اپنی قسم کے اکلوتے مزاح نگار کرنل شفیق الرحمٰن جنرل کے عہدے تک جا پہنچے لیکن ہم جیسوں کے دلوں دماغوں میں بطور کرنل ہی پھنسے ہوئے ہیں کہ ہماری ’’وفاداری‘‘ انہیں کسی بھی قیمت پر پرموٹ کرنے کیلئے آمادہ نہیں۔ کرنل شفیق الرحمٰن کا ہی ایک بچہ کردار سائیکلوں کی دکان پر جا کر مستری سے کہتا ہے کہ ’’میرے سائیکل کی ٹیوب پر پنکچر لگا دیجئے۔‘‘ مستری ٹائر میں سے ٹیوب نکال کر دیکھتا ہے کہ پوری ٹیوب پنکچروں سے بھری پڑی ہے تو مسکرا کر اپنے نوعمر گاہک سے کہتا ہے ’’ننھے میاں پنکچر کی تو کہیں کوئی گنجائش ہی نہیں، آپ کہیں تو اس ٹیوب پر اک پوری نئی ٹیوب چڑھا دوں‘‘۔
سچ پوچھیں تو اپنے پیارے اسلامی جمہوریہ کا حال بھی ننھے میاں کی اس ٹیوب جیسا ہی ہے جس پر مزید پنکچروں کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں، البتہ ٹیوب پر نئی ٹیوب ضرور چڑھائی جا سکتی ہے مثلاً
پرانے الیکشن کمیشن پر نیا الیکشن کمیشن چڑھایا جائے
پرانے نگرانوں پر نئے نگران چڑھائے جائیں
پرانے سیاستدانوں پر نئے سیاستدان چڑھائے جائیں
پرانے صوبوں پر نئے صوبے چڑھائے جائیں
پرانی انتظامیہ پر نئی انتظامیہ چڑھائی جائے
پرانے نظام پر نیا نظام چڑھایا جائے
پرانے پاکستان پر نیا پاکستان چڑھایا جائے، آئین پر نیا آئین چڑھایا جائے
مجھے یہ ساری باتیں گیارہ مئی کو عمران خان اور طاہر القاداری کی باتیں سن کر یاد آئیں۔ حقیقت یہ ہے کہ طاہرالقادری کی باتیں سن کر زیادہ باتیں یاد آئیں کیونکہ طاہرالقادری کی تقریر کے پیچھے زبردست ہوم ورک تھا۔ وہ ایک چلتی پھرتی آوارہ قسم کی عوامی تقریر نہیں،
انتہائی سوچا سمجھا نپا تلا مدلل ’’پیکیج‘‘ تھا جسے آئین کی ہلکی آنچ پر چڑھا کر تیار کیا گیا تھا۔ میں نے ڈاکٹر طاہرالقادری کے بہت سے لیکچر، تقریریں، خطبے وغیرہ سنے اور ان کی بیشمار تحریریں پڑھیں لیکن گیارہ مئی کی اس تقریر کے دوران وہ پہلی بار ایک سٹیسمین، ایک مدبر کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ یہ تقریر ملکی مسائل و تضادات کی نشاندہی اور پھر ان کے منطقی حل کا شہکار تھی اور میں ڈاکٹر صاحب کی اس بات سے بھی سو فیصد متفق ہوں کہ نظام کے اندر رہتے ہوئے اس لعنتی اور ابلیسی نظام سے عوام کی جان چھڑانا عملاً ناممکن ہے۔ سچ یہ کہ مدتوں یہی بات میرے کالموں کا مرکزی خیال رہی۔ مجھے یقین ہے کہ جن لوگوں کو یہ تقریر پوری طرح سمجھ آئی ہوگی وہ گیارہ اور بارہ مئی کی درمیانی رات سکھ سکون سے سو نہیں سکے ہوں گے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا عوام میں اتنا دم خم موجود ہے کہ وہ اتنا بڑا چیلنج قبول کرسکیں؟ صوبوں کی تعداد سے لیکر سیاسی آمریت سے نجات و بلدیاتی نظام تک یہ بھی زہریلی ترین حقیقتیں ہیں کہ ملکی سیاسی اشرافیہ کی بھاری اکثریت قرضہ خوروں اور ٹیکس چوروں پر مشتمل ہے اور انہی عطاروں کے لونڈوں سے لی جانے والی دوائوں سے علاج ممکن ہی نہیں۔
اس تقریر سے پہلے میرا خیال تھا کہ صرف افواج اور عدلیہ مل کر اس ملک کو پٹڑی پر چڑھا سکتے ہیں۔ یہ تقریر شاید بہتر نسخہ تجویز کررہی ہے لیکن نو من تیل کیسے پورا ہوگا کہ رادھا رقص کا آغاز کرسکے، بلی نہیں ان خون خوار جنگلی بلوں کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ کیا عمران خان، ڈاکٹر طاہرالقادری اور معصوم سراج الحق مل کر بھی یہ کام کرسکیں گے؟ کیا مل بھی سکیں گے؟
یہاں ضمناً عرض کرتا چلوں کہ پچھلے دنوں دو تین بار ڈاکٹر صاحب کی طرف سے ٹیلی فونک رابطے کی کوشش ہوئی لیکن اتفاق ایسا کہ میں ہر بار ڈرائیونگ میں مبتلا تھا سو بات نہ ہوسکی جس کا مجھے ملال ہے لیکن میں اپنے کالم کے ذریعہ ڈاکٹر صاحب کو اس تاریخی تقریر پرمبارک باد پیش کرتا ہوں۔
بارہ مئی کو اپنے کالم میں برادر محترم بابر اعوان نے اپنے کالم کے دوران شاعر کا حوالہ دیئے بغیر ایک بہت ہی خوبصورت مصرعہ کا حوالہ دیا ہے۔
’’جو زباں بولے گی پتھر کی بنا دی جائے گی‘‘
یہ میری اس غزل کے مطلع کا مصرعہ ہے جو میں نے جنرل ضیا کے دور میں لکھی اور میرے شعری مجموعہ ’’پچھلے پہر کا چاند‘‘ میں شامل ہے۔ اس غزل کے چند شعر ڈاکٹر صاحب کی نذر
ہر محلے میں صف ماتم بچھا دی جائے گی
جو زباں بولے گی پتھر کی بنا دی جائے گی
اتنی دوری سے خداوں کو نظر کیا آئے گا
یہ زمیں اب آسمانوں تک اٹھا دی جائے گی
کاٹ دی جائیں گی شاخیں ہر تناور پیڑ کی
فصل تازہ اچھے بیجوں کی جلا دی جائے گی
بن دوا مر کے شفا پائیں گے صدیوں کے مریض
تندرستوں کو زبردستی دو ا دی جائے گی
خون پی لے گی مرا اک دن بلوغت کی بلا
مجھ کو میری ہوش مندی کی سزا دی جائے گی
میرا دکھ دیکھئے کہ یہ غزل باسی ہونے کے باوجود تازہ ہے۔