’کُو بہ کُو پھیل گئی بات شناسائی کی‘ ایک پیروڈی

مغزل

محفلین
محمد خلیل الرحمن صاحب چوں کہ آپ سے صرف دو تین ملاقاتیں ہیں سو مخمصے میں ہوں کہ آپ کو محفلین کے حوالے سے مخاطب کروں یا مدیر کے ، سو دونوں طرح ہی مخاطب کیا ہے جسے قبول کیجے گا سر آنکھوں پر۔

قبلہ خلیل صاحب آداب (آپ سے بحیثیت مدیر کے تخاطب)
میں بحیثیت ایک ادنی سے طالب علم کے معلوم کرنا چاہوں گا کہ ’’پیروڈی‘‘ کی درست تعریف کیا ہے اور فی زمانہ کیا رائج ہے۔
تاکہ ہم ایسوں کے بہتر رہنمائی ہوسکے ۔ امیدہے فرصت سے کچھ لمحے نکال کر اس بابت بھی رہنمائی کیجے گا۔

خلیل بھائی (بحیثیت محفلین کے( جو رسم راہ تھی) عرض داشت)
کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ پروین کی اس زمین میں پروین سے اچھے شعر کہہ کر پروین کے اشعار کو پچھاڑ دیتے اور مرحومہ کہ روح کو تسکین ملتی کہ کیسی نے حق ادا کیا زمین میں شعر کہنے کا۔ خلیل بھائی ’’پیروڈی‘‘ کے حوالے سے میں ایک مقدمہ رکھتا ہوں مگر آپ کی رائے جاننے کے بعد ہی عرض کروں گا وگرنہ میری اس مراسلت پر مبنی فروگذاشت کو صفحہ ء برقی سے حذف کر دیا جائے ۔ بحیثیت ادب کے ادنیٰ طالب کے میں سمجھتا ہوں کہ متذکرہ غزل کے صرف ایک مصرعے
تجھ پہ گُزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
کی کیفیت اگر قاری پر منکشف ہوجائے تو وہ ہنسنا بھول جائے چہ جائے کہ ’’پیروڈی‘‘ کرنے کی ہمت کرے۔ میں سمجھتا ہوں ’’پیروڈی‘‘ چیزِ دیگر است ، مزاح بھی بہت سنجیدہ کام ہے ۔ سنجیدہ شعر لکھنے کے باوصف مزا ح لکھنا دودھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔
 
محمد خلیل الرحمن صاحب چوں کہ آپ سے صرف دو تین ملاقاتیں ہیں سو مخمصے میں ہوں کہ آپ کو محفلین کے حوالے سے مخاطب کروں یا مدیر کے ، سو دونوں طرح ہی مخاطب کیا ہے جسے قبول کیجے گا سر آنکھوں پر۔

قبلہ خلیل صاحب آداب (آپ سے بحیثیت مدیر کے تخاطب)
میں بحیثیت ایک ادنی سے طالب علم کے معلوم کرنا چاہوں گا کہ ’’پیروڈی‘‘ کی درست تعریف کیا ہے اور فی زمانہ کیا رائج ہے۔
تاکہ ہم ایسوں کے بہتر رہنمائی ہوسکے ۔ امیدہے فرصت سے کچھ لمحے نکال کر اس بابت بھی رہنمائی کیجے گا۔

خلیل بھائی (بحیثیت محفلین کے( جو رسم راہ تھی) عرض داشت)
کیا ہی اچھا ہوتا اگر آپ پروین کی اس زمین میں پروین سے اچھے شعر کہہ کر پروین کے اشعار کو پچھاڑ دیتے اور مرحومہ کہ روح کو تسکین ملتی کہ کیسی نے حق ادا کیا زمین میں شعر کہنے کا۔ خلیل بھائی ’’پیروڈی‘‘ کے حوالے سے میں ایک مقدمہ رکھتا ہوں مگر آپ کی رائے جاننے کے بعد ہی عرض کروں گا وگرنہ میری اس مراسلت پر مبنی فروگذاشت کو صفحہ ء برقی سے حذف کر دیا جائے ۔ بحیثیت ادب کے ادنیٰ طالب کے میں سمجھتا ہوں کہ متذکرہ غزل کے صرف ایک مصرعے
تجھ پہ گُزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی
کی کیفیت اگر قاری پر منکشف ہوجائے تو وہ ہنسنا بھول جائے چہ جائے کہ ’’پیروڈی‘‘ کرنے کی ہمت کرے۔ میں سمجھتا ہوں ’’پیروڈی‘‘ چیزِ دیگر است ، مزاح بھی بہت سنجیدہ کام ہے ۔ سنجیدہ شعر لکھنے کے باوصف مزا ح لکھنا دودھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔

مغزل بھائی!​
زہے نصیب کہ آپ کا گزر ہمارے دھاگے میں بھی ہوا۔ آپ ہمیں مدیر کہیں یا محفلین کہیں ، آپ ہمارے لیے اسی طرح محترم اور عزیز ہیں جس طرح ہم نے کبھی آپ سے معانقہ کیا تھا۔ محفل میں اپنی نگارشات پیش کرتے وقت ہم مدیر ہرگز نہیں ہوتے بلکہ ایک عام قاری کی طرح اسکی سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ آپ کے اعتراضات بجا، ویسے بھی ہم ادب کی کیا تعریف کرسکتے ہیں۔ بقول شاعر​
عشق کی بات بیسوا جانیں​
ہم بہو بیٹیاں یہ کیا جانیں​
ہم جیسے کندگانِ ناتراش کیا جانیں کہ ادب کیا ہے، شاعری کیا ہے، وہ تو جب اندر کا آدمی جوش میں آتا ہے تو ہم کچھ واہی تباہی بک دیتے ہیں۔ اب یہ محفلین کی محبت ہے کہ وہ ہمارے اس کہے پر داد و تحسین کے ڈونگرے برسادیتے ہیں۔ لہٰذا آپ کچھ خیال نہ کیجیے اور بے دھڑک اپنی ادبی رائے کا اظہار کیجیے، ہم بالکل برا نہیں مانیں گے، وعدہ کرتے ہیں۔​
ویسے یہاں پر بلا تبصرہ صرف دو مشہور و معروف شاعروں کی پیروڈیز پیش کرنے کی جسارت کرررہے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیے۔​
۱۔ جناب ضیاء الحق قاسمی صاحب​
کوچہٗ یار میں جو میں نے جبیں سائی کی​
اُس کے ابا نے مری خوب پذیرائی کی​
میں تو سمجھا تھا کہ وہ شخص مسیحا ہوگا​
اس نے میری تو مگر تارامسیحائی کی​
وہ بھری بزم میں کہتی ہے مجھے انکل جی​
ڈپلومیسی ہے یہ کیسی مری ہمسائی کی​
تار ہجرے میں علاقے کے پولس گھس آئی​
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رُسوائی کی​
میں جسے ہیر سمجھتا تھا وہ رانجھا نکلی​
بات نیت کی نہیں بات ہے بینائی کی​
۲۔ سر فراز شاہد​
اسی پرچے میں خبر ہے مری رُسوائی کی​
جس میں تصویر چھپی ہے تری انگڑائی کی​
کیسے کہدوں کہ میں لیڈر بھی ہوں اور لوٹا بھی​
بات سچی ہے مگر بات ہے رُسوائی کی​
میرے افسانے سناتی ہے محلے بھر کو​
اِک یہی بات ہے اچھی مری ہمسائی کی​
دو عدد ویڈیو فلموں میں گزر جاتی ہے​
صرف اتنی ہے طوالت شبِ تنہائی کی​
ایسے ملتا ہے چنریا سے ہیئر بینڈ کا رنگ​
جِس طرح سوٹ سے میچنگ ہے مری ٹائی کی​
خوش رہیے۔​
 

یوسف-2

محفلین
زبردست خلیل الرحمٰن بھیا، مزہ آگیا
میں نے بھی کسی تاگے میں فی البدیہہ اسے زمین میں کچھ اشعار کہے تھے، آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

یہ جزا ہم کو ملی تم سے شناسائی کی
آپ کے باپ نے ڈنڈے سے پزیرائی کی
گھس گئی جھٹ سے ترے منہ میں جو مکھی جاناں
منتظر کب سے تھی بیٹھی تری انگڑائی کی
آج بیوی ہے، نہ ٹی وی ہے، نہ پنکھا چالو
اس طرح کیسے کٹے رات یہ تنہائی کی
لاحول ولا قوۃ ۔۔۔۔ :laugh: راجا بھائی آپ بھی نا بس! :laugh:لگتا ہے کہ مکھی کے ساتھ ساتھ آپ بھی (رپورٹنگ کے لئے) منتظر بیٹھے تھے :laugh: کہ جیسے ہی اُدھر ”وقوعہ“ پیش آئے، اِدھر منظوم بریکنگ نیوز پیش کردو :laugh: بہت ساری ”بے داد“ :mrgreen: قبول کیجئے۔ :biggrin: آخر کو ”حسیناؤں کی پرائیویسی“ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔:laugh:
 
لاحول ولا قوۃ ۔۔۔ ۔ :laugh: راجا بھائی آپ بھی نا بس! :laugh:لگتا ہے کہ مکھی کے ساتھ ساتھ آپ بھی (رپورٹنگ کے لئے) منتظر بیٹھے تھے :laugh: کہ جیسے ہی اُدھر ”وقوعہ“ پیش آئے، اِدھر منظوم بریکنگ نیوز پیش کردو :laugh: بہت ساری ”بے داد“ :mrgreen: قبول کیجئے۔ :biggrin: آخر کو ”حسیناؤں کی پرائیویسی“ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔:laugh:
رپورٹنگ کیا کرنی ہے بھیا، وہ تو مکھی "انگڑائی" کی منتظر تھی تو سوچا "الانتظارواشدومن الموت" تو اس کا ساتھ دینے بیٹھ گیا کہ چلو اس بہانے "انگڑائی" بھی دیکھنے کو مل جائے گی ;)
اوہو، یوسف بھیا یہ تو میں غلط ہو گیا ۔ ۔ ۔ حسینائوں سے معذرت چاہتا ہوں کہ ان کی پرائیویسی (انگڑائی) میں مخل ہوا۔
 
زبردست خلیل الرحمٰن بھیا، مزہ آگیا
میں نے بھی کسی تاگے میں فی البدیہہ اسے زمین میں کچھ اشعار کہے تھے، آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔

یہ جزا ہم کو ملی تم سے شناسائی کی
آپ کے باپ نے ڈنڈے سے پزیرائی کی
گھس گئی جھٹ سے ترے منہ میں جو مکھی جاناں
منتظر کب سے تھی بیٹھی تری انگڑائی کی
آج بیوی ہے، نہ ٹی وی ہے، نہ پنکھا چالو
اس طرح کیسے کٹے رات یہ تنہائی کی
ہیلاریئس
 
مطلب، قہقہہ آور( ہم نے بھی ڈکشنری سے دیکھا)
شکریہ، نیا لفظ سیکھنے کو ملا۔
تو اس نئے سیکھے ہوئے لفظ کا سب سے پہلا استعمال میں یہ یوں کرنا چاہوں گا کہ محمد خلیل الرحمٰن بھیا کا ہر مزاحیہ کلام ہیلاریئس ہوتا ہے، اسی لئے تو میرے پسندیدہ شاعر ہیں۔
 

یوسف-2

محفلین
بحیثیت ادب کے ادنیٰ طالب کے میں سمجھتا ہوں کہ متذکرہ غزل کے صرف ایک مصرعے ع​
تجھ پہ گُزرے نہ قیامت شبِ تنہائی کی۔
کی کیفیت اگر قاری پر منکشف ہوجائے تو وہ ہنسنا بھول جائے چہ جائے کہ ’’پیروڈی‘‘ کرنے کی ہمت کرے۔ میں سمجھتا ہوں ’’پیروڈی‘‘ چیزِ دیگر است ، مزاح بھی بہت سنجیدہ کام ہے ۔ سنجیدہ شعر لکھنے کے باوصف مزا ح لکھنا دودھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے۔​
ادب بالخصوص مزاحیہ ادب کے ایک ادنیٰ طالب علم ہونے کے ”دعویدار“ اور اس کوچہ میں تین چار دہائیوں سے ”آوارہ گردی کے مجرم“ :) ہونے کی حیثیت سے کچھ عرض کرنے کی جسارت کررہاہوں۔ عام شاعری یا سنجیدہ شاعری پڑھے لکھے عوام الناس تک جب اپنا ابلاغ کرنے میں ناکام رہی تب ہی ”مزاحیہ شاعری“ نے جنم لیا، تاکہ شاعری اور عوام الناس کے درمیان ”رابطہ کے پُل“ کا فریضہ ادا کرسکے۔ کیونکہ شاعری کو سمجھنے اور اس کی روح تک اترنے کے لئے صرف پڑھا لکھا ہونا کافی نہیں بلکہ اس کے لئے ایک خاص شعری ذوق اور ”شعور“ بھی درکار ہوتا ہے، جو شعورِ عام (شعورِ عوام نہیں) سے ایک بالا تر شئے ہے۔ شاعری کو قبول ِعام کا درجہ ہی بمشکل ملتا ہے، کُجا یہ کہ اسے قبولیتِ عوام حاصل ہو۔ مزاحیہ شاعری، خواہ کسی نام سے بھی کی جائے، اگر اس میں شعری لوازمات موجود ہیں، تو اسے ”دنیائے شاعری“ سے خارج نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح بچوں کے لئے لکھنا، عام لکھنے سے مشکل ہوتا ہے، اسی طرح شاعری کی پابندیوں کو برقرار رکھتے ہوئے مزاحیہ شاعری یا پیروڈی کرنا عام شاعروں کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لئے عام شاعروں سے کچھ ”بالاتر خصوصیات“ کا حامل ہونا ضروری ہے۔ ان خصوصیات میں حس مزاح، برجستگی، کرنٹ افیئرز سے آگہی اور عوام الناس کی سوچ کو پڑھنے کی صلاحیت کے ساتھ ساتھ عوام و خواص تک بیک وقت ”کمیونیکیٹ“ کرنے کی صلاحیت کا حامل ہونا بہت ضروری ہے۔ عام اور بڑے شعراء بالعموم اس آخرالذکر خصوصیت کے ”حامل“ نہیں ہوتے۔ اسی لئے عظیم شعراء کی شاعری کو عوام الناس تک پہنچانے کے لئے ادب وشاعری کے استادوں کی ضرورت پڑتی ہے۔ جب کہ مزاحیہ شاعری کسی استاد کے ”وسیلہ“ کے بغیر براہ راست عوام کے دلوں تک رسائی حاصل کرلیتی ہے۔ مغزل بھائی نے بھی اسی طرف اشارہ کیا ہے کہ اگر متذکرہ بالا مصرع کی کیفیت قاری تک منکشف ہوجائے تو۔۔۔۔ اور یہ ”اگر“ ایک بہت بڑا ”اسپیڈ بریکر“ ہے، اچھے اور معیاری اشعار کے ابلاغ عامہ کی راہ میں، جسے مزاح نگار شعراء ہی احسن طریقہ سےعبور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آپ کا یہ کہنا بھی بجا ہے کہ مزاح بہت سنجیدہ کام ہے کی یہ بات صد فیصد درست ہے۔ مزاح نگار اسے بہت ”سنجیدگی“ سے ہی لکھتے ہیں، اتنی ہی سنجیدگی بلکہ شاید اُس سے زیادہ سنجیدگی سے ، جتنی کہ ایک عام (غیر مزاح نگار) ادیب و شاعر اپنے تخلیقی عمل میں ”برتتا“ ہے۔
جیسا کہ بھائی @خلیل نے بھی لکھا ہے کہ بڑے بڑے ”مستند شعراء“ نے بھی سنجیدہ کلام کی پیروڈی کی ہے اور کامیابی سے کی ہے۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ جن کے کلام کی پیروڈی کی جاتی ہے، اُنہیں (یا اُن کے مداحوں کو) بالعموم یہ بات ”ناگوار“ گذرتی ہے۔ لیکن اگر ایسی پیروڈی میں ”جان“ ہو تو وہ ادب کی دنیا میں ”زندہ“ رہ جاتی ہے، ورنہ (دیگر شاعری کی طرح) کتابوں کے اوراق میں دفن ہوجاتی ہے۔ لیکن ایسی ”مرجانے والی مزاحیہ شاعری“ بھی مرنے سے پہلے پہلے عصر حاضر کے عوام الناس تک احسن طریقہ سے اپنا پیغام پہنچا چکی ہوتی ہے، جو بالعموم ”مرجانے والی سنجیدہ شاعری“ کرنے سے قاصر رہتی ہے۔ لہٰذا اس بات پر ہرگز ”خفا“ نہیں ہونا چاہئے کہ مزاح نگار شاعر، کسی سنجیدہ کلام کو ”مزاح کے رنگ“ میں کیوں ”مکرر پیش“ کرتا ہے۔
امجد علی راجا
 
گھس گئی جھٹ سے ترے منہ میں جو مکھی جاناں
منتظر کب سے تھی بیٹھی تری انگڑائی کی
لاحول ولا قوۃ ۔۔۔ ۔ :laugh: راجا بھائی آپ بھی نا بس! :laugh:لگتا ہے کہ مکھی کے ساتھ ساتھ آپ بھی (رپورٹنگ کے لئے) منتظر بیٹھے تھے :laugh: کہ جیسے ہی اُدھر ”وقوعہ“ پیش آئے، اِدھر منظوم بریکنگ نیوز پیش کردو :laugh: بہت ساری ”بے داد“ :mrgreen: قبول کیجئے۔ :biggrin: آخر کو ”حسیناؤں کی پرائیویسی“ بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔:laugh:

انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اُٹھاکے ہاتھ​
دیکھا اِنہیں تو چھوڑ دیئے اد بدا کے ہاتھ​
 

یوسف-2

محفلین
یک نہ شد دو شد :eek:
کیا یہ ضروری ہے کہ اگر ”اساتذہ“ نے انگ کی ڑائی کا پہاڑ بنایا ہو تو جملہ شاگردان شاعری بھی یہی کارفضول انجام دیں۔ اور بھی غم (یا سُکھ) ہیں زمانے میں انگ ڑائی کے سِوا :p
 
آپ کے بےوفا سے مجھے اپنا دلربا یاد آگیا​
لے جاتی ہے وہ کہہ کے "یہ تحفہ ہے پیار کا"​
لگتی ہے جو بھی چیز مری، دلربا کے ہاتھ​
 
Top