آپ کے مطابق ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر 6000 سال سے کم وقفے میں اتارے جائے سکتے ہیں؟
4000 سال کیونکہ پچھلے 2000 سال میں دو نبیوں، حضرت محمد ﷺ اور حضرت عیسیؑ کا تو پکا ثبوت ہے۔اور اس دور (گیپ)کا ذکر قرآنِ پاک میں ذکر ہوا ہے۔
سورہ المائدہ
وَلَقَدْ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الْکِتٰبَ وَقَفَّیۡنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَاٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوۡحِ الْقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبْتُمْ ۫ وَفَرِیۡقًا تَقْتُلُوۡنَ﴿۸۷﴾
اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی(ف۱۴۲)
اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے (ف ۱۴۳) اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں (ف۱۴۴) اور پاک روح سے (ف۱۴۵) اس کی مدد کی (ف۱۴۶) تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو (ف۱۴۷)
یعنی حضرت موسیٰؑ سے حضرت عیسیٰؑ تک پے در پے رسول بھیجے۔۔۔۔ حضرت عیسٰی علیہ السلام کے بعد سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ تک تقریباً چھ سو برس کی مدّت نبی سے خالی رہی ۔
مَا الْمَسِیۡحُ ابْنُ مَرْیَمَ اِلَّا رَسُوۡلٌ ۚ قَدْ خَلَتْ مِنۡ قَبْلِہِ الرُّسُلُ ۔۔۔(75)
مسیح بن مریم نہیں مگر ایک رسول(ف۱۹۰) اس سے پہلے بہت رسول ہو گزرے
باقی چار ہزار سال میں ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بائببل میں ذکر تو ملتا ہے ایک وقت میں چار چار سو نبی ایک ساتھ، سو سو نبی اور پچاس پچاس نبی ایک ساتھ ایک وقت میں ایک ہی جگہ اکٹھے چلتے ہوئے، بیٹھے ہوئے ، رہتے ہوئے،اب یہ نہیں پتہ کہ یہ وہی نبی ہیں جن کا ایک لاکھ چوبیس ہزار میں ذکر ہے یا اس کا کوئی اور لفظی مطلب ہے۔
1 Kings 18
1 تیسرے سال کے دوران بارش نہیں ہوئی خدا وند نے ایلیاہ سے کہا ، " جاؤ بادشاہ اخی اب سے ملو ۔ میں جلد ہی بارش بھیجوں گا۔" 2 اس لئے ایلیاہ اخی اب سے ملنے گیا ۔ اس وقت سامریہ میں کھانا نہیں تھا ۔ 3 اس لئے بادشاہ اخی اب نے عبد یاہ سے کہا میرے پاس آؤ۔عبدیاہ بادشاہ کے محل کا نگراں کار تھا ۔( عبدیاہ خداوند کا سچا ماننے وا لاتھا ۔ 4 ایک بار اِیز بل خداوند کے تمام نبیو ں کو مار رہی تھی اس لئے عبدیاہ نے ۱۰۰ نبیوں کو لیا اور انہیں دو غاروں میں چھپا یا عبدیاہ نے ۵۰ نبیوں کو ایک غار میں اور ۵۰ کو دوسرے غار میں رکھا پھر عبدیاہ ان کے لئے کھانا اور پانی لا یا ۔) 5 بادشاہ اخی اب نے عبدیاہ سے کہا ، " میرے ساتھ آؤ ہم ہر چشمے اور نالے پر دیکھیں گے شاید کہ ہمیں کہیں گھاس مل جا ئے تا کہ ہمارے گھو ڑے اور خچّر زندہ رہیں۔ پھر ہمیں اپنے جانورو ں کو نہیں مارنا پڑے گا ۔" 6 ہر آدمی نے ملک کا ایک حصہ چُنا جہاں وہ پانی کو ڈھونڈ سکے ۔ تب دو آدمی پو رے ملک میں گھو مے ۔ اخی اب ایک طرف خود گیا اور عبد یاہ دوسری طرف گیا ۔ 7 جب عبدیاہ سفر کر رہا تھا وہ ایلیاہ سے ملا عبدیاہ نے ایلیاہ کو پہچان لیا ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
12 13 میں نے جو کیا تم نے سُنا ایز بل خداوند کے نبیوں کو جا ن سے ما ر رہا تھا ۔ اور میں نے ۱۰۰ نبیو ں کو غار میں چھپایا ۔ میں نے ۵۰ نبیوں کو ایک غار میں رکھا اور ۵۰ نبیوں کو دوسرے غار میں رکھا ۔ میں اُن کے لئے غذا اور پانی لا یا ۔ 14 ا ب تم چاہتے ہو کہ میں جا کر بادشاہ سے کہوں کہ تم یہاں ہو۔ بادشاہ مجھے مار ڈا لے گا ۔" 15 ایلیاہ نے جواب دیا ، " میں خداوند کی زندگی کی قسم کھا تا ہوں جس کی میں خدمت کرتا ہوں کہ میں بادشاہ کے سامنے کھڑا ہوں گا ۔" 16 اس لئے عبدیاہ بادشاہ اخی ا ب کے پاس گیا اس نے بتا یا کہ ایلیاہ وہاں ہے تو بادشاہ اخی اب ایلیاہ سے ملنے گئے ۔ 17 جب اخی اب نے ایلیاہ کو دیکھا تو کہا ، " کیا یہ تم ہو ؟ تم وہ آدمی ہو جس نے اسرائیل کو مصیبت میں ڈا لا۔" 18 ایلیاہ نے جوا ب دیا ، " میں اسرا ئیل کی مصیبت کا سبب نہیں ہوں۔ تم اور تمہا را باپ اس مصیبت کا سبب ہو تم مصیبت کا سبب بنے جب تم احکام خداوند کی اطاعت رو ک دی اورجھو ٹے خدا ؤں کو ماننا شروع کیا ۔ 19 اب تمام اسرائیل سے کہو کہ مجھ سے کرمل کی چوٹی پر ملیں۔ اور اس جگہ پر بعل کے ۴۵۰ نبیوں کو لا ؤ ۔ اور جھو ٹی دیوی آشیرہ کے ۴۰۰ نبیو ں کو وہاں لا ؤ جو ملکہ ایز بل کے ٹیبل پر ہر دن کھا تے ہیں۔" 20 اس لئے اخی اب نے تمام اسرائیلیوں اور ان نبیوں کو کرمل کی چوٹی پر بلا یا ۔ 21 ایلیاہ ان لوگو ں کے پاس آیا ۔ اس نے کہا ، " تم لوگ کب یہ فیصلہ کرو گے کہ تمہیں کس کی اطاعت کرنی چا ہئے ؟ اگر خداوند ہی سچا خدا ہے تو تمہیں اس کی اطاعت کرنی چا ہئے۔" لیکن اگر بعل سچا خدا ہے تو تمہیں اس کی اطاعت کرنی چاہئے ۔" لوگوں نے کچھ نہیں کہا ۔ 22 اس لئے ایلیا ہ نے کہا ، " یہاں صرف میں ہی خداوند کا نبی ہو ں لیکن یہاں بعل کے ۴۵۰ نبی ہیں ۔ 23 اس لئے دوسانڈ لا ؤ ۔ بعل کے نبی ایک سانڈ لیں اور اس کو ذبح کرکے ٹکڑے ٹکڑے کریں پھر گوشت کو لکڑی پر رکھیں۔ لیکن جلنے کیلئے آ گ نہ لگاؤ ۔ دوسرے سانڈ کو لے کر میں بھی ایسا ہی کرو ں گا ۔ اور میں بھی آ گ نہیں لگاؤ ں گا ۔ 24 اے بعل کے نبیوں اپنے دیوتاسے دعا کرو ۔ اور جس کی بھی لکڑیاں جلنی شروع ہو جا ئے وہی سچا خدا ہے ۔" تمام لوگو ں نے اس کو قبول کیا کہ یہ ایک اچھا خیال ہے ۔ 25 تب ایلیاہ نے بعل کے نبیوں سے کہا ، " تم بہت سارے ہو اس لئے تم پہلے جا ؤ سانڈ کو چن کر تیار کرو لیکن آ گ جلانی شروع نہ کرو۔" 26 پھر نبیوں نے ا س سانڈ کو لیا جو انہیں دیا گیا تھا اور اسے تیار کیا ۔ پھر وہ لوگ بعل سے دوپہر تک دعا کئے لیکن نہ کو ئی آواز تھی اور نہ ہی کسی نے جواب دیا ۔ نبیوں نے اپنی بنائی ہو ئی قربان گاہ کے اطراف ناچ کئے لیکن آ گ نہیں جلی ۔ 27 دوپہر میں ایلیاہ نے ان کا مذاق اڑا یا ۔ ایلیاہ نے کہا ، " اگر بعل حقیقت میں دیوتا ہے تو تب تمہیں بلند آواز سے دعا کرنی ہو گی ۔ ہو سکتا ہے وہ سوچ رہا ہو ۔ یا پھر وہ مصروف ہو ۔ یا ہو سکتا ہے وہ سفر کر رہا ہو ۔ وہ سو رہا ہو گا ۔ یا ہو سکتا ہے تم بلند آواز سے دعا کرو تو وہ جاگ جا ئے ۔" 28 اس لئے نبیوں نے اونچی آواز سے دعائیں کیں وہ لوگ اپنے آپکو تلواروں اور بھالوں سے گھائل کر لئے ۔( یہ انکی عبادت کا طریقہ تھا ۔) ان لوگوں نے اپنے آپ کو اس قدر گھا ئل کر لیا کہ خون بہنے لگا ۔ 29 دوپہر کا وقت گذر گیا لیکن آ گ ابھی تک شروع نہ ہو ئی تھی ۔ نبیوں نے اس وقت تک جنگلی حرکتیں کرتے رہے ۔ جب تک شام کی قربانی کا وقت نہ آ گیا لیکن بعل کی طرف سے کو ئی جواب نہ تھا ۔ کو ئی آواز نہ تھی کو ئی بھی نہیں سُن رہا تھا ۔ 30 تب ایلیاہ نے تمام لوگوں سے کہا ، " اب میرے پاس آؤ اس لئے سب لوگ ایلیاہ کے اطراف جمع ہو ئے ۔خداوند کی قربان گا ہ اکھاڑ دی گئی تھی ۔" اس لئے ایلیاہ نے اس کو ٹھیک کیا ۔ 31 ایلیاہ نے بارہ پتھر حاصل کئے ۔ ایک پتھر ہر بارہ خاندانی گروہ کے لئے تھا ۔ یہ بارہ خاندانی گروہ کانام یعقوب کے بارہ بیٹوں کے نام سے تھے ۔ یعقوب وہ آدمی تھا ۔ جسے خداوند نے اسرائیل نام دیا تھا ۔ 32 ایلیاہ نے قر بان گاہ کو بنا نے کے لئے اور خداوندکی تعظیم کے لئے ان پتھروں کو استعمال کیا ۔ ایلیاہ نے ایک چھوٹا خندق قربان گا ہ کے اطراف کھو دا ۔ جو اتنا گہرا اور چوڑاتھا کہ اس میں ۷ گیلن پانی سما سکتا تھا ۔ 33 تب ایلیاہ قربان گا ہ پر لکڑیاں رکھیں اس کے سانڈ کو کاٹ کر ٹکڑے کئے اور ٹکڑوں کو لکڑی پر رکھا ۔ 34 تب ایلیاہ نے کہا ، " چار مرتبان پانی بھرو۔ پانی کو گوشت کے ٹکڑو ں اور لکڑی پر ڈا لو ۔" پھر ایلیاہ نے کہا ، " دوبارہ کرو ۔" پھر اس نے کہا ، " تیسری بار کرو ۔" 35 پانی قربان گا ہ سے بہنے لگا اور کھا ئی بھر گئی ۔ 36 یہ وقت دوپہر کی قربانی کا تھا اس لئے نبی ایلیاہ قربان گا ہ کے قریب گیا اوردعا کی ، " خداوند خدا ابراہیم ، اسحاق اور یعقوب کے خدا میں اب تم سے یہ مانگتا ہوں کہ تم یہ ثابت کرو کہ میں تمہا را خاد م ہوں۔ ان لوگو ں کو بتاؤ کہ تم نے مجھے یہ سب چیزیں کرنے کے لئے حکم دیا ہے ۔ 37 خداوند میری دعا کو سن لو ۔ ان لوگو ں کو بتا ؤ کہ تم خداوند خدا ہو تب لوگوں کو معلوم ہو گا کہ تم انہیں اپنی طرف لا رہے ہو ۔ " 38 اس لئے خداوندنے آ گ بھیجی ۔ آ گ نے قربانی کے نذرانے کو ، لکڑی کو ، پتھر کو اور قربان گا ہ کے اطراف کی زمین کو جلا یا ۔ آگ نے خندق کے اندر کے پانی کو خشک کردیا ۔ 39 تمام لوگو ں نے اس واقعہ کو دیکھا تمام لوگ زمین پر جھک گئے اور یہ کہنا شروع کئے ، " خداوند خدا ہے ! خداوند خدا ہے ۔" 40 تب ایلیاہ نے کہا ، " بعل کے نبیو ں کو پکڑو ان میں سے کسی کو بھی فرار ہو نے نہ دو ۔ " اس لئے لوگوں نے تمام نبیوں کو پکڑ لیا ۔ تب ایلیاہ نے ان سب کو قیسون کے نالے تک لے گیا ا س جگہ پر اس نے سب نبیوں کو مار ڈا لا ۔ 41 تب ایلیاہ نے بادشاہ اخی اب سے کہا ، " اب جا ؤ کھا ؤ اور پیو ۔ موسلا دھار بارش آرہی ہے ۔" 42 اس لئے بادشاہ اخی اب کھانے کے لئے گیا ۔ اسی وقت ایلیاہ کرمل کی چوٹی پر چڑھ گیا ۔ چوٹی کے اوپر ایلیاہ جھک گیا اس نے اپنا سر گھٹنو ں میں ڈا ل دیا ۔ 43 تب ایلیاہ نے اپنے خادم سے کہا ، "سمندر کی طرف دیکھو ۔" خادم اس جگہ پر گیا جہاں سے سمندر دکھا ئی دے سکے پھر خادم واپس آیا اور کہا ، " میں نے کچھ نہیں دیکھا ۔" ایلیاہ نے کہا ، " جا ؤ دوبارہ دیکھو ۔" ایسا سات مرتبہ ہوا ۔ 44 ساتویں بار خادم واپس آیا اور کہا ، " میں نے ایک چھوٹا سا بادل دیکھا جو آدمی کی مٹھی کے برا بر ہے ۔سمندر سے آرہا تھا ۔ " ایلیاہ خادم سے کہا ، " بادشاہ اخی اب کے پاس جا ؤ اور اس کو کہو کہ رتھ لے اور اپنے گھر کی طرف چلے جا ئیں۔ اگر ابھی وہ نہیں نکلے تو بارش اس کو روک دے گی ۔" 45 تھوڑی ہی دیر بعد آسمان کالے بادلوں سے ڈھک گیا تیز ہوائیں چلنے لگی اور زوردار بارش شروع ہو ئی ۔ اخی اب اس کی رتھ میں سوار ہوا اور یزر عیل کی طرف واپس سفر کیا ۔ 46 خدا وند کی طاقت ایلیاہ کے اندر آئی ۔ ایلیاہ نے اپنے کپڑوں اپنے چاروں طرف کس لیا پھر دوڑنے لگا۔ تب ایلیاہ بادشاہ اخی اب سے دور یزر عیل کے راستے پر دوڑا ۔ ۔۔۔۔۔۔۔
اور بھی ایسے بہت سے ذکر ہیں لیکن واقعی کم از کم مجھے تو واقعی سمجھ نہیں آرہا کہ یہ نبی کیا تھے۔۔کیا ان انبیاؑء میں سے تھے جن پر ایمان لانے کا حکم ہے۔مجھے نہیں لگتا ایسا ہے۔
قرآنِ پاک میں بھی ایک جگہ قاصد یا ایلچی کیلئے رسول کا لفظ استعمال کیا ہے
سورہ یوسف میں ہے
وَ قَالَ الْمَلِکُ ائْتُوۡنِیۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّا جَآءَہُ الرَّسُوۡلُ قَالَ ارْجِعْ اِلٰی رَبِّکَ فَسْ۔َٔلْہُ مَا بَالُ النِّسْوَۃِ الّٰتِیۡ قَطَّعْنَ اَیۡدِیَہُنَّ ؕ اِنَّ رَبِّیۡ بِکَیۡدِہِنَّ عَلِیۡمٌ ﴿۵۰﴾
اور بادشاہ بولا کہ انہیں میرے پاس لے آؤ تو جب اس کے پاس ایلچی آیا (ف۱۳۰) کہا اپنے رب (بادشاہ) کے پاس پلٹ جا پھر اس سے پوچھ (ف۱۳۱) کیا حال ہے ان عورتوں کا جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹے تھے بیشک میرا رب ان کا فریب جانتا ہے (ف۱۳۲)
جن رسولوں پر ایمان لانے کا ذکر ہے ان کی کوئی واضع تعداد تو قرآن پاک میں نہیں ہے لیکن
سورہ بقرہ
وَلَقَدْ اٰتَیۡنَا مُوۡسَی الْکِتٰبَ وَقَفَّیۡنَا مِنْۢ بَعْدِہٖ بِالرُّسُلِ ۫ وَاٰتَیۡنَا عِیۡسَی ابْنَ مَرْیَمَ الْبَیِّنٰتِ وَاَیَّدْنٰہُ بِرُوۡحِ الْقُدُسِ ؕ اَفَکُلَّمَا جَآءَکُمْ رَسُوۡلٌۢ بِمَا لَا تَہۡوٰۤی اَنۡفُسُکُمُ اسْتَکْبَرْتُمْ ۚ فَفَرِیۡقًا کَذَّبْتُمْ ۫ وَفَرِیۡقًا تَقْتُلُوۡنَ﴿۸۷﴾
اور بے شک ہم نے موسٰی کو کتاب عطا کی(ف۱۴۲)
اور اس کے بعد پے در پے رسول بھیجے (ف ۱۴۳) اور ہم نے عیسیٰ بن مریم کو کھلی نشانیاں عطا فرمائیں (ف۱۴۴) اور پاک روح سے (ف۱۴۵) اس کی مدد کی (ف۱۴۶) تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو تو ان میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہو (ف۱۴۷)
سورہ یونس
وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوۡلٌ ۚ فَاِذَا جَآءَ رَسُوۡلُہُمْ قُضِیَ بَیۡنَہُمۡ بِالْقِسْطِ وَہُمْ لَایُظْلَمُوۡنَ ﴿۴۷﴾
اور ہر امت میں ایک رسول ہوا (ف۱۲۰) جب ان کا رسول ان کے پاس آتا (ف۱۲۱) ان پر انصاف کا فیصلہ کردیاجاتا (ف۱۲۲) اور ان پر ظلم نہ ہوتا
اس کامطلب ہے کہ حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ کے درمیانی عرصہ میں پے در پے امتیں بھی تھیں۔
اب امت لفظ کو سمجھنے کیلئے میں اپنی لغت دیکھتا ہوں۔
اُمَّت {اُم + مَت} (
عربی)
ا
م م، اُمَّت
عربی
زبان سے
مشتق اسم ہے۔ اردو میں
بطور اسم ہی
استعمال ہوتا ہے اور تحریراً 1500ء کو "معراج العاشقین" میں
مستعمل ملتا ہے۔
اسم
نکرہ (مؤنث - واحد)
جمع: اُمَّتیں {اُم + مَتیں (ی مجہول)}
جمع استثنائی: اُمَم {اَم + م}
جمع غیر ندائی: اُمَّتوں {اُم + مَتوں (و مجہول)}
معنی
1. کسی
پیغمبر پر
ایمان لانے اور اس کی
پیروی کرنے والی جماعت، خصوصاً حضورﷺ کے پیرو۔
؎
امت کا
امام ابو الائمہ
تبلیغ
رسول کا تتمہ،
[1]
2. کسی خاص غیر
دینی نظریے کے ماننے والوں کی جماعت، کوئی
مخصوص صفت رکھنے والوں کا گروہ۔
"گورنمنٹ کی
طرف سے نہیں بلکہ
بقول آپ کے میری امت کی طرف سے۔"،
[2]
3. قوم، برداری۔
"دنیا میں
ترک سب امتوں سے زیادہ ہیں۔"،
[3]
انگریزی ترجمہ
people, religious sect, people of the same religion; followers; race, nation; caste; creed, religion
مترادفات
قَوم، جَماعَت، گِروہ، مِلَّت