صحافیوں کے مالکان کو حکومت نے اپنا ہم نوا بنا لیا ہے، کافی حد تک۔ مالکان نے کئی صحافیوں کی چھٹی کر دی تھی۔
کل رات کو اس سارے شور شرابے کے بعد پاکستان کے معروف ٹی وی چینلز کے ٹالک شوز دیکھنے شروع کئے تاکہ ذرا خود بھی ریسرچ کر سکوں کہ پاکستان میں حکومت مخالف پروگرام نشر کرنے پر کیا ہوتا ہے۔ نتائج یہ رہے:
جیو نیوز، دنیا نیوز، ۲۴ نیوز، اب تک اور ایکسپریس نیوز نے اپنے تمام تر یعنی ۱۰۰ فیصد پرائم ٹائم پروگرامز حکومت کے خلاف کئے۔ جن میں مہنگائی، احتساب انتقام ہے، چیئرمین سینیٹ اپوزیشن کا ہوگا جیسے موضوعات زیر بحث آئے۔ کسی ایک پروگرام میں بھی شریف خاندان یا زرداری خاندان کی کرپشن پر بات نہیں ہوئی۔ کسی ایک پروگرام میں نہیں بتایا گیا کہ کرپشن اور منی لانڈرنگ کیسز میں ریکوری شروع ہو چکی ہے۔ عوام کو صرف سب برا ہے اور مایوسی بیچی گئی۔
اس کے بعد حکومت کے حامی چینل دیکھنے شروع کئے تو وہاں اے آر وائی، ۹۲ نیوز، سما نیوز، پبلک نیوز، جی این این اور بول نیوز اپنے روایتی سب اچھا ہے اور شریف، زرداری خاندان کی فلاں فلاں کرپشن اور منی لانڈرنگ پکڑ لی پر پروگرام کرتے پائے گئے۔ کچھ پروگرام سینیٹ چئیرمین پر بحث کر رہے تھے اور کچھ عوام کو دلاسہ دے رہے تھے کہ مہنگائی سے گھبرانا نہیں ہے۔
تمام چینلز خواہ وہ حکومتی بیانیہ کے ساتھ ہوں یا خلاف نے ہر بڑی سیاسی پارٹی کے ترجمان اپنے ٹالک شوز میں مدعو کئے ہوئے تھے جو آپس میں گتھم گتھا تھے۔ لیکن اختلاف رائے کو برداشت کر رہے تھے۔ ایک دوسرے کے بیانات تحمل سے سن رہے تھے۔ زیادہ شور شرابے پر اینکرز بیچ میں پڑھ کر ٹھنڈا کر دیتے۔
اتنی میڈیا آزادی کے باوجود کچھ لفافوں نے عالمی صحافتی تنظیموں میں شکایتیں لگائی ہیں کیونکہ ان کی شدید من پسند مگر سزا یافتہ مجرمہ کو میڈیا کوریج پر قانونا پابندی ہے۔ یہ پیمرا قانون ان کی اپنی جماعت نے پچھلی حکومت میں اپڈیٹ کیا تھا۔ اس لیے یہ قانونی قدغن آزادی صحافت پر حملہ نہیں۔ اگر مریم عدالت سے نواز سزا یافتہ نہ ہوتی تو ان کو بھی اپنی پارٹی کے دیگر صدران کی طرح بھرپور میڈیا کوریج ملتی۔
اسی طرح آصف زرداری کے نیب حراست سے قبل انٹرویوز اور تقاریر مختلف چینلز پر چلتے رہے ہیں۔ لیکن زیر حراست اور دوران تفتیش ان کو میڈیا کوریج عدالت سے اجازت کے بغیر نہیں مل سکتی۔
یہ سب قانونی پیچیدگیاں لفافوں کو اچھی طرح معلوم ہیں۔ لیکن وہ پھر بھی مسلسل شور کئے جارہے ہیں کہ ملک کا میڈیا آزاد نہیں۔