14 اگست یوم آزادی پاکستان

فرحت کیانی

لائبریرین
ایک موضوع میری طرف سے، لیکن اس سے پہلے ایک استدعا تمام پاکستانیوں سے بالعموم اور پاکستان سے باہر رہنے والے پاکستانیوں سے 'بالخصوص' کہ نیچے دیئے گئے موضوع پر 'زیادہ' جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں۔

موضوع ہے کہ "پاکستان نے ہم کو کیا دیا؟"

اس کے ساتھ یہ موضوع بھی رکھ لیں " ہم نے پاکستان کے لیے کیا کیا؟"

جی مغل صاحب اس بارے میں آپ کیا کہتے ہیں؟

کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایسے ہی موضوع تجویز کر کے علیحدہ تھریڈ پر پوسٹس کی جائیں؟
 

ڈاکٹر عباس

محفلین
میرے خیال میں کوئی بات کرتے وقت حکمران ،حکومت اور مملکت کا فرق سامنے رکھا جائے۔
یہ سارے فساد اور مسائل حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں، اس میں مملکت خدا داد کا کوئی دوش نہیں۔
 

مغزل

محفلین
بجا فرمایا جناب ۔۔۔
لیکن ایک وضاحت کہ ۔۔ جب ہم گفتگو میں ۔۔
ملک کا لفظ استعمال کرتے ہیں
تو مراد حکومت ہی ہوتی ہے۔۔۔
 

مغزل

محفلین
ملک سے مراد حکومت ہوتی ہے؟ یہ تو بہت عجیب بات ہے۔
جناب بالکل ایسا ہی ہے۔۔ معاملہ زبان کا ہے ۔۔
ایک صنف صفت ہے ’’ مجازِ مرسل‘‘ یہ جملہ اسی ذیل میں ہے۔
کسی کی انگلی کٹ جائے تو ہم عموماً کہتے ہیں فلاں کا ہاتھ کٹ گیا۔
بہر مجھے وضاحت پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔۔ کہ آپ ماشا اللہ خود بلیغ نظر کے حامل ہیں
شمشاد صاحب امید ہے ۔۔ وضاحت ہوچلی ہوگی۔
 

محمداحمد

لائبریرین
دراصل ساری بات تعلق کی ہوتی ہے۔ اور اگر تعلق محبت کا ہو اور محبت بھی سچی ہو تو انسان کبھی بھی demanding نہیں رہتا۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریت پاکستان سے تو بہت کچھ چاہتی ہے لیکن پاکستان کے لئے کچھ نہیں چاہتی! اوریہی اکثریت حکومت بھی بناتی رہی ہے۔ پھر جو لوگ مخلص ہیں بھی وہ بھی مثبت افکار کے ابلاغ کے بجائے یاسیت اور مایوسی کا پرچار ہی کرتے ہیں اور اُنہیں اس چیز کا ادراک بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔
 
14 اگست 1947 ریاست عالیہ پاکستان جن فیصلہ کن الفاظ کے باعث وجود میں آئی، ان کو ساتھیوں سے شئیر کرتا ہوں، یہ وہ خواب تھا جو 23 مارچ 1940 کو قوم کے سامنے رکھا گیا اور 14 اگست 1947 کو شرمندہء تعبیر ہوا۔ 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (‌معمولی سی ترمیم کے ساتھ)

ہم ایک قوم ہیں !
ہم ایک قوم ہیں !
اپنے نمایاں کلچر اور سویلائزیشن کے باعث - ہم ایک قوم ہیں !
اپنی لینگویج اور لٹریچر کے باعث اور اپنے آرٹ اور آرکیٹیکچر کے باعث۔۔۔۔ ہم ایک قوم ہیں!
ہمارا اپنا آرٹ اور آرکیٹیکچر، اپنا نام اور اپنا نامن کلیچر، اپنی قدروں کا احساس اور تناسب، ہمارے قوانین اور ہماری اخلاقی قدریں ، ہمارے رواج اور ہمارے کیلنڈر، ہماری تاریخ اور ہمارا سماج، گواہ ہیں ۔۔۔۔ کہ
ہم ایک قوم ہیں !

ہمارے حوصلے اور ہماری امنگیں، ہم اور ہماری تاریخ، اور تاریخ‌میں ہمارا مقام، پھر ہمارا اپنا امتیازی اور نمایاں طریقہ --- زندگی کے بارے میں اور زندگی گزارنے کے بارے میں ، اس بات کے گواہ ہیں کہ ۔۔۔
ہم ایک قوم ہیں۔

بین الاقوامی قوانین کے ہر اصول کے مطابق۔۔۔۔ ہم ایک قوم ہیں۔

یہ وہ الفاظ‌ ہیں جن کو پڑھ کر بہت کم اندازہ ہوتا ہے کہ ان الفاظ میں کیا طاقت ہے؟ آپ یہ الفاظ ایک چھوٹے سے گروپ کو ذرا بلند الفاظ میں پڑھ کر سنائیے یا آئینہ کے سامنے دہرائیے، ان کی قوت کا اندازا آپ کو ہو جائیگا۔

یہ ایک ایسا مقصد تھا جو بابائے قوم نے قوم کو دیا اور قوم نے پاکستان کو ایک نظریہ سے حقیقت کا روپ دیا۔

اس مقصد کے پورے ہوجانے کے بعد آج ‌ہماری قوم کے پاس کوئی مقصد نہیں، کوئی گول نہیں، کہاں‌ پہنچنا ہے ، معلوم نہیں۔ نہ کوئی خواب دکھانے والا ہے اور نہ ہی دیکھنے والا، جب خواب ہی نہیں‌تو شرمندہ ء تعبیر کس خواب کو کریں؟
 

فرحت کیانی

لائبریرین
میرے خیال میں کوئی بات کرتے وقت حکمران ،حکومت اور مملکت کا فرق سامنے رکھا جائے۔
یہ سارے فساد اور مسائل حکومتوں کے پیدا کردہ ہیں، اس میں مملکت خدا داد کا کوئی دوش نہیں۔

دراصل ساری بات تعلق کی ہوتی ہے۔ اور اگر تعلق محبت کا ہو اور محبت بھی سچی ہو تو انسان کبھی بھی demanding نہیں رہتا۔ پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ پاکستان کی اکثریت پاکستان سے تو بہت کچھ چاہتی ہے لیکن پاکستان کے لئے کچھ نہیں چاہتی! اوریہی اکثریت حکومت بھی بناتی رہی ہے۔ پھر جو لوگ مخلص ہیں بھی وہ بھی مثبت افکار کے ابلاغ کے بجائے یاسیت اور مایوسی کا پرچار ہی کرتے ہیں اور اُنہیں اس چیز کا ادراک بھی نہیں ہو پاتا کہ وہ نہ چاہتے ہوئے بھی پاکستان کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا رہے ہیں۔


متفق علیہ :)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
14 اگست 1947 ریاست عالیہ پاکستان جن فیصلہ کن الفاظ کے باعث وجود میں آئی، ان کو ساتھیوں سے شئیر کرتا ہوں، یہ وہ خواب تھا جو 23 مارچ 1940 کو قوم کے سامنے رکھا گیا اور 14 اگست 1947 کو شرمندہء تعبیر ہوا۔ 23 مارچ 1940 کو قائد اعظم محمد علی جناح نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا: (‌معمولی سی ترمیم کے ساتھ)

ہم ایک قوم ہیں !
ہم ایک قوم ہیں !
اپنے نمایاں کلچر اور سویلائزیشن کے باعث - ہم ایک قوم ہیں !
اپنی لینگویج اور لٹریچر کے باعث اور اپنے آرٹ اور آرکیٹیکچر کے باعث۔۔۔۔ ہم ایک قوم ہیں!
ہمارا اپنا آرٹ اور آرکیٹیکچر، اپنا نام اور اپنا نامن کلیچر، اپنی قدروں کا احساس اور تناسب، ہمارے قوانین اور ہماری اخلاقی قدریں ، ہمارے رواج اور ہمارے کیلنڈر، ہماری تاریخ اور ہمارا سماج، گواہ ہیں ۔۔۔۔ کہ
ہم ایک قوم ہیں !

ہمارے حوصلے اور ہماری امنگیں، ہم اور ہماری تاریخ، اور تاریخ‌میں ہمارا مقام، پھر ہمارا اپنا امتیازی اور نمایاں طریقہ --- زندگی کے بارے میں اور زندگی گزارنے کے بارے میں ، اس بات کے گواہ ہیں کہ ۔۔۔
ہم ایک قوم ہیں۔

بین الاقوامی قوانین کے ہر اصول کے مطابق۔۔۔۔ ہم ایک قوم ہیں۔

یہ وہ الفاظ‌ ہیں جن کو پڑھ کر بہت کم اندازہ ہوتا ہے کہ ان الفاظ میں کیا طاقت ہے؟ آپ یہ الفاظ ایک چھوٹے سے گروپ کو ذرا بلند الفاظ میں پڑھ کر سنائیے یا آئینہ کے سامنے دہرائیے، ان کی قوت کا اندازا آپ کو ہو جائیگا۔

یہ ایک ایسا مقصد تھا جو بابائے قوم نے قوم کو دیا اور قوم نے پاکستان کو ایک نظریہ سے حقیقت کا روپ دیا۔

اس مقصد کے پورے ہوجانے کے بعد آج ‌ہماری قوم کے پاس کوئی مقصد نہیں، کوئی گول نہیں، کہاں‌ پہنچنا ہے ، معلوم نہیں۔ نہ کوئی خواب دکھانے والا ہے اور نہ ہی دیکھنے والا، جب خواب ہی نہیں‌تو شرمندہ ء تعبیر کس خواب کو کریں؟


کیا نظریاتی بنیاد پر جدوجہد کرنے والی قوموں کا مقصد 'حصولِ آزادی' پر آ کر منتج ہو جاتا ہے؟ آزادی تو ایک سنگِ میل کا نام ہے۔ ہم اس کو سفر کا اختتام قرار دے سکتے ہیں؟
ہم تو ابھی قوم کی اس تعریف پر ہی پورے نہیں اترے جو اوپر لکھے گئے قائدِ اعظم کے بیان میں دی گئی ہے۔ پاکستانی قوم خواب بھی دیکھتی ہے اور ان کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کے لیے جدوجہد کرنے کو بھی تیار ہے۔ یہ خواب اور امیدیں ہی ہیں جو اس قوم کو بارہا آزمائے ہوئے مفادپرست سیاست دانوں کے جھوٹے وعدوں پر یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ اور یہی خواب ہیں جو پچھلے ڈیڑھ سال سے وکلاء تحریک کو دوام بخشے ہوئے ہیں۔
ہمارا مسئلہ ہمارے پاس مخلص قیادت کا نہ ہونا ہے۔ یہاں بڑی حد تک قصوروار خود ہم یعنی پاکستانی عوام ہیں کہ جو ابھی تک ابن الوقت اور مخلص رہنماؤں میں فرق کرنے کے قابل نہیں ہو سکے۔
 

شمشاد

لائبریرین
عزیز ساتھیو
السلام علیکم

یوم آزادی پاکستان کے اس مبارک اور پرمسرت موقع پر آپ سب پاکستانی اراکین کو میری جانب سے دلی مبارک باد قبول ہو۔ یوم آزادی پاکستان ہر پاکستانی مرد اور عورت، نوجوان اور بچے کے لئے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اللہ تبارک و تعالٰی نے ہمیں اس روز ایک وطن جس کا نام پاکستان ہے، عطا فرمایا۔ آج ہم پاکستان کا 61واں یوم آزادی منا رہے ہیں۔ ایک آزاد اور ترقی کرتے ہوئے پاکستان کا تعلق اس عظیم ہستی، لیڈر اور قائد محمد علی جناح سے وابستہ ہے جس نے اس کے حصول اور آزادی کی خاطر ایک طویل اور کٹھن سفر طے کیا۔ اس عظیم قائد نے قوم کی سیاسی زندگی کو جدید افکار سے ہم آہنگ کیا۔ معاشرے میں اپنا لوہا منوایا اور ایک عظیم لیڈر کی حیثیت سے قوم کو غلامی سے نجات دلائی اور مملکت خدا داد پاکستان کا وجود دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ عظیم قائد کا عظیم ویژن اور قومی آہنگی ملک و قوم کی تعمیر میں امن، آزادی اور ترقی کا پیغام بن کر ابھرا جو پاکستان کی تخلیق کی بنیاد بنا۔ زمانے کے نشیب و فراز کے باوجود پاکستان قائد اعظم کے ویژن اور جمہوری خیالات کا سفر کرتا رہا جس کی وجہ سے پاکستان ایک مضبوط قومی شناخت بن گیا۔

ایک پاکستانی کی حیثیت سے ہمارے لئے لازم ہے کہ ہم ان کوششوں اور قربانیوں کو نہ بھولیں جو بے شمار افراد نے اس وطن کی آزادی کے لئے پیش کیں اور جن کی وجہ سے یہ ملک وجود میں آیا۔ اس سے بڑھ کر ہمیں اس مقصد کو سامنے رکھنا ہو گا جس کی بنیاد ایمان، اتحاد اور تنظیم ہے اور یہی تین اصول پاکستان کی اساس بھی ہیں۔ یاد رکھیں ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی اقدار کو زندہ رکھیں اور اپنے بعد آنے والی نسلوں کو منتقل کریں تا کہ ہم آپس میں متحد رہتے اور ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے ان مقاصد کو حاصل کر سکیں۔ اللہ سے پوری امید ہے کہ ہمارا وہ خواب پورا ہو گا جسے علامہ اقبال رحمۃ اللہ نے دیکھا اور جسے پورا کرنے کی سعی و جد و جہد قائد اعظم رحمۃ اللہ نے کی اور جس پر ہم گامزن ہیں اور وہ دن دور نہیں بلکہ قریب ہیں۔
 
امریکہ میں پاکستان کے یوم آزادی کے موقع پر 15 اگست 2008 کو ایک مشاعرہ پاکستان سینٹر ہیوسٹن میں پاکستان ایسوسی ایشن آف گریٹر ہیوسٹن کے زیر اہتمام ‌منعقد ہوا جس کے مہمان خصوصی جناب حمایت علی شاعر تھے۔ مجھے کی نوٹ سپیکر کے طور پر بولنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ میں نے قائد اعظم صاحب کے مندرجہ بالاء‌ الفاظ لوگوں تک پہنچائے اور مشاعرے کے شعراء سے گذارش کی وہ اپنے کلام کے معجزوں اور کرشموں سے ایسی بات لکھیں کہ پاکستان پھر سے ایک قوم بن جائے۔

میری تقریر آپ یہاں ملاحظہ فرما سکتے ہیں:
http://www.pakusmedia.com/
Community Event 2008 پر کلک کریں
15 AUG YOUNG TARANG MEHFIL MUSHARA (PAGH) Website : www.youngtrang.com . پر کلک کریں

یا پھر آپ یہاں‌بھی دیکھ سکتے ہیں
http://video.google.com/videosearch?q=3085899397800363019&emb=0#

اس صفحے پر آپ کو 3 ویڈیو نطر آئیں گے، ان میں تیسرا ویڈیو میں 2:00 منٹ سے آگے آپ میری تقریر دیکھ سکتے ہیں۔ میں مکمل سر منڈا کر رکھتا ہوں :) تاکہ پہچان میں آسانی رہے۔ :)

والسلام
 
Top