دوست غمخوارہ میں میری سعی فرمائیں گے کیا
زخم کے بڑھ جانے تک ناخن نہ بڑھ جائیں گے کیا
بےنیازی حد سے گزری بندہ پرور کب تلک
ہم کہیں گے حالِ دل، اور آپ فرمائیں گے کیا
بے یارو مددگار ہی کاٹا تھا سارا دن
کچھ خود سے اجنبی سا
اداس سا
ساحل پہ دن بجھا کے میں لوٹ آیا پھر وہیں
سنسان سی سڑک کے خالی مکان میں!
دروازہ کھولتے ہی میز پہ رکھی کتاب نے
ہلکے سے پھڑپھڑا کے کہا:
“ دیر کر دی دوست!“