سائیں کسی کے بارے میں سنی سنائی کی بجائے خود تحقیق کرکے تسلی کی جائے تو مزہ ہے۔ آپ سنی سنائی پر ہی ایک پوری کتاب سے محروم رہ گئے۔ میں شہاب نامہ کو کتاب نہیں تاریخ کہا کرتا ہوں۔ یہ کتاب پاکستان کے ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کی کہانی ہے، ایک سرکاری افسر جو ایک عرصے تک حکام کی ناک کا بال رہا اس کے تاثرات ہیں۔ کم از کم میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ خوشامد بھی ہوگی لیکن میں نے اسے سبق حاصل کرنے کے لیے اور تاریخ کے بارے میں جاننے کے لیے پڑھا۔
شاکر صاحب شہاب نامہ ایک متنازعہ کتاب ہے اور قدرت اللہ شہاب غلط بیانی اور خوشامد کے ماہر تھے جس کے ثابت کرنے کے لئے کئی مضامین اور کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔ لہذا اسے صرف ایک سنی سنائی بات کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صاحب نہ صرف خوشامدی تھے بلکہ خوشامد ان کو بہت مرغوب تھی۔ اور اپنے منہ میاں مٹھو بننا ان کی عادت تھی مثلاً وہ شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جہاں انقلاب ہوتا ہے وہاں قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے۔ لوگ نہیں کہتے بلکہ قدرت اللہ شہاب خود ہی کہتے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں کس طرح غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے بخوبی ہوتا ہے۔ موصوف ایوب خان کے آفس میں تھے اور ایوب خان کی بڑھ چڑھ کر خوشامد کرتے تھے مگر شہاب نامہ میں موصوف نے لکھا کہ میں نے ایوب خان کی پالیسیوں کی مخالفت میں استعفی دینے کا فیصلہ کیا بلکہ استعفی بھی دے دیا مگر صدر ایوب خان نے میرا استعفی منظور نہ فرمایا اور کام کرنے کی تاکید فرمائی۔ اس واقعہ کی صداقت ایک لمبے عرصے کے بعد سامنے آئی کہ شہاب صاحب نے استعفی ایوب خان کی پالیسیوں کی مخالفت میں دیا تھا یا ان کے حق میں پراپیگنڈہ کرنے کے لئے چنانچہ وہ اپنے استعفی میں صدر ایوب خان کی خوشامد کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ جناب صدر میری خواہش ہے کہ میں اپنے سرکاری عہدہ سے مستعفی ہو کر صدر کی دس سالہ مساعی سے عوام کو روشناس کروانے کے لئے خود کو وقف کردوں یہ تھی استعفی کی وجہ مگر صدر ایوب خان بھی خوب جانتے تھے کہ یہ کتنا بڑا خوشامدی ہے اور اس کے چکر میں آنے سے انکار کر دیا۔ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ کے ذریعہ سب کو تو بے نقاب کیا لیکن اپنا اصلی چہرہ عوام سے چھپائے رکھا۔
شاکر صاحب اس کتاب میں بہت سے درست واقعات بھی لامحالہ درج ہوں گے مجھے اس سے انکار نہیں لیکن میں نے اپنے مزاج کا ذکر کیا ہے کہ میں جو اس کتاب سے متنفر ہوا ہوں تو یہ صرف سنی سنائی اور غیریقینی باتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ میں تو خود سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینے کے سخت خلاف ہوں لیکن اگر شواہد مضبوط ہوں تو پھریقین کرنا ہی پڑتا ہے اوپر بیان کردہ ایک واقعہ اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے۔
آپ نے اس کتاب سے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور لازماً ہوگا کیونکہ میں نے ذکرکیا نا کہ پوری کتاب تو جھوٹی ہونے سے رہی۔ لیکن میری نظر میں ایک ایسی کتاب جو اپنے دور کی تاریخ محفوظ کررہی ہو اس کے مصنف سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ کم از کم اپنی معلومات کی حد تک دیانت داری کا مظاہرہ کرے۔ جانتے بوجھتے ہوئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا کسی بھی صورت قابل تحسین امر نہیں ہے۔ یہ بات البتہ نظر انداز کی جاسکتی ہے کہ لکھنے والے کو کسی واقعے کے بارے میں معلومات ہی غلط ملی ہوں اس صورت میں وہ اس خلاف واقعہ بات کے بیان کرنے سے میری نطر میں بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس اس بات کی تحقیق کرنے کے وسائل ہی نہ ہوں جیسا کہ ایک فرعون نے فتح کی ایک جھوٹی یادگار بنا کر تاریخ دانوں کو دھوکے میں ڈال دیا اور تاریخ دان اسکی بنائی ہوئی یادگار دیکھ کر اس کو فاتح قرار دیتےرہے اور ہزاروں سال کے بعد اس کے دھوکہ سے پردہ اٹھا۔ اس صورت میں تاریخ دانوں کو بے قصور کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایک تاریخ بیان کرنے والا اپنی ہی زندگی سے تعلق رکھنے والے ایک واقعے کو جان بوجھ کر غلط بیان کردے بھلا پھر اسکی باقی لکھی ہوئی باتوں کا کیا اعتبار رہ جائے گا سوائے اسکے کے آنے والا وقت ان باتوں کو درست ثابت کردے۔