بہت خوب ظفری بھائی بہت شاندار تجزیہ کیا ہے ۔
آج کل جہاں ملک میں یہ اشو اچانک اٹھایا گیا ہے وہیں محفل پر آئے دن کوئی نہ کوئی تھریڈ اس سے متعلق نظر آ ہی جاتا ہے۔ میں ایک عام سی سوچ رکھنے والی عورت ہوں، لیکن جب یہ سب کچھ دیکھتی ہوں تو مجھے بھی حیرت ہوتی ہے کہ ہم لوگ تعصب کی ایک ایسی آگ میں چل رہے ہیں جس کا انجام بہرحال بھیانک ہی ہوگا۔ یہان پر تبصرہ کرنے والے یقیننا کسی نہ کسی جماعت کے لئے نرم گوشہ ضرور رکھتے ہیں۔ اس سے غرض نہیں کہ کون کیا ہے مگر حقائق کو مسخ کرکے جس طرح تبصرے کئے جاتے ہیں وہ واقعی حیرت انگیز ہیں۔
میری ہمدردی ایم کیو ایم کے ساتھ تو ہرگز ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ میرا فیملی بیک گراؤنڈ بہرحال سیاست سے نہیں ہے۔ اور جہاں میں رہتی ہوں وہاں "امن کی فاختہ" راج کرتی ہے تو مجھے تو ابھی فائرنگ ، ڈاکہ زنی، چوری وغیرہ سے واسطہ پڑا ہی نہیں ہے
لیکن اگر صاف اور سچی بات کی جائے تو ایم کیو ایم پر الزام واقعی کافی حد مبالغہ آمیز ہوا کرتے ہیں۔
دیکھئے !
صوبہ سرحد کی بات کرتے ہیں۔ وہاں آج کیا ہورہا ہے ؟ کیا دنیا کی تاریخ کے بد ترین جرائم کا وہاں ارتکاب نہیں ہو رہا ہے۔ اور اگر ہو رہا ہے تو کیا وہاں کے مقامی لوگ شامل نہیں ہیں ؟ اور اگر ہیں تو ان سے بڑا اس ملک کی تاریخ کا مجرم کون ہے ؟ سب کو پتہ ہے کہ قبائلی علاقے کے لوگوں کا ذریعہ معاش کیا ہے، ہیروئن اور اسلحہ کی اسمگلنگ کے سوا دوسرا کوئی راستہ نہیں ہے۔ اگر کسی کے پاس آمدنی سے متعلق گوشوارے اور تحقیقی مواد ہے تو ضرور شیئر کرے ۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کی اسٹوڈنٹ نے 1988 میں ضیاءالحق کے طیارے کے حادثے کے بعد پاکستانی صوبوں سے متعلق ایک رپورٹ مرتب کی تھی۔ اور انتہائی باریک بینی سے اس میں جائزہ لیا تھا۔
"صوبہ سرحد ملک کے دوسرے صوبوں کی نسبت کم ترین آمدنی والا صوبہ ہے۔ مقام حیرت ہے کہ وہاں کے لوگ تمام ملک میں پھیلے ہوئے ہیں اور ملک کی ٹرانسپورٹکا مکمل نظام یا نوے فیصد نظام انہی کے ہاتھوں میں ہے۔ یہ لوگ بے انتہا دولت مند ہیں اور انکا ذریعہ معاش زیادہ تر اسلحہ کی غیر قانونی صنعت اور منشیات کی اسمگلنگ (بالواسطہ یا بلا واسطہ) پر مبنی ہے۔ مجھے یہ کہنے میں کوئی دقت و عار محسوس نہیں ہوتا ہے کہ ہم یورپ کے بسنے والے اور امریکہ کی چند اہم سرکاری تنظیمیں ان لوگوں کو سپورٹ کرتی ہیں۔ کیونکہ شاید مستقبل میں یہی لوگ پاکستان میں "گیٹ وے ٹو پاکستان" فراہم کریں۔ اس امید پر ہم لوگ یہ نہیں سوچتے کہ جب تک ہمیں "گیٹ وے" ملے گا ہماری ایک نسل منشیات کی عادی ہو چکی ہوگی۔ مجھے اس پالیسی سے شدید اختلاف ہے کہ جنرل ضیاالحق کو اتنے زیادہ اختیارات دیئے گئے اور انتہائی غلط طریقے سے ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا۔ اب شاید ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے ہم ایک خواب کے پیچھے بھاگ رہے ہیں"
یہ رپورٹ کافی طویل تھی۔ اس میں ہمارے ملک کے بڑے بڑے شعبدے بازوں کا تذکرہ تھا۔ فوری رد عمل کے طور اس رپورٹ کو منظر سے ہٹھا دیا گیا مگر کسی طرح یہ رپورٹ ایک ایرانی طالبعلم کے ہاتھ لگ گئی تو اس کے کچھ پہلو منظر پر آگئے اور یہ رپورٹ اس کے پذیرائی حاصل نہ کرسکی کیونکہ بہرحال یہ ایک تحقیق سے متعلق طالبعلم کی رپورٹ تھی۔
تو جناب اگر ہم ایم کیو ایم کو دہشت گردی میں ملوث قرار پاتے ہیں تو پھر یہ بھی سوچئے کہ اسلحہ چلنے سے پہلے کہیں نہ کہیں تو دستیاب ہوتا ہی ہوگا۔ جب ایک صوبہ آزادانہ اسلحہ بنا بھی رہا ہو، اور اس کی ترسیل کے لئے اس کے پاس اپنی ٹرانسپورٹ بھی ہو تو ؟
دیکھئے ! اگر ملک دشمنی کی بات آتی ہے تو ہم کسی ایک تنظیم کو مورد الزام نہیں ٹہرا سکتے ہیں۔ اس میں سب برابر کے شریک ہیں۔ غفار خان، ولی خان تو وہ لوگ ہیں جن کو بخار کی گولی بھی ہندوستان سے آتی ہیں یہ لوگ علاج کے لئے انڈیا جایا کرتے تھے۔ تو اصل ملک دشمن آپ کس کو گردانیں گے ؟
ابھی بلوچستان کے لیڈران باہر بیٹھ کر پاکستان توڑنے سے متعلق جو کھلے عام بیانات دے رہے ہیں اس پر کسی نے بھی اتنا بڑا اشو نہیں بنایا وہ تو کھلے عام یہ کہہ رہے ہیں کہ "وہ بلوچ ہی نہیں جس نے ایک فوجی نہ مارا"۔ ۔ تو کسی میں اتنی اخلاقی جرات نہیں ہے کہ وہ بڑھ کے اتنا لکھ سکے کہ بلوچ غدار ہیں۔ ان کو انڈیا سپورٹ کر رہا ہے ؟
اگر ایک بات الظاف حسین نے غلط کہی ہے تو پوری اردو اسپیکنگ طبقے کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس پر مجھے حیرت ہوتی ہے۔ دوسروں کی بات تو چھوڑیئے میرے اپنے شوہر میری ان باتوں کو سن کر کہتے ہیں کہ تمہاری عقل ابھی اتنی نہیں ہے اتنے بڑے معاملات کو سوچو۔ لیکن میں ان زمینی حقائق کا کیا کروں جو میرے سامنے بچپن سے آج تک ہیں۔
جنرل ایوب خان سے جنرل مشرف تک فوج نے ملک کو جتنا نقصان پہنچایا اس کی نظیر نہیں ملتی جہاں کوئی جمہوری پنپنے لگتی ہے کوئی نہ کوئی جرنیل منظر سے ہٹا دییتا ہے۔ تو اصل ملک دشمن تو یہ جنریل ہوئے اور جنریل بہرحال فوجی ہی ہیں ان کو کوئی ملک دشمن نہیں کہتا ہے ؟ کیوں ؟
سوالات تو بہت ہیں مگر سننے اور اس پر قوم کے فلاح کے حوالے سے بحث کرنے کا حوصلہ مجھ سمیت ہم میں نہیں ہے۔ کاش ہم اب بھی اپنے ملک کی بہتری کے لئے بہترین انداز میں سوچ سکیں
اللہ پاک ہمارے ملک کو ہمیشہ سلامت رکھے آمین
ثمینہ معیز صاحبہ کی خدمت میں:
آپ کے مراسلے پڑھنے کو ملے تو ایک خوشگوار حیرانی ہوئی کہ اس محفل میں ایک ایسی نئی سوچ اور انداز فکر پڑھنے کو مل رہا ہے جس کی آنکھوں پر تعصب کی پٹیاں نہیں بندھی ہوئی ہیں۔ میں تو بہت خوش تھا کہ مہوش علی کی موجودگی سے جو عدم توازن تھا آپ کی موجودگی سے ختم ہو جائے گا، مگر آج مجھے آپ کے افکار پڑھ کر حیرانی ہوئی۔ ہمیں تو یہ طعنہ دیا جاتا ہے کہ ہم لوگ کراچی سے دور بیٹھے کراچی اور اہل کراچی کے بارے میں لاف زنی کرتے ہیں ، اور یہ کہ ہم سب ہی ایک لگے بندھے منصوبے کے تحت اہل کراچی سے بالعموم اور ایم کیو ایم سے بالخصوص نفرت کرتے ہیں، اور یہ بھی کہ ہم نے دوسروں پر کبھی تنقید نہیں کی جیسے کہ ہم ایم کیو ایم پر کرتے ہیں، جیسے کہ ظفری کے بعض مراسلوں سے لگا، مگر آج آپ کے مراسلے سے لگا کہ خیر، ہم نہیں اور لوگ بھی ہیں جو کچھ سٹیریو ٹائپس کے تحت سوچتے ہیں۔
صوبہ سرحد کے لوگوں کے بارے میں سٹیریوٹائپس جو بنے ہیں ان میں سے کچھ کا ذکر آپ نے کیا، مثلا منشیات کا حوالہ دیا، صوبہ کی کم آمدنی کا حوالہ دیا ، میرا خیل ہے اس سے آپ ہر فرد کی آمدنی یعنی پر کیپیٹل انکم کا ذکر کر رہی ہوں گی اور پھر آپ نے خصوصی طور پر ٹرانسپورٹ کا حوالہ دیا۔
میری قارئین سے درخوست ہے کہ نشان زد جملوں کو غور سے پڑھیں، حال آنکہ یہ جملے مبینہ طور پر ایک رپورٹ کا اقتباس ہیں، مگر جس انداز سے ان جملوں کا متن پیش کیا گیا ہے کیا اس سے نیک نیتی جھلکتی ہے؟
ان جملوں سے لگتا ہے کہ صوبے کے لوگ باقاعدہ طور پر ایک منصوبے کے تحت پورے ملک میں پھیلے ہوئے ہیں، یعنی ان کا کو ئی غلط مقصد ہے۔ کیا پاکستان کے شہری ہونے کے ناتے سے یہ لوگ کہیں نہیں جا سکتے؟ اور اگر چلے بھی گئے ہیں تو اس میں حیران ہونے کی کیا بات ہے؟
میں آپ کو بتاتا ہوں یہ لوگ پورے ملک میں کیا کرتے ہیں:
پورے ملک میں جب آپ کو تعمیراتی کام کے لئے دیہاڑی پر مزدوروں کی ضرورت پڑے گی تو یہ لوگ اکثریت میں دستیاب ہوں گے۔
گلی محلوں ، گھروں کی چوکیداری کے فرائض میں ان کو ترجیح دی جاتی ہے۔
گلی کے نکڑ پر بیٹھے ہوئے موچی سے اپ پوچھیں کہاں کا رہنے والا ہے، تو اس کا تعلق صوبہ سرحد یا قبائلی علاقے سے نکلے گا۔
بہت کم آپ کو ایسے ملیں گے جو کوئی " اچھی" نوکری یا کام کرتے ہوں گے۔
ٹرانسپورٹ کا کام بھی محنت والا کام ہے، جو اس کام سے متعلق ہیں ان سے پوچھئے کتنی خواری ہوتی ہے اس کام میں۔
یہی پٹھان جب بیرون ملک جاتے ہیں تو ٹرانسپورٹ کا کام اس لئے سنبھالتے ہیں کہ یہ لوگ اور کوئی کام کر نہیں سکتے، خلیجی ممالک میں ڈرائیوروں کی اکثریت کا تعلق صوبہ سرحد سے ہے، کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ یہ لوگ ایک سازش کے تحت وہاں یہ کام سنبھالے ہوئے ہیں، اور کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ کہ انھوں نے منظم طور پر کسی اور کو یہ کام سنبھالنے کی اجازت نہیں دی ہے؟ اور میں سمجھتا ہوں اس کی بنیادی وجہ ان کا کلچر ہے جس میں تعلیم پر شائد اب تک اتنا زور نہیں دیا گیا۔
میں مانتا ہوں کہ منشیات کی پیداوار صوبہ سرحد میں ہوتی ہے، مگر اس کے بڑے سمگلر کہاں بیٹھے ہوئے ہیں؟ بڑے شہروں میں۔
رہ گئی اسلحہ کی بات تو شائد آپ کبھی صوبہ سرحد نہیں آئیں۔ یہاں کے کلچر میں انفرادیت پر بہت زور دیا جتا ہے، یہ انفرادیت غیرت یا پختونولی کے نام سے ہر پہلو میں ظاہر ہوتی ہے، اور اس کے دفاع کے لئے کبھی متشدد ہونا پڑتا ہے، بالکل اسی طرح جس طریقے کی وکالت ایک محترم ممبر نے کی ہے۔ اور اس کے لئے اسلحہ ضروری ہے۔
ثمینہ صاحبہ آپ کی تحریر کا یہ حصہ کہتا ہے :
یہ لوگ بے انتہا دولت مند ہیں اور انکا ذریعہ معاش زیادہ تر اسلحہ کی غیر قانونی صنعت اور منشیات کی اسمگلنگ (بالواسطہ یا بلا واسطہ) پر مبنی ہے۔
میں آپ کو صوبہ سرحد آنے کی دعوت دیتا ہوں ، تاکہ آپ خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں کہ صوبے کی گلیوں میں ان لوگوں کی امارت کتنی چھلک رہی ہے، یہ لوگ اپنی بے پناہ دولت سنبھالنے میں اتنے مصروف رہتے ہیں کہ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلا سکتے، یہ لوگ اتنے مصروف رہتے ہیں اپنے اکاؤنٹس کا حساب رکھنے میں کہ کھانے کا وقت جب آتا ہے تو اکثریت روٹی کے ساتھ پیاز کھاتی ہے، بڑے گھرانے سالن میں پانی ملا کر اہل خانہ کی ضروریات پوری کرتے ہیں، تاکہ اپنی دولت محفوظ رکھ سکیں اور دوسرے صوبوں کے رہنے والوں پر اپنی بے پناہ امارت کا رعب ڈال سکیں۔
میں آپ کو ایسے کنجوس لوگ بھی دکھاؤں گا جو کھانے کے وقت گھاس تو کھا لیں گے مگر یہ پیسہ خرچ نہیں کریں گے۔ شائد آپ کے خیال میں صوبے کے ہر دوسرے گھرانے میں منشیات اور اسلحے کا غیر قانونی کام ہو رہا ہے۔
مجھے امید ہے میری یہ وضاحت آپ کی طبیعت پر گراں نہیں گزری ہوگی۔