“شہاب نامہ“ کی حقیقت

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

رانا

محفلین
بہت دلچسپ اقتباسات ہیں۔ مجھے گاہے بگاہے مختلف رسالوں اور کتابوں سے شہاب نامہ کے اقتباسات پڑھنے کا موقع ملتا رہا ہے اسی وجہ سے مجھے اس کتاب کو پڑھنے کا کافی شوق پیدا ہوگیا تھا اور شائد کسی دن جا کر خرید بھی لاتا۔ لیکن پھرپتہ لگا کہ یہ صاحب بہت بڑے خوشامدی تھے اور انہوں نے اپنی کتاب میں بہت سی جھوٹی باتیں بھی درج کردیں ہیں صرف اپنی واہ واہ کرانے کے لئے۔ اس کے بعد سے کتاب کو پڑھنے کا سارا شوق ہوا ہوگیا۔
 

دوست

محفلین
سائیں کسی کے بارے میں سنی سنائی کی بجائے خود تحقیق کرکے تسلی کی جائے تو مزہ ہے۔ آپ سنی سنائی پر ہی ایک پوری کتاب سے محروم رہ گئے۔ میں شہاب نامہ کو کتاب نہیں تاریخ کہا کرتا ہوں۔ یہ کتاب پاکستان کے ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کی کہانی ہے، ایک سرکاری افسر جو ایک عرصے تک حکام کی ناک کا بال رہا اس کے تاثرات ہیں۔ کم از کم میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ خوشامد بھی ہوگی لیکن میں نے اسے سبق حاصل کرنے کے لیے اور تاریخ کے بارے میں جاننے کے لیے پڑھا۔
 

رانا

محفلین
سائیں کسی کے بارے میں سنی سنائی کی بجائے خود تحقیق کرکے تسلی کی جائے تو مزہ ہے۔ آپ سنی سنائی پر ہی ایک پوری کتاب سے محروم رہ گئے۔ میں شہاب نامہ کو کتاب نہیں تاریخ کہا کرتا ہوں۔ یہ کتاب پاکستان کے ایوان اقتدار کی غلام گردشوں کی کہانی ہے، ایک سرکاری افسر جو ایک عرصے تک حکام کی ناک کا بال رہا اس کے تاثرات ہیں۔ کم از کم میں نے اس سے بہت کچھ سیکھا۔ خوشامد بھی ہوگی لیکن میں نے اسے سبق حاصل کرنے کے لیے اور تاریخ کے بارے میں جاننے کے لیے پڑھا۔

شاکر صاحب شہاب نامہ ایک متنازعہ کتاب ہے اور قدرت اللہ شہاب غلط بیانی اور خوشامد کے ماہر تھے جس کے ثابت کرنے کے لئے کئی مضامین اور کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔ لہذا اسے صرف ایک سنی سنائی بات کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صاحب نہ صرف خوشامدی تھے بلکہ خوشامد ان کو بہت مرغوب تھی۔ اور اپنے منہ میاں مٹھو بننا ان کی عادت تھی مثلاً وہ شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جہاں انقلاب ہوتا ہے وہاں قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے۔ لوگ نہیں کہتے بلکہ قدرت اللہ شہاب خود ہی کہتے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں کس طرح غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے بخوبی ہوتا ہے۔ موصوف ایوب خان کے آفس میں تھے اور ایوب خان کی بڑھ چڑھ کر خوشامد کرتے تھے مگر شہاب نامہ میں موصوف نے لکھا کہ میں نے ایوب خان کی پالیسیوں کی مخالفت میں استعفی دینے کا فیصلہ کیا بلکہ استعفی بھی دے دیا مگر صدر ایوب خان نے میرا استعفی منظور نہ فرمایا اور کام کرنے کی تاکید فرمائی۔ اس واقعہ کی صداقت ایک لمبے عرصے کے بعد سامنے آئی کہ شہاب صاحب نے استعفی ایوب خان کی پالیسیوں کی مخالفت میں دیا تھا یا ان کے حق میں پراپیگنڈہ کرنے کے لئے چنانچہ وہ اپنے استعفی میں صدر ایوب خان کی خوشامد کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ جناب صدر میری خواہش ہے کہ میں اپنے سرکاری عہدہ سے مستعفی ہو کر صدر کی دس سالہ مساعی سے عوام کو روشناس کروانے کے لئے خود کو وقف کردوں یہ تھی استعفی کی وجہ مگر صدر ایوب خان بھی خوب جانتے تھے کہ یہ کتنا بڑا خوشامدی ہے اور اس کے چکر میں آنے سے انکار کر دیا۔ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ کے ذریعہ سب کو تو بے نقاب کیا لیکن اپنا اصلی چہرہ عوام سے چھپائے رکھا۔

شاکر صاحب اس کتاب میں بہت سے درست واقعات بھی لامحالہ درج ہوں گے مجھے اس سے انکار نہیں لیکن میں نے اپنے مزاج کا ذکر کیا ہے کہ میں جو اس کتاب سے متنفر ہوا ہوں تو یہ صرف سنی سنائی اور غیریقینی باتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ میں تو خود سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینے کے سخت خلاف ہوں لیکن اگر شواہد مضبوط ہوں تو پھریقین کرنا ہی پڑتا ہے اوپر بیان کردہ ایک واقعہ اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے۔

آپ نے اس کتاب سے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور لازماً ہوگا کیونکہ میں نے ذکرکیا نا کہ پوری کتاب تو جھوٹی ہونے سے رہی۔ لیکن میری نظر میں ایک ایسی کتاب جو اپنے دور کی تاریخ محفوظ کررہی ہو اس کے مصنف سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ کم از کم اپنی معلومات کی حد تک دیانت داری کا مظاہرہ کرے۔ جانتے بوجھتے ہوئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا کسی بھی صورت قابل تحسین امر نہیں ہے۔ یہ بات البتہ نظر انداز کی جاسکتی ہے کہ لکھنے والے کو کسی واقعے کے بارے میں معلومات ہی غلط ملی ہوں اس صورت میں وہ اس خلاف واقعہ بات کے بیان کرنے سے میری نطر میں بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس اس بات کی تحقیق کرنے کے وسائل ہی نہ ہوں جیسا کہ ایک فرعون نے فتح کی ایک جھوٹی یادگار بنا کر تاریخ دانوں کو دھوکے میں ڈال دیا اور تاریخ دان اسکی بنائی ہوئی یادگار دیکھ کر اس کو فاتح قرار دیتےرہے اور ہزاروں سال کے بعد اس کے دھوکہ سے پردہ اٹھا۔ اس صورت میں تاریخ دانوں کو بے قصور کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایک تاریخ بیان کرنے والا اپنی ہی زندگی سے تعلق رکھنے والے ایک واقعے کو جان بوجھ کر غلط بیان کردے بھلا پھر اسکی باقی لکھی ہوئی باتوں کا کیا اعتبار رہ جائے گا سوائے اسکے کے آنے والا وقت ان باتوں کو درست ثابت کردے۔
 

یونس عارف

محفلین
شاکر صاحب شہاب نامہ ایک متنازعہ کتاب ہے اور قدرت اللہ شہاب غلط بیانی اور خوشامد کے ماہر تھے جس کے ثابت کرنے کے لئے کئی مضامین اور کتب بھی شائع ہوچکی ہیں۔ لہذا اسے صرف ایک سنی سنائی بات کہہ کر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہ صاحب نہ صرف خوشامدی تھے بلکہ خوشامد ان کو بہت مرغوب تھی۔ اور اپنے منہ میاں مٹھو بننا ان کی عادت تھی مثلاً وہ شہاب نامہ میں لکھتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جہاں انقلاب ہوتا ہے وہاں قدرت اللہ شہاب ہوتا ہے۔ لوگ نہیں کہتے بلکہ قدرت اللہ شہاب خود ہی کہتے ہیں۔
انہوں نے اپنی کتاب میں کس طرح غلط بیانی سے کام لیتے ہوئے تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش کی ہے اس کا اندازہ اس ایک واقعے سے بخوبی ہوتا ہے۔ موصوف ایوب خان کے آفس میں تھے اور ایوب خان کی بڑھ چڑھ کر خوشامد کرتے تھے مگر شہاب نامہ میں موصوف نے لکھا کہ میں نے ایوب خان کی پالیسیوں کی مخالفت میں استعفی دینے کا فیصلہ کیا بلکہ استعفی بھی دے دیا مگر صدر ایوب خان نے میرا استعفی منظور نہ فرمایا اور کام کرنے کی تاکید فرمائی۔ اس واقعہ کی صداقت ایک لمبے عرصے کے بعد سامنے آئی کہ شہاب صاحب نے استعفی ایوب خان کی پالیسیوں کی مخالفت میں دیا تھا یا ان کے حق میں پراپیگنڈہ کرنے کے لئے چنانچہ وہ اپنے استعفی میں صدر ایوب خان کی خوشامد کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ جناب صدر میری خواہش ہے کہ میں اپنے سرکاری عہدہ سے مستعفی ہو کر صدر کی دس سالہ مساعی سے عوام کو روشناس کروانے کے لئے خود کو وقف کردوں یہ تھی استعفی کی وجہ مگر صدر ایوب خان بھی خوب جانتے تھے کہ یہ کتنا بڑا خوشامدی ہے اور اس کے چکر میں آنے سے انکار کر دیا۔ قدرت اللہ شہاب نے شہاب نامہ کے ذریعہ سب کو تو بے نقاب کیا لیکن اپنا اصلی چہرہ عوام سے چھپائے رکھا۔

شاکر صاحب اس کتاب میں بہت سے درست واقعات بھی لامحالہ درج ہوں گے مجھے اس سے انکار نہیں لیکن میں نے اپنے مزاج کا ذکر کیا ہے کہ میں جو اس کتاب سے متنفر ہوا ہوں تو یہ صرف سنی سنائی اور غیریقینی باتوں کی وجہ سے نہیں بلکہ میں تو خود سنی سنائی باتوں پر یقین کرلینے کے سخت خلاف ہوں لیکن اگر شواہد مضبوط ہوں تو پھریقین کرنا ہی پڑتا ہے اوپر بیان کردہ ایک واقعہ اس بات کی وضاحت کے لئے کافی ہے۔

آپ نے اس کتاب سے کافی فائدہ اٹھایا ہے اور لازماً ہوگا کیونکہ میں نے ذکرکیا نا کہ پوری کتاب تو جھوٹی ہونے سے رہی۔ لیکن میری نظر میں ایک ایسی کتاب جو اپنے دور کی تاریخ محفوظ کررہی ہو اس کے مصنف سے یہ توقع رکھتا ہوں کہ وہ کم از کم اپنی معلومات کی حد تک دیانت داری کا مظاہرہ کرے۔ جانتے بوجھتے ہوئے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرنا کسی بھی صورت قابل تحسین امر نہیں ہے۔ یہ بات البتہ نظر انداز کی جاسکتی ہے کہ لکھنے والے کو کسی واقعے کے بارے میں معلومات ہی غلط ملی ہوں اس صورت میں وہ اس خلاف واقعہ بات کے بیان کرنے سے میری نطر میں بری الذمہ قرار دیا جاسکتا ہے بشرطیکہ اس کے پاس اس بات کی تحقیق کرنے کے وسائل ہی نہ ہوں جیسا کہ ایک فرعون نے فتح کی ایک جھوٹی یادگار بنا کر تاریخ دانوں کو دھوکے میں ڈال دیا اور تاریخ دان اسکی بنائی ہوئی یادگار دیکھ کر اس کو فاتح قرار دیتےرہے اور ہزاروں سال کے بعد اس کے دھوکہ سے پردہ اٹھا۔ اس صورت میں تاریخ دانوں کو بے قصور کہا جاسکتا ہے لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایک تاریخ بیان کرنے والا اپنی ہی زندگی سے تعلق رکھنے والے ایک واقعے کو جان بوجھ کر غلط بیان کردے بھلا پھر اسکی باقی لکھی ہوئی باتوں کا کیا اعتبار رہ جائے گا سوائے اسکے کے آنے والا وقت ان باتوں کو درست ثابت کردے۔

بہت شکریہ بھائی
مگرمیرے خیال میں شہاب نامہ نہ صرف برصغیر کی تاریخ سمجھنے کے اعتبارسے بلکہ اردو ادب میں بھی ایک نہایت اہم کتاب ہے جو کم از کم اس حوالوں سے پڑھنے کے قابل ہے اور انسانوں کی لکھی ہوئی کتابوں میں بہرحال خامیاں ہوتی ہیں ۔
 

mfdarvesh

محفلین
شہاب نامہ ایک مکمل اور اردو ادب کی بہترین کتاب ہے۔ ایوب خان کے سبق میں اعتراض ہیں لوگوں کو اگر اس کو چھوڑ بھی دیں تب بھی یہ ایک بہترین کتاب ہے۔
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
رانا صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قدرت اللہ شہاب صاحب کے بارے میں جو دوسرے لوگ رلکھ رہے ہیں یا ان کے خلاف جو لکھ رہے ہیں کیا وہ سچ ہے کیا اس پر بھی تحقیق کی ہے آپ نے اور شہاب نامہ کو ایک متنازعہ کتاب قرار دیا ہے کیا کوئی ایسی کتاب یا ایسا انسان ہے جس کو کسی نے متنازعہ قرار نا دیا ہو

(یہ بتائیں صرف میری طرف سے سوال ہیں اپنے علم کےلیے میں اس بحث میں شریک نہیں ہو رہا بس جاننا چاہتا ہوں- اور منتظمین سے درخواست کروں گا بحث والے مراسلات کو اگر ایک الگ دھاگہ میں منتقل کر دیا جائے تو اس دھاگے کا حسن برقرار رہے گا شکریہ )
 

فرخ منظور

لائبریرین
شہاب نامہ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے اس کا ایک باب ہی کافی ہے۔ اس باب کا نام ہے "بملا کماری کی روح" ۔ شہاب نامہ سے بہت بہتر "علی پور کا ایلی از ممتاز مفتی" ہے جبکہ "الکھ نگری از ممتاز مفتی " "شہاب نامہ پارٹ ٹو" ہے۔ :)
 

فرخ منظور

لائبریرین

ویسے تو اس باب کا مطالعہ آپ کو خود کرنا چاہیے لیکن معلومات کے لئے بتائے دیتا ہوں کہ اس باب میں شہاب صاحب کی ملاقات ایک روح سے ہوتی ہے۔ جس بنگلے میں وہ ٹھہرتے ہیں اس میں کسی لڑکی کا قتل ہوا ہوتا ہے اور اس کی روح اس بنگلے میں بھٹکتی رہتی ہے۔ اس باب میں بالکل ویسے ہی مناظر ہیں جیسے انگریزی فلم ایول ڈیڈ کے مناظر ہیں یعنی پانی کے نلکوں سے پانی کی جگہ خون آنا وغیرہ وغیرہ۔ اس باب کو پڑھ کر یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں وہی انگریزی فلم ایول ڈیڈ پڑھ رہا ہوں۔
 

رانا

محفلین
رانا صاحب کیا آپ سمجھتے ہیں کہ قدرت اللہ شہاب صاحب کے بارے میں جو دوسرے لوگ رلکھ رہے ہیں یا ان کے خلاف جو لکھ رہے ہیں کیا وہ سچ ہے کیا اس پر بھی تحقیق کی ہے آپ نے اور شہاب نامہ کو ایک متنازعہ

خرم صاحب میں نے جو ایک واقعہ لکھا ہے وہ دو اور دو چار کی طرح واضع ہے جس کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ کسی نے شہاب صاحب کے بارے میں غلط افواہ پھیلا دی ہو۔ وجہ ظاہر ہے کہ اس واقعہ میں ایک دعوی ہے جو شہاب صاحب کی طرف منسوب ہے جس کو ان کی کتاب شہاب نامہ سے بآسانی چیک کیا جاسکتا ہے اور ایک استعفی ہے وہ بھی انہی کا لکھا ہوا جو ان کے اس دعوی کی قلعی کھول رہا ہے۔ اور استعفی کسی پرائیویٹ فرم کے باس کو نہیں ایڈریس کیا گیا کہ اب چیک نہ ہوسکتا ہو بلکہ صدر مملکت ایوب خان کو دیا گیا تھا جس کے حقائق بہت آسانی کے ساتھ بے نقاب کئے جاسکتے ہیں لیکن کیا آج تک کسی نے اس ستعفی کی صحت کو چیلنج کیا ہے؟

اور یہ عرض بھی کردوں کہ یہ بحث نہیں ہے میری پہلی پوسٹ سے شاکر صاحب کو جو ایک مغالطہ لگ گیا تھا اس کی وضاحت تھی جو تھوڑی سی لمبی ہوگئی۔ باقی رہی آپ کی یہ بات کہ ہرکتاب ہی متنازعہ ہوتی ہے اس پر صاحب علم احباب ہی رائے دے سکتے ہیں۔ میری مراد یہاں صرف اتنی تھی کہ جس کتاب کا مصنف جان بوجھ کر حقائق کو بیان کرنے میں بددیانتی کرے اور کھلے کھلے جھوٹ اسکی کتاب میں پائے جائیں جو تو پھر اسکی باقی باتوں سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ فرخ صاحب نے بھی جس باب کی طرف نشاندہی کی ہے وہ بھی کچھ کم نہیں۔
 

سویدا

محفلین
میری مراد یہاں صرف اتنی تھی کہ جس کتاب کا مصنف جان بوجھ کر حقائق کو بیان کرنے میں بددیانتی کرے اور کھلے کھلے جھوٹ اسکی کتاب میں پائے جائیں جو تو پھر اسکی باقی باتوں سے بھی اعتبار اٹھ جاتا ہے۔ فرخ صاحب نے بھی جس باب کی طرف نشاندہی کی ہے وہ بھی کچھ کم نہیں۔

اردو زبان میں ذاتی یاد داشتیں یا آپ بیتیاں جتنی بھی لکھی گئیں ہیں ہر ایک کے بارے میں مبصرین کا یہی کہنا کہ اس میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے چاہے وہ جوش کی یادوں کی برات ہو یا احسان دانش جہاں دانش یا کشور ناہید کی بری عورت کی کتھا یا اختر حسین رائے پوری کی گرد راہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
اردو زبان میں ذاتی یاد داشتیں یا آپ بیتیاں جتنی بھی لکھی گئیں ہیں ہر ایک کے بارے میں مبصرین کا یہی کہنا کہ اس میں مبالغے سے کام لیا گیا ہے چاہے وہ جوش کی یادوں کی برات ہو یا احسان دانش جہاں دانش یا کشور ناہید کی بری عورت کی کتھا یا اختر حسین رائے پوری کی گرد راہ

اس سے یہ اصول تو نہیں بن جاتا کہ یادداشتیں لکھی جائیں تو اس میں مبالغہ بھی شامل کیا جائے۔ لیکن آپ کی اس بات سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ شہاب نامہ جھوٹ کا پلندہ ہے۔
:)
 

سویدا

محفلین
بات کسی چیز کے ثابت کرنے کی نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری امر ہے اگر میں یا آپ بھی اپنی یاد داشتیں لکھیں گے تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا
اس لیے کہ لکھنے والا ایک بات اپنے زاویہ نگاہ سے لکھ رہا ہوتا ہے معاصرین اسے دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں
اردو میں ایسی کوئی آپ بیتی میرے ناقص مطالعے میں نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ حقیقت اور سچائی پرمبنی اور مبالغے سے پاک ہے
ہر لکھنے والا نرگسیت کا شکار ہوتا بلکہ جب نرگسیت کا شکار ہوتا ہے تبھی لکھنے کا خیال آتا ہے
 

فرخ منظور

لائبریرین
سویدا صاحب میرے خیال میں آپ نے "بملا کماری کی روح" والا باب نہیں پڑھا وہ مبالغہ نہیں سراسر جھوٹ ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
میں نے “شہاب نامہ“ پر تبصرے یہاں منتقل کر دیئے ہیں۔ اب جی بھر کے یہاں اس پر بحث کریں۔
 

رانا

محفلین
بات کسی چیز کے ثابت کرنے کی نہیں ہے بلکہ یہ ایک فطری امر ہے اگر میں یا آپ بھی اپنی یاد داشتیں لکھیں گے تو اس کے بارے میں بھی یہی کہا جائے گا
اس لیے کہ لکھنے والا ایک بات اپنے زاویہ نگاہ سے لکھ رہا ہوتا ہے معاصرین اسے دوسری نگاہ سے دیکھتے ہیں
اردو میں ایسی کوئی آپ بیتی میرے ناقص مطالعے میں نہیں ہے جس کے بارے میں یہ کہا جاسکے کہ حقیقت اور سچائی پرمبنی اور مبالغے سے پاک ہے
ہر لکھنے والا نرگسیت کا شکار ہوتا بلکہ جب نرگسیت کا شکار ہوتا ہے تبھی لکھنے کا خیال آتا ہے

بات بہت سیدھی اور سامنے کی ہے اور وہ یہ کہ
مبالغہ اور جھوٹ میں بہرحال فرق کرنا چاہئے۔
تعریف (یا برائی) جائز حدود سے آگے بڑھا چڑھا کر پیش کی جائے تو مبالغہ کہلائےگا۔
لیکن حاکم کے سامنے اس کی پالیسیوں پر صدائے تحسین بلند کرنا اور عوام کے سامنے انہی پالیسیوں کو قومی ترقی کے لئے سم قاتل قرار دینا۔ آپ ہی بتائیں اس رویئے کے لئے اردو زبان میں مبالغہ کی اصطلاح استعمال کی جائے گی یا خوشامدی اور جھوٹے کی؟ فیصلہ آپ پر ہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top