اگر کسی نے صدر کراچی کی زاہد نہاری نہیں کھائی تو کچھ نہ کھایا....جب بھی ہماری جیب بھری ہوتی ، یہاں کی نلی نہاری کھانا ہمارا خواب ہوتا تھا....ہم اس وقت سے زاہد کی نہاری کھا رہے ہیں..جب نہاری کی پلیٹ 25 روپے کی تھی...اور ہماری مہینہ بھی کی کمائی بارہ سو روپے- جوں جوں متحدہ کا بھتہ بڑھتا گیا.... نہاری کی پلیٹ بھی اوپر چڑھتی گئی....آخری بار جب کھائی تو پلیٹ 125 روپے کی ہوچکی تھی- زاہد نہاری ہاؤس کے موٹے سیٹھ کو دیکھ کر ہم سوچا کرتے تھے کہ صبح نہاری شام نہاری کھا کر صحت کتنی قابل رشک ہو جاتی ہے....
پھر ایک دن یہ سیٹھ اپنی سیٹ پر بیٹھا تو اٹھ نہ سکا....اور نامعلوم افراد کی فائرنگ کا نشانہ بن گیا ....شاید اس نے نہاری کے ریٹ مزید بڑھانے سے انکار کر دیا تھا-
سیٹھ گیا تو نہاری کا ذائقہ بھی ساتھ لے گیا- اب تو زاہد نہاری بھی شوربے میں تیرتے اسفنج کے ٹکڑے جیسی رہ گئی ہے-
کسی نے چوہدری فرزند کی قلفی کھائی ہے ؟....ہم نے اس وقت کھائی جب لوگ سڑک پہ کھڑے ہوکر کھایا کرتے تھے- کسی نے سوچا چوہدری فرزند اچانک کہاں چلا گیا....اوپر بھیج دیا گیا بھائی !!!!!!
حاجی گھسیٹا خان کی حلیم جہاں سے کبھی بیگم رعنا لیاقت علی خان نے بھی حلیم کھائی تھی کسی دور میں بام عروج پہ تھی...اسے بھی بھتہ خوری نے دال بنا کر رکھ دیا ہے....کسی کو تاج لسّی والا یاد ہے....یہ جنت مکانی جب سے بھتے کے رفڑے میں اوپر گیا ہے...لسّی ایک دم چھاچھ بن کر رہ گئی ہے....بالکل کھٹی چھاچھ-
کسی کو " آپ کے مسائل اور ان کا حل" بتانے والے مولانا محمد یوسف لدھیانوی یاد ہیں ؟؟ ...ہم شاید انہیں اس لیے بھول گئے کہ ہمارا مسئلہ دال روٹی پانی کے سوا کچھ بھی نہیں-
کسی نے بند آنکھوں سے نبض ٹٹولنے والا حکیم سعید سے ملاقات کی تھی...جو ہمدرد دواخانے میں روز صبح سات بجے بیٹھا کرتے تھے....حکیم سعید جدید ہندوستان کا سرسیّد ہی تو تھا...بلکہ ان سے بھی بہتر اسلامی وژن رکھنے والا انقلابی شخص....جس نے دور غلامی بھی دیکھا اور دور آزادی بھی....مدینہ الحکمت اور دارالحکمت بنانے والا حکیم سعید جب سے کسی بھتہ خور کی گولی کا شکار بنا ہے دارلحکمت اجڑ کر رہ گیا ہے....اگر کسی کو یقین نہیں آتا تو برنس روڈ پہ جاکے دیکھ لے- ایک دم کچرا کنڈی-
اگر کوئی عباسی شہید کے ایم ایل او ڈاکٹر عرفان قریشی سے ملاقات کرتا ، تو یہ ضرور جان لیتا کہ ڈاکٹر کو لوگ فرشتہ کیوں کہتے ہیں...محض دوسو روپے دیہاڑی کے بھتے پر پھّڈا ہوا- اور اگلے دن ڈاکٹر صاحب کی آخری رسومات ادا کردی گئیں-
اور شاید ہی کسی کو حلیم طبع زہرہ آپا یاد ہوں...خواتین جس دور میں نمودو نمائش اور زرق برق لباس سے نمایاں نظر آنے کی دھن میں رہتی ہیں زہرہ شاہد سوشل ویلفئیر اور تعلیم کےلئے سرگرم عمل تھیں....کیا وہ اس دور کی مس کارپینٹر نہ تھیں... فرق بس اتنا ہے کہ مس کارپینٹر مذہبی تعصب کا شکار ہوکر ہندوستان سے زندہ واپس چلی گئیں ....اور زھرا شاہد کراچی کے ایک حلقے میں ری پول کےلیے آواز بلند کرنے کی پاداش میں راستے سے ہٹا دی گئیں-
افسوس کہ یہ سب گنج گراں مایہ چلے گئے....اور گدھ باقی رہ گئے-
شکیل ہڈی ، عمران راجہ ، حفیظ بھولا ، شاہد گھوڑا ، ایوّب گرنیڈ ، صولت مرزا، شبیر مولا ، فیصل موٹا ، عبید کے ٹو ،نادر شاہ ، ذاکر شاہ اور ان جیسے بیسیوں گدھ.....
یہ لوگ آج عدالت میں پیش ہوئے تو ان کی پتلونیں گیلی ہو رہی تھیں- اس لیے کہ وہ ڈور کچھ دیر کےلیے کاٹ دی گئی جو ان کی خونی پتنگ اڑایا کرتی تھی-
یہ سب سورمے جنہوں نے ہم سے ، ہمارے علمائے کرام ، قابل قدر اذہان، ذائقہ بخشنے والے ہاتھ ، پرعظم سوشل ورکرز محض ایک ہڈی کی خاطر چھین لیے ، کسی رعایت کے ہرگز مستحق نہیں-
۔۔۔
از ظفر اعوان