x boy
محفلین
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
آپ جيسے اردو محفل کے مستقل ممبر کی جانب سے عراق ميں تشدد کی موجودہ لہر کے ليے امريکہ اور ہماری مبينہ کٹھ پتلی عراقی حکومت کو مورد الزام قرار دينے کو محض ستم ظريفی ہی کہا جا سکتا ہے۔
معاملے کو درست تناظر ميں سمجھنے اور ياد دہانی کے لیے سال 2011 ميں اردو محفل پر ہی اپنی ايک پوسٹ کا حوالہ دينا چاہوں گا جب فورم پر ايک ممبر نے اس موضوع پر بحث کی تھی کہ امريکی افواج کو فوری طور پر عراق سے نکل جانا چاہيے۔
"يہ ايک حقیقت ہے کہ عراق ميں اس وقت جو دہشت گرد گروہ متحرک ہيں ان کی کاروائيوں کا محور امريکی افواج نہيں بلکہ عراقی عوام ہيں جس کا واحد مقصد دہشت اور بربريت کے ذريعے اپنے سياسی اثرورسوخ ميں اضافہ کرنا ہے۔ امريکی افواج کے فوری انخلا کے نتيجے ميں عراق حکومت کی محدود دفاعی وسائل کے سبب اگر يہ دہشت گرد گروہ اپنی کاروائيوں کا دائرہ کار بڑھانے ميں کامياب ہو جاتے ہيں تو اس کے کيا نتائج نکليں گے؟ جب معاشرے کا ايک گروہ تشدد کے ذريعے اکثريت پر اپنے مخصوص نظام کے نفاظ کے ليے اثر ورسوخ بڑھائے گا تو دفاعی طور پر ايک کمزور حکومت اور ايک نوزائيدہ جمہوری نظام پر اس کے کيا اثرات مرتب ہوں گے؟"
آپ مکمل بحث اس لنک پر پڑھ سکتے ہيں
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?p=368227#post368227
جہاں تک آپ کا يہ الزام ہے کہ عراق ميں امريکہ کی کٹھ پتلی حکومت برسر اقتدار ہے تو اس ضمن ميں چاہوں گا کہ سال 2011 ميں امريکی اور حکومت کے درميان جاری ايک اہم تنازعے کے ضمن ميں عالمی شہہ سرخيوں پر ايک سرسری نگاہ ڈاليں جب عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کے ٹائم فريم ميں ردوبدل اور اس ضمن ميں قواعد وضوابط کی بنياد پر دونوں حکومتوں ميں ٹھن گئ تھی۔
يہ سفارتی تعطل اس وقت ختم ہوا جب ہمارے مبينہ "کٹھ پتلی" عراقی وزير اعظم نوری المالکی نے امريکی مطالبات کو يہ کہہ کر يکسر مسترد کر ديا تھا کہ عراق ميں امريکی افواج کی موجودگی کی صورت ميں انھيں کسی قسم کا قانونی تحفظ فراہم نہيں کيا جائے گا۔ عراقی وزيراعظم کے فيصلے سے يہ واضح ہو گيا کہ يہ عراق کی حکومت تھی جس نے امريکی شرائط پر افواج کے عراق ميں قيام پر رضامندی سے صاف انکار کر ديا تھا۔
http://www.nbcnews.com/id/44998833/...ty-issue-scuttled-us-troop-deal/#.U7QY9rHyQ-w
يقينی طور پر يہ اقدامات کسی ايسے شخص يا حکومت کے نہيں ہو سکتے جو آپ کی رائے کی روشنی ميں نا صرف يہ کہ ہماری مرہون منت مسند اقتدار پر براجمان ہوا تھا بلکہ امریکی حکومت کی ہدايات کی روشنی ميں اپنی حکومت چلا رہا ہے۔
ميں يہ بھی واضح کرنا چاہوں گا کہ سال 2011 ميں تشدد کے واقعات ميں اضافہ ہی وہ محرک تھا جس کے سبب امريکی حکومت مزيد کچھ عرصے کے ليے فوج کا کچھ حصہ عراق ميں رکھنے پر زور دے رہی تھی۔ دونوں حکومتوں کے درميان کئ ماہ تک اس حوالے سے بحث جاری رہی کہ آيا امريکی افواج کو مزيد کچھ دير کے ليے عراق ميں رکنا چاہيے کہ نہيں – باوجود اس کے کہ سياسی لحاظ سے دونوں حکومتوں کے ليے يہ بڑا حساس معاملہ تھا۔
حتمی تجزيے ميں آئ ايس آئ ايس جيسی دہشت گرد تنظيم کا عراق ميں منظر عام پر آنا اور تشدد کے واقعات ميں حاليہ اضافے کے ليے امريکی حکومت کو مورد الزام قرار نہيں ديا جا سکتا ہے کيونکہ عراقی کی منتخب جمہوری حکومت کی جانب سے امريکی افواج کو مزید قيام کی اجازت نہيں دی گئ تھی۔
امريکی افواج کے عراق سے انخلاء کے بعد وہاں کی فعال اور خودمختار حکومت رياست کے معاملات کے ليے ذمہ دار ہے۔
تاہم امريکی حکومت اور صدر اوبامہ نے بذات خود بارہا اس بات پر زور ديا ہے کہ ہم بدستور عراق کے ساتھ طويل المدتی بنيادوں پر سفارتی تعلقات برقرار رکھيں گے۔ اب يہ عراق کی قيادت کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ صورت حال کی نزاکت کے مطابق فوری طور پر آئندہ کا لائحہ عمل مرتب کريں۔ ہم ان سے درخواست کرتے ہيں کہ وہ آئين کے مطابق جلدازجلد ايک ايسی نئ حکومت کے تشکيل کے ليے ٹھوس اقدامات اٹھائيں جس ميں سب کی نمايندگی شامل ہو۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
www.state.gov
http://www.facebook.com/USDOTUrdu
امریکی عراق میں چنے بیچنے گئے تھے