باسم
محفلین
’طالبان کے تحت وانا میں امن
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے بازار میں طالبان کا دفتر قائم ہے جس کے سامنے انہوں نے ناکہ لگا رکھا ہے، وہاں موجود مسلح طالبان بازار میں داخل ہونے والی ہرگاڑی پر نظر رکھتے ہیں۔
علاقے کے لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے طالبان کے دفتر سے رجوع کرتے ہیں جہاں پر فریقین سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مسئلے کو قبائلی روایات کے ذریعہ حل کرواناچاہتے ہیں یا شریعت کے تحت۔ یہ ہے آج کا وانا جہاں ایک سال قبل یعنی پندرہ اپریل دوہزار سات کو طالبان اور حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا۔
معاہدے سے پہلے وانا میں مقامی طالبان سربراہ مولوی نذیر کی سربراہی میں وزیر قبیلے نے سکیورٹی فورسز کی معاونت سے وہاں موجود ازبک جنگجؤوں کیخلاف آپریشن کیا تھا، جس کے بعد حکومت طالبان امن معاہدہ عمل میں آیا۔
میں جب وانا پہنچا تو کافی تگ و دو کے بعد مولوی نذیر سے ملاقات ہوئی۔ مگر انہوں نے ایف سی آر کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا اور میرے سوالات کے جواب میں الٹا مجھ سے پوچھا: ’آپ اس سے قبل بھی وانا آئے تھے کیا آپ نے کبھی بھی اس طرح کھلم کھلا گھومنے پھرنے کا تصور کیا تھا۔ اب اگر آپ پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈہ جانا چاہیں تو وہاں بڑے آرام سے آ جاسکتے ہیں۔‘
امن و امان
آپ اس سے قبل بھی وانا آئے تھے کیا آپ نے کبھی بھی اس طرح کھلم کھلا گھومنے پھرنے کا تصور کیا تھا۔ اب اگر آپ پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈہ جانا چاہیں تو وہاں بڑے آرام سے آ جاسکتے ہیں
مولوی نذیر
وانا اور آس پاس کے علاقوں میں مکمل طور پر امن ہے۔ ایک قبائلی مشر ملک محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب سے طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے یہاں پر قتل، اغواء اور دیگر چھوٹے موٹے جرائم کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔
ان کے بقول کئی کئی مہینوں تک بند رہنے والے تمام راستے کھل گئے ہیں جبکہ تاجر اور زمیندار بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
تاہم طالبان کے علاوہ مقامی لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے سابق ایم این اے مولانا نور محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد علاقے میں سو فیصد امن لوٹ آیا ہے مگر مبینہ امریکی حملوں سے امن کے اس عمل کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔‘
ان کے بقول’نومنتخب مرکزی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کر رکھا ہے اس سے قبل وہ امریکہ پر یہ بات واضح کردیں کہ آئندہ ہونے والے معاہدے کے بعد اگرسرحد پار سے میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر خطے میں دیرپا امن لانا ممکن نہیں ہوگا۔‘
ایک سرکاری اہلکار کے مطابق وانا بازار میں ٹریفک کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے اور ٹریفک اصولوں کی خلاف ورزی پر دو ہزار تک جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ صرف طالبان اور سرکاری اہلکاروں کو اپنے گاڑی کے شیشے سیاہ رکھنے کی اجازت ہے۔
امریکہ کی وجہ سے امن و امان برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے: مولانا نور محمد
قتل اور اغواء کی وارداتوں کو روکنا، قیمتوں کا کنٹرول اورافغانستان کو آٹے کی سمگلنگ کی روک تھام کی ذمہ داری بھی طالبان نے لے رکھی ہے۔ اہلکار کے مطابق طالبان کی تقریباً اٹھائیس گاڑیاں دن رات علاقے کا گشت کرتی ہیں اور اس دوران ہر مشکوک شخص سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں طالبان نےایک خود کش بمبار کو گرفتار کر کے اسے اپنے مرکز جسے موسیٰ قلعہ کا نام دیا گیا ہے میں قید کر لیا ہے۔
ایک برس قبل یہ تمام ریاستی ذمہ داریاں پولٹیکل انتظامیہ نے سنبھال رکھی تھیں۔ اب وانا میں فوج سمیت تمام سرکاری اہلکار اپنے اپنے دفاتر اور بیرکوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میں نے وانا میں وہ منظر بھی دیکھا کہ کل تک ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن فوجی اور طالبان آج سڑک پر قافلوں کی صورت میں جاتے ہوئے اوور ٹیک کرنے کے لیے بڑے آرام سے ایک دوسرے کی گاڑیوں کے لیے راستہ خالی کردیتے ہیں۔
البتہ فروری اور مارچ میں غیر ملکیوں کے دو مشکوک ٹھکانوں پر مبینہ میزائل حملوں کے نتیجہ میں بیس سے زائد غیر ملکیوں کی ہلاکت کے بعد یہ امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ طالبان نے ردعمل کے طور پر پاکستانی فوج پر خودکش حملہ کیا تھا جسکی ذمہ داری انہوں نے بعد میں قبول بھی کرلی۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں حملے امریکہ نے بغیر پائلٹ طیاروں سے کیے تھے جس میں بقول ان کے ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی غیر ملکی شامل نہیں تھا۔
امریکہ کو تنبیہ
نومنتخب مرکزی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کر رکھا ہے اس سے قبل وہ امریکہ پر یہ بات واضح کردیں کہ آئندہ ہونے والے معاہدے کے بعداگرسرحد پار سے میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر خطے میں دیرپا امن لانا ممکن نہیں ہوگا۔
مولانا نور محمد
طالبان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں مگر میں نے وانا میں دو دن کے قیام کے دوران لڑکیوں کو برقعوں میں سکول جاتے ہوئے اور لڑکوں کو یونیفارم میں ملبوس فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا۔
دو سال قبل پڑوسی ایجنسی شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان نے فٹ بال کھلاڑیوں کو پکڑ کر انہیں سزائیں دی تھیں۔افغانستان میں بھی طالبان نے اپنی دور حکومت میں ایک پاکستانی ٹیم کو گرفتار کر لیا تھا اور سر منڈھوانے کے بعد انہیں واپس چھوڑ دیا تھا۔
اب آپ وانا میں اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے موسیقی بھی سن سکتے ہیں البتہ بازار میں سرعام موسیقی بجانے پر پابندی ہے۔ تین دن قبل طالبان نے پمفلٹ کےذریعے تمام دکانداروں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ دکانوں سے تصاویر اتار لیں ۔
یہ کیا ماجرا ہے؟
پاکستان کے قبائلی علاقے جنوبی وزیرستان کے صدر مقام وانا کے بازار میں طالبان کا دفتر قائم ہے جس کے سامنے انہوں نے ناکہ لگا رکھا ہے، وہاں موجود مسلح طالبان بازار میں داخل ہونے والی ہرگاڑی پر نظر رکھتے ہیں۔
علاقے کے لوگ اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے لیے طالبان کے دفتر سے رجوع کرتے ہیں جہاں پر فریقین سے پوچھا جاتا ہے کہ وہ مسئلے کو قبائلی روایات کے ذریعہ حل کرواناچاہتے ہیں یا شریعت کے تحت۔ یہ ہے آج کا وانا جہاں ایک سال قبل یعنی پندرہ اپریل دوہزار سات کو طالبان اور حکومت کے درمیان امن معاہدہ ہوا تھا۔
معاہدے سے پہلے وانا میں مقامی طالبان سربراہ مولوی نذیر کی سربراہی میں وزیر قبیلے نے سکیورٹی فورسز کی معاونت سے وہاں موجود ازبک جنگجؤوں کیخلاف آپریشن کیا تھا، جس کے بعد حکومت طالبان امن معاہدہ عمل میں آیا۔
میں جب وانا پہنچا تو کافی تگ و دو کے بعد مولوی نذیر سے ملاقات ہوئی۔ مگر انہوں نے ایف سی آر کے علاوہ کسی اور موضوع پر بات کرنے سے انکار کردیا اور میرے سوالات کے جواب میں الٹا مجھ سے پوچھا: ’آپ اس سے قبل بھی وانا آئے تھے کیا آپ نے کبھی بھی اس طرح کھلم کھلا گھومنے پھرنے کا تصور کیا تھا۔ اب اگر آپ پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈہ جانا چاہیں تو وہاں بڑے آرام سے آ جاسکتے ہیں۔‘
امن و امان
آپ اس سے قبل بھی وانا آئے تھے کیا آپ نے کبھی بھی اس طرح کھلم کھلا گھومنے پھرنے کا تصور کیا تھا۔ اب اگر آپ پاک افغان سرحد پر واقع انگور اڈہ جانا چاہیں تو وہاں بڑے آرام سے آ جاسکتے ہیں
مولوی نذیر
وانا اور آس پاس کے علاقوں میں مکمل طور پر امن ہے۔ ایک قبائلی مشر ملک محمد علی نے بی بی سی کو بتایا کہ جب سے طالبان نے کنٹرول سنبھالا ہے تب سے یہاں پر قتل، اغواء اور دیگر چھوٹے موٹے جرائم کا مکمل خاتمہ ہوگیا ہے۔
ان کے بقول کئی کئی مہینوں تک بند رہنے والے تمام راستے کھل گئے ہیں جبکہ تاجر اور زمیندار بڑے اطمینان کے ساتھ اپنی کاروباری سرگرمیوں میں مصروف ہیں۔
تاہم طالبان کے علاوہ مقامی لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ امریکہ امن کے عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنوبی وزیرستان کے سابق ایم این اے مولانا نور محمد نے بی بی سی کو بتایا کہ ’طالبان اور حکومت کے درمیان ہونے والے معاہدے کے بعد علاقے میں سو فیصد امن لوٹ آیا ہے مگر مبینہ امریکی حملوں سے امن کے اس عمل کو برقرار رکھنا مشکل ہوگیا ہے۔‘
ان کے بقول’نومنتخب مرکزی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کر رکھا ہے اس سے قبل وہ امریکہ پر یہ بات واضح کردیں کہ آئندہ ہونے والے معاہدے کے بعد اگرسرحد پار سے میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر خطے میں دیرپا امن لانا ممکن نہیں ہوگا۔‘
ایک سرکاری اہلکار کے مطابق وانا بازار میں ٹریفک کا کنٹرول طالبان کے پاس ہے اور ٹریفک اصولوں کی خلاف ورزی پر دو ہزار تک جرمانہ وصول کیا جاتا ہے۔ صرف طالبان اور سرکاری اہلکاروں کو اپنے گاڑی کے شیشے سیاہ رکھنے کی اجازت ہے۔
امریکہ کی وجہ سے امن و امان برقرار رکھنا مشکل ہو رہا ہے: مولانا نور محمد
قتل اور اغواء کی وارداتوں کو روکنا، قیمتوں کا کنٹرول اورافغانستان کو آٹے کی سمگلنگ کی روک تھام کی ذمہ داری بھی طالبان نے لے رکھی ہے۔ اہلکار کے مطابق طالبان کی تقریباً اٹھائیس گاڑیاں دن رات علاقے کا گشت کرتی ہیں اور اس دوران ہر مشکوک شخص سے پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ حال ہی میں طالبان نےایک خود کش بمبار کو گرفتار کر کے اسے اپنے مرکز جسے موسیٰ قلعہ کا نام دیا گیا ہے میں قید کر لیا ہے۔
ایک برس قبل یہ تمام ریاستی ذمہ داریاں پولٹیکل انتظامیہ نے سنبھال رکھی تھیں۔ اب وانا میں فوج سمیت تمام سرکاری اہلکار اپنے اپنے دفاتر اور بیرکوں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
میں نے وانا میں وہ منظر بھی دیکھا کہ کل تک ایک دوسرے کے خلاف مورچہ زن فوجی اور طالبان آج سڑک پر قافلوں کی صورت میں جاتے ہوئے اوور ٹیک کرنے کے لیے بڑے آرام سے ایک دوسرے کی گاڑیوں کے لیے راستہ خالی کردیتے ہیں۔
البتہ فروری اور مارچ میں غیر ملکیوں کے دو مشکوک ٹھکانوں پر مبینہ میزائل حملوں کے نتیجہ میں بیس سے زائد غیر ملکیوں کی ہلاکت کے بعد یہ امن معاہدہ خطرے میں پڑ گیا ہے۔ طالبان نے ردعمل کے طور پر پاکستانی فوج پر خودکش حملہ کیا تھا جسکی ذمہ داری انہوں نے بعد میں قبول بھی کرلی۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ یہ دونوں حملے امریکہ نے بغیر پائلٹ طیاروں سے کیے تھے جس میں بقول ان کے ہلاک ہونے والوں میں کوئی بھی غیر ملکی شامل نہیں تھا۔
امریکہ کو تنبیہ
نومنتخب مرکزی اور صوبہ سرحد کی حکومتوں نے طالبان کے ساتھ مذاکرات کا جو اعلان کر رکھا ہے اس سے قبل وہ امریکہ پر یہ بات واضح کردیں کہ آئندہ ہونے والے معاہدے کے بعداگرسرحد پار سے میزائل حملوں کا سلسلہ جاری رہا تو پھر خطے میں دیرپا امن لانا ممکن نہیں ہوگا۔
مولانا نور محمد
طالبان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ وہ لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں مگر میں نے وانا میں دو دن کے قیام کے دوران لڑکیوں کو برقعوں میں سکول جاتے ہوئے اور لڑکوں کو یونیفارم میں ملبوس فٹ بال کھیلتے ہوئے دیکھا۔
دو سال قبل پڑوسی ایجنسی شمالی وزیرستان میں مقامی طالبان نے فٹ بال کھلاڑیوں کو پکڑ کر انہیں سزائیں دی تھیں۔افغانستان میں بھی طالبان نے اپنی دور حکومت میں ایک پاکستانی ٹیم کو گرفتار کر لیا تھا اور سر منڈھوانے کے بعد انہیں واپس چھوڑ دیا تھا۔
اب آپ وانا میں اپنی گاڑی میں سفر کرتے ہوئے موسیقی بھی سن سکتے ہیں البتہ بازار میں سرعام موسیقی بجانے پر پابندی ہے۔ تین دن قبل طالبان نے پمفلٹ کےذریعے تمام دکانداروں کو یہ حکم بھی دیا تھا کہ وہ دکانوں سے تصاویر اتار لیں ۔
یہ کیا ماجرا ہے؟