سید ذیشان
محفلین
یہ ویڈیو چند نوجوانوں کی جانب سے بظاہر فیرل ولیم کے گانے کو اپنے انداز میں پیش کرنے کی کوشش ہے
اگر خوشیاں پھیلانے پر آپ کو تھانے اور حوالات کی سیر کرنی پڑ جائے اور سرکاری ٹی وی پر آپ کی تذلیل کی جائے تو ایسی خوشی کا کیا فائدہ؟
ایران میں چند نوجوانوں کے گروپ کو پولیس نے پاپ گلوکار فیرل ولیمز کے گانے ’ہیپی‘ کی میوزک ویڈیو کلِک’ہیپی ان تہران‘ بنانے پر گرفتار کیا ہے۔
یہ ویڈیو انٹرنیٹ پر آنے کے بعد وائرل ہو گئی، جس کے بعد ان نوجوانوں کو ملک کے سرکاری ٹی وی پر ہتھکڑیاں لگا کر پیش کر کے اعترافی بیانات دلوائے گئے کہ انھیں جھانسہ دیا گیا تھا اور اس پر ندامت کا اظہار کرنے پر مجبور کیا گیا۔
اس خبر کی اشاعت کے کچھ دیر بعد ایران سے آمدہ اطلاعات کے مطابق ان نوجوانوں کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا ہے اور ان میں سے ایک لڑکی نے انسٹاگرام پر اپنی تصویر لگا کر تصدیق کی کہ انہیں رہا کر دیا گیا ہے۔
تفصیلات کے مطابق فیرل ولیمز کے گانے ’ہیپی‘ کی ویڈیو 21 مارچ کو پوسٹ کی گئی اور چونکہ یہ گانا نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے اس لیے اس کے ایک نہیں بلکہ دو ایرانی ورژن انٹرنیٹ پر ہیں جبکہ کئی اور ممالک میں بھی اس کے ورژن بنائے گئے ہیں۔
اس گروپ میں شامل ایک لڑکی نے اپنی یہ تصویر انسٹا گرام پر لگا کر رہائی کی خبر دی
’ہیپی ان تہران‘ کو ہٹائے جانے اور گرفتاری سے قبل 165000 بار دیکھا جا چکا تھا تاہم ان نوجوانوں کی سرکاری ٹی وی پر سرعام بے عزتی پر جسے ان کی ’عزت کے تحفظ‘ کا نام دیا گیا ہے، سوشل میڈیا پر عالمی سطح پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
ایران کے کلِکسرکاری ٹی وی پرایک پولیس افسر بڑے فخر سے بتاتا ہے کہ اس نے بڑی محنت کر کے ان افراد کو شناخت کیا اور چند گھنٹوں میں گرفتار کیا حالانکہ یہ ویڈیو ایک مہینے سے زیادہ عرصے سے انٹرنیٹ پر موجود تھی۔
اس ویڈیو کے بعد میزبان ان سے سوال و جواب کرتا ہے اور ان نوجوانوں میں سے ایک بتاتا ہے کہ انھیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی یہ ویڈیو نشر کی جائے گی۔
اس کے بعد یہی پولیس افسر نوجوانوں کو خبردار کرتا ہے کہ وہ اس طرح کی فلمیں بنانے والوں کے جھانسے میں نہ آئیں اور انھوں نے اس ویڈیو کو ’فحش‘قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسی ویڈیو ’عوام الناس کی پاکیزگی کو زک پہنچاتی ہیں۔‘
فیرل ولیم نے ٹوئٹر پر ان گرفتاریوں پر اظہارِ افسوس کیا
ایران کے سرکاری ٹی وی پر اس ساری نشریات کا مقصد میزبان کے بقول ان نوجوانوں کی ’عزت کی حفاظت کرنا ہے۔‘
اس ویڈیو میں شامل نوجوانوں میں سے ایک نے اس قبل ایران وائر نامی ویب سائٹ کوبتایا تھا کہ انھوں نے ’اپنے بالوں کو وِگ کے ذریعے‘ ڈھانپا تاکہ وہ ’اسلامی شعائر‘ کی خلاف ورزی کی مرتکب نہ ہوں اور یہ کہ ’دنیا کو معلوم ہو کہ ایران ان کی سوچ کے برعکس ایک بہتر جگہ ہے۔‘
اس کے بعد ایرانیوں نے ہیش ٹیگ #freehappyiranians استعمال کر کے ہزاروں ٹویٹس شروع کر دیں جن میں کئی نے ایرانی صدر کو بھی ٹیگ کر کے مخاطب کیا۔
ایرانی صحافی گلناز اسفند یاری نے ٹویٹ کی کہ ’ایران وہ ملک ہے جہاں ’خوش ہونا‘ جرم ہے۔‘
شیما کلباسی نے ٹویٹ کی کہ ’اگر آپ تہران میں فیرل کے گانے پر رقص کریں گے تو آپ کو گرفتار کیا جا سکتا ہے۔‘
ایرانی صدر، وزیرِ خارجہ اور ایران کے روحانی پیشوا سبھی ٹوئٹر باقاعدگی سے استعمال کرتے ہیں اور اس پر اظہارِ خیال کرتے ہیں
یہاں تک کے گلوکار فیرل ولیم نے بھی اس پر ٹویٹ کر کے اظہارِ خیال کیا: ’یہ سخت افسوس کی بات ہے کہ ان بچوں کو خوشیاں پھیلانے کی کوشش پر گرفتار کر لیا گیا۔‘
یاد رہے کہ 17 مئی کو ایرانی صدر حسن روحانی نے کہا تھا کہ ’سائبر سپیس کو ایک موقع سمجھا جانا چاہیے جہاں دو طرفہ رابطے کیے جاتے ہیں، کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور روزگار کے موقع پیدا ہوتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’حکومت موجودہ صورتحال سے خوش نہیں ہے اور انٹرنیٹ کی رفتار کو گھروں، کاروبار اور موبائلز پر بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔‘
بہت سے مبصرین اسے ان تصاویر کا ردِ عمل بھی قرار دے رہے ہیں جس میں کئی ایرانی خواتین نے اپنے حجاب کو ہٹا کر تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر کیں
مبصرین ان نوجوانوں کے خلاف اس کارروائی کو صدر روحانی کے دور میں بڑھتی ہوئی آزادی کے خلاف ایک تنبیہ کے طور پر لے رہے ہیں تاکہ لوگوں کو خبردار کیا جا سکے کہ ان کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔
بعض مبصرین اس کا تعلق انٹرنیٹ پر ان تصاویر سے جوڑ رہے ہیں جس میں گذشتہ دنوں خواتین نے حجاب کے بغیر تصاویر سوشل میڈیا پر شائع کی گئی تھیں۔
مآخذ