سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں طالبان نےایک خود کش بمبار کو گرفتار کر کے اسے اپنے مرکز جسے موسیٰ قلعہ کا نام دیا گیا ہے میں قید کر لیا ہے۔

ایک برس قبل یہ تمام ریاستی ذمہ داریاں پولٹیکل انتظامیہ نے سنبھال رکھی تھیں۔ اب وانا میں فوج سمیت تمام سرکاری اہلکار اپنے اپنے دفاتر اور بیرکوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

میں نے وانا میں وہ منظر بھی دیکھا کہ کل تک ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن فوجی اور طالبان آج سڑک پر قافلوں کی صورت میں جاتے ہوئے اوور ٹیک کرنے کے لیے بڑے آرام سے ایک دوسرے کی گاڑیوں کے لیے راستہ خالی کردیتے ہیں۔

البتہ فروری اور مارچ میں غیر ملکیوں کے دو مشکوک ٹھکانوں پر مبینہ میزائل حملوں کے نتیجہ میں بیس سے زائد غیر ملکیوں کی ہلاکت کے بعد یہ امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ طالبان نے ردعمل کے طور پر پاکستانی فوج پر خودکش حملہ کیا تھا جسکی ذمہ داری انہوں نے بعد میں قبول بھی کرلی۔

طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں حملے امریکہ نے بغیر پائلٹ طیاروں سے کیے تھے جس میں بقول ان کے ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی غیر ملکی شامل نہیں تھا۔


امریکہ کو تنبیہ
نومنتخب مرکزی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کر رکھا ہے اس سے قبل وہ امریکہ پر یہ بات واضح کردیں کہ آئندہ ہونے والے معاہدے کے بعداگرسرحد پار سے میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر خطے میں دیرپا امن لانا ممکن نہیں ہوگا۔


مولانا نور محمد

طالبان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں مگر میں نے وانا میں دو دن کے قیام کے دوران لڑکیوں کو برقعوں میں سکول جاتے ہوئے اور لڑکوں کو یونیفارم میں ملبوس فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا۔

دو سال قبل پڑوسی ایجنسی شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان نے فٹ بال کھلاڑیوں کو پکڑ کر انہیں سزائیں دی تھیں۔افغانستان میں بھی طالبان نے اپنی دور حکومت میں ایک پاکستانی ٹیم کو گرفتار کر لیا تھا اور سر منڈھوانے کے بعد انہیں واپس چھوڑ دیا تھا۔

اب آپ وانا میں اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے موسیقی بھی سن سکتے ہیں البتہ بازار میں سرعام موسیقی بجانے پر پابندی ہے۔ تین دن قبل طالبان نے پمفلٹ کےذریعے تمام دکانداروں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ دکانوں سے تصاویر اتار لیں ۔

یہ کیا ماجرا ہے؟
 

محمد سعد

محفلین
کھچڑی کاہے کی؟؟؟ سب ٹھیک ٹھاک ہی تو چل رہا ہے۔
میری رائے میں رولا تب شروع ہوا تھا جب پورے پاکستان میں طالبان کے نام پر نئے نئے گروہ بننا شروع ہو گئے تھے۔ اسی کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں پھیلیں جو آج تک میڈیا کی مہربانیوں کی بدولت بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں۔
اگر آپ کو یاد ہو تو طالبان کے دورِ حکومت میں نہ صرف افغانستان، بلکہ پاکستان میں بھی امن و امان کی صورتِ حال بہت بہتر تھی۔ لیکن جب امریکہ بہادر نے افغانستان پر حملہ کیا اور ہماری حکومت نے ان کو اپنے مسلمان بھائیوں پر حملے کے لیے اڈے فراہم کیے تو نہ صرف افغانستان کے لوگ، بلکہ اپنے ملک کے لوگ بھی پاکستانی حکومت کے خلاف ہو گئے۔ ایسے میں ہماری حکومت کے اقدامات کے ردِ عمل کے طور پر ملک بھر میں طالبان کے نام سے بہت سے گروہوں نے سر اٹھایا جن کا اصل طالبان سے شاید دور دور کا واسطہ بھی نہیں تھا۔ ان میں سے بہت سے لوگ تو ایسے تھے جن کے پاس قرآن و حدیث کا خاطرخواہ علم ہی نہ تھا۔ ایسے لوگوں نے تو دہشت گردی کرنی ہی تھی۔ تب ہی سے طالبان کو وحشی اور جاہل قوم سمجھا جا رہا ہے۔ اور مجھے تو شک ہے کہ اس میں کسی حد تک امریکہ بہادر کے جاسوسوں کا بھی عمل دخل ہوگا تاکہ مسمانوں کو بدنام کر کے پوری دنیا کو ان کے خلاف کر لیں۔
 

ساجداقبال

محفلین
کچھ عجیب سی کھچڑی ہے
قیصرانی بھائی کوئی عجیب کھچڑی نہیں۔ صرف اتنی سے بات ہے کہ یہ وہاں کے مقامی لوگ ہیں اور کون پاگل ہوگا جو اس علاقے میں بدامنی چاہے گا جہاں اسکا گھر،خاندان ہو۔ بات وہاں سے بگڑتی ہے جب یہ امریکہ کی مخالفت کرتے ہیں اور فی الوقت یہ سب سے بڑا جرم ہے چاہے آپ حق پر ہوں یا نہ ہوں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
قیصرانی بھائی کوئی عجیب کھچڑی نہیں۔ صرف اتنی سے بات ہے کہ یہ وہاں کے مقامی لوگ ہیں اور کون پاگل ہوگا جو اس علاقے میں بدامنی چاہے گا جہاں اسکا گھر،خاندان ہو۔ بات وہاں سے بگڑتی ہے جب یہ امریکہ کی مخالفت کرتے ہیں اور فی الوقت یہ سب سے بڑا جرم ہے چاہے آپ حق پر ہوں یا نہ ہوں۔

کھچڑی سے مراد موسیقی خود سن سکتے ہیں سر عام نہیں۔ اس سے لگا کہ یہ طالبان کچھ الگ نوعیت کے ہیں افغانستانی طالبان سے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اگر آپ کو یاد ہو تو طالبان کے دورِ حکومت میں نہ صرف افغانستان، بلکہ پاکستان میں بھی امن و امان کی صورتِ حال بہت بہتر تھی۔ لیکن جب امریکہ بہادر نے افغانستان پر حملہ کیا اور ہماری حکومت نے ان کو اپنے مسلمان بھائیوں پر حملے کے لیے اڈے فراہم کیے تو نہ صرف افغانستان کے لوگ، بلکہ اپنے ملک کے لوگ بھی پاکستانی حکومت کے خلاف ہو گئے۔ تب ہی سے طالبان کو وحشی اور جاہل قوم سمجھا جا رہا ہے۔ اور مجھے تو شک ہے کہ اس میں کسی حد تک امریکہ بہادر کے جاسوسوں کا بھی عمل دخل ہوگا تاکہ مسمانوں کو بدنام کر کے پوری دنیا کو ان کے خلاف کر لیں۔

محترم،

طالبان کے بارے ميں آپ کی رائے پڑھ کر مجھے مشہور زمانہ فلم "شعلے" کا ايک سين ياد آ گيا۔ بدنام زمانہ ڈاکو گبر سنگھ رام گڑھ نامی گاؤں پر حملہ آور ہوتا ہے اور سارے گاؤں کو نيست و نابود کرنے کے بعد گاؤں والوں کو مخاطب کر کے کہتا ہے

" گبر کے عذاب سے تم لوگوں کو صرف ايک ہی آدمی بچا سکتا ہے۔ خود گبر۔ اور اگر اس کے بدلے ميں ميرے آدمی تم سے تھوڑا سا اناج اور تھوڑا سے سامان ليتے ہيں تو کيا کوئ جرم کرتے ہيں؟ کوئ جرم نہيں کرتے۔ اب، اگر، اس کے بعد کسی نے اپنا سر اٹھايا تو ميں اس کا سر۔۔۔۔۔۔۔۔"

گاؤں کے سارے کسان اور مزدور امن کی خواہش ميں اپنی آمدن کا ايک حصہ گبر کے حواريوں کو ديتے ہيں اور اس بات پر مطمن ہو جاتے ہيں کہ ان کی زندگياں محفوظ ہيں۔ گبر اپنے ساتھيوں کے ساتھ مل کر سارے علاقے پر اپنی گرفت مضبوط کر ليتا ہے۔ اس کے بعد جب بھی گاؤں والوں کی طرف سے گبر کے خلاف کسی کاروائ کی بات کی جاتی ہے تو گبر کے ساتھی گاؤں کے کچھ لوگوں کو ہلاک کر کے انھيں يہ باور کرواتے ہيں کہ علاقے ميں امن کی صرف ايک ہی صورت ہے اور وہ يہ کہ گبر سنگھ کے تسلط کو تسليم کر ليا جائے۔

پاکستان ميں گزشتہ چند ماہ ميں ہونے والی دہشت گردی کی کاروائياں اور اس کے نتيجے ميں ضرورت امن کے پيش نظر انتہا پسندوں سے امن معاہدوں کی بازگشت مجھے گبر سنگھ کی ياد دلاتی ہے۔

ميں نہيں جانتا کہ افغانستان ميں طالبان کے "دور امن" کے حوالے سے آپکی رائے محض ايک تاثر پر مبنی ہے يا آپ نے اس کےليے کوئ تحقيق بھی کی ہے۔ اگر نہيں تو افغانستان ميں 1995 سے 2001 تک ان کے دور حکومت کے حوالے سے کچھ حقائق پيش خدمت ہيں۔ انھيں پڑھيں اور يہ خود فيصلہ کريں کہ امن کی جائز خواہش کے حصول کے ليے پاکستان کے کچھ علاقے طالبان کے زير تسلط دينے سے کس نظام کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔

طالبان کے دور حکومت ميں ہر 30 منٹ کے بعد ايک عورت ہلاک کی جاتی تھی۔
افغانستان ميں ایک عورت کی اوسط عمر 44 سال تھی۔
افغانستان ميں ہر 3 ميں سے 1 عورت جسمانی تشدد کا نشانہ بنتی تھی۔
70 سے 80 فيصد عورتوں کی شادياں جبری طور پر کی جاتی تھيں۔
افغانستان ميں 87 فيصد عورتيں ان پڑھ تھيں۔

طالبان کے قوانين کے مطابق 7 سال سے زائد عمر کی کسی لڑکی کو تعليم حاصل کرنے کی اجازت نہيں تھی۔ طالبان کے اس قانون نے افغانستان کے کمزور تعليمی نظام کی بنياديں ہلا کر رکھ دی تھيں۔ صرف کابل کے اندر 7793 خواتين اساتذہ کو نوکری سے نکال ديا گيا جس کے نتيجے ميں 63 سکول فوری طور پر بند کر ديے گئے۔ ان اقدامات سے 106256 طالبات اور 148223 طلبا کا تعليمی مستقبل داؤ پر لگ گيا جس ميں 8000 طالبات طالبان کی حکومت سے پہلے يونيورسٹی ميں انڈر گريجويٹ ليول تک پہنچ چکی تھيں۔

ايک رپورٹ کے مطابق طالبان کے دور حکومت ميں 97 فيصد خواتين شديد ذہنی دباؤ کے باعث مختلف نفسياتی بيماريوں کا شکار تھيں اور 71 فيصد مختلف جسمانی بيماريوں کا شکار تھيں اس کی بڑی وجہ يہ تھی کہ تمام ہسپتالوں ميں خواتين ڈاکٹروں کو برطرف کرديا گيا تھا۔

اکتوبر 1996 ميں ايک عورت کا انگوٹھا سرعام اس ليے کاٹ ديا گيا کيونکہ اس نے نيل پالش لگانے کا جرم کيا تھا۔

5 مئ 1997 کو کير انٹرنيشنل کی ايک ٹيم وزارت داخلہ کی باقاعدہ اجازت لے کر خوراک کی تقسيم کے ايک پروگرام کے ليے افغانستان کے دورے پر تھی۔ طالبان نے اس ٹيم کی خواتين کو سرعام تشدد کا نشانہ بنايا اور پبلک لاؤڈ سپيکر پر ان کی تضحيک کی۔

طالبان کے مظالم کے ثبوت کے طور پر ميرے پاس بے شمار ويڈيوز اور تصاوير موجود ہيں ليکن ميں ايک پبلک فورم پر ان کی اشاعت مناسب نہيں سمجھتا کيونکہ اس فورم کے پڑھنے والوں ميں خواتين بھی شامل ہيں۔
ليکن طالبان کا اصلی چہرہ دکھانے کے ليے آپ کو ايک ويڈيو کا لنک دے رہا ہوں۔

http://www.rawa.us/movies/zarmeena.mpg

16 نومبر 1999 کو کابل کے غازی سپورٹس اسٹيڈيم ميں زرمينہ نامی ايک خاتون کو 30000 افراد کی موجودگی ميں سر پر گولی مار کر ہلاک کر ديا گيا۔ اس سے پہلے زرمينہ کو 3 سال تک زير حراست رکھ کر غير انسانی تشدد کا نشانہ بنايا گيا۔ زرمينہ سات بچوں کی ماں تھی۔

26 ستمبر 2001 کو کابل ميں طالبان کے ہاتھوں خواتين پر تشدد کا ايک منظر جو راوا نامی تنظيم کے ايک رکن نے فلم بند کيا۔

http://www.rawa.us/movies/beating.mpg

ايک اعتراض جو ميں نے اکثر فورمز پر ديکھا ہے وہ يہ ہے کہ 11 ستمبر 2001 سے پہلے طالبان کے مظالم پر امريکہ اور انسانی حقوق کی عالمی تنظيموں نے کبھی آواز بلند نہيں کی اور 11 ستمبر 2001 کے واقعے کے بعد اچانک طالبان کو مجرم قرار دے ديا گيا۔ يہ تاثر حقائق کے منافی ہے۔

30 جنوری 1998 کو يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ کی جانب سے افغانستان ميں انسانی حقوق کی خلاف ورزيوں کے خلاف ايک خصوصی رپورٹ شائع کی گئ جو آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.afghanistannewscenter.com/news/1998/february/feb3c1998.htm

11 جون 1997 کو ايمينسٹی انٹرنيشنل کی جانب سے افغانستان ميں خواتين پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے رپورٹ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.amnesty.org/en/library/info/ASA11/005/1997

اگست 1998 ميں فزيشن فار ہيومن رائٹس نامی تنظيم کی جانب سے "طالبان کی عورتوں کے خلاف جنگ" کے عنوان سے ايک مفصل رپورٹ شائع کی گئ جو کسی بھی ايسے شخص کی آنکھيں کھولنے کے ليے کافی ہے جو يہ سمجھتا ہے کہ طالبان کے دور حکومت ميں افغانستان امن کہ گہوارہ تھا۔

http://physiciansforhumanrights.org/library/documents/reports/talibans-war-on-women.pdf

نومبر1995 ميں اقوام متحدہ کے ادارے يونيسيف نے طالبان کے زير اثر تمام علاقوں ميں تعليم کی مد ميں دی جانے والی امداد پر مکمل بين لگا ديا کيونکہ طالبان نے لڑکيوں کی تعليم پر پابندی لگا دی تھی جو کہ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے قوانين کے منافی ہے۔

1995 ميں بيجينگ ميں منعقد کی جانے والی خواتين کے حقوق کی کانفرنس ميں افغانستان کے حوالے سے اقوام متحدہ کے اقدامات کی توثيق کر دی گئ۔

1996 ميں برطانيہ کی سیو دا چلڈرن نامی تنظيم نے افغانستان کو دی جانے والی امداد پر مکمل پابندی لگا دی کيونکہ طالبان کی جانب سے افغانستان کی خواتين تک اس امداد کی منتقلی ناممکن بنا دی گئ۔

7 اکتوبر 1996 کو اقوام متحدہ کے سيکرٹی جرنل پطرس غالی نے افغانستان ميں طالبان کے مظالم کے بارے ميں جو کہا وہ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں۔

http://www.hri.org/cgi-bin/brief?/news/world/undh/96-10-07.undh.html

1999 ميں امريکی سيکرٹری آف اسٹيٹ ميڈلين آلبرائٹ نے طالبان کے حوالے سے کہا کہ " افغانستان ميں عورتوں اور لڑکيوں پر ہونے والے مظالم سنگين جرم ہيں اور ان مظالم کو روکنا ہم سب کی اجتماعی ذمہ داری ہے"۔

کسی بھی موضوع کے حوالے سے متضاد رائے رکھنا درست ہے لیکن يہ رائے محض جذبات اور عمومی تاثر پر مبنی نہيں ہونی چاہيے۔

آج کل ميڈيا پر طالبان کے ساتھ امن معاہدوں کے حوالے سے زور و شور سے گفتگو کی جا رہی ہے اور اسے دہشت گردی کی وارداتوں کے خاتمے کا واحد حل اور امن کے قيام کا ضامن قرار ديا جا رہا ہے۔ ليکن اس راستے پر چلنے سے پہلے طالبان کا ماضی اور افغانستان ميں ان کے قائم کردہ نظام کے حقائق بھی ياد رکھنے چاہيے ورنہ امن تو گبر سنگھ نے بھی قائم کر ديا تھا ليکن رام گڑھ کے باسيوں نے اپنی آزادی گروی رکھ کر اس کی ايک بھاری قيمت ادا کی تھی۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

ساجداقبال

محفلین
طالبان کے دور حکومت ميں ہر 30 منٹ کے بعد ايک عورت ہلاک کی جاتی تھی۔
یہ تو سفید جھوٹ ہی لگتا ہے۔ فی تیس منٹ کا مطلب ہے دن میں 48 عورتیں یا سال میں ساڑھے17 ہزار یعنی طالبان کے 95ء سے لیکر2001ء ایک لاکھ سے زیادہ خواتین ہلاک ہوئیں۔ کم از کم اتنا بڑا جھوٹ مجھے ہضم نہیں ہو رہا۔ دوسرے ان اعداد و شمار کی کیا حیثیت ہے جبکہ بقول آپکے غیرسرکاری تنظیموں کی رسائی ناممکن بنا دی گئی؟
ویسے فی 2 منٹ ایک ریپ والے ملک کے منہ سے خواتین کے حقوق کا راگ اچھا نہیں لگتا۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ویسے فی 2 منٹ ایک ریپ والے ملک کے منہ سے خواتین کے حقوق کا راگ اچھا نہیں لگتا۔

محترم،

ميری تحریر کا مقصد امريکی معاشرت کی قدروں کا دفاع کرنا نہيں تھا نا ہی ميں نے يہ دعوی کيا ہے کہ خواتين کے حقوق کے معاملے ميں امريکی معاشرہ دنيا کا بہترين معاشرہ ہے اور يہی نظام افغانستان ميں نافذ کرنا چاہيے۔ ميں نے طالبان کے قائم کردہ نظام کے بارے ميں اپنی رائے کا اظہار کيا ہے۔ نقطہ يہ اٹھايا گيا تھا کہ طالبان ايک ايسا نظام قائم کر سکتے ہيں جس ميں نہ صرف يہ کہ مثالی امن قائم کيا جا سکتا ہے بلکہ لوگوں کے بنيادی انسانی حقوق بھی فراہم کیے جا سکتے ہيں۔ ميرے نزديک ان کا ماضی کا ريکارڈ اس کے بالکل برعکس ہے اور يہی نقطہ نظر ميں نے اس فورم پر پيش کيا۔

جہاں تک اعداد وشمار اور انسانی حقوق کی تنظيموں کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کا سوال ہے تو ميں نے اقوام متحدہ سميت کچھ غير سرکاری تنظيموں کا حوالہ ديا ہے، اس ميں ايسی تنظيميں بھی شامل ہيں جو 70 کی دہاہی سے افغانستان کے اندر کام کر رہی ہيں۔ حقیقت يہی ہے کہ طالبان کے دور حکومت کو کسی بھی طرح سے افغان عوام کے ليے مثبت قرار نہيں ديا جا سکتا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
وانا پاکستان کی حدود میں ہے اور بی بی سی کی رپورٹ پاکستان کے متعلق ہے نہ کہ افغانستان کے متعلق
 
درج ذیل روایت اس دھاگہ سے لی گئی ہے۔ http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=254906&postcount=16

حدثنا محمد ابن ابراہیم ابو عبد اللہ الشامی حدثنا شعیب ابن اسحق الدمشقی عن ھشام ابن عروۃ عن ابیہ عن عایشۃ رضی اللہ تعالی عنھاقالت قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتسکنوا من الغرفۃ والا تعلموھن الکتابۃ و علموھن الغزل و سورۃ النور" ( رواۃ الحاکم فی المستدرک والسیوطی)

یہ ترجمہ نہیں اس روایت کا۔ بنیادی لب لباب یہ لکھا گیاہے۔
عورتون کو لکھنا نہ سکھایا جائے کہ ان لکھنا سکھانا مکروہ ہے، اس کی اصل امام بیقہی کی بیان کردہ وہ حدیث ہے ، جو انہوں نے شعدب الایمان میں حضرت عایشہ صیقہ سے اس سند کے ساتھ روایت کی ہے۔

طالبان کی شریعت اس قسم کی روایات پر مشتمل ہے۔ یہ وجہ ہے لڑکیوں کے اسکول اڑا دینے کی۔ کہ ان کا یقین ہے کہ لڑکیوں کو تعلیم نہیں دی جانی چاہئیے۔ ایسی شریعت قرآن و اسلام سے دور قسم کی کوئی شریعت ہے ، جس میں "نظریاتی اختلاف کی سزا موت" ہے۔
لڑکیوں کے اسکولوں کو تباہ کرنے کے لئے بہت سی خبریں ڈان اور بی بی سی دونوں‌پر موجود ہیں۔:
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

وانا پاکستان کی حدود میں ہے اور بی بی سی کی رپورٹ پاکستان کے متعلق ہے نہ کہ افغانستان کے متعلق

محترم،

آپ نے بالکل درست کہا کہ وانا پاکستان ميں ہے اور ہماری بحث افغانستان ميں طالبان کے دور حکومت پر مرکوز ہے۔ ليکن ميرے نزديک بی بی سی کی جس خبر بر ہم بحث کر رہے ہيں اس کا دوسرا پہلو زيادہ اہم ہے اور وہ يہ ہے کہ پاکستان کے کچھ علاقوں ميں نہ صرف يہ کہ طالبان متحرک ہيں بلکہ وہ وہاں پر کلی يا جزوی اپنا نظام قائم کرنے کے ليے راہ ہموار کر رہے ہيں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے امن معاہدوں اور مفاہمت نما مصالحتی کوششوں کی جو بازگشت سنائ دے رہی ہے اس کے نتيجے ميں يہ رائے قائم کرنا کچھ غلط نہيں کہ مستقبل ميں پاکستان کے مزيد قبائلی اور سرحدی علاقے طالبان کے زير اثر جا سکتے ہيں۔ ميرے نزديک يہ ايک انتہاہی سنگين صورت حال ہے جس پر بحث ہونی چاہيے۔ اس ميں کوئ شک نہيں کہ ان علاقوں ميں امن کا قيام حکومت پاکستان کی اہم ترجيحات ميں شامل ہے اور حاليہ حالات کے تناظر ميں يہ بالکل درست ہے ليکن کيا امن قائم کرنے کا يہی موثر طريقہ ہے کہ جو گروہ انتہا پسندی اور دہشت گردی جيسے سنگين جرائم ميں ملوث ہيں، امن کی ضمانت کے عوض پاکستان کے کچھ علاقے ان کی تحويل ميں دے ديے جائيں تا کہ وہ وہاں پر اپنی مرضی کا نظام قائم کر سکيں؟

کسی بھی ملک میں انتخابات کا عمل اس ليے اہم ہوتا ہے کيونکہ اس عمل کے بعد ملک کا نظام ايک پارٹی، گروپ يا کسی خاص سوچ کے حامل افراد کے حوالے کيا جاتا ہے۔ اسی ليے اس عمل کے دوران تمام متعلقہ پارٹيوں کے ماضی اور انکے دور حکومت کی کارکردگی کو زير بحث لايا جاتا ہے، ان کے نظريات کے مثبت اور منفی پہلو اجاگر کيے جاتے ہيں اور ايک رائے قائم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ کسی مخصوص گروہ کے برسراقتدار آنے سے مجموعی طور پر معاشرے پر کيا اثرات مرتب ہوں گے۔

طالبان کا ماضی افغانستان میں انکے دور حکومت سے منسلک ہے لہذا جب يہ خبر سامنے آتی ہے کہ طالبان پاکستان کے کسی علاقے ميں اتنے بااثر ہو گئے ہيں کہ وہ اپنا مخصوص نظام قائم کر سکتے ہیں تو ضروری ہے کہ ان کے ماضی ميں جھانک کر يہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ طالبان کس سوچ کی غمازی کرتے ہيں اور انکے زير تسلط کس قسم کا نظام متعارف کروايا جا سکتا ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
ہماری جمہوری طریقے سے قائم ہونے والی حکومت خوب جانتی ہے کہ ان سے معاملات کیسے طے کرنے ہیں
بش اینڈ کمپنی کو ڈکٹیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے
ہم ان کا ماضی یہ دیکھتے ہیں کہ یہ ہمارے 60 سال تک بے لوث سپاہی رہے ہیں
ہاں امریکہ اور ان کے اتحادیوں کا حال دیکھنے کی ضرورت کہ جاسوس طیاروں سے راتوں رات ان پر حملہ کردیتے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شہید ہوتے ہیں۔
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

ہماری جمہوری طریقے سے قائم ہونے والی حکومت خوب جانتی ہے کہ ان سے معاملات کیسے طے کرنے ہیں
بش اینڈ کمپنی کو ڈکٹیٹ کرنے کی ضرورت نہیں ہے

محترم،

آپ نے ايک بہت اہم نقطے کی طرف اشارہ کيا ہے۔ يہ سوال بہت اہم ہے کہ امریکہ کو پاکستان ميں طالبان کے منظم ہونے اور اپنا دائرہ کار بڑھانے پر اتنے تحفظات کيوں ہيں۔ اس نقطے پر توجہ مرکوز کرنے کے ليے اس بحث کو پس پش ڈال ديتے ہيں کہ طالبان کے زير تسلط علاقوں ميں وہاں کے مقامی باشندوں پر اس کے کيا اثرات مرتب ہوں گے۔

دہشت گردی کے حوالے سے اب تک جتنی بھی تحقيق ہوئ ہے اس سے ايک بات واضح ہے کہ کسی بھی انتہا پسند اور دہشت گرد گروہ، تنظيم يا جماعت کو اپنا اثر ورسوخ بڑھانے اور اپنے مذموم ارادوں کی تکميل کے ليے مقامی، علاقائ يا حکومتی سطح پر کسی نہ کسی درجے ميں عملی حمايت کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے بغير کوئ بھی گروہ کسی مخصوص علاقے میں اپنی بنياديں مضبوط نہيں کر سکتا۔

يہ محض اتفاق نہيں تھا کہ کئ افريقی ممالک میں کوششوں کے بعد اسامہ بن لادن نے القائدہ کی تنظيم نو اور اسے مزيد فعال بنانے کے ليئے طالبان کے دور حکومت میں افغانستان کی سرزمين کا انتخاب کيا۔ قريب دس سال پر محيط عرصے میں دنيا بھر ميں القائدہ کی دہشت گردی کے سبب سينکڑوں کی تعداد میں بے گناہ شہری مارے گئے اور يہ سب کچھ طالبان کی مکمل حمايت کے سبب ممکن ہوا۔ 11 ستمبر 2001 کا واقعہ محض ايک اتفاقی حادثہ نہيں تھا بلکہ اس کے پيچھے قريب ايک دہاہی کی منظم کوششيں شامل تھيں جس ميں طالبان نے القائدہ کو تمام تر وسائل فراہم کر کے اپنا بھرپور کردار ادا کيا تھا۔

پاکستان ميں11 ستمبر 2001 کے بعد مختلف سياسی ليڈروں، کچھ ريٹائرڈ فوجی افسران اور حکومتی اہلکاروں کی جانب سے ميڈيا کے ذريعے ايک تاثر کو عام کيا گيا جس کا لب لباب کچھ يوں تھا۔

"امريکہ پر حملہ القائدہ نے کيا جس کے جواب میں افغانستان پر حملہ کيا گيا اور اس سارے تناظے ميں ملبہ پاکستان پر گر گيا"۔

"11 ستمبر 2001 کا واقعہ امريکہ کی اپنی غلط پاليسيوں کا نتيجہ ہے جو اس نے افغانستان ميں سويت تسلط کے دوران طالبان اور عرب جنگجوؤں کی حمايت کر کے کی تھی اور اب پاکستان کو اس مسلئے ميں ملوث کرنا انصاف کے منافی ہے"۔

"القائدہ اور طالبان امريکہ کے تيار کردہ دہشت گرد ہيں جنھيں امريکہ نے افغان جہاد کے دوران استعمال کيا اور اب پاکستان پر دباؤ ڈال کر اپنی غلطيوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے"۔

طالبان اور القائدہ کے حوالے سے يہ وہ عمومی جذبات اور تاثرات ہيں جو آپ کو ہر اردو فورم، اخباری کالمز اور ٹی – وی پروگرامز پر ملیں گے۔

دلچسپ بات يہ ہے کہ اگر آپ 11 ستمبر 2001 کے واقعے سے پہلے کے اخبارات اور ٹی – وی پروگرامز ديکھيں تو يہی سياست دان اور حکومتی اہلکار افغانستان ميں طالبان حکومت کے قيام اور مسلہ افغانستان کے اس "متفقہ حل" کا کريڈٹ لينے کے ليے ايک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتے تھے۔ 1995 ميں طالبان کے برسر اقتدار آنے کے بعد پاکستان پہلا ملک تھا جس نے ان کی حکومت کو تسلیم کيا تھا۔ اس وقت کے وزير داخلہ نے طالبان کو اپنی اولاد قرار ديا تھا۔ ايک اور سيات دان نے يہ بيان ديا تھا کہ " طالبان حکومت کے قيام کے بعد مسلہ افغانستان حل ہو گيا ہے اور ہم کابل ميں شکرانے کے نوافل بھی پڑھ آئے ہيں"۔

حاليہ برسوں ميں جس طريقے سے مختلف سياست دانوں اور حکومتی اہلکاروں کی جانب سے طالبان سے مکمل لاتعلقی کا اظہار کيا جاتا ہے اس پر يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ ميں بعض امريکی اہلکار شديد حيرت کا اظہار کرتے ہيں کيونکہ افغانستان ميں طالبان کو برسر اقتدار لانے اور اس کے بعد ان کے دائرہ کار کو وسيع کرنے ميں پاکستان نے انتہاہی کليدی کردار ادا کيا ہے۔ پاکستانی اہلکار براہراست طالبان کے حکومتی معاملات ميں شامل تھے۔

حکومت پاکستان اور طالبان کے مابين تعلقات، طالبان کے زير اثر اسامہ بن لادن اور القائدہ کی تنظيم نو اور امريکہ کے خدشات اور تحفظات – اس حوالے سے ميں نے يو – ايس – اسٹيٹ ڈيپارٹمنٹ سے کچھ دستاويزات جاصل کی ہيں جو آپ کو جذبات اور بيانات سے ہٹ کر کچھ تلخ حقائق سمجھنے ميں مدد ديں گے۔ ان دستاويزی شواہد کے بعد آپ کو طالبان اور پاکستان کے تعلقات اور اس حوالے سے امريکی خدشات سمجھنے ميں بھی مدد ملے گی۔


7 نومبر 1996 کی اس دستاويز ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کی براہراست فوجی امداد پر تشويش کا اظہار کيا گيا ہے۔ اس دستاويز ميں ان خبروں کی تصديق کی گئ ہے کہ آئ – ايس – آئ افغانستان ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس ميں آئ – ايس – آئ کے مختلف اہلکاروں کا افغانستان ميں دائرہ کار کا بھی ذکر موجود ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/b6f5e822b36700b0959f1ac5541a19df/17.pdf

26 ستمبر 2000 کو يو – ايس – اسٹیٹ ڈيپارٹمنٹ کی اس رپورٹ ميں پاکستان کی جانب سے طالبان کو فوجی کاروائيوں کے ليے پاکستانی حدود کے اندر اجازت دينے پر شديد خدشات کا اظہار ان الفاظ ميں کيا گيا ہے

"يوں تو پاکستان کی جانب سے طالبان کی امداد کاقی عرصے سے جاری ہے ليکن اس حمايت ميں موجودہ توسيع کی ماضی ميں مثال نہيں ملتی"۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کو اپنی کاروائيوں کے ليے پاکستان کی سرحدی حدود کے اندر سہوليات مہيا کرنے کے علاوہ پاکستانی شہری بھی استعمال کر رہا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستان کی پختون فرنٹير کور افغانستان ميں طالبان کے شانہ بشانہ لڑائ ميں ملوث ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/01f1b3ad83838be4eff2f8de76ba230b/34.pdf

اگست 1996 ميں سی – آئ – اے کی اس دستاويز کے مطابق حرکت الانصار نامی انتہا پسند تنظيم جسے حکومت پاکستان کی حمايت حاصل رہی ہے، کے حوالے سے خدشات کا اظہار کيا گيا ہے۔ حرکت الانصار کی جانب سے غير ملکی شہريوں پر حملے اور عالمی دہشت گردی کے حوالے سے اپنے دائرہ کار کو وسيع کرنے کی غرض سے افغانستان ميں اسامہ بن لادن کے ساتھ بڑھتے ہوئے روابط مستقبل ميں اس جماعت کی جانب سے امريکہ کے خلاف دہشت گردی کے کسی بڑے واقعے کا سبب بن سکتا ہے۔ اس دستاويز کے مطابق پاکستانی اينٹيلی جينس انتہا پسند تنظيم حرکت الانصار کو مالی امداد مہيا کرتی ہے مگر اس کے باوجود يہ تنظيم اسامہ بن لادن سے تعلقات بڑھانے کی خواہش مند ہے جو کہ مستقبل ميں نہ صرف اسلام آباد بلکہ امريکہ کے ليے دہشت گردی کے نئے خطرات کو جنم دے گا۔ اس تنظيم کی جانب سے دہشت گردی کے حوالے سے ہوائ جہازوں کے استعمال کے بھی شواہد ملے ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/1f37d729470ae63b6269df04aa93a09d/10.pdf

6 فروری 1997 کی اس دستاویز ميں امريکی حکومت کی جانب سے پاکستان کے ايک حکومتی اہلکار کو يہ باور کرايا گيا ہے کہ امريکی حکومت کو افغانستان ميں اسامہ بن لادن، طالبان اور حرکت الانصار کے درميان بڑھتے ہوئے تعلقات پر شديد تشويش ہے۔ حکومت پاکستان کی جانب سے حرکت الانصار کی پشت پناہی کے حوالے سے پاکستانی حکومتی اہلکار کا يہ دعوی تھا کہ اس تنظيم کی کاروائيوں پر مکمل کنٹرول ہے اور اس حوالے سے مستقبل ميں پکستان کو کوئ خطرات درپيش نہیں ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/68a0c9308a5afd0a41f1d5bb1be3547e/16.pdf

16 جنوری 1997 کی اس دستاويز کے مطابق طالبان کی انتہا پسند سوچ کا پاکستان کے قبائلی علاقے ميں براہراست اثرات کے خطرے کے حوالے سے حکومت پاکستان کا موقف يہ تھا کہ "يہ مسلہ فوری ترجيحات ميں شامل نہيں ہے"۔ کابل ميں طالبان کی موجودہ حکومت پاکستان کے بہترين مفاد ميں ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/db68f0deaabeebf7559deae59692d26d/20.pdf

22 اکتوبر 1996 کی اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس –آئ کے طالبان کے ساتھ روابط کا دائرہ کار اس سے کہيں زيادہ وسيع ہے جس کا اظہار حکومت پاکستان امريکی سفارت کاروں سے کرتی رہی ہے۔ آئ – ايس – آئ ايک نجی ٹرانسپورٹ کمپنی کے ذريعے طالبان کو امداد مہيا کرتی رہی ہے۔ اس دستاويز کے مطابق آئ – ايس – آئ طالبان کو اسلحہ مہيا کرنے ميں براہراست ملوث ہے اور اس حوالے سے پاکستانی سفارت کار دانستہ يا کم علمی کی وجہ سے غلط بيانی سے کام ليتے رہے ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/8c2201940dc63d8410443727e58f8259/15.pdf

امريکی انٹيلی جينس کی اس دستاويز کے مطابق پاکستان طالبان کی فوجی امداد ميں براہ راست ملوث ہے۔ اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی اس تشويش کا بھی ذکر ہے کہ پاکستان ميں پختون آبادی کو طالبان کے اثرات سے محفوظ رکھنے کے ليے حکوت پاکستان طالبان کو اپنی پاليسيوں ميں اعتدال پيدا کرنے کے ليے اپنا رول ادا کرے گی۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/7d12365d165501ed19b59aaac736dd2a/8.pdf

27 اگست 1997 کی اس دستاويز کے مطابق افغانستان کے مسلئے کے حوالے سے پاکستان کا کردار محض مصالحتی نہيں ہے بلکہ پاکستان براہراست فريق ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/ad2a82ec087692d8ca09a839bcca6282/24.pdf

22 دسمبر 1995 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی جانب سے تہران اور تاشقند کو اس يقين دہانی کے باوجود کہ پاکستان طالبان کو کنٹرول کر سکتا ہے، امريکی حکومتی حلقے اس حوالے سے شديد تحفظات رکھتے ہيں۔ اس دستاويز ميں امريکہ کی جانب سے حکومت پاکستان کی طالبان کی پشت پناہی کی پاليسی کو افغانستان ميں قيام امن کے ليے کی جانے والی عالمی کوششوں کی راہ ميں رکاوٹ قرار ديا ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/86350d52d25d1db592666ca548ff96ab/talib7.pdf

18 اکتوبر 1996 کو کينيڈين اينٹيلی ايجنسی کی اس دستاويز کے مطابق کابل ميں طالبان کی توقع سے بڑھ کر کاميابی خود حکومت پاکستان کے لیے خدشات کا باعث بن رہی ہے اور طالبان پر حکومت پاکستان کا اثر ورسوخ کم ہونے کی صورت ميں خود پاکستان کے ليے نئے چيليجنز پيدا ہو جائيں گے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/38ce9e2e9d204c8b65fa714223d991e3/14.pdf

9 مارچ 1998 کی اس دستاويز ميں اسلام آباد ميں امريکی ڈپٹی چيف آف مشن ايلن ايستھم اور پاکستان کے دفتر خارجہ کے ايک اہلکار افتخار مرشد کی ملاقات کا ذکر ہے جس ميں امريکی حکومت کی جانب سے اسامہ بن لادن سے منسوب حاليہ فتوے اور پاکستان ميں حرکت الانصار کے ليڈر فضل الرحمن خليل کی جانب سے اس فتوے کی تحريری حمايت کے حوالے سے امريکی حکومت کے خدشات کا اعادہ کيا گيا۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/0075ce8eb1423409319f61d7d2cc858f/talib6.pdf

28 ستمبر 1998 اور 25 مارچ 1999 کی ان دو دستاويزات ميں امريکی حکومت نے ان خدشات کا اظہار کيا ہے کہ پاکستان طالبان پر اپنے اثر ورسوخ کے باوجود اسامہ بن لادن کی بازيابی ميں اپنا کردار ادا نہيں کر رہا۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/cbb665c1d9a39360ffbcd4240075885c/31.pdf
http://f4.filecrunch.com/files/20080422/ecdcde1d3a3282bf0d3d1ad615c22a76/33.pdf

5 دسمبر 1994 کی اس دستاويز کے مطابق حکومت پاکستان کی افغانستان کی سياست ميں براہراست مداخلت اور طالبان پر آئ – ايس – آئ کے اثرورسوخ کے سبب طالبان قندھار اور قلات پر قبضہ کرنے ميں کامياب ہوئے۔ پاکستان کی اس غير معمولی مداخلت کے سبب اقوام متحدہ ميں افغانستان کے خصوصی ايلچی محمود ميسٹری کی افغانستان مين قيام امن کی کوششوں ميں شديد مشکلات حائل ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/d3141a5aecbcf05106a2e4a47408c82a/1.pdf

29 جنوری 1995 کی اس دستاويز میں حکومت پاکستان کے اہلکاروں کی جرنل دوسطم سے ملاقات کا ذکر ہے جس ميں انھيں يہ باور کروايا گيا کہ طالبان ان کے خلاف کاروائ نہيں کريں گے ليکن اس يقين دہانی کے باوجود مئ 1997 ميں مزار شريف پر قبضہ کر کے انھيں جلاوطن ہونے پر مجبور کر ديا۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/37cb9801c12216ed18b8e97a3496cd09/2.pdf

18 اکتوبر 1995 کی اس دستاويز ميں افغانستان ميں پاکستانی سفير قاضی ہمايوں نے حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کی سپورٹ اور اس کے نتيجے ميں پيدا ہونے والی مشکلات کا ذکر کيا ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/470022dec9e017a858995fa0219a1edb/4.pdf

30 ستمبر 1996 کو کابل ميں طالبان کے قبضے کے چار دن بعد سی – آئ – اے کی جانب سے اس دستاويز ميں طالبان کی جانب سے دہشت گرد تنظيموں کی پشت پناہی کے حوالے سے غير متوازن پاليسی کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گيا ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/ed012b8732c4a7c3ef1aeccdbf431937/11.pdf

2 اکتوبر 1996 کی اس دستاويز ميں آئ – ايس – آئ کی جانب سے 30 سے 35 ٹرک اور 15 سے 20 تيل کے ٹينکر افغانستان منتقل کرنے کا حوالہ ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/f98c7f435dbe8fb7c77c055f0ec9066b/12.pdf

12 نومبر 1996 کی اس دستاویز ميں طالبان کے ترجمان ملا غوث کے توسط سے اس دعوے کا ذکر ہے کہ اسامہ بن لادن افغانستان ميں موجود نہيں ہيں۔ اس دستاويز ميں اسامہ بن لادن کو افغانستان ميں لانے اور طالبان سے متعارف کروانے ميں پاکستان کے براہراست کردار کا بھی ذکر ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/1bdff013ab95c947f7dfc8869c82df83/18.pdf

10 مارچ 1997 کی اس دستاويز ميں حکومت پاکستان کی جانب سے طالبان کے حوالے سے پاليسی ميں تبديلی کا عنديہ ديا گيا ہے ليکن آئ – ايس – آئ کی جانب سے طالبان کی بھرپور حمايت کا اعادہ کيا گيا ہے۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/d33d2ca51dfd0255def4ff21fef5571f/21.pdf

1 جولائ 1998 کی اس دستاويز ميں پاکستان کے ايٹمی دھماکے کے بعد نئ سياسی فضا کے پس منظر ميں پاکستان کی جانب سے پہلی بار کھلم کھلا طالبان کی پشت پناہی کا اعادہ کيا گيا۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/0c46d21f4c8909ddd238a522b9b987b6/talib8.pdf

6 اگست 1998 کی اس دستاويز ميں ايک رپورٹ کے حوالے سے يہ باور کرايا گيا کہ طالبان کی صفوں ميں 20 سے 40 فيصد فوجی پاکستانی ہيں۔

http://f4.filecrunch.com/files/20080422/90ee9df87ff7bdd4818d83bb9b82d12d/30.pdf

پاکستان کی جانب سے طالبان کی پشت پناہی، اور اس کے نتيجے ميں افغانستان ميں القائدہ کی تنظيم نو اور 11 ستمبر 2001 کے حادثے سميت دنيا بھر ميں دہشت گردی کے واقعات کی اس تاريخ کے پس منظر ميں کيا يہ دعوی کرنا حقيقت کے منافی نہيں کہ ہم امريکہ کی جنگ لڑ رہے ہيں اور"طالبان کا مسلہ" ہم پر مسلط کيا جا رہا ہے؟

طالبان اور پاکستان کی يہی وہ تاريخ ہے جس کے نتيجے ميں امريکی حکومتی حلقوں ميں پاکستان کے سرحدی علاقوں ميں طالبان کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ پر شديد تشويش پائ جاتی ہے۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

باسم

محفلین
ثابت کیا کہ امریکہ کی نظر میں پاکستان اور طالبان برابر ہیں
اور جب پاکستان ایسا مجرم ہے تو اتحادی بنانے کی کیا ضرورت تھی؟
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

اور جب پاکستان ایسا مجرم ہے تو اتحادی بنانے کی کیا ضرورت تھی؟

آپ کی بات کا جواب دينے کے ليے میں آپ کو افغانستان اور پاکستان کی جغرافيائ حدود اور اس حوالے سے نقشہ دکھاتا ہوں۔

http://img236.imageshack.us/my.php?image=afghanincontextmg4.gif

آپ ديکھ سکتے ہيں کہ افغانستان تک رسائ حاصل کرنے کے ليے صرف ايران، پاکستان اور روس ممکنہ ممالک تھے۔ ايران اور امريکہ کے درميان 1980 ميں امريکی سفارتی اہلکاروں کے 444 دن تک اغوا رہنے کے واقعے کی وجہ سے شديد کشيدگی تھی۔ لہذا جغرافيائ لحاظ سے پاکستان ہی وہ واحد ملک تھا جس کے ذريعے افغانستان کی مدد کی جا سکتی تھی اور اس کے ليے پاکستان نے ہر ممکن مدد کے ليے حامی بھری تھی۔

يہاں يہ بات ياد رکھنی چاہيے کہ افغانستان پر سوويت افواج کے حملے کے بعد صرف امريکہ ہی وہ واحد ملک نہيں تھا جس نے امداد مہيا کی تھی بلکہ اس ميں مسلم ممالک جيسے سعودی عرب اور شام سميت ديگر بہت سے ممالک بھی شامل تھے اور اس وقت کے زمينی حقائق کے پيش نظر افغانستان کی مدد کو دنيا کے کسی ملک نے غلط پاليسی نہيں قرار ديا تھا۔

دنيا کے مختلف ممالک سے آنے والی فوجی اور مالی امداد براہ راست پاکستان منتقل کی جاتی رہی اور پھر پاکستان کے توسط سے يہ امداد افغانستان پہنچتی۔ کچھ ہفتے پہلے اس وقت کے پاکستانی صدر ضياالحق کے صاحبزادے اعجازالحق نے بھی ايک ٹی وی پروگرام ميں يہ تسليم کيا تھا کہ پاکستان افغانستان ميں بيرونی امداد منتقل کرنے ميں واحد کردار تھا۔

يہ ايک تلخ مگر تاريخی حقيقت ہے کہ پاکستان ميں اس وقت کے حکمرانوں نے اس صورتحال کو اپنے مفادات کے ليے استعمال کيا اور مستقبل ميں افغانستان ميں اپنا اثر و رسوخ برقرار رکھنے کے ليے امداد کا رخ دانستہ طالبان کی طرف رکھا اور افغانستان ميں موجود ديگر گروپوں اور قبيلوں کو نظرانداز کيا۔ يہ وہ حقائق ہيں جو ان دستاويز سے ثابت ہيں جو ميں نے اس تھريڈ پر پوسٹ کیے ہيں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 

وجی

لائبریرین
فواد صاحب آپکی پوسٹ نمبر 6 کے بارے میں میں صرف اتنا کہوں گا کہ یہ ساری تحقیق امریکہ کی ہے اور عراق کے بارے میں بھی تحقیق امریکیوں کی ہی تھی تو بھائی یہ اعداد و شمار آپ کسی اور کو دکھائیے گا
یہ بھی ایک خاتون ہیں
 

باسم

محفلین
بات سیکورٹی فورسزز پر اتحادی افواج کے فضائی حملوں تک جا پہنچی ہے
تاکہ مذاکرات کو ناکام بنایا جاسکے
 

Fawad -

محفلین
Fawad – Digital Outreach Team – US State Department

بات سیکورٹی فورسزز پر اتحادی افواج کے فضائی حملوں تک جا پہنچی ہے
تاکہ مذاکرات کو ناکام بنایا جاسکے

آپ يہ کيوں بھول رہے ہيں کہ جن "امن مذاکرات" کا ذکر کيا جا رہا ہے اس ميں ايک فريق بيت الللہ محسود ہے جسے صرف چند مہينے پہلے حکومت پاکستان نے بے نظير بھٹو کے قتل ميں براہراست مجرم قرار ديا تھا۔ اور اس کی آڈيو ٹيپ جو وزير داخلہ نے ساری دنيا کے ميڈيا کے سامنے ثبوت کے طور پر پيش کی تھی، وہ اس وقت بھی حکومت پاکستان کی سرکاری ويب سائٹ پر موجود ہے۔ اس "جرم" ميں ملوث ہونے کی پاداش ميں محض چند ہفتے قبل حکومت پاکستان کی جانب سے بيت الللہ محسود کے خلاف ناقابل ضمانت وارنٹ بھی جاری ہوئے تھے۔ کيا وہ سب کچھ جھوٹ تھا؟ اگر نہيں تو کيا اب عام معافی کے بعد بے نظير کے قتل کی فائل سرکاری طور پر بند کر دی جائے گی۔ صرف يہی نہيں، بلکہ بيت الللہ محسود کی جانب سے کيے جانے والے حملے اور اس کے نتيجے ميں ہلاک ہونے والے تمام بے گناہ افراد کی فائليں سرکاری طور پر بند کر دی جائيں گی؟ يہ وہی بيت الللہ محسود ہے جس نے چند ماہ قبل 250 پاکستانی فوجيوں کو کئ روز تک يرغمال بنائے رکھا تھا۔

آپ نے بالکل درست کہا ہے کہ امريکہ کی جانب سے ان "امن مذاکرات" کے بارے ميں شديد تحفظات کا اظہار کيا جا رہا ہے۔ کيا آپ واقعی يہ سمجھتے ہيں کہ حکومت پاکستان کی جانب سے دہشت گردوں کو عام معافی دينے پر امريکہ سميت عالمی برادری کی جانب سے اطمينان کا اظہار کيا جائے گا؟ کيا اس کے بعد امن کے نام پر اسامہ بن لادن کو بھی حکومت پاکستان کی جانب سے عام معافی دے دی جائے گی اور ان سے يہ وعدہ ليا جائے گا کہ اگر وہ پاکستان کے اندر اپنی کاروائياں بند کر ديں تو انھيں مکمل تحفظ دے ديا جائے گا؟ ياد رکھيے کہ آپ سانپ کو ساری زندگی دودھ پلاتے رہيں، اس کی فطرت نہيں بدل سکتے۔ وہ ايک دن آپ کو ضرور ڈسے گا۔

آج کل ٹی – وی پر سربجيت سنگھ نامی ايک بھارتی شخص کی پھانسی کے حوالے سے عوام کی رائے لی جا رہی ہے۔ اس بارے ميں ان لواحقين کی گفتگو سننے کا اتفاق ہوا جن کے عزيز و اقارب سربجيت سنگھ کی دہشت گردی کے نتيجے ميں ہلاک ہوئے تھے۔ کيا بيت الللہ محسود کو عام معافی اور امن معاہدہ پر دستخط سے پہلے ان لواحقين کی اجازت لی گئ جن کے عزيز بيت الللہ محسود کی دہشت گردی کا شکار ہوئے۔ جہاں تک ميری سمجھ ہے، معافی کا اختيار تو صرف انھی لوگوں کے پاس ہے، حکومت پاکستان کی ذمہ داری تو اسے انصاف کے کٹہرے ميں لانا ہے، نا کہ عام معافی دينا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
digitaloutreach@state.gov
http://usinfo.state.gov
 
Top